تفسیر سورہ یوسف - فہم القرآن

ابوعکاشہ نے 'ماہِ رمضان المبارک' میں ‏اپریل 17, 2023 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. ابوعکاشہ

    ابوعکاشہ منتظم

    رکن انتظامیہ

    شمولیت:
    ‏اگست 2, 2007
    پیغامات:
    15,955
    تفسیر سورہ یوسف - فہم القرآن

    سورت کے نام:
    یوسف۔

    وجہ تسمیہ:
    یوسف: اسلئے کہ اس سورت میں صرف یوسف علیہ السلام کا واقعہ مذکور ہے، اور پوری تفصیل کے ساتھ، اس کے سوا اس سورت کے اندر کوئی دوسرا واقعہ نہیں ہے۔


    سورت کے آغاز و اختتام میں مطابقت:
    - سورت کا آغاز اللہ کے اس قول سے ہوا ہے
    نَحْنُ نَقُصُّ عَلَيْكَ أَحْسَنَ الْقَصَصِ بِمَا أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ هَذَا الْقُرْآنَ وَإِنْ كُنْتَ مِنْ قَبْلِهِ لَمِنَ الْغَافِلِينَ) ترجمہ: ہم آپ کے سامنے بہترین بیان پیش کرتے ہیں اس وجہ سے کہ ہم نے آپ کی جانب یہ قرآن وحی کے ذریعے نازل کیا اور یقیناً آپ اس سے پہلے بے خبروں میں سے تھے۔ (یوسف: ۳)۔
    اور اختتام اس قول سے ہوا ہے
    لَقَدْ كَانَ فِي قَصَصِهِمْ عِبْرَةٌ لِأُولِي الْأَلْبَابِ مَا كَانَ حَدِيثًا يُفْتَرَى وَلَكِنْ تَصْدِيقَ الَّذِي بَيْنَ يَدَيْهِ وَتَفْصِيلَ كُلِّ شَيْءٍ وَهُدًى وَرَحْمَةً لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ) ترجمہ: بلاشبہ یقینا ان کے بیان میں عقلوں والوں کے لیے ہمیشہ سے ایک عبرت ہے، یہ ہرگز ایسی بات نہیں جو گھڑ لی جائے اور لیکن اس کی تصدیق ہے جو اس سے پہلے ہے اور ہر چیز کی تفصیل ہے اور ان لوگوں کے لیے ہدایت اور رحمت ہے جو ایمان رکھتے ہیں۔(یوسف: ۱۱۱)۔
    اور ایسا اس بات کی وضاحت کیلئے ہے کہ اللہ تعالی قصوں اور واقعات کو فائدے، عبرت اور حکمت کیلئے بیان کرتا ہے، اور یہ کہ اس کے واقعات حقیقت پر مبنی ہوتے ہیں۔

    سورت کا مرکزی نکتہ:
    صبر کا انجام۔

    سورت کے موضوعات:
    ۱- پہلوں کے واقعات کی روشنی میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت اور دعوت کی سچائی اور اسکا اثبات۔
    ۲- حسد کے انجام کا بیان اور یہ کہ حسد سارا کا سارا شر ہی شر ہے۔
    ۳- عفت و پاکیزگی کے انجام کا بیان ۔
    ۴- جھوٹ کے انجام کا بیان(یوسف علیہ السلام کے بھائی- عزیز مصر کی بیوی)۔
    ۵- خواب کی تعبیر بتانے کی فضیلت، اور یہ کہ کافر بھی خواب دیکھتا ہے (عزیز مصر- قید کے دو نوجوان)۔
    ۶- مطلق طور پر علم کی فضیلت؛ اس لئے کہ یوسف علیہ السلام یعقوب علیہ السلام کی شریعت کا علم رکھتے تھے ساتھ میں عزیز مصر کی شریعت کا بھی علم رکھتے تھے۔
    ۷- رحمت الہی سے مایوسی کی سنگینی۔
    ۸- آزمائش سنت الہی ہے جس میں انبیاء اور انکے پیروکار مبتلا ہوتے ہیں۔
    ۹- معافی اور درگزر کی فضیلت اور یہ کہ یہ نیک لوگوں کی پہچان ہے۔
    ۱۰- مخلوق کچھ بھی کرنا چاہے اللہ ہی کا فیصلہ غالب رہے گا (اللہ غالب علی امرہ)۔

    فوائد اور اہم نکات:
    ۱- احسان اور اسکے مشتقات کا تکرار اس سورت کے اندر کئی بار آیا ہے:
    ارشاد باری تعالی ہے: (وَلَمَّا بَلَغَ أَشُدَّهُ آتَيْنَاهُ حُكْمًا وَعِلْمًا وَكَذَلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ) ترجمہ: اور جب (یوسف) پختگی کی عمر کو پہنچ گئے ہم نے اسے قوت فیصلہ اور علم دیا، ہم نیک کاروں کو اسی طرح بدلہ دیتے ہیں۔ (یوسف: ۲۲)۔
    مزید ارشاد باری تعالی ہے
    وَدَخَلَ مَعَهُ السِّجْنَ فَتَيَانِ قَالَ أَحَدُهُمَا إِنِّي أَرَانِي أَعْصِرُ خَمْرًا وَقَالَ الْآخَرُ إِنِّي أَرَانِي أَحْمِلُ فَوْقَ رَأْسِي خُبْزًا تَأْكُلُ الطَّيْرُ مِنْهُ نَبِّئْنَا بِتَأْوِيلِهِ إِنَّا نَرَاكَ مِنَ الْمُحْسِنِينَ) ترجمہ: اس کے ساتھ ہی دو اور جوان بھی جیل خانے میں داخل ہوئے، ان میں سے ایک نے کہا کہ میں نے خواب میں اپنے آپ کو شراب نچوڑتے دیکھا ہے، اور دوسرے نے کہا میں نے اپنے آپ کو دیکھا ہے کہ میں اپنے سر پر روٹی اٹھائے ہوئے ہوں جسے پرندے کھا رہے ہیں، ہمیں آپ اس کی تعبیر بتایئے، ہمیں تو آپ خوبیوں والے شخص دکھائی دیتے ہیں۔ (یوسف: ۳۶)۔
    مزید ارشاد باری تعالی ہے
    وَكَذَلِكَ مَكَّنَّا لِيُوسُفَ فِي الْأَرْضِ يَتَبَوَّأُ مِنْهَا حَيْثُ يَشَاءُ نُصِيبُ بِرَحْمَتِنَا مَنْ نَشَاءُ وَلَا نُضِيعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِينَ) ترجمہ: اسی طرح ہم نے یوسف (علیہ السلام) کو ملک کا قبضہ دے دیا۔ کہ وه جہاں کہیں چاہے رہے سہے، ہم جسے چاہیں اپنی رحمت پہنچا دیتے ہیں۔ ہم نیکو کاروں کا ﺛواب ضائع نہیں کرتے۔ (یوسف: ۵۶)۔
    قَالُوا يَا أَيُّهَا الْعَزِيزُ إِنَّ لَهُ أَبًا شَيْخًا كَبِيرًا فَخُذْ أَحَدَنَا مَكَانَهُ إِنَّا نَرَاكَ مِنَ الْمُحْسِنِينَ) ترجمہ: انہوں نے کہا کہ اے عزیز مصر! اس کے والد بہت بڑی عمر کے بالکل بوڑھے شخص ہیں۔ آپ اس کے بدلے ہم میں سے کسی کو لے لیجئے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ آپ بڑے نیک نفس ہیں۔ (یوسف: ۷۸)۔مزید ارشاد باری تعالی ہے
    مزید ارشاد باری تعالی ہے
    قَالُوا أَإِنَّكَ لَأَنْتَ يُوسُفُ قَالَ أَنَا يُوسُفُ وَهَذَا أَخِي قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنَا إِنَّهُ مَنْ يَتَّقِ وَيَصْبِرْ فَإِنَّ اللَّهَ لَا يُضِيعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِينَ) ترجمہ: انہوں نے کہا کیا (واقعی) تو ہی یوسف (علیہ السلام) ہے۔ جواب دیا کہ ہاں میں یوسف (علیہ السلام) ہوں اور یہ میرا بھائی ہے۔ اللہ نے ہم پر فضل وکرم کیا، بات یہ ہے کہ جو بھی پرہیز گاری اور صبر کرے تو اللہ تعالیٰ کسی نیکوکار کا اجر ضائع نہیں کرتا۔ (یوسف: ۹۰)۔
    یوسف علیہ السلام کے برتاؤ اور سلوک میں احسان کا لفظ کئی بار آیا ہے:
    - آپ نے قید کے اندر دو نوجوانوں کو اللہ کی عبادت کی طرف دعوت دی، صرف انکے جواب کی تعبیر بتانے ہی پر اکتفا نہیں کیا، جیسا کہ آپ آیت نمبر ۳۷ سے ۴۱ تک دیکھ سکتے ہیں۔
    - اسی طرح آپ نے عزیز مصر کے خواب کی تعبیر بتانے پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اسے بھی مزید جانکاری دی، جیسا کہ آپ آیت نمبر ۴۹ میں دیکھ سکتے ہیں۔
    - آپ نے اپنے بھائیوں کی نہ ملامت کی اور نہ ہی انکا مواخذہ کیا بلکہ انہیں درگزر کردیا اور سرے سے معاف کردیا، جیسا کہ آپ آیت نمبر ۹۲ میں دیکھ سکتے ہیں۔
    تاکہ آپ دوسروں کیلئے نمونہ اور آئیڈیل بن سکیں اور یہ بتا دیں کہ یہ اخلاق فاضلہ اور ایمان کی بلندی ہے اور اسی میں ایک بندے کو سعادت نصیب ہوتی ہے۔
    ۲- اللہ نے یہ بیان کیا ہے کہ یوسف علیہ السلام کو زمین کے اندر قدرت دے دی گئی ہے جبکہ ابھی آپ چھوٹے بچے ہی تھے، ارشاد باری تعالی ہے
    وَقَالَ الَّذِي اشْتَرَاهُ مِنْ مِصْرَ لِامْرَأَتِهِ أَكْرِمِي مَثْوَاهُ عَسَى أَنْ يَنْفَعَنَا أَوْ نَتَّخِذَهُ وَلَدًا وَكَذَلِكَ مَكَّنَّا لِيُوسُفَ فِي الْأَرْضِ وَلِنُعَلِّمَهُ مِنْ تَأْوِيلِ الْأَحَادِيثِ وَاللَّهُ غَالِبٌ عَلَى أَمْرِهِ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ) ترجمہ: مصر والوں میں سے جس نے اسے خریدا تھا اس نے اپنی بیوی سے کہا کہ اسے بہت عزت واحترام کے ساتھ رکھو، بہت ممکن ہے کہ یہ ہمیں فائده پہنچائے یا اسے ہم اپنا بیٹا ہی بنا لیں، یوں ہم نے مصر کی سرزمین میں یوسف کا قدم جما دیا کہ ہم اسے خواب کی تعبیر کا کچھ علم سکھا دیں۔ اللہ اپنے ارادے پر غالب ہے لیکن اکثر لوگ بے علم ہوتے ہیں۔ (یوسف: ۲۱)۔
    تاکہ یہ واضح ہوجائے کہ زمین پر قبضہ کرنے سے پہلے لوگوں کے دلوں میں قبضہ کیا جاتا ہے۔
    ۳- اللہ تعالی نے یوسف علیہ السلام کو خواب کی تعبیر بتانے کا جو ملکہ عطا کیا تھا اسے آپ دعوت الی اللہ کے میدان میں استعمال کرتے تھے نہ کہ دنیوی مقاصد میں۔
    ۴- یعقوب علیہ السلام اللہ پر حد درجہ توکل کرتے تھے پھر بھی اسباب کو اختیار کرنے سے کوئی چیز مانع نہیں رہی، اور آپ نے اس باب کو اختیار کیا جب آپ کو اپنی اولاد پر حسد کا خوف ہوا، چنانچہ آپ نے کہا جیسا کہ اللہ نے نقل کیا ہے
    وَقَالَ يَا بَنِيَّ لَا تَدْخُلُوا مِنْ بَابٍ وَاحِدٍ وَادْخُلُوا مِنْ أَبْوَابٍ مُتَفَرِّقَةٍ وَمَا أُغْنِي عَنْكُمْ مِنَ اللَّهِ مِنْ شَيْءٍ إِنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلَّهِ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَعَلَيْهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُتَوَكِّلُونَ) ترجمہ: اور (یعقوب علیہ السلام) نے کہا اے میرے بچو! تم سب ایک دروازے سے نہ جانا بلکہ کئی جدا جدا دروازوں میں سے داخل ہونا۔ میں اللہ کی طرف سے آنے والی کسی چیز کو تم سے ٹال نہیں سکتا۔ حکم صرف اللہ ہی کا چلتا ہے۔ میرا کامل بھروسہ اسی پر ہے اور ہر ایک بھروسہ کرنے والے کو اسی پر بھروسہ کرنا چاہئے (يوسف:۶۷)۔
    ۵- یعقوب علیہ السلام پر آزمائش کی گھڑی جب جب سخت ہوئی آپ نے اللہ پر توکل اسی قدر زیادہ کیا، ارشاد باری تعالی ہے
    عَسَى اللَّهُ أَنْ يَأْتِيَنِي بِهِمْ جَمِيعًا إِنَّهُ هُوَ الْعَلِيمُ الْحَكِيمُ) ترجمہ: قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ ان سب کو میرے پاس ہی پہنچا دے۔ وه ہی علم وحکمت واﻻ ہے (يوسف:۸۳)۔
    ۶- ارشاد باری تعالی ہے
    وَقَالَ نِسْوَةٌ فِي الْمَدِينَةِ امْرَأَتُ الْعَزِيزِ تُرَاوِدُ فَتَاهَا عَنْ نَفْسِهِ قَدْ شَغَفَهَا حُبًّا إِنَّا لَنَرَاهَا فِي ضَلَالٍ مُبِينٍ) ترجمہ: اور شہر کی عورتوں میں چرچا ہونے لگا کہ عزیز کی بیوی اپنے (جوان) غلام کو اپنا مطلب نکالنے کے لئے بہلانے پھسلانے میں لگی رہتی ہے، ان کے دل میں یوسف کی محبت بیٹھ گئی ہے، ہمارے خیال میں تو وه صریح گمراہی میں ہے (يوسف:۳۰)۔
    غور کریں: ان عورتوں نے اسکے نام کی صراحت نہیں کی ہے بلکہ اس کے شوہر سے جوڑ دیا ہے، کیونکہ ان کا مقصد خبروں کو پھیلانا تھا، اور انسانی نفوس ایسی خبروں کو سننے کا شوق زیادہ رکھتے ہیں جن کا سماج میں کوئی مقام ہو۔
    ۷- ارشاد باری تعالی ہے
    قَالَ يَا بُنَيَّ لَا تَقْصُصْ رُؤْيَاكَ عَلَى إِخْوَتِكَ فَيَكِيدُوا لَكَ كَيْدًا إِنَّ الشَّيْطَانَ لِلْإِنْسَانِ عَدُوٌّ مُبِينٌ) ترجمہ: یعقوب علیہ السلام نے کہا پیارے بچے! اپنے اس خواب کا ذکر اپنے بھائیوں سے نہ کرنا۔ ایسا نہ ہو کہ وه تیرے ساتھ کوئی فریب کاری کریں، شیطان تو انسان کا کھلا دشمن ہے (يوسف:۵)۔
    سبحان اللہ! ایک باپ چاہتا ہے کہ اس کی اولاد اس سے آگے جائے جبکہ ایک بھائی اپنے بھائی کے بارے میں ایسا نہیں چاہتا۔
    ۸- ارشاد باری تعالی ہے
    وَاسْتَبَقَا الْبَابَ وَقَدَّتْ قَمِيصَهُ مِنْ دُبُرٍ وَأَلْفَيَا سَيِّدَهَا لَدَى الْبَابِ قَالَتْ مَا جَزَاءُ مَنْ أَرَادَ بِأَهْلِكَ سُوءًا إِلَّا أَنْ يُسْجَنَ أَوْ عَذَابٌ أَلِيمٌ) ترجمہ: دونوں دروازے کی طرف دوڑے اور اس عورت نے یوسف کا کرتا پیچھے کی طرف سے کھینچ کر پھاڑ ڈاﻻ اور دروازے کے پاس ہی عورت کا شوہر دونوں کو مل گیا، تو کہنے لگی جو شخص تیری بیوی کے ساتھ برا اراده کرے بس اس کی سزا یہی ہے کہ اسے قید کر دیا جائے یا اور کوئی دردناک سزا دی جائے۔ (يوسف:۲۵)۔
    یہاں پر(سیدھا) واحد کا صیغہ استعمال کیا، (سیدھما) تثنیہ کا نہیں؛ اسلئے کہ یوسف علیہ السلام مسلمان تھے، جبکہ عزیز مصر کافر تھا، اور کافر کی سیادت ایک مسلمان پر نہیں ہوتی ہے۔
    ۹- جوانوں سے معافی طلب کرنا بوڑھوں کے مقابلے زیادہ آسان ہوتا ہے:
    آپ دیکھیں گے کہ جب یوسف علیہ السلام کے بھائیوں نے آپ سے معافی طلب کی تو فورا آپ نے معاف کردیا، اور کہا
    قَالَ لَا تَثْرِيبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ يَغْفِرُ اللَّهُ لَكُمْ وَهُوَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِينَ) ترجمہ: جواب دیا آج تم پر کوئی ملامت نہیں ہے۔ اللہ تمہیں بخشے، وه سب مہربانوں سے بڑا مہربان ہے (يوسف:۹۲)۔
    اور جب انہوں نے اپنے والد صاحب سے معافی مانگی تو کہا
    قَالَ سَوْفَ أَسْتَغْفِرُ لَكُمْ رَبِّي إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ) ترجمہ: کہا اچھا میں جلد ہی تمہارے لئے اپنے پروردگار سے بخشش مانگوں گا، وه بہت بڑا بخشنے واﻻ اور نہایت مہربانی کرنے وﻻ ہے (يوسف:۹۸)۔
    ۱۰- ارشاد باری تعالی ہے
    وَقَدْ أَحْسَنَ بِي إِذْ أَخْرَجَنِي مِنَ السِّجْنِ وَجَاءَ بِكُمْ مِنَ الْبَدْوِ مِنْ بَعْدِ أَنْ نَزَغَ الشَّيْطَانُ بَيْنِي وَبَيْنَ إِخْوَتِي إِنَّ رَبِّي لَطِيفٌ لِمَا يَشَاءُ إِنَّهُ هُوَ الْعَلِيمُ الْحَكِيمُ) ترجمہ: اس نے میرے ساتھ بڑا احسان کیا جب کہ مجھے جیل خانے سے نکالا اور آپ لوگوں کو صحرا سے لے آیا اس اختلاف کے بعد جو شیطان نے مجھ میں اور میرے بھائیوں میں ڈال دیا تھا۔ میرا رب جو چاہے اس کے لئے بہترین تدبیر کرنے واﻻ ہے۔ اور وه بہت علم وحکمت واﻻ ہے (يوسف:۱۰۰)۔
    غور کریں کہ یہاں پر یوسف علیہ السلام نے یہ کہا کہ اللہ نے ہمیں کنویں سے نکالا، بلکہ قید خانے کا ذکر کیا تاکہ آپ کے بھائیوں کو تکلیف نہ ہو، اور یوسف علیہ السلام کے اخلاق حسنہ پر دلالت کرتا ہے ۔
     
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں