بابرکت و باسعادت بڑھاپا

اجمل نے 'اسلامی کتب' میں ‏اکتوبر، 21, 2023 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. اجمل

    اجمل محسن

    شمولیت:
    ‏فروری 10, 2014
    پیغامات:
    709
    تمام مسلمانوں کے لیے دعائیں کرنا

    اگر میں یہ کہوں کہ ہمارے آباؤ اجداد کی تعداد ایک ارب سے تجاوز کرتی ہے تو شاید آپ ہنس دیں اور اسے مضحکہ خیز سمجھیں۔ لیکن حقیقت یہی ہے۔ ہم میں سے ہر ایک کے آباو اجداد کی تعداد اربوں میں ہے۔ تو آئیے آج ہم اپنے آباؤ اجداد کا حساب لگاتے ہیں اور دیکھتے ہیں ہماری رگوں میں کتنے لوگوں کا لہو محو گردش ہے۔

    1 ۔ ۔ باپ ماں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔تعداد -- 2 - - - - - - 1^2
    2 ۔ ۔ دادا دادی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔تعداد -- 4 - - - - - - 2^2
    3 ۔ ۔ پڑ دادا پڑ دادی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔تعداد -- 8 - - - - - - 3^2
    4 ۔ ۔ سگڑ دادا سگڑ دادی (1) ۔ ۔ ۔ ۔تعداد -- 16 - - - - - 4^2
    5 ۔ ۔ سگڑ دادا سگڑ دادی (2) ۔ ۔ ۔ ۔تعداد -- 32 - - - - - 5^2
    6 ۔ ۔ سگڑ دادا سگڑ دادی (3) ۔ ۔ ۔ ۔تعداد -- 64 - - - - - 6^2
    7 ۔ ۔سگڑ دادا سگڑ دادی (4) ۔ ۔ ۔ تعداد -- 128 - - - - 7^2
    8 ۔ ۔سگڑ دادا سگڑ دادی (5) ۔ ۔ ۔ تعداد -- 256 - - - - 8^2
    9 ۔ ۔سگڑ دادا سگڑ دادی (6) ۔ ۔ ۔ تعداد -- 512 - - - - 9^2
    10 ۔ سگڑ دادا سگڑ دادی (7) ۔ ۔ ۔ تعداد -- 1024 - - - 10^2
    11 ۔ سگڑ دادا سگڑ دادی (8) ۔ ۔ ۔ تعداد -- 2048 - - - 11^2
    اس طرح اگر پیچھے چلتے ہوئے 30 ویں سگڑ دادا سگڑ دادی تک جائیں تو
    33۔ ۔سگڑ دادا سگڑ دادی (30) ۔ ۔ تعداد۔ 8,589,934,592 - - - 33^2
    ہمارے آباؤ اجداد کی تعداد بنتی ہے 33^2 = 8.6 بلین یعنی 8 ارب 60 کروڑجو کہ دنیا کی موجودہ آبادی سے بھی زیادہ ہوئی۔ اگر کزنز کے درمیان شادی کا حساب لگالیں تو یہ تعداد کچھ کم ہو جائے گی، تو اسے آدھا کر لیتے ہیں تب بھی یہ تعداد 4 ارب 30 کروڑ کی بنتی ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ ہمارے جیسے ایک انسان کی پیدائش کے پیچھے کتنے بے شمار لوگوں نے اپنا کردار ادا کیا ہے اور ہم پر ہمارے اتنے زیادہ آباؤاجداد کے احسانات ہیں جنہیں ہم گن بھی نہیں سکتے۔

    ذرا غور کیجيے کہ اگر ہمارے یہ بے شمار آباؤاجداد آج زندہ ہوتے تو ہم کتنے مشکل میں پڑ جاتے۔ ہم کس کس کا حق ادا کرتے جبکہ آج ہم اپنے حقیقی والدین کے حقوق ادا کرنے سے بھی قاصر ہیں۔ ایک بار اور تصور کیجيے کہ اگر ہمارے یہ سارے آباؤاجداد آج زندہ ہوتے تو کیا ہوتا؟ تو ہر طرف بستر پر پڑے دکھ درد سے کراہتے، پاخانہ پیشاب کرتے، کھانستے اور تھوکتے، ضعیف و لاغر، چلنے پھرنے اٹھنے بیٹھنے سے قاصر، بولنے اور سننے سے معذور صرف بوڑھے ہی بوڑھے نظر آتے اور دنیا میں زندگی مفلوج ہوکر رہ جاتی۔

    ایک دفعہ ایک بادشاہ نے اپنے وزیر کے ساتھ اپنی وسیع سلطنت کے بارے میں خوش گپی کرتے ہوئے کہا: کاش! کہ موت نہ ہوتی۔ تو وزیر نے مسکراتے ہوئے جواب دیا: حضور والا! اگر موت نہ ہوتی تو یہ سلطنت آپ تک کیسے پہنچتی؟ یہ موت ہی تو ہے جس کے ذریعہ یہ بادشاہی اور یہ نعمتیں آپ تک پہنچی ہیں، ورنہ یہ وسیع سلطنت آپ کے آباؤ اجداد تک ہی محدود رہتی۔

    موت ایک اٹل حقیقت ہے۔ ہمیں بھی مرنا ہے اور اس دنیا سے جانا ہے۔ جس طرح ہمارے اربوں آباؤاجداد موت کو گلے لگا کر اس دنیا سے رخصت ہوگئے اور ہمارے لیے یہ نعمتوں سے بھری دنیا چھوڑ گئے اسی طرح ہمیں بھی اپنی آئندہ نسلوں کی بقا کے لیے اس دنیا سے جانا ہے۔

    موت ہے تو زندگی ہے۔ موت کی وجہ سے ہی دنیا میں زندگی رواں دواں ہے۔ موت اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے۔ موت سے اللہ تعالیٰ کی قدرتِ کاملہ اور تمام مخلوقات پر اس کی مکمل تسلط کا پتہ چلتا ہے۔ جب کوئی بوڑھا ہوجائے تو ناکارہ ہونے سے پہلے اچھی اور آسان موت کا آجانا اللہ تعالیٰ کی بڑی رحمت ہے، جس کی دعا ہم سب کو کرنی چاہیے اور ارذل العمر سے پناہ مانگنا چاہیے۔

    موت رحمت ہونے کے ساتھ ساتھ نعمت بھی ہے۔ موت دنیاوی زندگی کی انتہا اور اخروی زندگی کی ابتدا ہے۔ موت مومن کے لیے جنت کا دروازہ ہے لیکن اس کے لیے موت کو یاد رکھنا اور اس کی تیاری کرنا ضروری ہے۔

    عقل مند شخص موت سے پہلے موت کی تیاری کرتا ہے ،اپنے آپ کو قبر کے لیے تیار کرتا ہے، اپنی قبر کو ایمان کی روشنی سے منور کرتا ہے اور اسے نیک اعمال سے بھر دیتا ہے تا کہ اس کی قبر جنت کا باغیچہ بن جائے اور اس کے ساتھ ساتھ ایسے اعمال بھی کرتا ہے جس کا اجر و ثواب اسے موت کے بعد بھی تا قیامت ملتا رہے۔

    رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:آدمی جب مر جاتا ہے تو اس کا عمل موقوف ہو جاتا ہے مگر تین چیزوں کا ثواب جاری رہتا ہے: (1) ایک صدقۂ جاریہ کا، (2) دوسرے علم کا جس سے لوگ فائدہ اٹھائیں، اور (3) تیسرے نیک و صالح اولاد جو دعا کرے اس کے لیے۔ (صحيح مسلم: 1631)

    اسلام ایک ایسا بابرکت دین ہے جس کی برکتوں کی کوئی انتہا نہیں۔ ہم جتنا اس کی برکتوں پر غور کرتے ہیں اتنا ہی اس کی برکتیں وسیع تر ہوتی جاتی ہیں۔ جہاں اس دین پر زندہ رہنے والے اس کی برکتیں سمیٹتے ہیں وہیں اس دین پر چلتے ہوئے دنیا سے گزر جانے والے مومن بندے کو بھی اس کی برکتیں احاطہ کیے رہتی ہیں۔ اوپر دیے گئے حساب کے مطابق ہمارے اربوں آباؤاجداد اس دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں۔ ہمیں نہیں معلوم کہ ان میں سے کتنوں کو ان کے کیے گئے صدقۂ جاریہ کا ثواب اب بھی مل رہا ہے لیکن ان میں جو مومن تھے ہماری دعاؤں میں آج بھی وہ سب شامل ہیں۔ یہ دین اسلام کی برکت ہے کہ جب ہم دعا کرتے ہیں:
    ---------------1---------------
    رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنَا غِلًّا لِّلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا إِنَّكَ رَءُوفٌ رَّحِيمٌ ‎(١٠) سورة الحشر
    ’’ اے ہمارے پروردگار ہمیں بخش دے اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی جو ہم سے پہلے ایمان لاچکے ہیں اور ایمان داروں کی طرف سے ہمارے دل میں کینہ (اور دشمنی) نہ ڈال، اے ہمارے رب بیشک تو شفقت ومہربانی کرنے والا ہے‘‘

    رَبَّنَا اغْفِرْ لِي وَلِوَالِدَيَّ وَلِلْمُؤْمِنِينَ يَوْمَ يَقُومُ الْحِسَابُ (٤١) سورة ابراهيم
    ’’اے ہمارے رب مجھے بخش دے اور میرے ماں باپ کو اور تمام مومنوں کو جس دن حساب قائم ہوگا‘‘

    اَللّٰهُمَّ اغْفِرْلَنَا وَلِوَالِدَيْنَا وَ لِلْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُؤْمِنَاتِ
    ’’اے اللہ! تو ہمیں ہمارے والدین اور تمام مومن مردوں اور عورتوں کو بخش دے‘‘

    اللّٰھُمَّ اغْفِرْ لِیْ وَلِکُلِّ مُؤْمِنٍ وَّمُؤْمِنَۃٍ
    ’’اےاللہ! میری اور تمام مومن ومومِنہ کی مغفِرت فرما‘‘

    تو ہم حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر دنیا میں آنے والے آخری مومن تک کو اپنی ان دعاؤں میں یا اس جیسی دوسری دعاؤں میں شامل کرتے ہیں، اور اس طرح ان تمام گزرے ہوئے اور آنے والے مومنین کی دعائیں بھی ہم تک پہنچتی رہیں گی، ان شاء اللہ تعالیٰ ۔
    ---------------2---------------
    اسی طرح رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَ ﷺ نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی نماز پڑھے اور کہے:

    التَّحِيَّاتُ لِلَّهِ وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّيِّبَاتُ السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ السَّلَامُ عَلَيْنَا وَعَلَى عِبَادِ اللَّهِ الصَّالِحِينَ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ
    ’’تمام زبانی، بدنی، اور مالی عبادات اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں، اے نبی! آپ پر سلام ہو اور اﷲ کی رحمت اور برکتیں ہوں، سلامتی ہو ہم پر اور اللہ تعالیٰ کے تمام نیک بندوں پر، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺاس کے بندے اور رسول ہیں‘‘ ، تو زمین و آسمان میں موجود اللہ کے ہر نیک و صالح بندے کو یہ دعا پہنچتی ہے۔ (صحيح البخاري: 1202)

    اس طرح ہر مومن بندے کی نماز میں اور نماز کے بعد کی گئی دعاؤں میں ہم بھی شامل ہو جاتے ہیں اور یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک نماز پڑھی جاتی رہے گی۔ لہذا جو نماز نہیں پڑھتے وہ اس خیر و برکت سے محروم رہتے ہیں۔
    ---------------3---------------
    اسی طرح جب ہم کسی کی نماز جنازہ ادا کرتے ہیں اور دعا کرتے ہیں:

    اَللّٰهُمَّ اغْفِرْ لِحَيِّنَا وَمَيِّتِنَا وَشَاهِدِنَا وَغَائِبِنَا وَصَغِيْرِنَا وَکَبِيْرِنَا وَذَکَرِنَا وَاُنْثَانَا. اَللّٰهُمَّ مَنْ اَحْيَيْتَه مِنَّا فَاَحْيِه عَلَی الْاِسْلَامِ وَمَنْ تَوَفَّيْتَه مِنَّا فَتَوَفَّه عَلَی الإِيْمَانِ
    ’’اے اللہ تو بخش دے ہمارے زندوں اور ہمارے مردوں کو، اور ہمارے حاضر اور ہمارے غائب کو اور ہمارے چھوٹوں اور ہمارے بڑوں کو اور ہمارے مردوں اور ہماری عورتوں کو۔ اے اللہ! ہم میں سے جسے تو زندہ رکھے تو اسے اسلام پر زندہ رکھ اور ہم میں سے جسے تو موت دے تو اسے ایمان پر موت دے‘‘ ۔

    تو اس دعا میں ہم (1) زندہ (2) مردہ (3) حاضر (4) غائب (5) چھوٹے (6) بڑے (7) مرد و (8) عورت یعنی ان آٹھ قسم کی لوگوں کو اپنی دعا میں شامل کرتے ہیں یعنی نماز جنازہ میں صرف میت کے لیے ہم دعا نہیں کرتے بلکہ ان تمام مسلمانوں کے لیے دعا کرتے ہیں جو حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر اب تک اس دنیا میں آچکے ہیں اور آئندہ قیامت تک اس دنیا میں آنے والے ہیں اور اسی طرح ہمارے مرنے کے بعد جب بھی کسی کا جنازہ پڑھا جائے گا تو اس میں ہماری بخشش کی دعا بھی کی جائے گی اور یہ سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا۔

    یہ دعا بہت عظیم اور شاندار ہے، جو سامنے موجود میت کے علاوہ مسلمانوں میں سے زندہ و مردہ، چھوٹے و بڑے ،مرد و عورت ،اور موجود و غائب سب کو شامل ہے ؛ کیونکہ محتاج و ضرورت مند صرف مرنے والا یا مرنے والی ہی نہیں بلکہ سب ہی محتاج و ضرورت مند ہیں اور اللہ کی مغفرت، معافی اور اس کی رحمت کی سبھی کو ضرورت ہے ۔
    ---------------4---------------
    جب ہم مسلمانوں کے کسی قبرستان میں جاتے ہیں یا اس کے قریب سے گزرتے ہیں تب بھی تمام مرحوم مومنین و مسلمین کے لیے سلامتی اور عافیت کی دعا کرتے ہیں:

    اَلسَّلَامُ عَلَيْكُمْ أَهْلَ الدِّيَارِ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُسْلِمِيْنَ، وَإِنْ شَاءَ اللهُ بِكُمْ لَاحِقُوْنَ، أَسْأَلُ اللهَ لَنَا وَلَكُمُ الْعَافِيَةَ - - - ’’ اے گھروں کے مومن اور مسلمان مکینوں تم پر سلامتی ہو، اور ان شاء اللہ ہم بھی تم سے ملنے والے ہیں، میں اللہ تعالیٰ سے اپنے اور تمہارے لیے عافیت کا طلب گار ہوں ‘‘۔ (صحيح مسلم: 975)
    اسی طرح ہماری موت کے بعد ہماری قبروں کے قریب سے گزرنے والے اللہ کے مومن بندے بھی ہمارے لیے دعائیں کریں گے اور یہ سلسلہ بھی تا قیامت جاری رہے گا، ان شاء اللہ۔
    ---------------5---------------
    اور سب سے بڑی بات یہ کہ جب ہم درود ابراہیمی کے ذریعے اپنے پیارے نبی کریم ﷺ پر اللہ تعالیٰ سے رحمتیں اور برکتیں بھیجنے کی دعا کرتے ہیں تو اس میں بھی ساری کی ساری امت محمدیہ ﷺشامل ہوتی ہے کیونکہ ساری کی ساری امت محمدیہ ﷺ اٰل محمد ﷺہے، توآئیے درود بھیجیں اپنے نبی ﷺ پر اور اس میں شامل کریں آل محمد ﷺ کو:

    ٱللَّٰهُمَّ صَلِّ عَلَىٰ مُحَمَّدٍ وَعَلَىٰ اٰلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَىٰ إِبْرَاهِيمَ وَعَلَىٰ اٰلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ
    ٱللَّٰهُمَّ بَارِكْ عَلَىٰ مُحَمَّدٍ وَعَلَىٰ اٰلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَىٰ إِبْرَاهِيمَ وَعَلَىٰ اٰلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ


    ’’اے ﷲ! رحمتیں نازل فرما حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اور ان کی اٰل پر، جس طرح تونے رحمتیں نازل کیں حضرت ابراہیم علیہ السلام پر اور ان کی آل پر، بے شک تو تعریف کا مستحق بڑی بزرگی والا ہے۔ اے ﷲ! تو برکتیں نازل فرما حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اور ان کی آل پر، جس طرح تونے برکتیں نازل فرمائیں حضرت ابراہیم علیہ السلام پر اور ان کی آل پر، بے شک تو تعریف کا مستحق بڑی بزرگی والا ہے‘‘ ۔

    تمام مسلمان مردوں اور عورتوں کے لیے دنیا اور آخرت کی بھلائی کے لیے دعا کرنا ایک ایسا عمل ہے جس کی برکات اور فضائل بہت وسیع ہیں۔ اپنے بڑھاپے کو بابرکت و باسعادت بنانے کے لیے اپنے بوڑھے لرزتے ہاتھوں کو اٹھا کر دعائیں کیجيے اور اپنی دعاؤں میں حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر قیامت تک آنے والے تمام مومن و مومنات اور مسلم و مسلمات کو شامل کرلیجیے، اس طرح آپ خود بھی ان سب لوگوں کی دعاؤں میں شامل رہیں گے جن میں انبیاء، صدیقین، شہداء ، صالحین اور ہر امت کے اچھے لوگ بھی ہیں۔

    اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے اور ہمار بڑھاپا بابرکت و باسعادت بنائے۔ ہماری مغفرت فرمائے، ہمارے والدین کی مغفرت فرمائے اور تمام مسلمانوں کی مغفرت فرمائے۔ ہمارے اولاد کو نیک اور صالح بنائے اور ہماری آئندہ آنے والی نسلوں کو ہمارے لیے صدقۂ جاریہ بنائے۔ آمین۔
    (ماخوذ: کتاب بابرکت و باسعادت بڑھاپا، اس کتاب کی پرنٹیڈ ہارڈ کاپیاں موجود ہیں جولینا چاہتے ہوں وہ مجھ سے رابطہ کرسکتے ہیں۔
    ۔
     
  2. اجمل

    اجمل محسن

    شمولیت:
    ‏فروری 10, 2014
    پیغامات:
    709
    حجت اور عذر ختم کرنے والی عمر

    ساٹھ سال کی عمر لمبی عمر ہے۔ جو ساٹھ سال کی عمر کو پہنچ گیا وہ لمبی عمر پا گیا۔ ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا : میری امت کی عمریں ساٹھ اور ستر کے درمیان ہوں گی اور تھوڑے ہی لوگ ایسے ہوں گے جو اس حد کو پار کریں گے۔ )ترمذی: 3550، ابن ماجہ: 4236)

    اور سیدنا انس بن مالک ﷛ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میری امت کے کم ہی لوگ ستر (برس کی عمر) تک پہنچیں گے۔ (سلسلہ احاديث صحيحہ ترقیم البانی: 1517)

    اپنے رب کو پہچاننے کے لیے، اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل کرنے کے لیے، دین اسلام کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کے لیے ساٹھ سال ایک طویل عرصہ ہے۔ اس لیے جو لوگ ساٹھ سال کی عمر کو پہنچ جاتے ہیں، اللہ تعالیٰ ان بندوں کے عذر، حجت اور بہانے کو ختم کر دیتا ہے۔ جیسا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ ’’ اللہ تعالیٰ نے اس آدمی کے لیے عذر کا کوئی موقع باقی نہیں رکھا جس کو ساٹھ برس تک (دنیا میں) مہلت دی‘‘ ۔ (صحيح البخاري:6419)

    اس حدیث میں اس بات کا ثبوت ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے خلاف حجت رکھتا ہے اور یہ اس لیے ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو عقل دی، انہیں سمجھ عطا کی، ان میں اپنے رسول بھیجے اور اپنا کلام ہدایت نازل کیا اور اپنے رسول ﷺ کی سنت کو محفوظ کیا جو ہمیشہ رہے گی۔ اللہ تعالیٰ اپنے حجت کی دلیل دیتے ہوئے قرآن مجید میں فرماتا ہے:

    وَمَن نُّعَمِّرْهُ نُنَكِّسْهُ فِي الْخَلْقِ ۖ أَفَلَا يَعْقِلُونَ ‎(٦٨) سورة يس
    ’’جس شخص کو ہم لمبی عمر دیتے ہیں اس کی ساخت کو ہم الٹ ہی دیتے ہیں، کیا (یہ حالات دیکھ کر) انہیں عقل نہیں آتی؟‘‘

    اب جس شخص کو اللہ تعالیٰ ساٹھ سال تک کی لمبی عمر عطا کر دیتا ہے اور اتنے طویل زمانہ تک اس کو مہلت دے دیتا ہے، اس کے باوجود وہ اپنے خالق حقیقی کو نہیں پہچان پاتا اور رب کریم کی طرف رجوع نہیں کرتا، توبہ کرکے گناہوں سے باز نہیں آتا تو اب اس کے لیے عذر خواہی کا وہ کون سا موقع رہ گیا ہے جس کے سہارے وہ قیامت کے دن اپنے رب سے عفو و بخشش کی امید رکھتا ہے۔

    اگر کوئی جوان شخص گناہ و معصیت اور بے عملی کی راہ اختیار کیے ہوئے ہے تو وہ کہہ سکتا ہے کہ جب بڑھاپا آئے گا تو اپنی بدعملیوں اور اپنے گناہوں سے توبہ کر لوں گا اور اپنی زندگی کےآخری حصہ کو اللہ کی رضا جوئی اور اس کی عبادت میں صرف کروں گا، لیکن جو شخص بڑھاپے کی منزل میں پہنچ چکا ہے تو اب یہ اس کے پاس توبہ وانابت اور نیک عمل کرنے کا آخری موقع ہے، اگر اب بھی وہ بے عملی اور گناہوں کی روش پر چلتا رہا تو کل اللہ تعالیٰ کو کیا جواب دے گا؟

    ہائے! کتنے بدنصیب ہیں وہ لوگ جو عمر کے آخری منزل پر پہنچ کر بھی گناہ و معصیت میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ اس بڑھاپے میں بھی جب کہ موت ان کے سر پر کھڑی ہے، انہیں گناہ و معصیت کی زندگی سے توبہ کرکے اپنے رحیم و کریم پروردگار کا دامن عفو و کرم پکڑ لینے کی توفیق نہیں ہوتی۔ پھر جب اسی حالت میں موت انہیں آ دبوچے گی اور یہ لوگ جہنم میں جا گریں گے تو اللہ تعالیٰ کے حضور معذرتیں پیش کریں گے، وہاں کہا جائے گا کہ ’’اے کفر اختیار کرنے والو! آج معذرتیں پیش نہ کرو، تمہیں تو ویسا ہی بدلہ دیا جا رہا ہے جیسے تم عمل کر رہے تھے‘‘ (٧) سورة التحريم

    پھر جب لمبی عمر پانے والے کفار کا جہنم کے درد ناک عذاب جھیلنے کے سوا اور کچھ نہ بن پڑے گا: ’’تو وه لوگ اس میں چلائیں گے، چیخ چیخ کر کہیں گے کہ اے ہمارے پروردگار! ہم کو نکال لے ہم اچھے کام کریں گے برخلاف ان کاموں کے جو کیا کرتے تھے، (اللہ تعالیٰ کہے گا) کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہیں دی تھی کہ جس کو سمجھنا ہوتا وه سمجھ سکتا اور تمہارے پاس ڈرانے والا بھی پہنچا تھا، سو مزه چکھو کہ (ایسے) ظالموں کا کوئی مددگار نہیں‘‘۔(٣٧) سورة فاطر

    یہاں اس آیت میں جو فرمایا: ’’کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہ دی تھی کہ جس کو سمجھنا ہوتا وه سمجھ سکتا اور تمہارے پاس ڈرانے والابھی پہنچا تھا ‘‘، اگرچہ یہ خطاب کفار کو ہے مگر سب کو نصیحت کرنا مقصود ہے اس لیے کہ اصل علت غفلت ہے جس میں آج مسلمان بھی پڑے ہوئے ہیں۔

    جب انسان بوڑھا ہوجاتا ہے تب اس کے پاس بہت تھوڑا سرمایہ (وقت) باقی رہتا ہے، وہ بھی نہ جانے کب ختم ہوجائے۔ لہذا بوڑھے شخص پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ واجب ہے کہ وہ برابر اپنے پروردگار کی بارگاہ میں عذر خواہی اور توبہ و استغفار، تسبیح و تہلیل، دعا و درود کی کثرت کرتا رہے اور اس میں قطعاً کوئی کمی و کوتاہی نہ کرے۔ جیسا کہ فرمانِ الٰہی ہے:

    يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا تُوبُوا إِلَى اللَّهِ تَوْبَةً نَّصُوحًا عَسَىٰ رَبُّكُمْ أَن يُكَفِّرَ عَنكُمْ سَيِّئَاتِكُمْ ‎(٨) سورة التحريم
    ’’اے ایمان والو! اللہ کے حضور توبہ کرو، سچی توبہ، امید ہے کہ وہ تمہاری برائیاں تم سے دور کر دے گا ‘‘

    یہاں اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کو مخاطب کیا ہے اور انہیں خالص توبہ کرنے کا حکم دیا ہے۔ لہذا ایمان والوں کو خالص توبہ ہی کرنا چاہیے۔ بڑھاپے میں خالص توبہ کرنا تو بہت آسان ہے کہ اس عمر میں گناہ کی طرف یوں بھی میلان کم ہوتا ہے پھر گناہ کرنے کے اسباب بھی کم ہوتے ہیں اور زندگی کے ایام بھی ختم ہونے کے قریب ہوتے ہیں۔ لہذا انتظار نہ کرے، ندامت کے آنسو بہائے اور سچی توبہ کرلے کہ ناجانے کب روح حلق میں آ پھنسے، اور توبہ کی قبولیت کا وقت ختم ہوجائے۔

    بڑھاپے کی وجہ سے عمر رسیدہ لوگوں کی اکثریت چڑچڑے پن کا شکار رہتی ہے، جس کی وجہ سے ان کے لیے ان کے گھر کا ماحول سازگار نہیں ہوتا جبکہ ریٹائرمنٹ اور بڑھاپے کی وجہ سے گھر میں رہنا بھی ان کی مجبوری ہوتی ہے۔ چڑچڑے پن سے بچنے اور اپنے گھر کے ماحول کو ساز گار رکھنے کے لیے ایسے لوگوں کا ہمہ وقت عبادت میں مصروف رہنا بہت ضروری ہے۔ جو بزرگ لوگ اپنا زیادہ تر وقت خدمت خلق میں اور مسجدوں میں گزارتے ہیں وہ چڑچڑے پن اور بد مزاجی سے محفوظ رہتے ہیں، ان کے مزاج اور کردار میں شائستگی پائی جاتی ہے اور ان کے اخلاق بھی درست رہتے ہیں، سو اس طرح وہ بابرکت و باسعادت بڑھاپا پالیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
    (ماخوذ: کتاب بابرکت و باسعادت بڑھاپا، اس کتاب کی پرنٹیڈ ہارڈ کاپیاں موجود ہیں جولینا چاہتے ہوں وہ مجھ سے رابطہ کرسکتے ہیں ، واٹس اپ 03262366183 پر۔
    ۔
     
  3. اجمل

    اجمل محسن

    شمولیت:
    ‏فروری 10, 2014
    پیغامات:
    709
    معزز قارئین! واضح رہے کہ کہ یہاں کتاب ’’بابرکت و باسعادت بڑھاپا‘‘ سے جو مضامین پیش کیے جارہے ہیں وہ کتاب کے مطابق ترتیب وار اور مکمل نہیں ہیں۔ مکمل ترتیب وار مضامین پڑھنے کے لیے آپ پرنٹیڈ کتاب حاصل کرسکتے ہیں۔
     
    Last edited: ‏دسمبر 4, 2023
  4. اجمل

    اجمل محسن

    شمولیت:
    ‏فروری 10, 2014
    پیغامات:
    709
    زندگی میں برکت ٹائم مینجمنٹ سے

    حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد میں سب سے بابرکت زندگی ہمارے پیارے نبی ﷺ کو ملی۔ ایسی دوسری کوئی بابرکت ہستی نہ ہی دنیا نے کبھی دیکھی ہے اور نہ ہی دیکھے گی۔ پھر بعد میں آپ ﷺ کے نقش قدم پر چلنے والوں کی زندگی بابرکت ہوئی اور امت آج تک آپ ﷺ سے اور آپ کے نقش قدم پر چلنے والی ان بابرکت ہستیوں سے فیض یاب ہورہی ہے اور قیامت تک ہوتی رہے گی۔ آپ ﷺ اور آپ ﷺ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین اور بعد میں آنے والے امت کے اچھے لوگوں نے وقت کی قدر و قیمت کو سمجھتے ہوئے اپنی زندگی گزاری، اور دنیا میں تاریخ رقم کی۔

    وقت کی قدر و قیمت
    اللہ تعالیٰ کی لاتعداد نعمتوں میں سے بنیادی اور اہم ترین نعمت ' وقت ' ہے۔ ہماری زندگی وقت کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی ہے۔ وقت کے لامحدود بہتے ہوئے سمندر سے ہمیں زندگی کی تشکیل کے لیے جتنا وقت ملتا ہے وہ بہت کم اور انمول ہے۔ اسے کوئی خرید نہیں سکتا، جو وقت گزر جائے اسے دوبارہ واپس لایا نہیں جا سکتا۔ یہ زندگی کا سرمایہ ہے، بہترین وسیلہ ہے، وقت ہے تو زندگی ہے۔ جب ہمارا وقت ختم ہوجاتا ہے تب ہم اس دنیا میں نہیں رہتے، کوئی نیک عمل نہیں کر سکتے۔

    پھر یہ ایک کائناتی حقیقت ہے کہ وقت کو نہ تو پھیلایا جا سکتا ہے اور نہ ہی کم کیا جا سکتا ہے، البتہ اس کو منظم کیا جا سکتا ہے۔ وقت کی اہمیت کا اندازہ نبی کریم ﷺ کے اس فرمان سے لگایا جا سکتا ہے: اگر قیامت قائم ہو جائے اور تم میں سے کسی کے ہاتھ میں کھجور کا ایک چھوٹا پودا ہو تو اگر وہ اسے لگا سکتا ہو تو جلدی سے اسے زمین میں لگا دے۔ (سلسلہ احاديث صحيحہ ترقیم البانی: 9)

    اس حدیث کے ذریعے بندۂ مومن کو وقت کی اہمیت بتائی گئی ہے کہ قیامت کی ہولناکی کے وقت بھی وہ وقت ضائع نہ کرے بلکہ قیامت کے قائم ہونے سے پہلے جو نیک کام کر سکتا ہو وہ کر لے۔

    وقت کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ کل قیامت کے دن سب سے پہلے جو پانچ سوالات کیے جائیں گے ان میں دو سوالات وقت کے بارے میں ہوں گے، جیسا کہ سیدنا عبداللہ بن مسعود ﷛ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”روز قیامت ابن آدم کے پاؤں اس وقت تک اللہ تعالیٰ کے پاس سے نہیں ہٹے گا، جب تک اس سے پانچ چیزوں کے بارے پوچھ گچھ نہ کر لی جائے گی،
    (1) اس نے اپنی عمر کہاں فنا کی؟
    (2) اپنی نوجوانی کہاں کھپائی؟
    (3) مال کہاں سے اور کیسے کمایا؟
    (4) (کمایا ہوا) مال کہاں خرچ کیا؟
    (5) اور اس نے اپنے علم کے مطابق کتنا عمل کیا؟“۔ (سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 946)​

    چونکہ قیامت کے دن بندوں سے وقت کے بارے میں پوچھا جائے گا، اس لیے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں وقت کی اہمیت اور صحیح استعمال کے بارے میں بیان کیا ہے اور اپنے نبی ﷺ کے ذریعے قولی اور عملی طور پر بھی اس کی وضاحت فرمائی ہے۔
    اللہ تعالیٰ ہمیں وقت کی اہمیت کو سمجھنے اور اس کا صحیح استعمال کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
    (ماخوذ: کتاب بابرکت و باسعادت بڑھاپا، اس کتاب کی پرنٹیڈ ہارڈ کاپیاں موجود ہیں جولینا چاہتے ہوں وہ مجھ سے رابطہ کرسکتے ہیں ، واٹس اپ 03262366183 پر۔
    ۔
     
  5. اجمل

    اجمل محسن

    شمولیت:
    ‏فروری 10, 2014
    پیغامات:
    709
    پنجگانہ نماز کے لیے ٹائم مینجمنٹ

    وقت کا صحیح اور موثر استعمال کرنے کا طریقہ سیکھنا ہر مسلمان کی اولین ذمہ داری ہے۔ ایک مسلمان کو پنجگانہ نماز کے ذریعے روزمرہ کی زندگی میں حقیقی نظم و ضبط اور ٹائم مینجمنٹ کا بہترین طریقہ سکھایا گیا ہے۔ جب نماز باجماعت کا وقت ہوجاتا ہے تو دنیا کے کسی بادشاہ کے لیے بھی اس میں تاخیر نہیں کی جاتی۔ ہر مسلمان کو اس طرح وقت کی اہمیت سمجھایا گیا ہے اور وقت پر نماز ادا کرنے کا پابند کیا گیا ہے،

    إِنَّ الصَّلَاةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتَابًا مَّوْقُوتًا ﴿١٠٣﴾‏ سورة النساء
    ’’بے شک نماز اپنے مقررہ وقتوں میں مسلمانوں پر فرض ہے ‘‘

    «ایک مسلمان کا سب سے اہم کام وقت مقررہ پر نماز ادا کرنا ہے» اور جو نماز کا وقت ہے اس میں صرف نماز ہی ادا کرنا ہے۔ اس طرح ہر کام کو وقت مقررہ پر کرنا سکھایا گیا ہے جو کہ«ٹائم مینجمنٹ»کی بہترین مثال ہے۔ پنجگانہ نماز کے ذریعے«ٹائم مینجمنٹ» کی تربیت ذیل میں پیش کی جارہی ہے:
     
  6. اجمل

    اجمل محسن

    شمولیت:
    ‏فروری 10, 2014
    پیغامات:
    709
    نمازِ فجر سے ٹائم مینجمنٹ

    اللہ تعالیٰ نے سورۃ الفجر میں فجرکے وقت کی قسم کھائی ہے : «وَالْفَجْرِ - قسم ہے فجر کی»۔ فجر کا وقت ایک مسلمان کا روزانہ کا پرائم ٹائم ہے اور یہ اتنا برکت والا وقت ہے کہ قرآن کریم میں اللہ رب العزت فجر کے وقت پر قسم کھا رہے ہیں اور اللہ کے رسول ﷺ اپنے رب سے اپنی امت کے لیے صبح وقت میں برکت کی دعا مانگ رہے ہیں: « اللَّهُمَّ بَارِكْ لِأُمَّتِي فِي بُكُورِهَا ۔۔۔ اے اللہ! میری امت کو صبح کے وقت میں برکت دے »۔(سنن ابي داود: 2606، سنن ترمذي: 1212)

    اور ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ ﷝ روایت کرتی ہیں کہ پیارے نبی ﷺ نے فرمایا : ’’فجر کی دو رکعت پوری دنیا اور جو کچھ اس میں ہے، اس سے بہتر ہیں ‘‘۔ (صحيح مسلم: 725)

    اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرماتا ہے:

    أَقِمِ الصَّلَاةَ لِدُلُوكِ الشَّمْسِ إِلَىٰ غَسَقِ اللَّيْلِ وَقُرْآنَ الْفَجْرِ ۖ إِنَّ قُرْآنَ الْفَجْرِ كَانَ مَشْهُودًا ‎(٧٨) سورة الإسراء
    ’’آپ سورج ڈھلنے سے لے کر رات کی تاریکی تک نماز قائم فرمایا کریں اور نمازِ فجر کا قرآن پڑھنا بھی (لازم کر لیں)، بیشک نمازِ فجر کے قرآن میں (فرشتوں کی) حاضری ہوتی ہے‘‘۔

    «لِدُلُوكِ الشَّمْسِ» سے لے کر «غَسَقِ اللَّيْل» تک کے وقت سے مراد (ظہر، عصر، مغرب اور عشاء کی) چار نمازیں ہیں جبکہ «قُرْآنَ الْفَجْرِ» سے مراد فجر کی نماز ہے۔ چونکہ فجر کی نماز میں قرآن پاک کی طویل تلاوت کا حکم ہے اس لیے اسے« قُرْآنَ الْفَجْرِ» کہا گیا ہے۔

    اور سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ کے ہاں سب سے افضل نماز جمعہ کے دن کی نماز فجر ہے، جسے باجماعت ادا کیا جائے“۔ (سلسلہ احاديث صحيحہ ترقیم البانی: 1566)

    ہر چند کہ یہ پانچوں نمازیں وہ گلدستہ ہیں جن کے ہر پھول کی اپنی خوشبو ہے مگر فجر کی نماز کا مقامِ شرف یابی بلند تر ہے۔ اس ملکوتی وقت میں اللہ سے محبت کرنے والے بندے ہی بیدار ہوتے ہیں کہ یہ وقت خیر و برکت، کشائشِ رزق اور آسودگی کا باعث ہے۔ صبح کے وقت عبادت کا اپنا لطف ہے کیونکہ ہر طرف یک گونہ یکسوئی، اطمینان اور سپیدۂ سحر کے نور بکھرے ہوتے ہیں۔ لہذا زندگی میں خیر و برکت حاصل کرنے اور بڑھاپے کو بابرکت و باسعادت بنانے کے لیے فجر کی نماز کا باجماعت اہتمام بہت ضروری ہے، سونے جاگنے کی ٹائم مینجمنٹ کے سے ہی اسے ممکن بنایا جاسکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین
    (ماخوذ: بابرکت و باسعادت بڑھاپا، اس کتاب کی پرنٹیڈ ہارڈ کاپیاں موجود ہیں جولینا چاہتے ہوں وہ رابطہ کرسکتے ہیں ، واٹس اپ 03363780896 پر)۔
    ۔
     
    Last edited: ‏دسمبر 8, 2023
  7. اجمل

    اجمل محسن

    شمولیت:
    ‏فروری 10, 2014
    پیغامات:
    709
    نمازِ ظہرکے لیے ٹائم مینجمنٹ

    صبح کی سنت، فرض اور اشراق و چاشت کی نمازوں کے بعد انسان اپنی دنیاوی معمولات میں لگ جاتا ہے اور تقریباً چھ سے آٹھ (٦-٨) گھنٹے کے بعد نماز ظہر کا وقت ہوجاتا ہے۔ ایک مسلمان کو اپنے اوقات کار کو اس طرح ترتیب دینے کی ضرورت ہے کہ وہ ٦-٨ گھنٹے بعد سب سے اہم فریضےکے لیے اپنے آپ کو دوبارہ فارغ کرلے اور مسجد میں آکر نماز ظہر ادا کرے۔

    وَ النَّہَارِ اِذَا تَجَلیٰ ۙ۔۔۔ (2) سورة الليل
    ’’اور قسم ہے دن کی جب روشن ہو‘‘

    ظہر کے وقت کی اہمیت بتانے کے لیے اس آیت میں قسم کھائی گئی ہے۔ ظہر کی نماز کی فضیلت کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’جس نے ظہر سے پہلے اور ظہر کے بعد چار رکعتیں پڑھنے کی پابندی کی، اللہ اس پر جہنم کی آگ حرام کر دے گا‘‘۔(سنن ترمذي: 428، سنن نسائي: 1817)

    لیکن جو وقت کی پابندی نہیں کرتا اس کے لیے نماز کی پابندی کرنا بھی مشکل ہوتا ہے۔ اس لیے ہر مسلمان کو اپنے تمام کام کی اوقات بندی ( ٹائم مینجمنٹ) کرنا لازمی اور اہم ہے، تب ہی وہ اپنے رب کے لیے مسجد میں وقت پر نمازیں ادا کرنے جاسکتا ہے۔
    (ماخوذ: بابرکت و باسعادت بڑھاپا، اس کتاب کی پرنٹیڈ ہارڈ کاپیاں موجود ہیں جولینا چاہتے ہوں وہ رابطہ کرسکتے ہیں ، واٹس اپ 03363780896 پر)۔
     
  8. اجمل

    اجمل محسن

    شمولیت:
    ‏فروری 10, 2014
    پیغامات:
    709
    قیلولہ کے لیے ٹائم مینجمنٹ

    مسلمانوں میں نمازِ ظہر کے بعد کھانا کھانا اور پھر تھوڑی دیر کے لیے قیلولہ کرنا سنت ہے۔ سیدنا انس ﷛ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’ قیلولہ کیا کرو کیونکہ شیاطین قیلولہ نہیں کرتے‘‘۔ (سلسلہ احاديث صحيحہ ترقیم البانی: 1647)

    قیلولہ بہت ساری ذہنی و جسمانی بیماریوں سے محفوظ رکھنے اور کارکردگی میں اضافہ کرنے کا باعث ہے۔ اس لیے قیلولہ کرنے کے لیے اوقات بندی (ٹائم مینجمنٹ کرنا) بھی ضروری ہے تاکہ دن کے بقیہ حصے کا کام بہتر طریقے سے انجام دیا جا سکے اور رات کو عبادت کرنا آسان ہو۔اس لیے آپ ﷺ نے یہ بھی فرمایا: ’’دن کے روزے میں سحری کھانے سے مدد لو، اور قیلولہ سے رات کی عبادت میں مدد لو‘‘۔ (سنن ابن ماجہ: 1693)

    دین اسلام ہر معاملے میں راہ اعتدال اپنانے کی ترغیب دیتا ہے۔ عبادت میں مشغول ہوکر دنیا کے لیے بیکار ہونا بھی نہیں ہے اور نہ ہی دنیاوی کام کاج میں مصروف ہوکر اپنے آپ کو اتنا تھکا دینا ہے کہ انسان صحیح وقت پر عبادت بھی نہ کر سکے۔ اس لیے دنیاوی کام کاج سے فراغت حاصل کرکے آرام کرنا ضروری ہے تاکہ عبادت میں مدد مل سکے۔ یہ سارے معاملات اوقات بندی ( ٹائم مینجمنٹ) سے ہی ممکن ہے۔

    (ماخوذ: بابرکت و باسعادت بڑھاپا، اس کتاب کی پرنٹیڈ ہارڈ کاپیاں موجود ہیں جولینا چاہتے ہوں وہ رابطہ کرسکتے ہیں ، واٹس اپ 03363780896 پر)۔
     
  9. اجمل

    اجمل محسن

    شمولیت:
    ‏فروری 10, 2014
    پیغامات:
    709
    نماز عصر کی اہمیت اور ٹائم مینجمنٹ کی تربیت

    ظہر کے بعد نمازِ عصر کا وقت آتا ہے۔ ایک مسلمان کے روزانہ کے معمولات میں یہ دوسرا پرائم ٹائم (Prime Time) ہے کیونکہ دوپہر میں قیلولہ کے بعد انسان پھر سے تروتازہ اور متحرک ہو جاتا ہے۔ نماز عصر کی بڑی اہمیت، شدید تاکید اور بڑی فضیلت ہے۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اپنی پاک کلام میں جہاں دیگر نمازوں کی پابندی کا حکم دیا ہے، وہیں ایک مسلمان کو نماز عصر کا خاص اہتمام کرنے کا حکم جاری کیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

    حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاةِ الْوُسْطَىٰ وَقُومُوا لِلَّهِ قَانِتِينَ ‎﴿٢٣٨﴾ سورة البقرة
    ’’تمام نمازوں کی حفاظت کرو، بالخصوص درمیان والی (یعنی عصر کی) نماز کی اور اللہ تعالیٰ کے لیے باادب کھڑے رہا کرو‘‘ ۔

    اور اسی طرح اللہ تعالیٰ نے سورۃ العصر میں جو قسم کھائی ہے، وہ ہے: « وَالْعَصْرِ ۔ ’’قسم ہے عصر کی‘‘»، بعض مفسرین کے قول کے مطابق یہاں بھی نماز عصر مراد ہے-

    نماز عصر اتنی اہم نماز ہے کہ اس کی اہمیت کا اندازہ اس روایت سے لگایا جا سکتا ہے کہ پیارے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’ جس کی نماز عصر چھوٹ گئی گویا اس کا گھر اور مال سب لٹ گیا‘‘۔ (صحيح البخاري: 552)

    یعنی عصر جیسی مبارک نماز کا فوت ہونا بربادیٔ اعمال میں سے ہے-

    اسی طرح آپ ﷺ نے فرمایا:’’ رات اور دن میں فرشتوں کی ڈیوٹیاں بدلتی رہتی ہیں جبکہ فجر اور عصر کی نمازوں میں (ڈیوٹی پر آنے والوں اور رخصت پانے والوں کا) اجتماع ہوتا ہے۔ پھر تمہارے پاس رہنے والے فرشتے جب اوپر چڑھتے ہیں تو اللہ تعالیٰ پوچھتا ہے حالانکہ وہ ان سے بہت زیادہ اپنے بندوں کے متعلق جانتا ہے، کہ میرے بندوں کو تم نے کس حال میں چھوڑا تو وہ جواب دیتے ہیں کہ ہم نے جب انہیں چھوڑا تو وہ (فجر کی) نماز پڑھ رہے تھے اور جب ان کے پاس گئے تب بھی وہ (عصر کی) نماز پڑھ رہے تھے‘‘۔ (صحيح البخاري: 555)

    سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ جنگ خندق کے موقعے پر جب ایک دن آپ ﷺ عصر کی نماز وقت پر ادا نہ کر سکے تو آپ ﷺ نے کافروں کے حق میں بددعا کی اور فرمایا: ’’ان کافروں نے ہمیں صلوٰة وسطی (یعنی نماز عصر) سے روک دیا، اللہ ان کے گھروں اور قبروں کو جہنم کی آگ سے بھر دے‘‘ ۔ (صحيح مسلم: 627، سنن أبي داؤد: 409)

    نماز ععصر کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ رحمۃ للعالمین اور رحیم وشفیق پیغمبر ﷺ بھی عصر کی نماز کے قضا ہوجانے کی وجہ سے مشرکین کے لیے بددعا کررہے ہیں۔ اس لیے ہمیں اس نماز کی محافظت کے لیے خوب کوشش کرنی چاہیے کیونکہ یہ وقت ایسا ہوتا ہے کہ تاجر اپنے کاروبار میں مشغول رہتے ہیں اور دیگر لوگ اپنے اپنے کاموں میں مصروف ہوتے ہیں، اس لیے سارے ہی سستی کرجاتے ہیں لیکن بوڑھے اور ریٹائرڈ افراد چونکہ فارغ البال ہوتے ہیں اس لیے ان کی سستی کا کوئی بہانا نہیں ہوسکتا۔ لہذا اس نماز کی اہمیت کی پیشِ نظر ایسی سستی سے جان چھڑائی جائے اور اس اہم نماز کے لیے اوقات بندی یعنی ٹائم مینجمنٹ کا خاص خیال رکھا جائے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین (ماخوذ: بابرکت و باسعادت بڑھاپا، عمدہ کاغذ کلر پرنٹیڈ کتاب ریاعتی ہدیہ پر دستیاب ہے، جنہیں لینا ہووہ واٹس اپ 03363780896 کریں)۔

    **
     
  10. اجمل

    اجمل محسن

    شمولیت:
    ‏فروری 10, 2014
    پیغامات:
    709
    نمازمغرب کی اہمیت اور ٹائم مینجمنٹ کی تربیت

    نماز مغرب کا وقت بہت اہم ہے کہ اس میں تاخیر کی گنجائش بہت کم ہے۔ سلمہ بن اکوع ﷛ نے فرمایا کہ ہم نماز مغرب نبی کریم ﷺ کے ساتھ اس وقت پڑھتے تھے جب سورج پردے میں چھپ جاتا۔ (صحيح البخاري: 561)

    اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ: میری امت ہمیشہ بھلائی یا فطرت پر رہے گی جب تک وہ مغرب میں اتنی تاخیر نہ کرے گی کہ ستارے چمکنے لگ جائیں۔ (سنن ابي داود: 418)

    نمازِ مغرب میں تاخیر کی کوئی گنجائش نہیں، اس لیے ٹائم مینجمنٹ بہت ضروری ہے۔
     
  11. اجمل

    اجمل محسن

    شمولیت:
    ‏فروری 10, 2014
    پیغامات:
    709
    نماز عشاء کی اہمیت اور ٹائم مینجمنٹ کی تربیت

    مغرب کے بعد عشاء کی نماز کا وقت شروع ہوجاتا ہے۔ عشاء کی نماز اس قدر اہم ہے کہ مسلمان اور منافق ہونے میں فرق اس کے پڑھنے اور نہ پڑھنے میں ہے۔

    حضرت ابوہریرہ ﷛ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ’’ منافقوں پر فجر اور عشاء کی نماز سے زیادہ اور کوئی نماز بھاری نہیں اور اگر انہیں معلوم ہوتا کہ ان کا ثواب کتنا زیادہ ہے (اور چل نہ سکتے) تو گھٹنوں کے بل گھسیٹ کر آتے اور میرا تو ارادہ ہو گیا تھا کہ مؤذن سے کہوں کہ وہ تکبیر کہے، پھر میں کسی کو نماز پڑھانے کے لیے کہوں اور خود آگ کی چنگاریاں لے کر ان سب کے گھروں کو جلا دوں جو ابھی تک نماز کے لیے نہیں نکلے‘‘۔ (صحيح البخاري: 657)

    نماز کے معاملے میں کاہلی و سستی منافقت کی علامت ہے۔ فجر اور عشاء یہ دو وقت ایسے ہیں جو اول تو آرام و استراحت اور نیند کی لذت حاصل کرنے کے ہیں۔ اس لیے منافق اور کمزور ایمان کے مسلمان ان دونوں نمازوں میں سستی کر جاتے ہیں کیونکہ یہ دونوں اوقات مسجد میں جانا ان بدبختوں پر بہت گراں ہوتے ہیں۔ لہٰذا یہ حدیث اس طرف اشارہ کر رہی ہے کہ مخلص و صادق مومنین کو چاہیے کہ سستی و کاہلی نہ کریں اور وقت پر باجماعت نمازیں ادا کریں۔

    عشاء اور فجر کی نمازوں کو وقت پر ادا کرنے کے لیے نبی اکرم ﷺ ’’ عشاء سے پہلے سونے اور اس کے بعد بات چیت کرنے کو ناپسند فرماتے تھے‘‘۔ (صحیح بخاری: 568، صحيح مسلم: 647، سنن ترمذي: 168)

    عشاء سے پہلے سونے کی کراہت کی وجہ یہ ہے کہ اس سے عشاء فوت ہو جانے کا خدشہ رہتا ہے، اور عشاء کے بعد بات کرنا اس لیے ناپسندیدہ ہے کہ اس سے سونے میں تاخیر ہوتی ہے جس کی وجہ سے انسان کے لیے تہجد یا فجر کے لیے اٹھنا مشکل ہو جاتا ہے۔

    اکثر اہل علم نے نماز عشاء سے پہلے سونے اور اس کے بعد بات کرنے کو مکروہ کہا ہے، اور بعض نے نماز عشاء کے بعد جاگنا صرف دینی کام یعنی تعلیم و تعلم یا وعظ و تذکیر وغیرہ کے لیے جائز و مستحب قرار دیا ہے وہ بھی اس شرط پر کہ نماز فجر وقت پر ادا کی جائے، لیکن اگر نماز فجر وقت پر ادا کرنا ممکن نہ ہوسکے تو یہ جائز نہیں ہوگا۔ رہے ایسے کام جن میں کوئی دینی اور علمی فائدہ یا کوئی شرعی غرض نہ ہو مثلاً ٹیلی ویژن بینی، نیٹ سرفنگ، کھیل کود، فضول گپ شپ وغیرہ تو یہ سب ویسے بھی لغو، مکروہ اور حرام کام ہیں، عشاء کے بعد ان میں مصروف رہنے سے ان کی حرمت یا کراہت اور بڑھ جاتی ہے۔ رات میں دیر تک جاگنا طبی نقطہ نظر سے بھی انسان کے لیے کئی نقصانات کا باعث ہے۔

    وقت ایک نہایت قیمتی اور بیش بہا نعمت ہے جو ایک مرتبہ فوت ہوگئی تو دوبارہ اس کا حصول ناممکن ہے۔ رات دیر تک جاگنا صبح دیر سے اٹھنا وقت کی بربادی ہے جبکہ وقت کی حفاظت کرنے اور اس کو غنیمت جاننے کی اسلام میں سخت تاکید کی گئی۔

    غور کیجيے صبح نماز فجر کے لیے اٹھنے سے لے کر رات نماز عشاء کے فوراً بعد سونے تک دین اسلام نے ہر مسلمان کو کیسے بہترین اوقات بندی (ٹائم مینجمنٹ) اور وقت کو بابرکت بنانا سکھایا ہے لیکن افسوس کہ ساری دنیا میں آج امت مسلمہ ہی وہ امت ہے جو ٹائم مینجمنٹ کرنے، اپنے وقت کو کارآمد اور بابرکت بنانے میں دنیا کی تمام اقوام سے پیچھے ہے جبکہ دین اسلام کے مطابق ایک انسان کا وقت ہی اس کا سب سے قیمتی اثاثہ ہے جس کا اسے اپنے رب کے دربار میں کھڑے ہوکر حساب دینا ہوگا۔ اگر اس زندگی میں وقت کی قدر نہیں کی جائے اور اسے غفلت، شر اور سیئات کی نذر کر دیا جائے تو پھر عذابِ جہنم سے کیسے بچا جاسکتا ہے، جب فرمایا جائے گا:

    أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُم مَّا يَتَذَكَّرُ فِيهِ مَن تَذَكَّرَ وَجَاءَكُمُ النَّذِيرُ ۖ فَذُوقُوا فَمَا لِلظَّالِمِينَ مِن نَّصِيرٍ ‎﴿٣٧﴾‏ سورة فاطر
    ’’کیا ہم نے تمہیں اتنی عمر نہیں دی تھی کہ اس میں جو شخص نصیحت حاصل کرنا چاہتا، وہ نصیحت حاصل کر سکتا تھا اور (پھر) تمہارے پاس ڈرانے والا بھی آچکا تھا، پس اب (عذاب کا) مزہ چکھو سو ظالموں کے لیے کوئی مددگار نہ ہوگا ‘‘

    لیکن اگر ہم اس زندگی میں اپنے وقت کی قدر کریں اور اسے خیر و بھلائی کے کاموں میں صرف کریں تو (ان شاء اللہ ) کل قیامت کے دن ہمیں نیکی اور بھلائی کا بہترین اجر ملے گا،

    كُلُوا وَاشْرَبُوا هَنِيئًا بِمَا أَسْلَفْتُمْ فِي الْأَيَّامِ الْخَالِيَةِ ‎(٢٤) سورة الحاقة
    (ا ور کہا جائے گا) ’’ خوب لطف اندوزی کے ساتھ کھاؤ اور پیو اُن (اَعمال) کے بدلے جو تم گزشتہ ( دنیاوی زندگی کے) اَیام میں آگے بھیج چکے تھے‘‘۔

    سیدنا عبادہ بن صامت ﷝نے کہا: میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: میرے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سےجبریل آئے اور کہا: ’’ اے محمد! اللہ تعالیٰ نے آپ سے فرمایا ہے: میں نے آپ کی امت پر پانچ نمازیں فرض کی ہیں، جو آدمی وضو، اوقات اور سجود وغیرہ سمیت ان کا پورا حق ادا کرے گا، اس سے میرا معاہدہ ہے کہ میں اسے جنت میں داخل کروں گا، اور جو آدمی ان کی ادائیگی میں کمی کر کے مجھے ملے گا تو اس کے لیے میرے ہاں کوئی عہد نہیں ہے، چاہوں تو عذاب دوں اور چاہوں تو رحم کر دوں ‘‘۔ (سلسلہ احاديث صحيحہ ترقیم البانی: 842)

    عبداللہ بن مسعود ﷛ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا کہ اللہ تعالیٰ کو کون سا عمل زیادہ محبوب ہے؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا: ’’وقت پر نماز پڑھنا، والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنا، اور اللہ کی راہ میں جہاد کرنا ‘‘۔ (صحيح البخاري: 7534، سنن نسائي: 611)

    اسود بن یزید نے حضرت عائشہ ﷝ سے پوچھا کہ گھر میں نبی کریم ﷺ کیا کیا کرتے تھے؟ ام المؤمنین ﷝ نے بیان کیا کہ ’’نبی کریم ﷺ اپنے گھر کے کام کاج یعنی اپنے گھر والیوں کی خدمت کیا کرتے تھے اور جب نماز کا وقت ہوتا تو فوراً (کام کاج چھوڑ کر) نماز کے لیے چلے جاتے تھے‘‘۔ (صحيح البخاري: 676)

    وقت پر نماز ادا کرنے سے ہمیں توانائی ملتی ہے اور بامقصد زندگی گزارنے کی قوت ارادی مضبوط ہوتی ہے۔ ایک بار جب ہم اپنا سب سے اہم فریضہ (نماز) وقت پر ادا کر لیتے ہیں تو باقی سارے کام آسان ہو جاتے ہیں کیونکہ اس طرح اللہ تعالیٰ کی رحمت سے ہمارے وقت میں برکت پیدا ہوجاتی ہے۔

    ایک عام مسلمان کے لیے مسجد میں جاکر پنجگانہ نمازیں باجماعت ادا کرنا وقت کا بہترین استعمال ہے جوکہ وقت کی بہترین منصوبہ بندی (ٹائم مینجمنٹ) سے ہی ممکن ہوتا ہے یعنی ہر مسلمان کو پنجگانہ نمازوں کے ذریعے ٹائم مینجمنٹ سکھایا گیا ہے۔ پس اس تربیت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ہمیں زندگی کے ہر شعبے میں اپنی تمام تر سرگرمیوں کے لیے ٹائم مینجمنٹ کرنا چاہیے تاکہ ہم اپنے وقت کا بہترین استعمال کرسکیں جو کہ دین و دنیا دونوں میں کامیابی لیے ضروری ہے۔

    یہ تو رہی ایک عام مسلمان کی بات لیکن جو لوگ اللہ تعالیٰ کے خاص بندوں میں اپنا نام لکھوانا چاہتے ہیں، انہیں اپنے وقت کو اور بہتر طریقے سے استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔ جس کے لیے خاص وقت کی خاص نفل نمازوں کا اہتمام کرنا لازمی ہے جن میں اشراق، چاشت، اوابین اور تہجد کی نمازیں اہم ہیں۔
    اللہ تعالیٰ مجھے اور آپ کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
    (ماخوذ: بابرکت و باسعادت بڑھاپا، عمدہ کاغذ کلر پرنٹیڈ کتاب ریاعتی ہدیہ پر دستیاب ہے، جنہیں لینا ہووہ واٹس اپ 03363780896 کریں)۔
    ۔
     
    Last edited: ‏دسمبر 16, 2023
  12. اجمل

    اجمل محسن

    شمولیت:
    ‏فروری 10, 2014
    پیغامات:
    709
    نماز تہجد کی اہمیت اور ٹائم مینجمنٹ کی تربیت

    پھر جو لوگ عام سے خاص بننا چاہتے ہیں ان کو نماز تہجد کے لیے بھی ٹائم مینجمنٹ کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ تنہائی میں پڑھی جانے والی یہ نماز اللہ کے خاص بندوں کے لیے ہے اور اللہ تعالیٰ سے ملاقات اور مناجات کا دروازہ ہے۔ احادیث نبوی ﷺ میں اس کی بہت زیادہ فضیلت بیان ہوئی ہے۔

    رسول اللہ ﷺ مدینہ طیبہ پہنچ کر اپنے پہلے خطبے میں فرمایا: ’’اے لوگو! سلام عام کرو، لوگوں کو کھانا کھلاؤ، رحموں کو ملاؤ (‏‏‏‏یعنی رشتہ داریوں کے حقوق ادا کرو) اور اس وقت اٹھ کر (‏‏‏‏تہجد کی) نماز پڑھو جب لوگ سوئے ہوئے ہوں، تم جنت میں سلامتی کے ساتھ داخل ہو جاؤ گے‘‘۔ (سلسلہ احاديث صحيحہ ترقیم البانی: 569)

    اور آپ ﷺ نے یہ بھی فرمایا: ’’مومن کا اعزاز رات کی نماز (تہجد) میں ہے اور اس کی عزت و آبرو اس چیز سے بے نیاز ہو جانے میں ہے جو (دنیا کی صورت میں) لوگوں کے ہاتھ میں ہے‘‘۔ (سلسلہ احاديث صحيحہ ترقیم البانی: 1903)

    حضرت عبداللہ بن عمرو ﷟ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ’’اللہ تعالیٰ کو تمام نفل نمازوں میں سب سے زیادہ محبوب نماز، صلاۃِ داؤد علیہ السلام ہے۔ وہ آدھی رات سوتے (پھر اٹھ کر) تہائی رات عبادت کرتے اور پھر چھٹے حصے میں سو جاتے‘‘۔ (صحيح مسلم: 1159)

    نمازِ تہجد کی کم از کم دو رکعات ہیں اور زیادہ سے زیادہ بارہ رکعات ہیں۔ بعد نمازِ عشاء بسترِ خواب پر لیٹ جائیں اور سو کر رات کے کسی بھی وقت اٹھ کر نمازِ تہجد پڑھ لیں، بہتر وقت نصف شب اور آخر شب ہے۔ تہجد کے لیے اٹھنے کا یقین ہو تو آپ عشاء کے وتر چھوڑ سکتے ہیں، اس صورت میں وتر کو نماز تہجد کے ساتھ آخر میں پڑھیں یوں بشمول آٹھ نوافلِ تہجد کل گیارہ رکعات بن جائیں گی۔ رات کا اٹھنا یقینی نہ ہو تو وتر نماز عشاء کے ساتھ پڑھ لینا بہتر ہے۔

    اُمّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی ﷲ عنہا روایت کرتی ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ ہمیشہ رات کو گیارہ رکعات پڑھتے تھے، ایک رکعت کے ساتھ تمام رکعات کو طاق بنا لیتے، نماز سے فارغ ہونے کے بعد دائیں کروٹ لیٹ جاتے حتی کہ آپ کےپاس مؤذن آتا پھر آپ دو رکعت (سنت فجر) مختصرًا پڑھتے ۔ (صحيح مسلم: 736)

    جو لوگ رات کو اٹھ کر تہجد کی نماز ادا کرتے ہیں وہ لوگ بے شک اپنے وقت کا صحیح استعمال کرتے ہیں اور یہ ایک مسلمان کی ٹائم مینجمنٹ کی بہترین مثال ہے۔ اللہ تعالیٰ مجھے اور آپ سب کو بھی اس کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
    (ماخوذ: بابرکت و باسعادت بڑھاپا، عمدہ کاغذ کلر پرنٹیڈ کتاب ریاعتی ہدیہ پر دستیاب ہے، جنہیں لینا ہووہ واٹس اپ 03363780896 کریں)۔
     
  13. اجمل

    اجمل محسن

    شمولیت:
    ‏فروری 10, 2014
    پیغامات:
    709
    اشراق و چاشت کی نمازیں اور ٹائم مینجمنٹ
    اللہ تعالیٰ نے سورۃ الضحیٰ میں ’چاشت کے وقت اور رات‘ کی قسم کھاتے ہوئے ارشاد فرمایا :

    وَالضُّحَىٰ ‎(١) وَاللَّيْلِ إِذَا سَجَىٰ ‎(٢) سورة الضحى
    ’’ قَسم ہے الضحیٰ کے وقت کی (جب آفتاب بلند ہوتا ہے)، اور قَسم ہے رات کی جب وہ چھا جائے ‘‘

    نماز اشراق طلوعِ آفتاب اور اس کے بعد سورج کے قدرے بلند ہونے کے بعد ادا کی جاتی ہے، ایسا شخص جو فجر کی نماز باجماعت مسجد میں ادا کرے، پھر اپنی نماز کی جگہ میں نماز اشراق پڑھنے تک بیٹھ کر ذکر الہی میں مشغول رہے اس کی فضیلت کے بارے میں نبی ﷺ نے فرمایا کہ:’’ جس شخص نے فجر کی نماز با جماعت ادا کی، پھر سورج طلوع ہونے تک ذکر الٰہی میں مشغول رہا، پھر اس نے دو رکعتیں پڑھیں، تو یہ اس کے لیے مکمل، مکمل، مکمل حج اور عمرے کے اجر کے برابر ہونگی ‘‘۔(سنن ترمذی: 586)

    اور ابوہریرہ ﷛ نے فرمایا کہ مجھے میرے جانی دوست (نبی کریم ﷺ) نے تین چیزوں کی وصیت کی ہے کہ موت سے پہلے ان کو نہ چھوڑوں:’’ ہر مہینہ میں تین دن روزے، چاشت کی نماز اور وتر پڑھ کر سونا‘‘۔ (صحيح البخاري: 1178، صحيح مسلم: 721)۔

    (نوٹ: صلاة الضحى میں اشراق اور چاشت دونوں نمازیں شامل ہیں۔ سورج کے نیزے کے برابر بلند ہونے کے بعد فوراً ہی ادا کریں تو یہ نمازِ اشراق ہے اور اگر تھوڑی تاخیر سے ادا کریں تو یہ چاشت کی نماز کہلاتی ہے، ہر حال ہر دو صورت میں یہ نمازِ ضحی ہے؛ کیونکہ اہل علم کہتے ہیں: نمازِ ضحی کا وقت سورج کے نیزے کے برابر طلوع ہونے سے لیکر زوال سے کچھ پہلے تک ہوتا ہے)

    یہ نماز مستحب ہے، واجب نہیں ہے، لیکن اس کے باوجود ذرا ان احادیث سے اندازہ لگائیے کہ جو لوگ صبح دیر سے اٹھتے ہیں، وہ کس قدر خیر اور برکتوں سے محروم رہتے ہیں۔

    لہذا اب بڑھاپے میں اگرچہ ہماری زندگی کے ایام بہت کم بچے ہوئے ہیں لیکن اس کے باوجود وقت کے صحیح استعمال یعنی ٹائم مینجمنٹ کرکے اگر ہم ان نمازوں کی پابندی کرتے ہیں تو اپنی بقیہ زندگی کو بابرکت و باسعادت بنا سکتے ہیں اور اپنی آخرت کے لیے زیادہ سے زیادہ نیکیاں جمع کر سکتے ہیں۔
    اللہ تعالیٰ مجھے اور آپ سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
    (ماخوذ: بابرکت و باسعادت بڑھاپا، عمدہ کاغذ کلر پرنٹیڈ کتاب ریاعتی ہدیہ پر دستیاب ہے، جنہیں لینا ہووہ واٹس اپ 03363780896 کریں)۔
     
  14. اجمل

    اجمل محسن

    شمولیت:
    ‏فروری 10, 2014
    پیغامات:
    709
    نمازِ جمعہ اور ٹائم مینجمنٹ

    ٹائم مینجمنٹ بہتر طریقے سے سکھانے کے لیے ہفتے میں ایک دن اس کا شیڈول بدل دیا گیا ہے کہ تمام تجارت و کاروبار چھوڑ کر جمہ کے دن نہانے دھونے اور اذان ہوتے ہی نماز کے لیے مسجد کی طرف جانے کا حکم دیا گیا ہے:

    يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نُودِيَ لِلصَّلَاةِ مِن يَوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إِلَىٰ ذِكْرِ اللَّهِ وَذَرُوا الْبَيْعَ ۚ ذَٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ ‎(٩) فَإِذَا قُضِيَتِ الصَّلَاةُ فَانتَشِرُوا فِي الْأَرْضِ وَابْتَغُوا مِن فَضْلِ اللَّهِ وَاذْكُرُوا اللَّهَ كَثِيرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ‎(١٠) سورة الجمعة
    ’’اے ایمان والو جب جمعہ کے دن نماز کے لیے اذان دی جائے تو ذکر الہیٰ (نماز جمعہ) کی طرف لپکو اور خرید و فروخت چھوڑ دو، تمہارے لیے یہی بات بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو ۔ (اور ساتھ ہی فرمایا) پھر نمازِ جمعہ کی ادائیگی کے بعد زمین میں چلو پھرو اور الله کا فضل تلاش کرو اور الله کو بہت یاد کرو تاکہ تم فلاح پاؤ ‘‘

    « وَابْتَغُوا مِن فَضْلِ اللَّهِ ۔۔۔ ’’اور الله کا فضل تلاش کرو‘‘» سے مراد رزق تلاش کرنا ہے۔ یعنی نماز جمعہ سے فارغ ہو کر تم اپنے اپنے کاروبار اور دنیا کے مشاغل میں مصروف ہو جاؤ۔ مقصد اس امر کی وضاحت ہے کہ جمعہ کے دن کاروبار بند رکھنے کی ضرورت نہیں، صرف نماز کے وقت ایسا کرنا ضروری ہے۔

    اگرچہ یہ حکم جمعہ کی نماز کے ساتھ دیا جا رہا ہے لیکن یہی حکم پنجگانہ نمازوں پر بھی لاگو ہوتا ہے کہ بندہ نماز سے فارغ ہوکر بے کار لہو و لعب میں اپنا وقت ضائع نہ کرے بلکہ «فَضْلِ اللَّهِ ۔ ’’اور الله کا فضل‘‘» یعنی رزق کی تلاش میں، علم و ہنر سیکھنے میں اور دیگر دینی و دنیاوی ضروریات کے لیے تگ و دو کرے اور جو وقت میسر ہے اسے مثبت کاموں میں استعمال کرے اور اس سے فائدہ اٹھائے۔

    یومِ جمعہ اور نمازِ جمعہ کی فضیلت
    حضرت ابو ہریرۃ ﷛ سے رو یت کی کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:’’ بہتر ان دنوں میں کا جن میں سورج نکلتا ہے، جمعہ کا دن ہے کہ اسی میں آدم علیہ السلام پیدا ہوئے اور اسی میں جنت میں گئے اور اسی میں وہاں سے نکلے اور قیامت نہ ہو گی مگر اسی دن‘‘۔ (صحيح مسلم: 854)

    اسی طرح سیدنا ابوہریرہ ﷛ سے یہ بھی مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ کے نزدیک جمعہ کا دن سب سے افضل ہے“۔ ‏‏‏‏ (سلسلہ احاديث صحيحہ ترقیم البانی: 1502)

    اور سلمان فارسی ﷛ نے کہا کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:’’ جس شخص نے جمعہ کے دن اچھی طرح غسل کیا، اچھی طرح وضو کیا، سب سے اچھا کپڑا پہنا، اور اس کے گھر والوں کو اللہ نے جو خوشبو میسر کی اسے لگایا، پھر جمعہ کے لیے آیا اور کوئی لغو اور بیکار کام نہیں کیا، اور دو مل کر بیٹھنے والوں کو الگ الگ کر کے بیچ میں نہیں گھسا تو اس کے اس جمعہ سے دوسرے جمعہ تک کے گناہ معاف کر دیئے جائیں گے‘‘۔ (صحيح البخاري: 883، سنن ابن ماجہ: 1097)

    سیدنا ابوہریرہ ﷛ نے یہ بھی بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’ نماز (جمعہ) کی طرف جلدی آنے والے کی مثال اس آدمی کی طرح ہے جو اونٹ کا صدقہ پیش کرتا ہے، اس کے بعد آنے والے کی مثال اس طرح ہے جو گائے کا صدقہ پیش کرتا ہے، اس کے بعد آنے کی مثال اس طرح ہے جو دنبے کا صدقہ پیش کرتا ہے، اس کے بعد آنے کی مثال اس کی طرح ہے جو مرغی کا صدقہ پیش کرتا ہے اور اس کے بعد آنے کی مثال اس طرح ہے جو انڈے کا صدقہ پیش کرتا ہے‘‘۔ (سلسلہ احاديث صحيحہ ترقیم البانی: 3576)

    اسی طرح آپ ﷛ سے یہ بھی روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:’’ پانچوں نمازیں اور جمعہ، دوسرے جمعہ تک اور ماہ رمضان، اگلے رمضان تک ان تمام گناہوں کا کفارہ بن جاتے ہیں، جو ان کے درمیانی وقفوں میں سرزد ہو جاتے ہیں، جب تک کبیرہ گناہوں سے اجتناب کیا جائے ‘‘۔ (سلسلہ احاديث صحيحہ ترقیم البانی: 3322)

    صغیرہ گناہ نیکیوں کی برکت سے معاف ہوجاتے ہیں۔ کبیرہ گناہ صرف توبہ سے معاف ہوتےہیں۔ بعض کبیرہ گناہ ایسے ہوتے ہیں جن کی موجودگی میں نیک اعمال کرنے کے باوجود صغیرہ گناہ معاف نہیں ہوتے۔ اس لیے بندۂ مومن کو ہر کبیرہ اور صغیرہ گناہ سے بچنا چاہیے کہ نجانے کس گناہ کی پکڑ ہوجائے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ہرطرح کی گناہ و معصیت سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

    (ماخوذ: بابرکت و باسعادت بڑھاپا، عمدہ کاغذ کلر پرنٹیڈ کتاب ریاعتی ہدیہ پر دستیاب ہے، جنہیں لینا ہووہ واٹس اپ 03363780896 کریں)۔
    ۔
     
  15. اجمل

    اجمل محسن

    شمولیت:
    ‏فروری 10, 2014
    پیغامات:
    709
    رمضان المبارک میں ٹائم مینجمنٹ

    قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
    يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ ‎۔(١٨٣) سورة البقرة
    ’’اے ایمان والو! تم پر روزے رکھنا فرض کیا گیا جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے، تاکہ تم تقویٰ اختیار کرو ‘‘

    بس ابھی ابھی رمضان کی چاند نظر آنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ اب فکر ہے نماز عشا کے لیے مسجد جانے کی اور پھر نماز عشا اور تراویح پڑھنے کی۔ پھر صبح سحری کے لیے اٹھنا ہے اور سحری میں تھوڑا جلدی اٹھنا ہے تاکہ تہجد بھی ادا کی جاسکے، پھر نماز فجر پڑھنا ہے اور صبح کے اذکار وغیرہ سے مستفید ہونا ہے، اشراق و چاشت پڑھ کر اپنے دن کو روشن کرنا ہے۔ تھوڑی سی نیند لینی ہے اور رزق کی تلاش میں نکل جانا ہے۔ کام دھندے میں جت جانا ہے، ساتھ میں ذکر بھی کرتے رہنا ہے۔ اسی طرح 4-5 گھنٹے گزر جاتے ہیں اور ظہر کا وقت ہوجاتا ہے تو ظہر کی نماز کے لیے مسجد میں جانا اور نماز ادا کرنا ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ جس بندے کے ساتھ آسانی کی ہو اسے تھوڑا آرام/قیلولہ کرنے کا موقعہ مل جاتا ہے ورنہ اکثریت تو ایسوں کی ہے جو سارا دن نان نفقہ کے لیے محنت مزدوری کرتے رہتے ہیں۔ اسی دوران نمازِ عصر بھی ادا کر لیتے ہیں۔ پھر دنیاوی معمولات سے تھک کر غروب سورج کے قریب اپنے گھر پہنچتے ہیں۔ بعض عصر کے وقت بھی پہنچ جاتے ہیں۔ وقت مل جائے تو تھوڑی دیر آرام کرلیتے ہیں یا پھر اپنے رب کی خوش نودی حاصل کرنے کے لیے قرآن مجید کی تلاوت یا ذکر اذکار میں مشغول ہوجاتے ہیں۔ آخر میں غروب آفتاب کے ساتھ روزہ افطار کرتے ہیں اور نماز مغرب ادا کرنے کے لیے مسجد کی طرف چل پڑتے ہیں۔

    رمضان المبارک میں ایک مسلمان کو روزانہ اسی طرح کے سخت نظام الاوقات کا پابند ہونا پڑتا ہے اور اس طرح زبردست ٹائم مینجمنٹ کی ضرورت پڑتی ہے۔ لیکن افسوس کہ رمضان المبارک میں اتنا زبردست ٹائم مینجمنٹ کرنے والی امت دنیاوی معاملات میں غفلت برتتی ہے اور اسی بنا پر آج دنیا کی تمام اقوام سے پیچھے ہے۔ لوگ روزہ اور نماز کو تو عبادت سمجھتے ہیں لیکن دینی اور دنیاوی معاملات کے لیے اپنے وقت کا صحیح اور موثر استعمال (ٹائم مینجمنٹ) کرنا عبادت نہیں سمجھتے حالانکہ ساری عبادات وقت ہی کی مرہون منت ہے۔ اگر ہمارے ہاتھ میں وقت ہے تو ہم کچھ کر سکتے ہیں اور اگر وقت نہیں تو کچھ کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ٹائم مینجمنٹ کرنا اتنی بڑی عبادت ہے کہ آخرت میں سب سے پہلے وقت کے بارے میں ہی سوال ہوگا۔

    اب ہم سب بڑھاپے میں آچکے ہیں۔ جوانی کیسے گزاری اس سوال کا جواب تیار کرنے کا وقت ہاتھ سے نکل گیا ہے لیکن ابھی زندگی کے کچھ دن باقی ہیں، جن کا حساب دینے کے لیے وقت کا صحیح اور موثر استعمال (ٹائم مینجمنٹ) کرنا چاہیے تاکہ ہم اپنا بڑھاپا بابرکت اور باسعادت بنا سکیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
    (ماخوذ: بابرکت و باسعادت بڑھاپا، عمدہ کاغذ کلر پرنٹیڈ کتاب ریاعتی ہدیہ پر دستیاب ہے، جنہیں لینا ہووہ واٹس اپ 03262366183 کریں)۔
     
  16. اجمل

    اجمل محسن

    شمولیت:
    ‏فروری 10, 2014
    پیغامات:
    709
    شب قدر کے لیے ٹائم مینجمنٹ

    اللہ تعالیٰ نے اس امت کو جن لاتعداد نعمتوں سے نوازا ہے ان میں ایک بڑی نعمت شبِ قدر ہے، جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے خود ہی فرمایا ہے:

    إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ ‎(١) وَمَا أَدْرَاكَ مَا لَيْلَةُ الْقَدْرِ ‎(٢) لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِّنْ أَلْفِ شَهْرٍ ‎(٣) تَنَزَّلُ الْمَلَائِكَةُ وَالرُّوحُ فِيهَا بِإِذْنِ رَبِّهِم مِّن كُلِّ أَمْرٍ ‎(٤) سَلَامٌ هِيَ حَتَّىٰ مَطْلَعِ الْفَجْرِ ‎(٥) سورة القدر
    ’’بیشک ہم نے اس (قرآن) کو شبِ قدر میں نازل کیا ہے، اور آپ کیا جانیں کہ شبِ قدر کیا ہے، شبِ قدر (فضیلت و برکت اور اَجر و ثواب میں) ہزار مہینوں سے زیادہ بہتر ہے، اس (رات) میں فرشتے اور روح اپنے رب کے حکم سے ہر کام کے (انتظام کے) لیے اترتے ہیں، یہ (رات) طلوعِ فجر تک سراسر سلامتی ہے ‘‘

    اس مبارک رات کو اللہ تعالیٰ نے کیونکہ ہزار مہینوں سے افضل قرار دیا ہے اور ہزار مہینے کے تراسی برس چار ماہ بنتے ہیں، پھر «خَيْرٌ مِّنْ أَلْفِ شَهْرٍ‎» کہہ کر اس بات کی طرف اشارہ فرمایا گیا ہے کہ اللہ کریم جتنا زیادہ اجر عطا فرمانا چاہے گا، فرما ئے گا۔ اس اجر کا اندازہ انسان کے بس سے باہر ہے۔

    اس رات کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ شب قدر کو رمضان کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں ڈھونڈو (یعنی 21-23-25-27-29 کی راتیں )‘‘۔ (صحيح البخاري: 2017)

    انسان چونکہ کمزور ہے اور یہ بات اس کا خالق بہتر جانتا ہے، اس لیے اس معاملے میں بھی انسانوں پر آسانی فرمادیا ہے کہ ایک رات جاگ کر عبادت کرو اور ایک رات سو کر آرام کرلو۔لہذا اس طرح وہ آسانی سے ٹائم مینجمنٹ کر پائے گا اور شبِ قدر کی برکات حاصل کر لے گا۔

    لہذا اب جو لوگ بڑھاپے میں آچکے ہیں وہ یوں بھی کام کاج سے فارغ ہیں تو اس رات کو پانے کا اور اس میں عبادت کرکے اپنے نامۂ اعمال میں ایک ہزار مہینوں یعنی تراسی برس چار مہینوں سے زیادہ کا اجر و ثواب پانے کے لیے اپنے وقت کا صحیح استعمال (ٹائم مینجمنٹ) بڑی آسانی سے کر سکتے ہیں۔ شب قدر کو پانے کا آسان نسخہ مسجد میں آخری عشرہ کا اعتکاف ہے۔ اس طرح اگر زندگی کے اس آخری مرحلے یعنی بڑھاپے میں بھی چند شب قدر میں ہم عبادت کر لیتے ہیں تو ہمارے نامۂ اعمال میں اَن گنت مہینوں کی عبادات لکھی جائے گی جس سے ہمارا بڑھاپا بابرکت و باسعادت ہو جائے گا، ہمارے گناہوں کی بخشش، دخول جنت اور بلندیٔ درجات کا باعث ہو گا لیکن ان سب کے لیے بھی ہمیں ٹائم مینجمنٹ کرنا ہوگا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
    (ماخوذ: بابرکت و باسعادت بڑھاپا، عمدہ کاغذ کلر پرنٹیڈ کتاب ریاعتی ہدیہ پر دستیاب ہے، جنہیں لینا ہووہ واٹس اپ 03262366183 کریں)۔
    ۔
     
  17. اجمل

    اجمل محسن

    شمولیت:
    ‏فروری 10, 2014
    پیغامات:
    709
    معزز قارئین! واضح رہے کہ کہ یہاں کتاب ’’بابرکت و باسعادت بڑھاپا‘‘ سے جو مضامین پیش کیے جارہے ہیں وہ کتاب کے مطابق ترتیب وار اور مکمل نہیں ہیں۔ مکمل ترتیب وار مضامین پڑھنے کے لیے آپ پرنٹیڈ کتاب حاصل کرسکتے ہیں۔
     
  18. اجمل

    اجمل محسن

    شمولیت:
    ‏فروری 10, 2014
    پیغامات:
    709
    ذوالحجہ میں ٹائم مینجمنٹ

    اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اپنے کمال رحمت کی بدولت اپنے بندوں کو اپنی رضا و خوشنودی کے بیش بہا مواقع نصیب فرمائے ہیں تاکہ بندے ان میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے حضور نیکیاں اور اطاعت کے کام بجا لا کر اپنے گناہوں کی بخشش، اس کی رحمت و مودت اور بلندئ درجات کا انعام پا سکیں، اب بندوں کو چاہیے کہ ان اوقات کو غنیمت جانتے ہوئے ان کا صحیح اور موثر استعمال (ٹائم مینجمنٹ) کرکے اپنے تعلق کو خالق و مالک سے مضبوط کرے اور سعادت وکامرانی کا حصول ممکن بنائے۔انہی مواقع میں سے ایک عشرہ ذوالحجہ بھی ہے جس کی فضیلت و اہمیت اور احکام، قرآن و حادیث کتب میں مختلف انداز سے بیان کیے گئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں دس راتوں کی قسم کھائی ہے۔

    وَالْفَجْرِ ‎﴿١﴾‏ وَلَيَالٍ عَشْرٍ ‎﴿٢﴾‏ سورة الفجر
    ’’ قسم ہے فجر کی اور دس (مبارک) راتوں کی ‘‘

    اس قسم کھانے کا سبب بیان کرتے ہوئے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’عشرہ ذی الحجہ کے باقی ایام سے ممتاز ہونے کی ایک وجہ یہ معلوم ہوتاہے کہ اس میں بڑی بڑی عبادات جمع ہو جاتی ہیں جیسے نماز، روزہ، صدقہ اور حج- عبادات کا یہ اجتماع باقی ایام میں نہیں ہوتا‘‘ ۔(فتح الباري 460/2)

    مفسرین نے لکھا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کسی مخلوق کی قسم کھاتے ہیں تو اس قسم سے اس شے کا مقام اور اہمیت بتانا مقصود ہوتا ہے۔ یہاں اللہ تعالیٰ فجر کی اور دس (مبارک) راتوں کی کھائی ہے جس سے ان وقتوں کی اہمیت بتانا ہی مقصود ہے۔ بعض مفسرین نے فجر سے عام فجر نہیں بلکہ یوم النحر یا عید الاضحیٰ کی فجر مراد لی ہے اور دس راتوں سے مراد یکم ذی الحجہ سے دس ذی الحجہ تک کی راتیں ہیں اور یہ دس راتیں بڑی فضیلت والی اور اہم ہیں۔ جبکہ میری رائے یہ ہے کہ یہاں الفجر سے مراد ان دس راتوں سے جڑی ہر رات کی فجر ہے۔ اس طرح عشرہ ذوالحجہ کہنے سے اس میں مکمل دس دن اور دس راتیں آجاتی ہیں کیونکہ ذیل کی حدیث میں صرف دس راتوں کا نہیں بلکہ عشرہ ذوالحجہ میں کیے گئے اعمال صالحہ کا ذکر ہے جس میں صرف رات نہیں بلکہ دن کے اعمال بھی شامل ہیں، (واللہ اعلم)۔

    عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی کریم نے فرمایا :عشرہ ذوالحجہ میں کیے گئے اعمال صالحہ اللہ کو سب سے زیادہ محبوب ہیں، حتی کہ جہاد فی سبیل اللہ بھی اتنا پسندیدہ نہیں سوائے اس جہاد کے جس میں میں آدمی اپنی جان اور مال لے کر نکلے، اور پھر لوٹ کر نہ آئے(یعنی شہید ہوجائے) ۔(صحيح البخاري: 969)

    حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے عشاء جماعت سے پڑھی، گویا اس نے آدھی رات تک قیام کیا، اور جس نے عشاء اور فجر دونوں جماعت سے پڑھیں، اس نے گویا پوری رات قیام کیا“۔ (سنن ابي داود: 555، صحيح مسلم: 656)

    عشرہ ذی الحجہ میں کچھ نہیں تو عشاء اور فجر کی نمازیں باجماعت ادا کرنے کے لیے ٹائم مینجمنٹ کیجیے اور اپنی زندگی کو بابرکت و باسعادت بنائیے۔ اور اگر ہم یہ نمازیں باجماعت پڑھنے کے بعد رات کو قیام بھی کرتے ہیں تو ہمارا مقام بہت ہی اونچا ہو گا، جو کہ بڑھاپے میں کرنا بہت آسان ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔
     
  19. اجمل

    اجمل محسن

    شمولیت:
    ‏فروری 10, 2014
    پیغامات:
    709
    عشرہ ذوالحجہ کا سب سے عظیم عمل حج کے لیے ٹائم مینجمنٹ

    فرمان الٰہی ہے:
    وَلِلَّهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا ۚ (٩٧) سورة آل عمران
    ’’اور اللہ کے لیے لوگوں پر اس گھر کا حج (فرض) ہے جو اس تک پہنچنے کی طاقت رکھے‘‘

    اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سول اللہ ﷺنے فرمایا: ”حج مبرور (مقبول) کا ثواب جنت کے سوا اور کچھ نہیں ہے“۔ (صحیح البخاري: 1773، صحیح مسلم: 1349)

    ذرا غور کیجيے! اللہ تعالیٰ نے ان عظیم عبادات کے اوقات کا نام لے لے کر قسم کھائی ہے اور نبی کریم ﷺ نے ان کے فضائل بیان کر دیے ہیں۔ لہذا ہمیں ان عبادات کی اہمیت کو سمجھنا چاہیے اور اپنے وقت کا صحیح اور موثر استعمال یعنی ٹائم مینجمنٹ کرکے ان عبادات کو ادا کرنا چاہیے۔ خاص کر جو لوگ بڑھاپے میں پہنچ چکے ہیں، انہیں اس بارے میں سوچنا چاہیے کیونکہ اب ان کے پاس وقت بہت کم ہے۔ اگر ساری زندگی وقت کی اہمیت نہیں سمجھا اور اپنے وقت کی موثر اوقات بندی (ٹائم مینجمنٹ) نہیں کیاتو اب کر لیں عبادات کے لیے اپنے وقت کا صحیح اور موثر استعمال کریں تاکہ آپ کا بڑھاپا بابرکت و باسعادت ہو جائے جس سے آخرت میں نجات مل جائے اور اللہ تعالیٰ کی سب سے عظیم نعمت جنت میں داخلے کا سبب بنے۔ اللہ تعالیٰ مجھے اور آپ سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔

    بہت سے معاملات میں ٹائم مینجمنٹ کرنا مسلمانوں پر فرض ہے جیسے وقت مقررہ پر نماز پڑھنا، وقت مقررہ پر تمام دنیوی معمولات ترک کرکے مسجد کی طرف نمازِ جمعہ کے لیے چل دینا، ماہ رمضان میں وقت کی پابندی کے ساتھ روزہ رکھنا، سحری و افطار کرنا، مخصوص کیے گئے وقت کے اندر لیلۃ القدر کو تلاش کرنا، مخصوص وقت کے اندر زکوٰۃ اور فطرانہ ادا کرنا، حج کے لیے وقت مقررہ پر منیٰ، عرفات اور مزدلفہ میں قیام کرنا، رمی جمار اور قربانی کرنا، بال کٹوانا، عشرہ ذوالحجہ کی عبادات، عیدین اور ایام تشریق منانا وغیرہ۔ یہ تمام عبادتیں ٹائم مینجمنٹ کی بدولت ہی ممکن ہے۔ لیکن افسوس کہ جس دین میں ٹائم مینجمنٹ کا اتنا زبردست تصور (کنسیپٹ) دیا گیا ہو اور پھر عملی طور پر کروایا بھی گیا ہو، اس کے ماننے والے دور جدید میں ٹائم مینجمنٹ کرنے سے قاصر ہیں۔ جس کی وجہ سے دنیا کے تمام اقوام سے پیچھے ہیں اور ذلت و مسکنت ان پر چھا گئی ہے۔ یہ تو دنیا کی رسوائی ہے، آخرت کی جو رسوائی ہے وہ تو کچھ زیادہ ہی بھیانک ہے جس کا تصور بھی دنیا میں رہتے ہوئے نہیں کیا جاسکتا ہے۔

    میرے پیارے عمر رسیدہ دوستو! زندگی کا پرائم ٹائم (جوانی) ہم غفلت میں گزار چکے ہیں۔ اب جو وقت ہے یہ ہمیں بونس کے طور پہ ملا ہوا ہے۔ لہذا اپنی بقیہ زندگی کو زیادہ نتیجہ خیز، بامعنی، پرلطف، بابرکت اور باسعادت بنانا صرف ٹائم مینجمنٹ کے ذریعہ وقت کے درست استعمال پر منحصر ہے ۔
    دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے اور ہمارے نوجوانوں کو اپنے پرائم ٹائم کی قدر کرنے اور اس کی مثبت استعمال کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

    (ماخوذ: بابرکت و باسعادت بڑھاپا، عمدہ کاغذ کلر پرنٹیڈ کتاب ریاعتی ہدیہ پر دستیاب ہے، جنہیں لینا ہووہ واٹس اپ 03262366183 کریں)۔
    ۔
     
  20. اجمل

    اجمل محسن

    شمولیت:
    ‏فروری 10, 2014
    پیغامات:
    709
    بڑھاپے میں شرعی رخصتیں اور رعایتیں

    يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ ﴿١٨٥﴾‏ سورة البقرة
    ’’اللہ تمہارے حق میں آسانی چاہتا ہے اور سختی نہیں چاہتا‘‘​

    اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’بے شک اللہ کا دین آسانیوں والا ہے، بے شک اللہ کا دین آسانیوں والا ہے، بے شک اللہ کا دین آسانیوں والا ہے ‘‘۔ (صحيح البخاري: 39)

    وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّينِ مِنْ حَرَجٍ ۚ مِّلَّةَ أَبِيكُمْ إِبْرَاهِيمَ ۚ (٧٨) سورة الحج
    ’’ اور اس (اللہ) نے تم پر دین میں کوئی تنگی نہیں رکھی، (یہی) تمہارے باپ ابراہیم (علیہ السلام) کا دین ہے‘‘​

    اور رسوال اللہ ﷺ نے یہ بھی فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ نے اس امت کے لیے آسانی کو پسند اور تنگی کو ناپسند کیا ہے (آپ ﷺ نے یہ بات تین دفعہ ارشاد فرمائی)‘‘ ۔(سلسلہ احاديث صحيحہ ترقیم البانی: 1635)

    اسلام کی بے شمار خوبیوں میں سے ایک خوبی یہ ہے کہ شریعت کے احکام پر عمل کرنے والوں کو ان کی استطاعت کے مطابق ہی انہیں مکلف ٹھہرایا گیا ہے اور ان پر اسی قدر مشقت ڈالی گئی ہے جتنی وہ آسانی سے برداشت کرسکیں اور عمل کرنے کے دوران انہیں سختی اور بے جا مشقت نہ سہنی پڑے۔

    لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا ۚ﴿٢٨٦﴾‏سورة البقرة
    ’’اﷲ کسی جان کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتے ‘‘​

    یہ عمومی طور پر تمام مسلمانوں کے لیے ہے اور خصوصی طور پر اللہ تعالٰی بوڑھے، معذور ،کمزور اور بیمار لوگوں پر زیادہ بوجھ نہیں ڈالا۔ شریعتِ اسلامیہ میں معاشرے کے کمزور طبقہ یعنی بوڑھے و معذور اور لاچار و بیمار افراد کے لیے بہت ساری رعایتیں دی گئی ہیں اور خصوصی آسانیاں پیدا کی گئی ہیں۔

    عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ انسان چونکہ ذہنی و جسمانی طور پر کمزور ہوجاتا ہے۔ لہذا جن عبادات میں جسم کو محنت و مشقت کرنی پڑتی ہے کمزوروں، بیماروں اور بوڑھوں کے لیے ان میں کچھ رعایتیں دی گئی ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ مالی عبادات کے معاملے میں مالداروں پر کوئی رعایت نہیں دی گئی، چاہے وہ بوڑھے ہوں، بیمار ہوں یا کمزور ہوں۔
    (ماخوذ: بابرکت و باسعادت بڑھاپا، عمدہ کاغذ کلر پرنٹیڈ کتاب ریاعتی ہدیہ پر دستیاب ہے، جنہیں لینا ہووہ واٹس اپ 03262366183 کریں)۔
    ۔
     
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں