تفسیر سورہ ھود - فہم القرآن

ابوعکاشہ نے 'ماہِ رمضان المبارک' میں ‏اپریل 16, 2023 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. ابوعکاشہ

    ابوعکاشہ منتظم

    رکن انتظامیہ

    شمولیت:
    ‏اگست 2, 2007
    پیغامات:
    15,955
    تفسیر سورہ ھود - فہم القرآن

    سورت کے نام:
    ھود۔

    وجہ تسمیہ:
    اللہ کے نبی ھود علیہ السلام کا ذکر اس سورت کے اندر پانچ بار آیا ہے، اور آپ کے تعلق سے سب سے طویل واقعہ اور تفصیل اسی سورت میں وادر ہوا ہے۔

    اس سورت کی فضیلت:
    عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَدْ شِبْتَ، قَالَ: " شَيَّبَتْنِي هُودٌ، وَالْوَاقِعَةُ، وَالْمُرْسَلَاتُ، وَعَمَّ يَتَسَاءَلُونَ، وَإِذَا الشَّمْسُ كُوِّرَتْ ".
    ترجمہ: سیدنا عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ ابوبکر رضی الله عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: آپ تو بوڑھے ہو چلے؟ آپ نے فرمایا: ”مجھے «هود»، «الواقعة»، «المرسلات»، «عم يتساءلون» اور سورۃ «إذا الشمس کوّرت» نے بوڑھا کر دیا ہے۔ (کیونکہ ان میں قیامت کی خبریں اور عذاب کی آیتیں ہیں)۔ (سنن ترمذی: ۳۲۹۷)۔


    سورت کے آغاز و اختتام میں مطابقت:
    - سورت کا آغاز اللہ وحدہ لا شریک کی عبادت کے حکم سے ہوا ہے، ارشاد باری تعالی ہے
    أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا اللَّهَ إِنَّنِي لَكُمْ مِنْهُ نَذِيرٌ وَبَشِيرٌ) ترجمہ: یہ کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت مت کرو میں تم کو اللہ کی طرف سے ڈرانے واﻻ اور بشارت دینے واﻻ ہوں۔ (ھود: ۲)۔
    - اور اس سورت کا اختتام بھی عبادت کے حکم پر ہوا ہے، ارشاد باری تعالی ہے: (وَلِلَّهِ غَيْبُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَإِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ فَاعْبُدْهُ وَتَوَكَّلْ عَلَيْهِ وَمَا رَبُّكَ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ) ترجمہ: زمینوں اور آسمانوں کا علم غیب اللہ تعالیٰ ہی کو ہے، تمام معاملات کا رجوع بھی اسی کی جانب ہے، پس تجھے اسی کی عبادت کرنی چاہئے اور اسی پر بھروسہ رکھنا چاہئے اور تم جو کچھ کرتے ہو اس سے اللہ تعالیٰ بے خبر نہیں۔ (ھود: ۱۲۳)۔
    - اور اسکے اندر تخلیق انسان کی حکمت ہے اور وہ عبادت الہی ہے۔

    سورت کا مرکزی نکتہ:
    عبادت میں توازن۔

    سورت کے موضوعات:
    ۱- عقیدہ توحید کو مرور تاریخ کے ساتھ پیش کردیا گیا ہے سیدنا نوح علیہ السلام کے زمانے سے لیکر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے تک، تاکہ یہ ثابت کیا جائے کہ سارے انبیاء ایک ہی حقیقت کو لیکر آئے ہیں اور وہ ہے کلمہ لا الہ الا اللہ یعنی صرف ایک برحق معبود کی عبادت کرنا۔
    ۲- رسولوں کے موقف کو بیان کیا گیا ہے اور یہ کہ ان تمام رسولوں نے کیسے اپنی اپنی قوم کی طرف سے اعراض، تکذیب، مذاق، تکلیف اور دھمکیوں کا یقین، صبر اور ثابت قدمی کے ساتھ سامنا کیا۔
    ۳-سابقہ اقوام کے قصے بیان کرکے اور ہر قصے کی تفصیل پیش کرکے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت اور آپ کی دعوت کی صداقت کو ثابت کرنا۔
    ۴- مشکل چیلنجوں اور سنگین حالات کا سامنا کرتے وقت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی امت کو ربانی وصیت کی گئی ہے کہ ایسے موقع پر کیا موقف اختیار کیا جائے:
    - استقامت اور ثابت قدمی: ارشاد باری تعالی ہے
    فَاسْتَقِمْ كَمَا أُمِرْتَ وَمَنْ تَابَ مَعَكَ وَلَا تَطْغَوْا إِنَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ) ترجمہ: پس آپ جمے رہیئے جیسا کہ آپ کو حکم دیا گیا ہے اور وه لوگ بھی جو آپ کے ساتھ توبہ کر چکے ہیں، خبردار تم حد سے نہ بڑھنا، اللہ تمہارے تمام اعمال کا دیکھنے واﻻ ہے۔ (ھود: ۱۱۲)۔
    - سرکشی اور ظلم سے دور رہنا، جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے
    وَلَا تَطْغَوْا إِنَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ) ترجمہ: خبردار تم حد سے نہ بڑھنا، اللہ تمہارے تمام اعمال کا دیکھنے واﻻ ہے۔ (ھود: ۱۱۲)۔
    - ظالموں کی پناہ میں نہ جانا، جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے
    وَلَا تَرْكَنُوا إِلَى الَّذِينَ ظَلَمُوا فَتَمَسَّكُمُ النَّارُ وَمَا لَكُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ مِنْ أَوْلِيَاءَ ثُمَّ لَا تُنْصَرُونَ) ترجمہ: دیکھو ﻇالموں کی طرف ہرگز نہ جھکنا ورنہ تمہیں بھی (دوزخ کی) آگ لگ جائے گی اور اللہ کے سوا اور تمہارا مددگار نہ کھڑا ہو سکے گا اور نہ تم مدد دیئے جاؤ گے۔ (ھود: ۱۱۳)۔
    - اقامت صلاۃ کی پابندی کرنا، جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے
    وَأَقِمِ الصَّلَاةَ طَرَفَيِ النَّهَارِ وَزُلَفًا مِنَ اللَّيْلِ إِنَّ الْحَسَنَاتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّئَاتِ ذَلِكَ ذِكْرَى لِلذَّاكِرِينَ) ترجمہ: دن کے دونوں سروں میں نماز برپا رکھ اور رات کی کئی ساعتوں میں بھی، یقیناً نیکیاں برائیوں کو دور کر دیتی ہیں۔ یہ نصیحت ہے نصیحت پکڑنے والوں کے لئے۔ (ھود: ۱۱۴)۔
    - صبر کرنا، جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے
    وَاصْبِرْ فَإِنَّ اللَّهَ لَا يُضِيعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِينَ) ترجمہ: آپ صبر کرتے رہئے یقیناً اللہ تعالیٰ نیکی کرنے والوں کا اجر ضائع نہیں کرتا۔ (ھود: ۱۱۵)۔

    فوائد اور اہم نکات:
    ۱- استقامت: اس سے نا امیدی کا مسئلہ حل ہوتا ہے اور بندے کے اندر اللہ کے ساتھ حسن ظن پیدا ہوتا ہے، ساتھ ہی اگر اصلاحی سوچ میں توقف آگیا ہے تو اسے بھی یہ حل کردیتا ہے۔
    ۲- حد سے تجاوز نہ کرنا: بے محل زیادتی اور ظلم کرنے کے مسئلے کو حل کرتا ہے۔
    ۳- پناہ نہ لینا: یعنی دشمن کے سامنے نہ جھکنا، اور نہ ہی اسکی تقلید کرنا اور نہ ہی اسکے کلچر کے سامنے مبہوت ہونا تاکہ ایسا نہ ہو کہ مسلمان کی شناخت ختم ہوجائے۔
    ۴- توازن کا معاملہ چونکہ انسانی نفوس پر دشوار ہے اسی لئے اللہ تعالی نے آیت کے اندر نیک صحبت کی طرف اشارہ کیا ہے اور یہ کہ مومن اپنے بھائیوں کے ساتھ مضبوط ہوتا ہے: (آیت نمبر ۱۱۲)۔
    ۵- حسن بصری کہتے ہیں: پاک ہے وہ ذات جس نے اعتدال دین کو دو منہی امور کے درمیان رکھا ہے: ایک (حد سے تجاوز نہ کرو)، دوسرا (ظالموں کی طرف مائل نہ ہو)۔ (زھرۃ التفاسیر)۔
    ۶- ارشاد باری تعالی ہے
    قَالَ يَا نُوحُ إِنَّهُ لَيْسَ مِنْ أَهْلِكَ إِنَّهُ عَمَلٌ غَيْرُ صَالِحٍ) ترجمہ: اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے نوح یقیناً وه تیرے گھرانے سے نہیں ہے، اس کے کام بالکل ہی ناشائستہ ہیں۔ (ھود: ۴۶)۔
    - یعنی ان گھرانوں میں سے نہیں ہے جن کی نجات کا وعدہ اللہ نے کیا تھا۔
    یا یہ کہ وہ تمہارے دین والوں میں سے نہیں ہے۔
    - اس کے کام بالکل ہی ناشائستہ ہیں: اس میں کئی معانی کا احتمال ہے:
    ۱- اولاد کو عمل بھی کہا جاتا ہے جس طرح اسے کمائی کہا جاتا ہے، حدیث کے اندر وارد ہوا ہے کہ اولاد تمہاری کمائی ہے۔
    یعنی یہ لڑکا تمہاری اچھی کمائی نہیں ہے۔
    ۲- (إنه) میں ضمیر کا مرجع سوال کی طرف لوٹتا ہے، یعنی اے نوح ! یہ سوال ناشائستہ ہے، کیونکہ آپ کو پتہ ہے کہ آپ کے ساتھ صرف مومن بندے ہی نجات پائیں گے۔
    ۳- یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ضمیر کا مرجع خود نوح علیہ السلام کے بیٹے کی طرف لوٹ رہی ہو، یعنی اسکا عمل شائستہ نہیں ہے۔
     
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں