بابرکت و باسعادت بڑھاپا

اجمل نے 'اسلامی کتب' میں ‏اکتوبر، 21, 2023 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. اجمل

    اجمل محسن

    شمولیت:
    ‏فروری 10, 2014
    پیغامات:
    709
    نماز کی رخصتیں
    اِستطاعت سے زیادہ بوجھ سے اِستثناء کا حق:
    سیدنا ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’جب کوئی تم میں سے نماز پڑھائے (جماعت کروائے) تو ہلکی نماز پڑھے اس لیے کہ جماعت میں بچے، بوڑھے، ناتواں اور بیمار ہوتے ہیں۔ اور جب اکیلے نماز پڑھے تو جس طرح جی چاہے پڑھے‘‘۔ (صحيح مسلم: 467، صحيح البخاري: 703)
    نماز ہلکی اور مختصر ہونے کا مفہوم یہ ہے کہ قراءت مختصر اور اذکار تسبیحات کی تعداد مناسب حد تک کم ہو، اہم شرط یہ ہے کہ ارکان میں اعتدال و اطمینان ہو کیونکہ عدم اعتدال سے نماز باطل ہو جاتی ہے۔
    غور کیجیے: شریعت میں نماز جیسی اس عظیم عبادت میں بھی معمر افراد کا خیال رکھتے ہوئے اسے مختصر کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
    لہذا بڑھاپے کے باوجود باجماعت نماز کا اہتمام کرنا بڑھاپے کو بابرکت و باسعادت بنانے کے لیے ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین۔
    (ماخوذ: بابرکت و باسعادت بڑھاپا، عمدہ کاغذ کلر پرنٹیڈ کتاب ریاعتی ہدیہ پر دستیاب ہے، جنہیں لینا ہووہ واٹس اپ 03262366183 کریں)۔
     
  2. اجمل

    اجمل محسن

    شمولیت:
    ‏فروری 10, 2014
    پیغامات:
    709
    نماز کی رخصتیں:
    اعصابی کمزوری اور جوڑوں کا درد کی وجہ سے:
    عمر رسیدہ افراد اعصابی کمزوری اور جوڑوں کے درد میں مبتلا ہوتے ہیں جس کی وجہ سے انہیں نماز کے دوران قیام، رکوع، سجود وغیرہ کی ادائیگی میں جوڑوں میں درد محسوس ہوتا ہے اور وہ نماز کے ان ارکان کو صحیح طور پر ادا کر نہیں پاتے تو اس بارے میں شریعت میں خصوصی رعایت موجود ہے۔ عمران بن حصین ﷟ کو بواسیر کا مرض تھا تو انہوں نے آنحضرت ﷺ سے نماز پڑھنے کے بارے میں دریافت کیا، تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ: ’’ کھڑے ہو کر نماز پڑھا کرو اگر اس کی بھی طاقت نہ ہو تو بیٹھ کر اور اگر اس کی بھی نہ ہو تو پہلو کے بل لیٹ کر پڑھ لو‘‘ ۔ (صحيح البخاري: 1117)

    ایسے ہی ایک روایت میں آیا ہے کہ نبی رحمت ﷺ ایک مریض کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے تو آپ نے دیکھا کہ وہ ایک لکڑی پر نماز پڑھ رہا ہے اور (سجدہ کرتے وقت) اپنی پیشانی اس پر ٹیکتا ہے، آپ ﷺ نے اس کی طرف اشارہ کیا اور لکڑی کو پھینک دیا، اس نے تکیہ پکڑ لیا، آپ ﷺ نے فرمایا:’’اس کو ہٹا دے، اگر تجھے زمین پر سجدہ کی طاقت ہے تو ٹھیک، وگرنہ اشارے سے نماز پڑھ اور سجدوں کے لیے رکوع کی بہ نسبت زیادہ جھک‘‘۔ (سلسلہ احاديث صحيحہ، ترقیم البانی: 323)

    اسی طرح حالت قیام میں یا ایک رکن سے دوسرے رکن کی طرف انتقال میں بیساکھی یا کسی ستون یا ہاتھوں کا سہارا لیا جائے تو اس میں بھی حرج نہیں، خود رسول اللہ ﷺ جب تکلیف میں ہوتے تو چار زانو ہوکر بیٹھتے پھر نماز پڑھتے۔ ام المؤمنین عائشہ ﷝ کہتی ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کو پالتی مار کر بیٹھ کر نماز پڑھتے دیکھا۔(سنن نسائي: 1662)

    ایک اور حدیث میں ام المؤمنین عائشہ صدیقہ ﷝ سے روایت ہے، آپؓ نے فرمایا کہ آپ نے رسول اللہ ﷺ کو کبھی بیٹھ کر نماز پڑھتے نہیں دیکھا البتہ جب آپ ضعیف ہو گئے تو قراءت قرآن نماز میں بیٹھ کر کرتے تھے، پھر جب رکوع کا وقت آتا تو کھڑے ہو جاتے اور پھر تقریباً تیس یا چالیس آیتیں پڑھ کر رکوع کرتے۔ (صحيح البخاري: 1118)

    اور ہلال بن یساف کہتے ہیں: میں رقہ میں گیا، میرے ساتھیوں نے مجھے کہا: کیا تجھے کسی صحابی سے ملاقات کرنے کی رغبت ہے؟ میں نے کہا: یہ تو غنیمت ہے۔
    چنانچہ ہم سیدنا وابصہ رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچے۔ میں نے اپنے رفیق سے کہا: ہم پہلے اس کی ظاہری وضع قطع پر نگاہ ڈالیں گے۔ (ہم کیا دیکھتے ہیں کہ) ان کے سر پر دو پھندنوں یا کونوں والی دو پلی ٹوپی ہے اور خاکی رنگ کا اونی اور آستین دار کرتا پہنا ہوا ہے اور وہ اپنی لاٹھی پر ٹیک لگا کر نماز ادا کر رہے ہیں۔ ہم نے سلام کہا اور (نماز میں لاٹھی کا سہارا لینے کے بارے میں) پوچھا۔ انہوں نے کہا: سیدہ ام قیس بنت محصن رضی اللہ عنہا نے مجھے بیان کیا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عمر رسیدہ ہوئے اور آپ کا جسم بھاری ہو گیا تو ایک ستون کا سہارا لے کر نماز پڑھتے تھے۔ (سلسلہ احاديث صحيحہ ترقیم البانی: 3036)

    لہذا ہم بھی بڑھاپے کی ضعف اور کمزوری میں نبی کریم ﷺ کی ان سنتوں کو اپنا سکتے ہیں اور اپنا بڑھاپا بابرکت و باسعادت بنا سکتے ہیں۔
    ماخوذ: کتاب بابرکت و باسعادت بڑھاپا، اس کتاب کی پرنٹیڈ ہارڈ کاپیاں موجود ہیں جولینا چاہتے ہوں وہ مجھ سے رابطہ کرسکتے ہیں ، واٹس اپ 03262366183 پر۔
     
  3. اجمل

    اجمل محسن

    شمولیت:
    ‏فروری 10, 2014
    پیغامات:
    709
    نماز کی رخصتیں:
    سلسل البول ، سلسل الریاح ، رسنے والا زخم وغیرہ کی وجہ سے رخصتیں

    بہت سے بزرگ افراد ان عارضوں میں مبتلا ہوتے ہیں۔ سلسل البول میں پیشاپ کے قطرات گرتے رہتے ہیں ، سلسل الریاح میں ریاح کو روکنے پر کنٹرول نہیں ہوتا اور رسنے والا زخم جس سے خون رستا رہتا ہے۔ ان عارضوں میں مبتلا لوگوں کا وضو برقرار نہیں رہتا، جبکہ نماز کے لیے وضو شرط ہے لیکن جو شخص ایسے کسی عارضے میں مبتلا ہو تو وہ شرعاً معذور ہے۔

    ان کا حکم یہ ہے کہ وہ ہر نماز کے لیے نماز کے وقت ہونے پر تازہ وضو کر کے نماز ادا کرلے، پھر وقت کے اندر اندر جس قدر چاہے نماز ادا کرے، جتنا چاہےقرآن پاک پڑھے۔ جب تک وقت باقی ہے، وضو نہیں ٹوٹے گا، ہاں کسی اور وجہ سے وضو ٹوٹ سکتا ہے لیکن جونہی وقت ختم ہوا وضو جاتا رہا۔ اب نئے وقت کی نماز کے لیے از سر نو وضو کرے۔ ایسے شخص کے لیے ضروری ہے کہ وہ ہر نماز کے لیے اس کا وقت ہونے پر تازہ وضو کرے یعنی پانچ وقت کی نماز کے لیے پانچ مرتبہ تازہ وضو کرے۔

    بعض علما کہتے ہیں کہ سلسل بول کا مریض انڈر ویئر وغیرہ پہن لے اور اس میں کوئی کپڑا وغیرہ رکھ لے، ہر نماز کے وقت وہ کپڑا تبدیل کر لے۔ پہلے والے کپڑے کو پانی سے دھو کر پاک کرنے کے بعد سُکھا کر دوبارہ استعمال کر سکتا ہے۔ جب بھی وضو کرے صرف وہ کپڑا تبدیل کر لے، پورا لباس تبدیل کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ آج کل بعض لوگ ڈایاپر اور پیمپر بھی استعمال کرتے ہیں، لیکن یہ ہر نماز سے پہلے تبدیل کرنا ضروری ہوگا۔ ڈایاپر اور پیمپر صرف ایک مرتبہ استعمال کرنے کے لیے بنایا جاتا ہے لیکن پھر بھی اگر کوئی پیمپر کو پانی کے ذریعے پاک کرکے اور سُکھا کر دوبارہ استعمال کرنا چاہے تو کوئی حرج نہیں۔ نوٹ: نیز اگر آپ مندرجہ بالا عوارض میں سے کسی میں مبتلا ہیں تو بہتر ہے کہ کسی باشرع مستند ڈاکٹر اور کسی مفتی سے مشورہ کرکے شریعت میں دی گئی رخصت سے فائدہ اٹھائیں۔ اس طرح آپ کو مشورہ کرنے کا ثواب بھی ملے گا ، حجت بھی قائم ہو جائے گی اور آپ گناہ گار ہونے سے بھی بچ جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں علماء حق سے مستفید ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

    ماخوذ: کتاب بابرکت و باسعادت بڑھاپا، اس کتاب کی پرنٹیڈ ہارڈ کاپیاں موجود ہیں جولینا چاہتے ہوں وہ مجھ سے رابطہ کرسکتے ہیں ، واٹس اپ 03262366183 پر۔
     
  4. اجمل

    اجمل محسن

    شمولیت:
    ‏فروری 10, 2014
    پیغامات:
    709
    نماز کی رخصتیں:
    مرض نسیان کی وجہ سے رخصتیں

    بہت سے بزرگ افراد طویل العمری کے باعث مرض نسیان یعنی بھولنے کی بیماری میں مبتلا ہو جاتے ہیں، انکی یادداشت کمزور ہوجاتی ہے ، وہ زیادہ دیر تک کچھ یاد نہیں رکھ پاتے، بھول جاتے ہیں کہ انہوں نے وضو کیا تھا یا نہیں، نماز پڑھ لی ہے یا نہیں، یا کتنی رکعت پڑھی ہیں، کتنے سجدے کیے ہیں وغیرہ وغیرہ، یعنی وہ کوئی بھی بات صحیح طور پر یاد نہیں رکھ پاتے، تو شریعت میں ان کے لیے یہ رخصت ہے کہ وہ جس قدر یاد رکھ پائیں اسی قدر کے مکلف ہیں اور جو کچھ وہ بھول جاتے ہیں یاد کرنے کے باوجود یاد نہیں کرپاتے تو وہ اس کے مکلف نہیں ہوں گے، اگر اس کی وجہ سے ان کی کوئی، سجدہ، رکعت یا نماز رہ جائے تو وہ معاف ہے، (ان شاء اللہ) ۔ علما کی اکثریت کا اسی پر اتفاق ہے۔

    ابوذرغفاری ﷛ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’اللہ تعالیٰ نے میری امت سے بھول چوک اور جس کام پہ تم مجبور کر دیے جاؤ معاف کر دیا ہے‘‘۔ (سنن ابن ماجہ: 2043)

    یعنی جو کام بھول چوک سے غلط ہوجائے اس پر گناہ نہیں البتہ اس کا حکم باقی رہے گا، مثلاً: نماز فرض ہوگی لیکن اگر بھول سے رہ جائے تو اس پر گناہ نہ ہوگا، البتہ اگر بھول سے ایسا کام ہوجائے جس سے کسی کا نقصان ہوجائے تو نقصان کی تلافی واجب ہوگی، اگرچہ نقصان کرنے پر گناہ نہ ہوگا۔

    ابوبردہ نے کہا کہ میں نے (اپنے والد) ابوموسیٰ اشعری ﷛ سے بارہا سنا۔ وہ کہا کرتے تھے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ ’’جب بندہ بیمار ہوتا ہے یا سفر کرتا ہے تو اس کے لیے ان تمام عبادات کا ثواب لکھا جاتا ہے جنہیں اقامت یا صحت کے وقت یہ کیا کرتا تھا‘‘۔ (صحيح البخاري: 2996)

    مرض نسیان بڑھاپے کی بیماریوں میں سے ایک ہے۔ لہذا جو شخص ساری زندگی حالتِ صحت میں اللہ تعالیٰ کی عبادت میں گزاری ہو، اب پڑھاپے میں پہنچ کر اگر وہ مرض نسیان یا کسی اور بیماری کی وجہ سے پہلے جیسی عبادت نہ کر پائے یا عبادت کرنے میں اس سے بھول چوک ہوجائے تو مندرجہ بالا حدیث کے مطابق اللہ تعالیٰ اپنی فضل سے اسے پہلے جیسی عبادات کرنے کا ثواب دے دیں گے۔ البتہ ایسے افراد کو بکثرت یہ دعا کرتے رہنا چاہیے:

    رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا إِن نَّسِينَا أَوْ أَخْطَأْنَا ۚ رَبَّنَا وَلَا تَحْمِلْ عَلَيْنَا إِصْرًا كَمَا حَمَلْتَهُ عَلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِنَا ۚ رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَةَ لَنَا بِهِ ۖ وَاعْفُ عَنَّا وَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا ۚ أَنتَ مَوْلَانَا فَانصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ ‎(٢٨٦) سورة البقرة
    ’’اے ہمارے رب! اگر ہم بھول جائیں یا خطا کر بیٹھیں تو ہماری گرفت نہ فرما، اے ہمارے پروردگار! اور ہم پر اتنا (بھی) بوجھ نہ ڈال جیسا تو نے ہم سے پہلے لوگوں پر ڈالا تھا، اے ہمارے پروردگار! اور ہم پر اتنا بوجھ (بھی) نہ ڈال جسے اٹھانے کی ہم میں طاقت نہیں، اور ہمارے (گناہوں) سے درگزر فرما، اور ہمیں بخش دے، اور ہم پر رحم فرما، تو ہی ہمارا کارساز ہے پس ہمیں کافروں کی قوم پر غلبہ عطا فرما ‘‘۔
    ماخوذ: کتاب بابرکت و باسعادت بڑھاپا، اس کتاب کی پرنٹیڈ ہارڈ کاپیاں موجود ہیں جولینا چاہتے ہوں وہ مجھ سے رابطہ کرسکتے ہیں ، واٹس اپ 03262366183 پر۔
     
  5. اجمل

    اجمل محسن

    شمولیت:
    ‏فروری 10, 2014
    پیغامات:
    709
    نماز کی رخصتیں:
    بینائی اور سماعت کی کمزوری کے باعث رعایت

    بعض عمر رسیدہ افراد کی بینائی کمزور ہو جاتی ہے اور بعض کی سماعت ، جس کی وجہ سے وہ تنہا مسجد جانے میں حادثات کا شکار ہوسکتے ہیں۔ اور اگر انہیں مسجد تک لانے لے جانے والا کوئی نہ ہو تو ایسے افراد کے لیے رخصت یہ ہے کہ جہاں وہ ہوں وہیں نماز پڑھ لیا کریں کیونکہ وہ مسجد پہنچنے سے معذور ہیں۔

    محمود بن ربیع انصاری نے بیان کیا ہے کہ عتبان بن مالک انصاری ﷛ رسول اللہ ﷺ کے صحابی اور غزوہ بدر کے حاضر ہونے والوں میں سے تھے، وہ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا یا رسول اللہ! میری بینائی میں کچھ فرق آ گیا ہے اور میں اپنی قوم کے لوگوں کو نماز پڑھایا کرتا ہوں لیکن جب برسات کا موسم آتا ہے تو میرے اور میری قوم کے درمیان جو وادی ہے وہ بھر جاتی ہے اور بہنے لگتی ہے تو میں انہیں نماز پڑھانے کے لیے مسجد تک نہیں جا سکتا، یا رسول اللہ! میری خواہش ہے کہ آپ ﷺ میرے گھر تشریف لائیں اور (کسی جگہ) نماز پڑھ دیں تاکہ میں اسے نماز پڑھنے کی جگہ بنا لوں۔ راوی نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے عتبان ﷛ سے فرمایا، انشاء اللہ تعالیٰ میں تمہاری اس خواہش کو پورا کروں گا۔
    عتبان ﷛ نے بیان کیا کہ چنانچہ اگلی صبح نبی کریم ﷺ ابوبکر ﷛ کے ساتھ جب سورج کچھ بلند ہو گیا تو تشریف لائے اور نبی کریم ﷺ نے اندر آنے کی اجازت چاہی، میں نے اجازت دے دی۔ جب آپ گھر میں تشریف لائے تو بیٹھے بھی نہیں اور پوچھا کہ تم اپنے گھر کے کس حصہ میں مجھ سے نماز پڑھنے کی خواہش رکھتے ہو۔ عتبان ﷛ نے کہا کہ میں نے گھر میں ایک کونے کی طرف اشارہ کیا، تو رسول اللہ ﷺ (اس جگہ) کھڑے ہوئے اور تکبیر کہی ہم بھی آپ کے پیچھے کھڑے ہو گئے اور صف باندھی، پس آپ نے دو رکعت (نفل) نماز پڑھائی پھر سلام پھیرا۔ (صحيح البخاري: 425، صحيح مسلم:33)
    نوٹ: البتہ نماز جمعہ کے لیے بہتر ہے کہ کسی بھی طرح مسجد پہنچنے کا اہتمام کیا جائے۔
    ماخوذ: کتاب بابرکت و باسعادت بڑھاپا، اس کتاب کی پرنٹیڈ ہارڈ کاپیاں موجود ہیں جولینا چاہتے ہوں وہ مجھ سے رابطہ کرسکتے ہیں ، واٹس اپ 03262366183 پر۔
     
  6. اجمل

    اجمل محسن

    شمولیت:
    ‏فروری 10, 2014
    پیغامات:
    709
    مسجد میں جانے سے رخصت

    جب بڑھاپے میں بیماری کی وجہ سے نقاہت اور کمزوری بڑھ جانے یا موسم کی تبدیلی یا شدت کی وجہ سے بیماری بڑھ جانے کا اندیشہ ہو تو اس حالت میں مسجد میں جماعت سے پیچھے رہنا جائز ہے، اگرچہ مسجد قریب ہی کیوں نہ ہو۔ ایک مرتبہ بیماری کی حالت میں خود رسول اللہ ﷺ مسجد میں جماعت کے لیے حاضر نہ ہوسکے، البتہ گھر میں ہی جماعت کا اہتمام کرلیا، جیسا کہ ام المؤمنین عائشہ ﷝ سے نے روایت کیا ہے کہ’’ رسول اللہ ﷺ نے ایک مرتبہ بیماری کی حالت میں میرے ہی گھر میں نماز پڑھی۔ آپ ﷺ بیٹھ کر نماز پڑھ رہے تھے اور لوگ آپ ﷺ کے پیچھے کھڑے ہو کر پڑھ رہے تھے‘‘ ۔ آپ ﷺ نے ان کو بیٹھنے کا اشارہ کیا اور نماز سے فارغ ہونے کے بعد فرمایا کہ ’’امام اس لیے ہے کہ اس کی پیروی کی جائے۔ اس لیے جب وہ رکوع میں جائے تو تم بھی رکوع میں جاؤ اور جب وہ سر اٹھائے تو تم بھی سر اٹھاؤ اور جب وہ بیٹھ کر نماز پڑھے تو تم بھی بیٹھ کر نماز پڑھو‘‘ ۔ (صحيح البخاري: 688)

    نوٹ: واضح رہے یہ سب رخصتیں ہیں ان افراد کے لیےہے جو عام حالت اختیار کرکے نماز ادا نہیں کرسکتے۔

    نیز اگر آپ مندرجہ بالا عوارض میں سے کسی میں مبتلا ہیں تو بہتر ہے کہ کسی باشرع مستند ڈاکٹر اور کسی مفتی سے مشورہ کرکے شریعت میں دی گئی رخصت سے فائدہ اٹھائیں۔ اس طرح آپ کو مشورہ کرنے کا ثواب بھی ملے گا اور حجت بھی قائم ہو جائے گی اور آپ گناہ گار ہونے سے بھی بچ جائیں گے۔ اس کے ساتھ ہی شریعت میں دی گئی رخصتوں سے فائدہ اٹھانے سے پہلے ذیل میں درج احادیث کو بھی مد نظر رکھنا ضروری ہے:
    • عمران بن حصین ﷟ نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے کسی آدمی کے بیٹھ کر نماز پڑھنے کے بارے میں پوچھا کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ’’ افضل یہی ہے کہ کھڑے ہو کر پڑھے کیونکہ بیٹھ کر پڑھنے والے کو کھڑے ہو کر پڑھنے والے سے آدھا ثواب ملتا ہے اور لیٹے لیٹے پڑھنے والے کو بیٹھ کر پڑھنے والے سے آدھا ثواب ملتا ہے‘‘ ۔ (صحيح البخاري: 1115)
    • ابوہریرہ ﷛ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے میں گھر کے اندر یا بازار (دوکان وغیرہ) میں نماز پڑھنے سے پچیس گنا ثواب زیادہ ملتا ہے۔ کیونکہ جب کوئی شخص تم میں سے وضو کرے اور اس کے آداب کا لحاظ رکھے پھر مسجد میں صرف نماز کی غرض سے آئے تو اس کے ہر قدم پر اللہ تعالیٰ ایک درجہ اس کا بلند کرتا ہے اور ایک گناہ اس سے معاف کرتا ہے۔ اس طرح وہ مسجد کے اندر آئے گا۔ مسجد میں آنے کے بعد جب تک نماز کے انتظار میں رہے گا۔ اسے نماز ہی کی حالت میں شمار کیا جائے گا اور جب تک اس جگہ بیٹھا رہے جہاں اس نے نماز پڑھی ہے تو فرشتے اس کے لیے رحمت خداوندی کی دعائیں کرتے ہیں: «اللَّهُمَّ اغْفِرْ لَهُ اللَّهُمَّ ارْحَمْهُ » ۔۔ ’’ اے اللہ! اس کو بخش دے، اے اللہ! اس پر رحم کر ، جب تک کہ ریح خارج کر کے (وہ فرشتوں کو) تکلیف نہ دے‘‘۔ (صحيح البخاري: 477)
    • ابوہریرہ ﷛ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’جب کوئی شخص اچھی طرح وضو کرے، پھر مسجد آئے، اور نماز ہی اس کے گھر سے نکلنے کا سبب ہو، اور وہ نماز کے علاوہ کوئی اور ارادہ نہ رکھتا ہو، تو ہر قدم پہ اللہ تعالیٰ اس کا ایک درجہ بلند کرتا ہے اور ایک گناہ مٹاتا ہے، یہاں تک کہ مسجد میں داخل ہو جائے، پھر مسجد میں داخل ہو گیا تو جب تک نماز اسے روکے رکھے نماز ہی میں رہتا ہے‘‘۔ (سنن ابن ماجہ: 774)
    • عبداللہ بن سعد ﷛ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ سے پوچھا: ’’دونوں میں کون افضل ہے گھر میں نماز پڑھنا یا مسجد میں؟ آپ ﷺ نے فرمایا:’’ تم میرے گھر کو نہیں دیکھتے کس قدر مسجد سے قریب ہے، اس کے باوجود بھی مجھے فرض کے علاوہ نفلی نمازیں گھر میں پڑھنی زیادہ محبوب ہیں‘‘ (یعنی فرض نماز یں مسجد میں جبکہ نفلی نمازیں گھر میں پڑھنا افضل ہے)۔ (سنن ابن ماجہ: 1378) ۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نوافل کا گھر میں پڑھنا زیادہ افضل ہے۔
    • ابوہریرہ ﷛ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’مسجد میں جو جتنا ہی دور سے آتا ہے، اس کو اتنا ہی زیادہ اجر ملتا ہے‘‘۔ (سنن ابن ماجہ: 782)
    • انس بن مالک ﷛ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ آدمی کی نماز اپنے گھر میں ایک نماز کے برابر ہے، محلہ کی مسجد میں پچیس نماز کے برابر ہے، اور جامع مسجد میں پانچ سو نماز کے برابر ہے، اور مسجد اقصی اور میری مسجد (مسجد نبوی ﷺ) میں پچاس ہزار نماز کے برابر ہے، اور خانہ کعبہ میں ایک لاکھ نماز کے برابر ہے‘‘۔ (سنن ابن ماجہ: 1413)
    ان احادیث کے ذریعہ مساجد کے مراتب اور ان میں نماز پڑھنے کے ثواب کے فرق و درجات کا پتہ چلتا ہے۔ چنانچہ فرمایا گیا ہے کہ سب سے کم تر درجہ تو خود کسی کے گھر کا ہے یعنی اگر کوئی آدمی مسجد کے بجائے اپنے گھر میں نماز پڑھتا ہے تو اسے صرف اسی ایک نماز کا ثواب ملتا ہے اور اگر کوئی آدمی اپنے محلہ کی مسجد میں نماز ادا کرتا ہے تو اسے پچیس نمازوں کا ثواب دیا جاتا ہے اسی طرح جامع مسجد میں نماز پڑھنے والے کو پانچ سو اور بیت المقدس و مسجد نبوی ﷺ میں نماز پڑھنے والے کو اس کی ایک نماز کے بدلے میں پچاس ہزار نمازوں کا ثواب دیا جاتا ہے اور اگر کوئی آدمی مسجد حرام میں نماز پڑھنے کی سعادت حاصل کرے پھر تو اس کے وارے نیارے ہو جاتے ہیں یعنی اسے ایک نماز کے عوض ایک لاکھ نمازوں کا ثواب دیا جاتا ہے۔
    لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ مسجد حرام میں چند دن نماز پڑھ کر ایک لاکھ کے حساب سے بقیہ دنوں میں نماز پڑھنا چھوڑ دیا جائے، جیسا کہ بعض لوگ عمرہ و حج پہ جاتے ہیں اور مسجد حرام میں چند دن نماز ادا کرکے سمجھتے ہیں کہ ایک لاکھ کے حساب سے ساری زندگی کی نمازیں ادا کرلیے، اب انہیں مزید نماز پڑھنے کی ضرورت نہیں ، یہ جہالت اور گمراہی ہے۔ فرض نماز موت کےبستر میں موت کے وقت تک پڑھنا فرض ہے۔
    اللہ تعالیٰ ہمیں سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
    ماخوذ: کتاب بابرکت و باسعادت بڑھاپا، اس کتاب کی پرنٹیڈ ہارڈ کاپیاں موجود ہیں جولینا چاہتے ہوں وہ مجھ سے رابطہ کرسکتے ہیں ، واٹس اپ 03262366183 پر۔
    ۔
     
  7. اجمل

    اجمل محسن

    شمولیت:
    ‏فروری 10, 2014
    پیغامات:
    709
    وضو میں رخصتیں
    احادیث میں پگڑی اور موزہ یا جراب پر مسح کا حکم عام ہے۔ اس کی کوئی عذر یا علت بیان نہیں کی گئی ہے کہ صرف مجبوری میں یا سردی سے بچنے کے لیے یا مرض کی وجہ سے مسح کرسکتے ہیں۔ لہذا آدمی بیمار ہو یا تندرست، مقیم ہو یا مسافر، معذور ہو یا غیر معذور، پگڑی یا عمامہ اور موزہ یا جراب پر بلا کسی عذر اور بغیر کسی مجبوری کے کسی بھی موسم میں مسح کرسکتا ہے ۔ عمر رسیدہ افراد وضو کے معاملے میں ان رخصتوں سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ مسح کرنے کا طریقہ اور کس طرح کی موزہ پر مسح کرنا جائز ہے اس کی تفصیل یہاں بیان نہیں کی گئی ہے، اپنے علاقے کے کسی عالم سے اس بارے میں معلومات حاصل کرلیں۔
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
  8. اجمل

    اجمل محسن

    شمولیت:
    ‏فروری 10, 2014
    پیغامات:
    709
    روزے کی رخصتیں
    روزہ رکھنے کی بجائے فدیہ ادا کرنا: بوڑھے اور ضعیف افراد جو روزہ رکھنے کی طاقت نہیں رکھتے یا جنہیں روزہ رکھنے کی وجہ سے اپنی استطاعت سے زیادہ مشقت برداشت کرنی پڑتی ہے تو ان کے لیے رخصت یہ ہے کہ وہ روزہ رکھنے کی بجائے فدیہ ادا کر دیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

    أَيَّامًا مَّعْدُودَاتٍ ۚ فَمَن كَانَ مِنكُم مَّرِيضًا أَوْ عَلَىٰ سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرَ ۚ وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِينٍ ۖ فَمَن تَطَوَّعَ خَيْرًا فَهُوَ خَيْرٌ لَّهُ ۚ وَأَن تَصُومُوا خَيْرٌ لَّكُمْ ۖ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ ‎(١٨٤) سورة البقرة
    ’’چند مقرر دنوں کے روزے ہیں، پس اگر تم میں سے کوئی بیمار ہو یا سفر پر ہو تو دوسرے دنوں (کے روزوں) سے گنتی پوری کر لے، اور جنہیں اس کی طاقت نہ ہو ان کے ذمے ایک مسکین کے کھانے کا بدلہ ہے، پھر جو کوئی اپنی خوشی سے نیکی کرے تو وہ اس کے لیے بہتر ہے، اور تمہارا روزہ رکھ لینا تمہارے لیے بہتر ہے اگر تمہیں سمجھ ہو‘‘

    اس سے مراد ’’بہت بوڑھا مرد یا بہت بوڑھی عورت ہے جو روزے کی طاقت نہ رکھتی ہو، انہیں چاہیے کہ ہر روزہ کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلا دیں‘‘ ۔ (صحیح بخاری:4505 )
    یعنی فدیہ دے دیں ۔ البتہ اگر کوئی عمر رسیدہ شخص روزہ رکھنے کی طاقت رکھتا ہو تو اس پر روزہ رکھنا فرض ہے کیونکہ اس کے بعد والی آیت میں (آیت نمبر ۱۸۵ سورۃ البقرۃ) کے ذریعے جو بھی روزہ رکھنے کی طاقت رکھتا ہو اس پر روزہ فرض کیا گیا ہے۔

    روزہ کی حالت میں سر پر پانی ڈالنا: نبی ﷺ کے کسی صحابی سے روایت ہے، انہوں نے کہا:’’ میں نے مقام عرج پر نبی ﷺ کو حالت روزہ میں پیاس یا گرمی کی وجہ سے سر پر پانی ڈالتے ہوئے دیکھا‘‘۔ (سنن ابي داود: 2365)۔
    لہذا کمزور عمر رسیدہ افراد اگر روزے سے ہوں تو پیاس اور گرمی کی شدت کم کرنے کے لیے سر پر پانی ڈال سکتے ہیں۔
     
  9. اجمل

    اجمل محسن

    شمولیت:
    ‏فروری 10, 2014
    پیغامات:
    709
    حج وعمرہ کی رخصتیں
    حج بدل :
    اگر کسی عمر رسیدہ شخص کے پاس اتنا مال ہو یا کہیں سے آجائے جس سے وہ سفر حج کے اخراجات پورے کرسکتا ہولیکن وہ کمزوری یا بیماری یا دونوں کی باعث سفر حج کی طاقت نہ رکھتا ہو تو وہ کسی کو اپنا نائب بنا دے اور اپنی جگہ اسے حج پر روانہ کردے، جیسا کہ سیدنا ابن عباس ﷟ نے کہا کہ:حجۃ الوداع کے موقع پر قبیلہ خشعم کی ایک خاتون نے کہا: اللہ کے رسول فریضہ حج نے میرے والد کو پالیا ہے، جو بوڑھا ہے، سواری پر نہیں بیٹھ سکتا، تو کیا میں اسکی طرف سے حج کرلوں؟ آپ نے فرمایا: ہاں۔ (صحيح البخاري: 1854)
    ابورزین عقیلی لقیط بن عامر رضی الله عنہ نبی اکرم ﷺ کے پاس آ کر عرض کیا: اللہ کے رسول! میرے والد بہت بوڑھے ہیں، وہ حج و عمرہ کرنے اور سوار ہو کر سفر کرنے کی طاقت نہیں رکھتے۔ (ان کے بارے میں کیا حکم ہے؟) آپ ﷺ نے فرمایا:تم اپنے والد کی طرف سے حج اور عمرہ کر لو۔ (سنن ترمذي: 930 )
    عذر کی بنا پر میں احرام کھول دینے کی رخصت
    اگر کوئی حج کے لیے نکلنا چاہتا ہو لیکن راہ سفر میں یا دوران حج بیماری وغیرہ کا اندیشہ ہو، تو احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کے بعد حج کے لیے نکل جائے، جیسا کہ سیدہ عائشہ فرماتی ہیں کہ: رسول اللہ ﷺ تشریف لائے ضباعہؓ بنت زبیر کے پاس اور فرمایا: کہ تم نے ارادہ کیا ہے حج کا؟ انہوں نے کہا کہ ہاں قسم ہے اللہ کی لیکن میں اکثر بیمار ہو جاتی ہوں۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا: کہ حج کرو اور شرط کرو اور یوں کہو کہ اے اللہ! احرام کھولنا میرا وہیں ہے جہاں تو مجھے روک دے۔ (صحيح مسلم: 1207)
    طواف اور سعی میں رخصتیں
    اگر کسی کو، خاص کر عمر رسیدہ شخص کو طواف میں رمل (تیز چلنا) ایسے ہی صفا و مروہ کے درمیان سعی میں دوڑنے کی طاقت نہ ہو تو چل لے، جیسا کہ کثیر بن جہمان (تابعی) رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے ابن عمر کو سعی میں عام چال چلتے دیکھا تو میں نے ان سے کہا: کیا آپ صفا و مروہ کی سعی میں عام چال چلتے ہیں؟ انہوں نے کہا: اگر میں دوڑوں تو میں نے رسول اللہ ﷺ کو دوڑتے بھی دیکھا ہے، اور اگر میں عام چال چلوں تو میں نے رسول اللہ ﷺ کو عام چال چلتے بھی دیکھا ہے، اور میں کافی بوڑھا ہوں۔ (سنن ترمذي: 864، سنن ابي داود: 1904، سنن ابن ماجہ: 2988)
    عبداللہ بن عمر کے قول کا یہ مطلب ہے کہ دوڑنا اور معمولی چال سے چلنا دونوں ہی رسول اللہ ﷺ کی سنت ہے، اور میں چونکہ ناتواں بوڑھا ہوں اس لیے میرے لیے چلنے میں حرج نہیں (کہ یہ بھی سنت ہے)۔
    سواری پر طواف اور سعی کرنے کی آسانی
    اور اگر چلنے کی بھی طاقت نہ ہو تو سواری کے ذریعے طواف اور سعی کرنے کی اجازت ہے، جیسا کہ ام المؤمنین ام سلمہ کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے (حجۃ الوداع میں) اپنی بیماری کا شکوہ کیا (میں نے کہا کہ میں پیدل طواف نہیں کر سکتی) تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ لوگوں کے پیچھے رہ اور سوار ہو کر طواف کر۔ پس میں نے طواف کیا ۔ (صحیح بخاری: 464، صحيح مسلم: 1276)
    وقوفِ مزدلفہ اور منیٰ روانگی میں رخصتیں
    عمر رسیدہ کمزور مرد و خواتین مزدلفہ سے منی کے لیے رات میں ہی روانہ ہوسکتے ہیں تاکہ رش اور دھکم پیل سے بچ جائیں، جیسا کہ سالم رحمہ اللہ نے کہا: عبداللہ بن عمر اپنے گھر کے کمزوروں کو پہلے ہی بھیج دیا کرتے تھے اور وہ رات ہی میں مزدلفہ میں مشعر حرام کے پاس آ کر ٹھہرتے اور اپنی طاقت کے مطابق اللہ کا ذکر کرتے تھے، پھر امام کے ٹھہرنے اور لوٹنے سے پہلے ہی (منیٰ) آ جاتے تھے، بعض تو منیٰ فجر کی نماز کے وقت پہنچتے اور بعض اس کے بعد، جب منیٰ پہنچتے تو کنکریاں مارتے اور عبداللہ بن عمر فرمایا کرتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ نے ان سب لوگوں کے لیے یہ اجازت دی ہے۔ (صحیح بخاری: 1676)

    یہ چند رخصتیں ہیں جو بطور مثال کے پیش کی گئی ہیں۔ ان کے علاوہ بھی کئی رخصتیں ہیں جن کا تعلق عمر رسیدہ، کمزوروں اور بیماروں سے ہے، یہاں ایسے افراد کے لیے آسانیاں پیدا کرنے کی نیت سے شریعت میں جو رخصتیں دی گئی ہیں ان میں بعض کو لکھ دیا گیا ہے۔ دین اسلام آسان ہے۔ لہذا ان سے فائدہ اٹھائیں اور اپنے بڑھاپے کو آسان، بابرکت و باسعادت بنائیں۔
    ماخوذ: کتاب بابرکت و باسعادت بڑھاپا، اس کتاب کی پرنٹیڈ ہارڈ کاپیاں موجود ہیں جولینا چاہتے ہوں وہ مجھ سے رابطہ کرسکتے ہیں ، واٹس اپ 03262366183 پر۔
    ۔
     
  10. اجمل

    اجمل محسن

    شمولیت:
    ‏فروری 10, 2014
    پیغامات:
    709
    بڑھاپے کے ہلاک کردینے والے گناہ
    [حَبْطِ اَعْمال یعنی وہ گناہ جس سے تمام نیکیاں ضائع ہوجاتی ہیں]
    گناہ گار شخص کی زندگی سے خیر و برکت اٹھ جاتی ہے۔ اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ بعض لوگ ساری زندگی نیک اعمال کرتے رہتے ہیں لیکن بڑھاپے میں کسی ایسے گناہ میں ملوث ہوجاتے ہیں جس کی وجہ سے ان کی ساری زندگی کی نیکیاں برباد ہوجاتی ہیں۔ اس لیے ایسے گناہوں کو جاننا اور ان سے بچنا خاص طور پر بڑھاپے میں بہت ضروری ہے۔ اس باب میں ہم اسی نکتے پر بات کریں گے۔
     
  11. اجمل

    اجمل محسن

    شمولیت:
    ‏فروری 10, 2014
    پیغامات:
    709
    گناہ اور صغیرہ و کبیرہ گناہ کی تعریف
    آسان لفظوں میں شریعتِ اسلامی میں جس کام کے کرنے کا حکم دیا گیا ہے اسے نہ کرنا اور جس کام سے منع کیا گیا ہے اسے کرنا گناہ ہے۔ اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ ﷺ نے جن اعمال کے کرنے کا حکم دیا ہے اُن کے کرنے میں انسان کے لیے بھلائی ہے اور نہ کرنے میں برائی ہے۔ اسی طرح جن کاموں سے منع کیا ہے ان میں کوئی بھلائی نہیں بلکہ ان میں برائی ہی ہے۔ البتہ یہ برائی سب میں برابر نہیں، کسی میں زیادہ ہےاور کسی میں کم ہے۔ جن میں کم ہے انہیں صغیرہ گناہ کہا جاتا ہے جو قدرے ہلکے ہوتے ہیں اور نیکی کرنے سے مٹ جاتے ہیں، بشرطیکہ ان پر اصرار نہ کیا جائے کیونکہ صغیرہ پر اصرار اسے کبیرہ بنا دیتا ہے۔ اور جن کاموں میں برائی زیادہ ہیں انہیں کبیرہ گناہ کہا جاتا ہے، پھر یہ بھی سزا کے لحاظ سے برابر نہیں یعنی ان کی سزا ایک جیسی نہیں بلکہ مختلف ہیں، مثلاً:
    (‌أ) بعض گناہ اس قدر شدید ہیں کہ روز قیامت کلام الٰہی اور نظر رحمت سے محرومی کا سبب ہوں گے، جیسے بڑھاپے میں زنا کرنا، بادشاد کا جھوٹ بولنا، فقیر کا متکبر ہونا وغیرہ۔
    (‌ب) بعض گناہ عذاب قبر کا باعث بنتے ہیں، جیسے چغلی کھانا، پاکی کا خیال نہ رکھنا غیرہ۔
    (‌ج) ایسے گناہ جن کی سزا دنیا میں مقرر ہے، اگر دنیا میں نہ ملی تو جہنم مقدر بنے گا، جیسے زنا کی سزا۔​
    ایسے گناہ جو نیکیوں کو نیست و نابود کردیتے ہیں، ان کی دو قسمیں ہیں:
     وہ گناہ جس کی وجہ سے تمام نیکیاں ضائع ہوجائے اور انسان ایمان سے خارج ہوجائے، نتیجتاً وہ ہمیشہ کے لیے جہنمی بن جائے۔ جیسے کفر، شرک، ارتداد وغیرہ ہے۔
     وہ گناہ جس کی وجہ سے انسان کی کوئی عبادت ضائع ہوجائے یا اس کے اجر و ثواب میں کمی آجائے اور اس عمل کا اجر و ثواب اسے ضرورت کے وقت کام نہ دے، البتہ اصل ایمان باقی رہے۔
     
  12. اجمل

    اجمل محسن

    شمولیت:
    ‏فروری 10, 2014
    پیغامات:
    709
    گناہ کی شدت میں اضافہ

    بعض گناہ ایسے ہوتے ہیں جو موقع و محل کے لحاظ سے مزید شدت اختیار کر جاتے ہیں۔ مثلاً لوگوں کا مال ناجائز طریقے سے کھانا کبیرہ گناہ ہے مگر یتیم کا مال کھانا اور بھی بڑا گناہ ہے یا دھوکہ دہی سے مال بیچنا گناہ ہے مگر جھوٹی قسم کھا کر مال بیچنا اور بڑا گناہ بن جاتا ہے۔ عام عورتوں پر تہمت لگانا بھی بڑا گناہ ہے مگر بھولی بھالی انجان عورتوں پر تہمت لگانا مزید شدت اختیار کرجاتا ہے، اولاد کا قتل بڑا گناہ ہے مگر مفلسی کے ڈر سے اولاد کا قتل اور بھی بڑا گناہ بن جاتا ہے۔ اسی طرح زنا ایک کبیرہ گناہ ہے مگر جب یہ زنا اپنی ماں، بیٹی، بہن یا دیگر محرمات سے کیا جائے تو یہ گناہ مزید شدید ہوجائے گا۔ اسی طرح اگر شادی شدہ عورت یا مرد زنا کرے گا تو یہ گناہ کنوارے مرد یا عورت سے زیادہ شدید ہوجائے گا۔ ایسے ہی ہمسایہ کی بیوی سے زنا کرنا کسی دوسری عورت سے زنا کرنے کی بہ نسبت شدید ہوگا۔ یا بوڑھے آدمی کا زنا کرنا جوان آدمی کے زنا کرنے کی نسبت زیادہ شدید ہوگا اور اگر بوڑھا زانی اپنے ہمسایہ کی بیوی سے زنا کرے تو کسی دوسری عورت سے زنا کرنے کی بہ نسبت اس کا گناہ مزید بڑھ جائے گا۔ یہی صورت باقی گناہوں کی ہوتی ہیں۔

    ذیل میں ہم ہلاک کردینے والے چند ایسے گناہوں کا ذکر کریں گے جنہیں عام طور پر لوگ نہیں جانتے لیکن ان کی شدت عام کبیرہ گناہوں سے بہت زیادہ ہوتی ہیں۔
    ۔
     
  13. اجمل

    اجمل محسن

    شمولیت:
    ‏فروری 10, 2014
    پیغامات:
    709
    معزز قارئین! واضح رہے کہ کہ یہاں کتاب ’’بابرکت و باسعادت بڑھاپا‘‘ سے جو مضامین پیش کیے جارہے ہیں وہ کتاب کے مطابق ترتیب وار اور مکمل نہیں ہیں۔ مکمل ترتیب وار مضامین پڑھنے کے لیے آپ پرنٹیڈ کتاب حاصل کرسکتے ہیں۔
     
  14. اجمل

    اجمل محسن

    شمولیت:
    ‏فروری 10, 2014
    پیغامات:
    709
    نمبر (۱) ہبہ، عطیہ و تحفہ دینے میں ناانصافی
    ایک ہے ہبہ اور دوسرا ترکہ یا میراث، ان دونوں صورتوں میں مسلمانوں کی اکثریت سے قصداً یا لاعلمی کی بنا پر غلطی اور کوتاہی سرزد ہوجاتی ہے۔

    میراث اور ہبہ
    وہ تمام منقولہ یا غیر منقولہ جائیداد جو مورث ( میت)کو ورثہ میں ملی ہو یا خود کمائی ہو بشمول تمام قابل وصولی قرضہ جات ترکہ یا میراث کہلاتی ہے جو شرعی اصول و قوانین کے مطابق میت کے ورثہ میں تقسیم کی جاتی ہے ۔

    لیکن ایک شخص کا اپنی زندگی میں اپنی اولاد کو مال یا جائیداد وغیرہ دینا عطیہ یا ہبہ کہلاتا ہے، اس پر میراث کا حکم لاگو نہیں ہوتا اور یہ لڑکا اور لڑکی دونوں کو برابر دینے کا حکم ہے۔ اولاد پر خرچ کرنا ہبہ یا عطیہ نہیں ہے اور نہ ہی اس پر ہبہ کا قانون لاگو ہوتا ہے۔ ہبہ کرنے کے معاملے میں اولاد کے مابین برابری نہ کرنا گناہ ہے۔ اس کی دلیل مندجہ ذيل حدیث ہے:

    عامرشعبی بیان کرتے ہیں کہ میں نے نعمان بن بشیر ﷟ سے سنا وہ منبر پر بیان کر رہے تھے کہ میرے باپ نے مجھے ایک عطیہ دیا، تو عمرہ بنت رواحہ ﷝ (نعمان کی والدہ) نے کہا کہ جب تک آپ رسول اللہ ﷺ کو اس پر گواہ نہ بنائیں میں راضی نہیں ہو سکتی۔ چنانچہ میرے والد میرا ہاتھ پکڑ کر نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہوں نے عرض کیا کہ عمرہ بنت رواحہ سے اپنے بیٹے کو میں نے ایک عطیہ دیا تو انہوں نے کہا کہ پہلے میں آپ کو اس پر گواہ بنا لوں، آپ ﷺ نے دریافت فرمایا کہ اسی جیسا عطیہ تم نے اپنی تمام اولاد کو دیا ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ نہیں، اس پر آپ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ سے ڈرو اور اپنی اولاد کے درمیان انصاف کو قائم رکھو۔ چنانچہ وہ واپس ہوئے اور ہدیہ واپس لے لیا۔ (صحيح البخاري: 2587)

    اس حدیث میں لفظ«ولد» کا استعمال ہے جس کا اطلاق لڑکے اور لڑکی دونوں پر ہوتا ہے۔ نیز اس حدیث میں نبی کریم ﷺ نے ساری اولاد کے لیے «مثل» (ایک جیسے مال) کا لفظ استعمال کیا ہے چنانچہ کہا: اسی جیسا عطیہ تم نے اپنی تمام اولاد کو دیا ہے؟

    اورسنن نسائی وغیرہ کے الفاظ ہیں: کیا تم نے اپنی ساری اولاد کو اسی جیسا ہبہ کیا ہے جیسا ہبہ اپنے اس بیٹے کو کیا ہے ؟ (سنن النسائي: 3711)

    حدیث کے یہ الفاظ اس بارے میں بالکل صریح ہیں کہ عطیہ وتحفہ میں ساری اولاد لڑکے اور لڑکیوں کو ایک جیسا مال دینا لازم ہے۔ یعنی عطیہ وتحفہ میں لڑکے اور لڑکیوں میں فرق نہیں کیا جائے گا۔نیز سنن ابی داؤد کی اسی روایت میں ہے: ’’ کیا تمہیں پسند نہیں کہ تمہارے ساتھ حسن سلوک اور لطف و کرم میں بھی تمہاری ساری اولاد برابر ہو‘‘۔ (سنن أبي داود: 3542)

    یہ الفاظ بھی اس بات کی دلیل ہےکہ جس طرح والدین کے ساتھ حسن سلوک اور لطف وکرم میں اس کے بیٹے اور بیٹیوں سب کو یکساں ہونا چاہیے اسی طرح والدین کو بھی اپنے بیٹے اور بیٹیوں کو یکساں مقدار میں ہی عطیہ و تحفہ اور پیار و محبت دینا چاہیے۔

    ان احادیث کی رُو سے كسى بھى شخص كے ليے جائز نہيں كہ ’’وہ اپنى اولاد ميں كسى كو تو كچھ ہبہ كرے اور كسى كو نہ دے، يا پھر ان ميں سے كسى ايک كو دوسرے پر فضيلت ديتے ہوئے زيادہ چيز ہبہ كرے‘‘۔ اولاد کے مابین عدل وانصاف اور برابری نہ کرنے والے اپنی اولاد میں ایک دوسرے کے خلاف عداوت، حسد، بغض اور کینہ کے بیج بوتے ہیں ۔ جس اولاد پر دوسروں کو ترجیح دی گئی ہوتی ہے اس کی اپنے باپ سے قطع تعلقی ہو جاتی ہے اور وہ اس سے دور ہو جاتا ہے۔ اسلام ہر انسان کو اپنی تمام اولاد کے مابین عدل و انصاف اور برابری کرنے کا حکم دیتا ہے، ایسا نہ کرنا ظلم و زیادتی ہے اور ایسے لوگ گناہ گار ہیں۔ اس وجہ سے نبی ﷺ نے بشیر ﷛ سے فرمایا: ’’اللہ سے ڈرو اور اپنی اولاد کے درمیان انصاف کو قائم رکھو‘‘۔ بشیر ﷛ نے گھر لوٹتے ہی وہ ہبہ شدہ مال واپس لے لیا جیسا کہ صحابہ کرام کا طرز عمل ہوا کرتا تھا کہ وہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی قائم کردہ حدود کی پاسداری کیا کرتے تھے۔

    والدین بیٹوں اور بیٹیوں کے درمیان کپڑوں اور کھانے وغیرہ کے معاملے میں بھی امتیازی سلوک روا نہیں رکھ سکتے، حتی کہ بوسہ اور پیار و محبت میں بھی تفریق کی اجازت نہیں ہے چنانچہ حدیث ہے:

    سیدنا انس ﷛ کہتے ہیں: ایک آدمی، رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھا، اس کے پاس اس کا بیٹا آیا، اس نے اس کو بوسہ دیا اور اسے اپنی ران پر بٹھا لیا، پھر اس کی بیٹی پہنچ گئی، اس نے اس کو اپنے پہلو میں بیٹھا لیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا:’’ ‏‏‏‏تو نے ان دونوں کے درمیان انصاف کیوں نہیں کیا؟ ‘‘۔(سلسلہ احاديث صحيحہ، ترقیم البانی: 3098)

    یہ تو رہا ہبہ و عطیہ دینے اور پیار و محبت کرنے کا معاملہ جس میں اپنے تمام بیٹے اور بیٹیوں کے مابین عدل وانصاف اور برابری کرنا واجب ہے جو کہ آج مسلمانوں کی اکثریت نہیں کرتی جبکہ وصیت اور وراثت کا مسئلہ اور بھی سنگین ہے۔
     
  15. اجمل

    اجمل محسن

    شمولیت:
    ‏فروری 10, 2014
    پیغامات:
    709
    وصیت اور میراث کی تقسیم میں ناانصافی
    وارثین کی حق تلفی کرنا:

    بعض لوگ اپنی زندگی میں ، خاص کر اپنی زندگی کی آخری ایام میں اپنے حقیقی وارث / وارثین کا حق مار کر اپنا سارا مال یا اس کا ایک تہائی سے زیادہ حصہ کسی رشتہ دار یا ادارے کو ہبہ کردیتے ہیں یا اس مال سے کوئی مسجد یا فلاحی ادارہ بنا دیتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ مرنے کے بعد تا قیامت صدقہ جاریہ کا ثواب حاصل کرتے رہیں گے تو واضح ہو کہ وارثین کا حق مارنا کبیرہ گناہ ہے۔ ان کا یہ عمل ان کے لیے ثواب کے بجائے عذاب کا باعث بنے گا۔ بعض لوگ وارثین کی اجازت سے ایسا کرتے ہیں، تو یہ بھی جائز نہیں، چاہے وارثین مالدار ہی کیوں نہ ہوں (کہ بیٹے اور بیٹیاں والد / والدہ کے احترام میں راضی تو ہو جاتے ہیں جبکہ اکثر کے دل میں بات رہ جاتی ہے) ۔ لیکن وارثین کا حق مارے بغیر انسان جو بھی مال اللہ کی راہ میں خرچ کرے کا ، اسے اس کو پورا اجر ملے گا اور ملتا رہے گا، ان شاء اللہ۔

    حضرت سعد بن ابی وقاص ﷛ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ حجۃ الوداع کے سال میری عیادت کے لیے تشریف لائے۔ میں سخت بیمار تھا۔ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول (ﷺ)! میرا مرض شدت اختیار کر چکا ہے۔ میرے پاس مال و اسباب بہت ہے اور میری صرف ایک لڑکی ہے، جو وارث ہو گی۔ تو کیا میں اپنے دو تہائی مال کو خیرات کر دوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: نہیں! میں نے کہا: آدھا؟ آپﷺ نے فرمایا: نہیں! میں نے کہا: ایک تہائی؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’ایک تہائی کر دو اور یہ بھی بہت ہے، تو اپنے وارثوں کو اپنے پیچھے مال دار چھوڑ جائے، یہ اس سے بہتر ہو گا کہ تو انھیں اس طرح محتاجی کی حالت میں چھوڑ کر جائے کہ وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھریں۔ یاد رکھو، جو خرچ بھی تم اللہ کی رضا کی نیت سے کرو گے، اس پر تمھیں ثواب ملے گا، حتیٰ کہ اس لقمہ پر بھی، جو تم اپنی بیوی کے منہ میں ڈالتے ہو‘‘۔ (صحيح البخاري: 5668)

    اور اللہ کی رضانبی اکرم ﷺ کی اطاعت و فرمانبرداری میں ہے۔ اس حدیث کے مطابق آپ ﷺ کی اطاعت یہ ہے کہ کوئی بھی قریب المرگ شخص اپنے ایک تہائی سے زیادہ مال صدقہ کرنے کی وصیت نہ کرے۔
     
  16. اجمل

    اجمل محسن

    شمولیت:
    ‏فروری 10, 2014
    پیغامات:
    709
    وصیت کا مسٔلہ:

    وصیت کا مسئلہ اس سے بھی زیادہ سنگین ہے۔ وصیت کا تعلق موت کے بعد سے ہوتا ہے اور میراث کی تقسیم بھی انسان کے مرنے کے بعد ہی ہوتی ہے۔ کوئی شخص وصیت کرے کہ میرے مرنے کے بعد اتنا مال فلاں کودے دیا جائے یا فلاں مقصد کے لیے استعمال کیا جائے تو اسے وصیت کہا جائے گا۔ وصیت کی مشروعیت پر کتاب وسنت اوراجماع میں دلائل موجود ہیں۔

    حضرت عبداللہ بن عمر ﷛ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’ کسی مسلمان کےلائق نہيں کہ اس کے پاس وصیت کرنے والی کوئی چيز ہو اور وہ بغیر وصیت لکھے دوراتیں بسر کرلے‘‘۔ (صحيح البخاري: 2738)

    آج مسلمانوں کی اکثریت وصیت کرنے کے صحیح طریقے سے واقف نہیں ہے، جس کی بنا پر لوگ بغیر علم کے وصیت لکھتے یا کرتے ہیں اور ایک ایسے کبیرہ گناہ کے مرتکب ہوجاتے ہیں جس کی وجہ سے ان کے سارے نیک اعمال حبط ہوجاتے ہیں۔

    مندرجہ بالا حدیث میں جس وصیت کی تاکید کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ انسان پرکسی کا کوئی حق ہو اور اس کا کوئی ثبوت نہ ہوتو اس کی وصیت کرنا واجب ہے تا کہ وہ حق ضائع نہ ہوجائے۔ اس کے علاوہ اگر کوئی شخص یہ چاہتا ہو کہ موت کے بعد اسے اجر و ثواب ملے تو وہ زیادہ سے زیادہ اپنے ایک تہائی مال کی وصیت کرسکتا ہے کہ موت کے بعد اس کا اتنا مال نیکی و بھلائی کے فلاں فلاں کام میں صرف کردیا جائے تو اس صورت میں وصیت کرنا مستحب ہوگا ، اس کے علاوہ

    (1) اگر کسی شخص کا قرضہ ہے تو اس کی وصیت کرنا واجب ہے۔
    (2) اگر زکوٰة فرض تھی، جتنے سال ادا نہیں کیے تو اس کی وصیت کرنا واجب ہے۔
    (3) اگر زندگی میں حج فرض کی ادائیگی نہیں کرسکا تو اس کی وصیت کرنا واجب ہے۔
    (4) اگر روزے نہیں رکھ سکا اس کے بدلہ میں فدیہ ادا کرنے کی وصیت کرنا واجب ہے۔
    (5) اگر کوئی قریبی رشتہ شریعت کے قانون کے مطابق میراث میں حصہ نہیں حاصل کرپا رہا ہے، مثلاً یتیم پوتا اور پوتی اور انھیں شدید ضرورت بھی ہے تو وصیت کرنا واجب تو نہیں ہے لیکن اسے اپنے پوتے یا پوتی کا ضرور خیال رکھنا چاہیے، بعض علماء نے ایسی صورت میں وصیت کرنے کو واجب بھی کہا ہے۔

    کوئی وصیت کرے یا نہ کرے اگر مرنے والے پر کسی کا قرض ہے تو ترکہ میں سے سب سے پہلے قرض کی ادائیگی کی جائے گی۔ بقیہ معاملات کے بارے میں لواحقین کو چاہیے کہ کسی علم میراث کے ماہر سے مشورہ کرکے عمل کریں۔

    واضح ہو کہ دین اسلام میں صرف ایک تہائی مال کی وصیت کرنے کی اجازت ہے۔ اور یہ کہ ایک تہائی یا اس سے کم مال میں وصیت کرنی جائز ہے، اور بعض علماء کرام کہتے ہیں کہ مستحب یہ ہے کہ وصیت ایک تہائی تک بھی نہ پہنچے بلکہ اس سے کم ہی رہے، جیسا کہ حضرت عباس ﷛ نے فرمایا ہے کہ کاش! لوگ (وصیت کو) چوتھائی تک کم کر دیتے تو بہتر ہوتا کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا: ’’ تم تہائی (کی وصیت کر سکتے ہو) اور تہائی بھی بہت ہے۔ یا (آپ ﷺ نے یہ فرمایا کہ) یہ بہت زیادہ رقم ہے‘‘۔ (صحیح بخاری: 2743)
    ۔
    ماخوذ: کتاب بابرکت و باسعادت بڑھاپا، اس کتاب کی پرنٹیڈ ہارڈ کاپیاں موجود ہیں جولینا چاہتے ہوں وہ مجھ سے رابطہ کرسکتے ہیں ، واٹس اپ 03262366183 پر۔
     
  17. اجمل

    اجمل محسن

    شمولیت:
    ‏فروری 10, 2014
    پیغامات:
    709
    ورثاکے لیے وصیت کرنا:

    ورثاکے لیے تو وصیت کرنا جائز ہے ہی نہيں، جیسا کہ اس بارے میں سنن ابن ماجہ، سنن نسائي، سنن ترمذي، اور سنن ابی داؤد وغیرہ میں احادیث موجود ہیں، مثلاً حضرت انس بن مالک ﷛ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: ’’اللہ تعالیٰ نے (میت کے ترکہ میں) ہر ایک حقدار کو اس کا حق دے دیا ہے، تو سنو! کسی وارث کے لیے وصیت جائز نہیں ہے‘‘۔ (سنن ابن ماجہ: 2714)

    عمرو بن خارجہ ﷛ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے خطبہ دیا تو فرمایا:’’اللہ تعالیٰ نے ہر حق والے کو اس کا حق دے دیا ہے ، (تو تم سمجھ لو) وارث کے لیے وصیت نہیں ہے‘‘۔ (سنن نسائي: 3671، سنن ترمذي: 2121 ، سنن ابي داود: 2870)

    کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آیات میراث نازل فرما کر ہر وارث کا حصہ متعین کر دیا ہے اور نبی اکرم ﷺ نے اس کی وضاحت فرما دی ہے۔ لہذا وارث کے لیے وصیت کرنا جائز نہیں ہے۔

    لیکن نبی کریم ﷺ کی اس واضح حکم کے باوجود بعض لوگ نادانستہ یا دانستہ طور پر غلط وصیت کرتے ہیں جس کے ذریعے اپنے ایک یا ایک سے زائد یا سارے ورثاء کو نقصان پہنچا دیتے ہیں، اور اس طرح کبیرہ گناہ کے مرتکب ہوکر اپنی آخرت تباہ کر لیتے ہیں۔ جبکہ بعض لوگ اپنی زندگی ہی میں اپنا مال وجائیداد اولاد اور اقرباء میں تقسیم کر دیتے ہیں، عام طور سے دیکھنے میں آیا ہے کہ صرف بیٹوں کو حصہ دیاجاتا ہے اور بیٹیوں اور بیوی / بیویوں کو محروم کردیا جاتا ہے۔ اگرچہ لوگوں کو اپنی زندگی میں اپنے مال میں تصرف کا مکمل اختیار ہے؛ لیکن یاد رہے ان کا یہ عمل اسلامی تعلیمات اور اس کی روح و مقتضیٰ کے خلاف ہے؛ چنانچہ جابر ﷛سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺ اور حضرت ابوبکر صدیق ﷛ کے ہمراہ بنوسلمہ میں میری عیادت کے لیے تشریف لائے، مجھ پر بے ہوشی طاری تھی، آپ ﷺ نے پانی منگوایا، وضو فرمایا پھر اس پانی سے تھوڑا مجھ پر چھڑکا، مجھے ہوش آ گیا، تو میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میں اپنے مال کا کیا کروں؟ تب یہ آیت اتری: « يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِى أَوْلاَدِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الأُنْثَيَيْن » (النساء: 11) اخیر تک۔ (صحیح بخاری: 4577، صحیح مسلم: 1616، سنن ترمذی: 2096)

    سورة النساء کی آیات 11 اور 12 میں میراث کے بارے میں بیان کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ آیت 13 میں اس حکم کو ماننے والوں کو جنت بشارت دی ہے، فرمایا: ‏

    تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ ۚ وَمَن يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ يُدْخِلْهُ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا ۚ وَذَٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ ‎(١٣) سورة النساء
    ’’یہ اللہ کی حدیں ہیں، اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) کی فرمانبرداری کرے گا اللہ اسے بہشتوں میں داخل فرمائے گا جن کے نیچے نہریں رواں ہیں، وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے، اور یہ بڑی کامیابی ہے ‘‘

    اور اس کے بعد آیت 14 میں اللہ تعالیٰ کے اس حکم یعنی میراث کے معاملے میں نافرمانی کرنے والوں کو وعید سناتے ہوئے فرمایا گیا ہے:

    وَمَن يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَتَعَدَّ حُدُودَهُ يُدْخِلْهُ نَارًا خَالِدًا فِيهَا وَلَهُ عَذَابٌ مُّهِينٌ ‎(١٤) سورة النساء
    ’’اور جو اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گا اور اس کی حدوں سے نکل جائے گا اس کو اللہ دوزخ میں ڈالے گا جہاں وہ ہمیشہ رہے گا۔ اور اس کو ذلت کا عذاب ہوگا‘‘

    اور ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’مرد اور عورت ساٹھ (60) سال تک اللہ کی اطاعت کرتے ہیں پھر ان کی موت کا وقت آتا ہے اور وہ وصیت کرنے میں (ورثاء کو) نقصان پہنچاتے ہیں، جس کی وجہ سے ان دونوں کے لیے جہنم واجب ہو جاتی ہے‘‘۔ (سنن ترمذي:2117)

    ورثاء کو نقصان پہنچانے کی بعض صورتوں کا ذکر اوپر ہوچکا ہے اور بعض یہ ہیں کہ اپنے بعد جائیداد کو سرے سے تقسیم کرنے سے ہی منع کردیا جائے اور اسے مشترکہ خاندانی جائیداد قرار دے کر یوں ہی رکھنے کی وصیت کر دی جائے، والدین کی موجودگی میں شادی شدہ بیوی بچوں والے بیٹے کی فوتگی پر اس کی بیوی بچوں کا اس کے ترکے پر قابض ہوجانا اور مرحوم کے والدین اور دیگر وارثین کو حق وراثت سے محروم رکھنا، جس شخص کی صرف بیٹیاں ہوں اس کا اپنی زندگی اپنی جائیداد اپنی بیٹیوں کے نام کر دینا اور دیگر وارثین کو حق وراثت سے محروم رکھنا، ایک تہائی مال سے زیادہ کی وصیت کر نا یا ورثاء میں سے کسی ایک کو مال کا زیادہ حصہ یا سارا مال ہبہ کردینا یا وصیت سے پہلے جھوٹ کا سہارا لے کر اپنے اوپر کسی کا قرض ثابت کرکے اسے فائدہ پہنچانا یا حیلے بہانوں سے کوئی اور بات گھڑ لینایا لے پالک کو وراثت میں حصہ دار بنانا وغیرہ اس طرح کی بہت سی صورتیں ہیں جہاں وراثت کے معاملے میں وارث / وارثین کی حق تلفی کی جاتی ہے تو معلوم ہونا چاہئے کہ ایسا کرنا صرف وارثین پر ظلم کرنا ہی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی حدود کو توڑنا ہے اور اللہ تعالیٰ کا متعین کردہ قانونِ وراثت کو چیلنج کرنا ہے، اس لیے اس کی سزا بھی سخت ہے اور رسول اللہ ﷺ کے فرمان کے مطابق ایسے بندے کی ساری زندگی کی عبادت برباد ہو جائے گی اور وہ جہنم میں جاگرے گا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ایسے ہر گناہ سے بچائے رکھے جس سے حبطِ اعمال کا خظرہ ہو ۔ آمین
    ۔
    ماخوذ: کتاب بابرکت و باسعادت بڑھاپا، اس کتاب کی پرنٹیڈ ہارڈ کاپیاں موجود ہیں جولینا چاہتے ہوں وہ مجھ سے رابطہ کرسکتے ہیں ، واٹس اپ 03262366183 پر۔
    ۔
     
  18. اجمل

    اجمل محسن

    شمولیت:
    ‏فروری 10, 2014
    پیغامات:
    709
    وصیت کی تنفیذ

    وصیت کی تنفیذ بھی ایک اہم معاملہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے نافذ کرنے کی تاکید کی ہے اور وصیت کا بدلنا یا وصیت کا چھپانا بڑا گناہ ہے۔ بدلنے والے کے لیے بھی بہت سخت اور شدید قسم کی وعید سنائي گئي ہے، فرمایا:

    فَمَن بَدَّلَهُ بَعْدَ مَا سَمِعَهُ فَإِنَّمَا إِثْمُهُ عَلَى الَّذِينَ يُبَدِّلُونَهُ ۚ إِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ ‎(١٨١) سورة البقرة
    ’’پھر جو شخص اسے (وصیت) سننے کے بعد اسے بدل دے اس کا گناہ بدلنے والے پر ہی ہوگا واقعی اللہ تعالیٰ سننے والا اور جاننے والا ہے‘‘

    لیکن وصیت کا نفاذ اسی صورت میں واجب ہے جب وہ جائز اور انصاف پر مبنی ہو جیسے قرض کی ادائیگی یا ایک تہائی مال کے بارے میں مورث کی کوئی وصیت وغیرہ ۔ اللہ سبحانہ نے یہ بات اگلی آیت میں بیان فرما دی ہے۔

    فَمَنْ خَافَ مِن مُّوصٍ جَنَفًا أَوْ إِثْمًا فَأَصْلَحَ بَيْنَهُمْ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ ۚ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ‎(١٨٢) البقرة
    ’’پھر جسے اندیشہ ہو کہ وصیت کرنے والے نے نادانستہ یا قصداً کچھ بے انصافی یا گناہ کیا ہے تو وہ ان (وارثوں) میں صلح کرادے تو اس پر کچھ گناہ نہیں، بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ‘‘۔
    ۔
     
  19. اجمل

    اجمل محسن

    شمولیت:
    ‏فروری 10, 2014
    پیغامات:
    709
    عاق کرنا
    ان بے انصافی کے کاموں میں سے ایک کسی بیٹا یا بیٹی کو جائداد سےعاق کرنا بھی ہے۔ جو کہ اکثر والدین صرف اپنی نافرمانی کرنے پر (اللہ تعالیٰ کی نافرمانی پر نہیں) اپنے کسی بیٹے یا بیٹی کو اپنی جائداد سے عاق کرنے کا فرمان جاری کر دیتے ہیں۔ جو بیٹا یا بیٹی اپنے والد یا والدہ کی نافرمانی کرتے ہیں ، وہ خود ہی عاق اور گناہ ِ کبیرہ کے مرتکب ہوتے ہیں لیکن جو والدین اپنے ایسے کسی نافرمان بیٹے یا بیٹی کو عاق کرتے ہیں وہ خود بھی کبیرہ گناہ کا ارتکاب کر بیٹھتے ہیں اور ساتھ ہی اپنے دیگر بیٹے، بیٹیوں اور نسبی رشتہ داروں کو دوہرے کبیرہ گناہ میں ملوث کر دیتے ہیں۔ کیونکہ ان کے عاق کرنے کی وجہ سے دیگر بھائی بہن اور نسبی رشتہ دار اس عاقی سے تعلقات قطع کر لیتے ہیں اور اسے وراثت میں حصہ بھی نہیں دیتے۔ اس طرح یہ لوگ دوہرے کبیرہ گناہ کے مرتکب ہوتے ہیں ، پہلااس سے قطع رحمی کرنے کا اور دوسرا اسے وراثت سے محروم کرنے کا۔قطع رحمی کرنا اور کسی کو وراثت سے محروم کرنادونوں ہی کبیرہ گناہ ہے۔

    قرآن و سنت کی رُو سےکسی بندے کا اپنے کسی بیٹا یا بیٹی کو جائداد سے عاق کرنا حرام اور کبیرہ گناہ ہے اور عاق کرنے سے کوئی وارث میراث سے محروم نہیں ہوتا، شرعی عدالت اسے اس کا حق وراثت دلانے کی مجاز ہوگی، جبکہ عاق کرنے والا باپ یا ماں کبیرہ گناہ کے مرتکب ہوں گے۔

    کیونکہ رسول اکرم ﷺ نے یہ وعید سنائی ہے:’’ جو شخص اپنے وارث کو اس کی میراث سے محروم کرے گا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کو جنت سے محروم فرما دیں گے‘‘۔ (مشكوة المصابيح: 3078)

    یہ حدیث کتنی بڑی تنبیہ ہے اگر کوئی سمجھے اور غور کرے کہ کسی ایک نافرمان بیٹا یا بیٹی کو عاق کرنے یعنی میراث سے محروم کرنے کی وجہ سے انسان اپنی تمام تر عبادات کے باوجود آخرت میں ہمیشہ کی جنت سے محروم ہوکر جہنم میں چلا جائے گا۔ لاعلمی کی وجہ سے لوگ بڑھاپے میں حبط اعمال ہونے والے اس طرح کے گناہ کر بیٹھتے ہیں۔ اس لیے دین کا علم حاصل کرنا کتنا ضروری ہے۔

    اللہ تعالیٰ ہمیں دین کا علم سیکھنے اور اس کے مطابق عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں ہر طرح کی گناہوں سے بچائے رکھے۔ آمین
    ۔
     
  20. اجمل

    اجمل محسن

    شمولیت:
    ‏فروری 10, 2014
    پیغامات:
    709
    وراثت کے بارے میں مروجہ رسم و رواج

    برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں میں بیٹیوں اور بہنوں کے حقوق مارنے کی روایت بہت عام ہے، باپ اپنی بیٹیوں کو میراث میں حصہ نہیں دیتا اور بھائی بہنوں کا حصہ ہڑپ کر جاتا ہے۔ لوگوں نے وراثت کی تقسیم سے بچنے کے لیے بیٹیوں اور بہنوں کی شادی قرآن سے کرانے کا نہایت ہی قبیح فعل رائج رکھا ہوا ہے بلکہ بعض گناہ گار تو یہاں تک کرتے ہیں کہ اپنی ہی بیٹی یا بہن کو کاری قرار دے کر سنگسار کر دیتے ہیں (کاری یعنی خاندان کی عزت و آبرو کے تحفظ کے نام پر قتل کر دینا) ۔

    یہ ساری زندگی کے نیک اعمال حبط کرنے والے سنگین گناہ ہیں۔ جو لوگ دیندار اور متقی سمجھے جاتے ہیں وہ بھی بیٹیوں / بہنوں کو جہیز دینے کا جواز پیش کرکے بیٹیوں / بہنوں سے پیار محبت سے یا پھر جبراً میراث سے ان کا حصہ معاف کروا لیتے ہیں، اللہ کے بندو! یہ معاف نہیں ہوتے کیونکہ ایسا کرنا احکامِ الٰہی کو چیلنج کرنے والے حیلے بہانے ہیں۔ ایسا باپ اور ایسا بھائی اللہ اور رسول اللہ ﷺ کی وعید کے مطابق جہنم کے ایندھن ہیں۔

    اسلام سے پہلے وراثت میں عورتوں کا کوئی حق نہیں تھا بلکہ عورت بذاتِ خود مالِ میراث سمجھی جاتی تھی۔ دین اسلام نے عورتوں کے ساتھ ہونے والے دورِ جاہلیت کے ہر ظالمانہ رسم و رواج کو ختم کیا اور عورتوں کو عزت و احترام اور میراث میں حق دیا۔ اللہ تعالیٰ نے آیات میراث کو سورة النساء کا حصہ بنا کر عورتوں کو میراث میں حصہ دینے کی اہمیت کو واضح کیا ہے بلکہ آیاتِ میراث نازل ہوئی ہی ہے عورتوں کو میراث میں حصہ دلانے کے لیے، ارشاد ربانی ہے کہ

    لِّلرِّجَالِ نَصِيبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ وَلِلنِّسَاءِ نَصِيبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ مِمَّا قَلَّ مِنْهُ أَوْ كَثُرَ ۚ نَصِيبًا مَّفْرُوضًا ‎(٧) سورة النساء
    ’’مردوں کے لیے اُس مال میں حصہ ہے جو ماں باپ اور رشتہ داروں نے چھوڑا ہو، اور عورتوں کے لیے بھی اُس مال میں حصہ ہے جو ماں باپ اور رشتہ داروں نے چھوڑا ہو، خواہ تھوڑا ہو یا بہت، اور یہ حصہ (اللہ کی طرف سے) مقرر ہے ‘‘

    میراث کی شرعی تقسیم ایک ایسا فریضہ ہے جس میں کوتاہی کے مرتکب بڑے بڑے دیندار اور متقی لوگ بھی ہیں۔ صوم و صلاۃ کے پابند، متعدد بار عمرہ و حج کرنے والے، سود، چوری، جھوٹ و فریب سے بچنے والے دیندار ہونے کے دعویدار لوگ بھی میراث کے باب میں غلط وصیت کرتے یا میراث کی اپنی من مانی تقسیم کرتے یا میراث غصب کرتے نہیں ڈرتے۔ کاش! اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی وعید ایسے لوگوں کے دلوں میں اتری ہوتی۔

    الغرض وصیت اور میراث کے معاملے میں بہت محتاط رہنے کی ضرورت ہے کیونکہ اس معاملے میں غلطی، کوتاہی اور غفلت ایک بندہ مومن کی ساری زندگی کی عبادت ضائع کردیتی ہے، اس بارے میں ہمیں درج ذیل نکات کو ہمیشہ سامنے رکھنا چاہیے تاکہ ہم سب ہبہ، وصیت اور میراث کے معاملے میں گناہ کبیرہ سے بچ سکیں:

    ü کسی علم میراث کا علم رکھنے والے عالم دین سے مشورہ کیے بغیر سنی سنائی باتوں یا اپنے علم کی بنا پر ہرگز کوئی ہبہ، وصیت یا وراثت کی تقسیم نہ کریں۔
    ü وارثوں کے لیے وصیت کرنا جائز نہیں، ہر وارث کو اتنا ہی ملے گا جتنا اللہ تعالیٰ نے اس کا حق متعین کردیا ہے۔
    ü وصیت صرف ایک تہائی یا اس سے کم مال کی کی جاسکتی ہے۔ایک تہائی مال سے زیادہ کی وصیت یا کسی ایسے شخص کو وصیت کرنا جس کا حصہ میراث میں مقرر ہے حرام ہے، یا کسی وارث کا حصہ کم کرنے یا اسے محروم کرنے کے لیے وصیت کرنا بھی حرام ہے۔
    ü میراث کو قرآن و سنت کے مطابق تقسیم نہ کرنا اور دیگر وارثوں کا حق مارنا کفار، یہود، نصاریٰ، ہندوؤں اور غیر مسلم اقوام کا طریقہ ہے۔
    ü اگر کسی شخص کی ایک سے زائد اولاد ہوں تو وہ اپنی زندگی میں بلا ضرورت و ترجیح کسی ایک بیٹا یا بیٹی کو ہبہ نہیں کرسکتا یا کسی کو کم اور کسی کو زیادہ نہیں دے سکتا۔ اگر کوئی شخص ہبہ کرنا ہی چاہتا ہو تو اسے اپنی تمام اولاد کے مابین عدل، انصاف اور برابری کی بنیاد پر ہی ہبہ کرنا ہوگا، ایسا نہ کرنے والا گناہ گار ہوگا۔
    ü اپنی اولاد کے علاوہ کسی اور فرد کو مثلاً یتیم پوتا یا پوتی، لے پالک بیٹا یا بیٹی کو یا کسی کار خیر کے لیے اپنے ایک تہائی مال سے زیادہ کا ہبہ یا صدقہ کرنا بھی درست نہیں۔
    ü وراثت کی تقسیم میں ٹال مٹول کرنا یا تقسیم نہ کرنا وراثت سے متعلق اللہ اور رسول کے احکام سے بے پروائی برتنا ہے جو کہ صریح فسق ہے، لہٰذا ایسا شخص فاسق ہے اور گناہِ کبیرہ کا مرتکب ہے۔ خاص طور پر برس ہا برس اس پر اصرار کرنا اور توبہ نہ کرنا بڑا گناہ اور اللہ تعالیٰ سے بغاوت کے مترادف ہے۔
    ü میراث کے حق داروں کا مال کھا جانا ظلم ہے اور ایسا کرنے والا شخص ظالم ہے۔ لیکن اگر تمام ورثاء اپنا اپنا حق اپنے قبضے اور تحویل میں لے لیں، پھر کوئی طاقت ور وارث اسے چھین لے تو یہ غصب ہوگا۔ اس کا گناہ ظلم سے بھی زیادہ ہے۔
    ü میراث پر قبضہ کرنے والے کے ذمے میراث کا مال قرض ہوگا اور قرض واجب الادا ہے۔ اگر کوئی دنیا میں ادا نہیں کرے گا تو آخرت میں لازماً دینا ہی ہوگا۔
    ü ایسا مال جس میں میراث کا مال شامل ہو، اس سے خیرات و صدقہ اور انفاق کرنا، حج و عمرہ کرنا اگرچہ فتوے کی رُو سے جائز ہے اور اس سے حج کا فریضہ ادا ہو جائے گا لیکن ثواب حاصل نہیں ہوگا، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ پاک و طیب مال قبول کرتا ہے۔
    ü میراث شریعت کے مطابق تقسیم نہ کرنے والا دوزخ میں داخل ہوگا۔
    ü میراث مستحقین کو نہ دینے والا حقوق العباد تلف کرنے کا مجرم ہے۔
    ü جو شخص میراث کا مال کھا جاتا ہے حق دار وارث اس کو بددعائیں دیتے ہیں۔
    ü جو میراث کا مال کھا جاتا ہے اس کی دعا قبول نہیں ہوتی۔

    انسان کے پاس جو مال ہے اس کا اصل وارث اللہ وہ اللہ تعالیٰ کا ہی ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس مال کو جس طرح خرچ کرنے کا حکم دیا ہے اسے اسی طرح خرچ کرنا ضروری ہے۔ہر مسلمان اپنی ہر نماز کے بعد کہتا ہے:

    اللَّهُمَّ لَا مَانِعَ لِمَا أَعْطَيْتَ، وَلَا مُعْطِيَ لِمَا مَنَعْتَ ، وَلَا يَنْفَعُ ذَا الْجَدِّ مِنْكَ الْجَدُّ
    ’’اے اللہ جسے تو دے اس سے روکنے والا کوئی نہیں اور جسے تو نہ دے اسے دینے والا کوئی نہیں اور کسی مالدار کو اس کی دولت و مال تیری بارگاہ میں کوئی نفع نہیں پہنچا سکے گی‘‘۔ (صحيح البخاري: 6330)

    ساری زندگی نماز کے بعد اس دعا کو پڑھنے کے باوجود بھی جب کوئی شخص حکم الٰہی کو چیلنج کرتے ہوئے اپنے طور پر کسی وارث کو زیادہ اور کسی کو کم مال دے جائے یا دینے کی وصیت کر جائے تو ایسے شخص کی ساری زندگی کی عبادت غارت ہوجانے کا ہی خدشہ ہے۔ کیا اللہ تعالٰی نے آگاہ نہیں کیا کہ:

    آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ لَا تَدْرُونَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ لَكُمْ نَفْعًا ۚ فَرِيضَةً مِّنَ اللَّهِ ۗ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا ‎(١١) سورة النساء
    ’’تم نہیں جانتے تمہارے والدین اور تمہاری اولاد میں سے کون تمہیں زیادہ نفع پہنچانے والا ہے، یہ (تقسیم) اللہ کی طرف سے فریضہ (یعنی مقرر) ہے، بے شک الله خبردار حکمت والا ہے ‘‘

    جب اللہ تعالیٰ اور اللہ کے رسول ﷺ کی طرف سے غلط ہبہ اور غلط وصیت کرنے پر اعمال کے غارت ہونے اور ہمیشہ کے لیے جہنم میں پھینک دیئے جانے جیسے سنگین عذاب کی وعید سنائی جاچکی ہے تو ہبہ یا وصیت کرنے سے پہلے ان کا مکمل علم حاصل کرنا یا ان کے بارے میں اہل علم سے معلومات حاصل کرنا ضروری ہے تاکہ اس بارے میں کوئی غلطی یا کوتاہی نہ ہوجائے۔ اسی طرح خاندان کے دوسرے لوگوں کو اور دوست احباب کو بھی اس بارے میں بتانے کی ضرورت ہے تاکہ لاعلمی میں کوئی شخص اپنے کسی وارث کا حق مار کر خود جہنمی نہ بن جائے۔ آج مسلمانوں میں کتنے ایسے لوگ ہیں جو کتاب و سنت پر عمل کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے لیکن وصیت کے معاملے میں غلطی کر جاتے ہیں، اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس گناہ سے محفوظ رکھے۔ آمین۔
    ماخوذ: کتاب بابرکت و باسعادت بڑھاپا، اس کتاب کی پرنٹیڈ ہارڈ کاپیاں موجود ہیں جولینا چاہتے ہوں وہ مجھ سے رابطہ کرسکتے ہیں ، واٹس اپ 03262366183 پر۔
    ۔
     
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں