رسم تعزیہ داری ، اسلام اور شرعی تعزیت کی کسوٹی پر

مقبول احمد سلفی نے 'اتباعِ قرآن و سنت' میں ‏جولائی 12, 2024 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. مقبول احمد سلفی

    مقبول احمد سلفی ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏اگست 11, 2015
    پیغامات:
    882
    رسم تعزیہ داری ، اسلام اور شرعی تعزیت کی کسوٹی پر
    تحریر: مقبول احمد سلفی
    جدہ دعوہ سنٹر ، حی السلامہ – سعودی عرب

    آج کل محرم میں جس قسم کی تعزیہ داری کی رسم ادا کی جاتی ہے اسلام میں اس کی حیثیت کیا ہے اس کو جاننے کے لئے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ تعزیت کسے کہتے ہیں اور اس کا شرعی حکم کیا ہے ؟
    تعزیت کو عربی میں تعزیۃ لکھتے ہیں جیسے رحمت کو عربی میں رحمۃ لکھتے ہیں اور تعزیت کا لغوی معنی تسلی دینا اور شرعی اصطلاح میں تعزیت کہتے ہیں میت کے رشتہ دار کو صبر کی تلقین کرنا اور انہیں تسلی دینا تاکہ اس کا غم ہلکا ہو اور اسے دلاسہ ملے ۔
    جب سے شیعوں نے ماتم اور تعزیہ داری کو رواجا اور مسلمانوں کے قبرپرست طبقہ نے اسے اپنایا ہے اس کے بعد اردو لغت والوں نے تعزیت کا ایک معنی اور بڑھادیا ۔ پہلے سے تعزیت کا ایک معنی ہے ہی تسلی دینا اور ایک دوسرا معنی جیسے فرہنگ آصفیہ میں ہے۔"حضرت امام حسن و حسینؑ کی تُربتونکی نقل جو کاغذ اور بانس کے قُبہ کے اندر مُحرم کے دنوں میں دس روز تک اُنکا ماتم یا فاتحہ دلانے کے واسطے بطور یاد گار مناتے ہیں"۔
    یہاں پر ایک شیعی ویکی پیڈیا کے حوالے سے بھی تعزیت کا مطلب جانتے چلیں تو موضوع کو سمجھنے میں مدد ملے گی ۔ شیعہ ویکی پیڈیا کیا کہتا ہے"تعزیہ شیعوں کا ایک رسم ہے جو امام حسینؑ کے جنازے یا ان کے روضے کی شبیہ بناکر عاشورا کے دن عزاداری کے جلوس میں نکالے جاتے ہیں۔ مختلف علاقوں میں تعزیوں کی مختلف شکلیں ہوتی ہیں۔ تعزیہ سونے، چاندی، لکڑی، بانس، کپڑے، اسٹیل اور کاغذ سے تیار کیا جاتا ہے۔ عراق میں تعزیہ کو شبیہ اور ایران میں نخل گردانی کہا جاتا ہے"۔
    اسلام میں تعزیت کسی کی موت پر اس کے رشتہ داروں سے کی جاتی ہے تاکہ میت کے گھروالوں کو تسلی ہو کیونکہ جس کے گھر وفات ہوتی ہے وہ لوگ غمگین اور اداس ہوتے ہیں ۔ اسلام نے ایسے موقع سے تعلیم دی ہے کہ میت کے گھروالوں کو تسلی دی جائے اسے تعزیت کہتے ہیں ۔ تعزیت سے متعلق متعدداحادیث ملتی ہیں ، آئیے چند ایک احادیث دیکھتے ہیں اور اسلام میں تعزیت کی حیثیت جانتے ہیں ۔
    اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک صاحبزادی ( حضرت زینب رضی اللہ عنہ ) نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع کرائی کہ میرا ایک لڑکا مرنے کے قریب ہے‘ اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں سلام کہلوایا اور بایں الفاظ تعزیت فرمائی:إنَّ لِلَّهِ ما أَخَذَ، وله ما أَعْطَى، وكُلٌّ عِنْدَهُ بأَجَلٍ مُسَمًّى، فَلْتَصْبِرْ، ولْتَحْتَسِبْ(صحيح البخاري:1284)
    ترجمہ:اللہ تعالیٰ ہی کا سارا مال ہے‘ جو لے لیا وہ اسی کا تھا اور جو اس نے دیا وہ بھی اسی کا تھا اور ہر چیز اس کی بارگاہ سے وقت مقررہ پر ہی واقع ہوتی ہے۔ اس لیے صبر کرو اور اللہ تعالیٰ سے ثواب کی امید رکھو۔
    اس حدیث میں آگے مذکور ہے کہ نبی ﷺ بچے کی جانکنی کا حال دیکھ کر آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے اس لئے ممکن ہے کہ میت کے شدت غم میں انسان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوجائے مگر میت کے زور زور سے رونا، چیخناچلانا، گریبان چاک کرنااور سینہ کوبی کرنا منع ہے ۔
    ایک دوسری حدیث میں تعزیت کی فضیلت بیان کی گئی ہے چنانچہ نبی ﷺ فرماتے ہیں:
    ما من مؤمنٍ يعزِّي أخاهُ بِمُصيبةٍ إلَّا كساهُ اللَّهُ سبحانَهُ من حُلَلِ الكرامةِ يومَ القيامَةِ(صحيح ابن ماجه:1311)
    ترجمہ:جو مومن اپنے بھائی کو کسی مصیبت پر تسلی دیتا ہے، اللہ تعالیٰ اسے قیامت کے دن عزت افزائی کا خلعت عطا فرمائے گا۔
    سنن نسائی(2090) میں ایک واقعہ موجود ہے۔ قرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب بیٹھتے تو آپ کے صحابہ کی ایک جماعت بھی آپ کے پاس بیٹھتی، ان میں ایک ایسے آدمی بھی ہوتے جن کا ایک چھوٹا بچہ ان کی پیٹھ کے پیچھے سے آتا، تو وہ اسے اپنے سامنے (گود میں) بٹھا لیتے (چنانچہ کچھ دنوں بعد) وہ بچہ مر گیا، تو اس آدمی نے اپنے بچے کی یاد میں محفل میں آنا بند کر دیا، اور رنجیدہ رہنے لگا، تو (جب) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے نہیں پایا تو پوچھا:
    مالي لا أرى فلانًا ؟ قالوا : يا رسولَ اللَّهِ ، بُنَيُّهُ الَّذي رأيتَهُ هلَكَ ، فلقيَهُ النَّبيُّ فسألَهُ عن بُنَيِّهِ ، فأخبرَهُ أنَّهُ هلَكَ ، فعزَّاهُ علَيهِ ، ثمَّ قالَ : يا فلانُ ، أيُّما كانَ أحبُّ إليكَ أن تُمتَّعَ بِهِ عمُرَكَ ، أو لا تأتي غدًا إلى بابٍ من أبوابِ الجنَّةِ إلَّا وجدتَهُ قَد سبقَكَ إليهِ يفتَحُهُ لَكَ ، قالَ : يا نبيَّ اللَّهِ ، بل يَسبقُني إلى بابِ الجنَّةِ فيَفتحُها لي لَهوَ أحبُّ إليَّ ، قالَ : فذاكَ لَكَ(صحيح النسائي:2087)
    ترجمہ:کیا بات ہے؟ میں فلاں کو نہیں دیکھ رہا ہوں؟“ لوگوں نے کہا: اللہ کے رسول! اس کا ننھا بچہ جسے آپ نے دیکھا تھا مر گیا، چنانچہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے ملاقات کی، (اور) اس کے بچے کے بارے میں پوچھا، تو اس نے بتایا کہ وہ مر گیا، تو آپ نے اس کی (موت کی خبر) پر اس کی تعزیت کی، پھر فرمایا: اے فلاں! تجھ کو کون سی بات زیادہ پسند ہے؟ یہ کہ تم اس سے عمر بھر فائدہ اٹھاتے یا یہ کہ (جب) تم قیامت کے دن جنت کے کسی دروازے پر جاؤ تو اسے اپنے سے پہلے پہنچا ہوا پائے، وہ تمہارے لیے اسے کھول رہا ہو؟ تو اس نے کہا: اللہ کے نبی! مجھے یہ بات زیادہ پسند ہے کہ وہ جنت کے دروازے پر مجھ سے پہلے پہنچے، اور میرے لیے دروازہ کھول رہا ہو، آپ نے فرمایا: تمہارے لیے ایسا (ہی) ہو گا۔
    اس میں کلمہ استشہاد ہے "فعزاہ علیہ یعنی نبی نے اس آدمی کی تعزیت فرمائی جس کا بچہ مرگیا تھا ۔ اسی کلمہ کی مناسبت سے امام نسائی نے اس حدیث پر باب باندھا ہے" بَابُ: فِي التَّعْزِيَةِ" یعنی باب: تعزیت کا بیان۔
    اس مقام پر موضوع سے متعلق ایک اہم حدیث بھی دیکھتے چلیں کہ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت پر ایک تابعی نے اہل بیت سے کیسے تعزیت کی ؟
    شہر بن حوشب کہتے ہیں: أَتَيْتُ أُمَّ سَلَمَةَ أُعَزِّيهَا عَلَى الْحُسَيْنِ بْنِ عَلِيٍّ،(میں اُمّ سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس حسین بن علی رضی اللہ عنہما کی تعزیت کے لیے آیا) تو وہ کہنے لگیں: ایک دفعہ میرے پاس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آئے اور ایک چادر پر بیٹھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کوئی چیز لائیں، میں نے اس کو رکھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: ”حسن، حسین اور اپنے چچازاد کو بھی بلاؤ“، جب سارے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اکٹھے ہو گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے متعلق فرمایا: یہ میری خاص اولاد ہے، اور میرے اہلِ بیت ہیں۔ اے اللہ! ان سے گندگی اور نجاست کو دور کر دے، اور ان کو اچھی طرح پاک کر۔(معجم صغير للطبراني: 846)
    مذکورہ بالا روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ وفات کے وقت میت کے گھر والوں کو صبر دلایا جائے ، وہ آپ کسی طرح کے الفاظ کے ساتھ صبروتسلی دلا سکتے ہیں ، معین الفاظ میں تعزیت کرنا کوئی ضروری نہیں ہے ۔ نیز تعزیت کے باب میں جہاں تک سوگ کا معاملہ ہے وہ صرف عورتوں کے ساتھ خاص ہے یعنی مردوں کے لئے کبھی بھی سوگ جائز نہیں ہے ، صرف عورتوں کے لئے سوگ جائز ہے کیونکہ سوگ ترک زینت کو کہتے ہیں ۔ آئیے حدیث دیکھتے ہیں :
    عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ: «كُنَّا نُنْهَى أَنْ نُحِدَّ عَلَى مَيِّتٍ فَوْقَ ثَلاَثٍ، إِلَّا عَلَى زَوْجٍ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا، وَلاَ نَكْتَحِلَ وَلاَ نَتَطَيَّبَ وَلاَ نَلْبَسَ ثَوْبًا مَصْبُوغًا، إِلَّا ثَوْبَ عَصْبٍ، وَقَدْ رُخِّصَ لَنَا عِنْدَ الطُّهْرِ إِذَا اغْتَسَلَتْ إِحْدَانَا مِنْ مَحِيضِهَا فِي نُبْذَةٍ مِنْ كُسْتِ أَظْفَارٍ، وَكُنَّا نُنْهَى عَنِ اتِّبَاعِ الجَنَائِزِ»(صحیح البخاری:313)
    ترجمہ:ام عطیہ سے رویت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ ہمیں کسی میت پر تین دن سے زیادہ سوگ کرنے سے منع کیا جاتا تھا۔ لیکن شوہر کی موت پر چار مہینے دس دن کے سوگ کا حکم تھا۔ ان دنوں میں ہم نہ سرمہ لگاتیں نہ خوشبو اور عصب ( یمن کی بنی ہوئی ایک چادر جو رنگین بھی ہوتی تھی ) کے علاوہ کوئی رنگین کپڑا ہم استعمال نہیں کرتی تھیں اور ہمیں ( عدت کے دنوں میں ) حیض کے غسل کے بعد کست اظفار استعمال کرنے کی اجازت تھی اور ہمیں جنازہ کے پیچھے چلنے سے منع کیا جاتا تھا۔
    یہی وجہ ہے کہ ام عطیہ رضی اللہ عنہ کے بیٹے کا جب انتقال ہوا تو انہوں نے صرف تین دن ہی سوگ منائیں جبکہ بیٹے سے جدائی کا غم ایک ماں کو کس قدر ہوگا اندازہ لگاسکتے ہیں ، محمد بن سیرین سے روایت ہے :
    تُوفِّيَ ابنٌ لأمِّ عطيةَ رَضِيَ اللهُ عنها ، فلمَّا كان اليومُ الثالثُ ، دعت بصُفْرَةٍ فتمسحتْ بهِ ، وقالت : نُهِينا أن نُحِدَّ أكثرَ من ثلاثٍ إلَّا بزوجٍ .(صحيح البخاري:1297)
    ترجمہ: ام عطیہ رضی اللہ عنہا کے ایک بیٹے کا انتقال ہوگیا۔ انتقال کے تیسرے دن انہوں نے صفرہ خلوق ( ایک قسم کی زرد خوشبو ) منگوائی اور اسے اپنے بدن پر لگایا اور فرمایا کہ خاوند کے سوا کسی دوسرے پر تین دن سے زیادہ سوگ کرنے سے ہمیں منع کیا گیا ہے۔
    اس سے معلوم ہوتا ہے سوگ صرف عورت کے لئے جائز ہے ، مرد کے لئے نہیں ، دوسری بات یہ ہے کہ عورت اپنے رشتہ دار کی موت پر تین دن سوگ مناسکتی ہے، یہ جائز ہے مگر واجب نہیں ہے تاہم شوہر کی وفات پر واجبی طور پر چار ماہ دس دن سوگ منانا ہے اور یہ سوگ وفات کے وقت زندگی میں ایک بار ہے ، باربار اور ہرسال سوگ جائز نہیں ہے ۔
    شریعت محمدی میں میت کے گھروالوں کی تعزیت سے متعلق اختصار کے ساتھ یہ بات جان لیں کہ جب کسی کے گھر فوتگی ہو تو اس وقت گھر والے غمکین ہوتے ہیں ایسے میں میت کی مغفرت کے لئے دعا دی جائے اور گھر والوں کو تسلی اور صبرکی تلقین کی جائے اور پڑوسی کا حق بنتا ہے کہ اس دن میت کے گھروالوں کے لئے کھانا بنایا جائے اور گھروالوں کو مدد کی ضرورت ہو تو ان کی مدد کی جائے ۔ تعزیت کے لئے کوئی خاص دن نہیں، کوئی خاص طریقہ نہیں، اور کوئی خاص الفاظ ضروری نہیں ۔
    اسلامی تاریخ میں متعدد واقعات رونماہوگئے اور متعدد شہادتیں ہوئیں، ان شہادتوں میں سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت بھی ہے مگر شہادت حسین کے بہانے شیعوں نے تعزیہ کی رسم ایجاد کی اور آج مسلمانوں کی اکثریت بھی شیعوں کی طرح تعزیہ داری کرتے ہوئے نظر آتی ہے۔ یہ ہرگز نہیں بھولیں کہ رسم تعزیہ شیعوں کی ایجاد ہے اوریہ رسم تعزیہ سیدنا حسین کی یاد میں بطور تعزیت ہے ۔ تعزیہ میں شہید کی قبر کی شبیہ ہوتی ہے جوسونے، چاندی، لکڑی، بانس، کپڑے، اسٹیل اور کاغذ سے تیار کی جاتی ہے۔
    جب آپ اسلامی تعزیت اور رسم تعزیہ کا موازنہ کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ رسم تعزیہ بالکل اسلام کے خلاف ہے، اس کا اسلام سے دور دور تک کا واسطہ نہیں ہے ، اسلامی شریعت سے تعزیت کا لفظ استعمال کیا گیا ہے اور اس کے پیچھے سارے اعمال خود سے وضع کئے گئے ہیں ۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ رسم تعزیہ کیسے اسلامی تعزیت اور اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے ۔
    (1) نبی ﷺ کی وفات 9/ربیع الاول گیارہ ہجری کو ہوئی جبکہ کربلا کا واقعہ 10/محرم اکسٹھ ہجری کو پیش آیا۔ اور آپ جانتے ہیں کہ دین اسلام نبی ﷺ کے عہدمبارک میں ہی مکمل ہوچکا تھالہذا دین وہی ہے جو قرآن وحدیث میں موجود ہے اور قرآن وحدیث سے باہر کوئی عمل دین نہیں ہے ۔ رسم تعزیہ سیدنا حسین سے جڑی ہوئی ہے جو یقینا اسلام مکمل ہونے کے بعد کی پیداوار ہے ۔ آپ ﷺ نے کبھی بھی کسی کی وفات یا شہادت پر رسم تعزیہ منانے کا حکم نہیں دیا ہے ۔ آپ نے وفات کے وقت میت کے گھر والوں سے محض تعزیت کا حکم دیا ہے جس کا ذکر سطور بالا میں ہے مگر بانس وکاغذ اور لکڑیوں کے توسط سے لمبا سا جہاز ماڈل قبر کی شبیہ بنانے کے کا کہیں حکم نہیں دیا ہے ، نہ کسی صحابی کے لئے اور نہ ہی اہل بیت کے شہید کے لئے اور نہ خصوصیت کے ساتھ حسین کے لئے ۔ یہ نئی ایجاد بدعت ہے اورہربدعت گمراہی ہے اور ہرگمراہی جہنم میں لے جانے والی ہے ۔
    (2)تعزیہ تعزیت سے ماخوذ ہے اور اسلام میں تعزیت زبانی طور پر میت کے گھروالوں کو دلاسہ اور تسلی دینے کو کہتے ہیں مگر رسم تعزیہ داری میں میت کی قبر کی شبیہ بنائی جاتی ہے اور ہرسال دس محرم کو تعزیہ منایا جاتا ہے ۔ کسی میت یا شہید کی شہادت کے دن بھی ایک مرتبہ بھی شہید کی قبر کی شبیہ نہیں بناسکتے ہیں تو ہرسال اس عمل کا دہرانا بھی کسی طرح جائز نہیں ہے اور کتنے گئے گزرے مسلمان ہیں جو قبروں کی شبیہ بناتے ہیں ، گلی کوچے گھماتے ہیں پھر تالات میں بھسم کرتے ہیں کیا یہ ہندؤں کی مورتی پوجا جیسی عبادت نہیں ہے ؟ ہندو بھی اپنے تہواروں پراپنے بزرگ لوگوں کی مورتی بناتے ہیں ، اس کی تعظیم وعبادت کرتے ہیں اور پھر اسے پانی میں بہادیتے ہیں یعنی جو سب اعتقادات و اعمال ہندو اپنے مورتی کے ساتھ انجام دیتے ہیں ٹھیک ویسے ہی اعتقاد وعمل کے ساتھ تعزیہ داری کی جاتی ہے ۔اس لحاظ سے یہ شرکیہ وکفریہ عمل بھی ہے اور اللہ تعالی نے قرآن میں ذکر کیا کہ وہ ہرگناہ کو معاف کردے گا مگر شرک کو کبھی معاف نہیں کرے گالہذا مسلمانوں کو اس شیعی ایجاد شرکیہ وکفریہ عمل سے پرہیز کرنا چاہئے ۔
    (3) تعزیہ میں موجود قبر کو زندہ حسین سمجھا جاتا ہے ، ان کی تعظیم کی جاتی ہے، ان کے لئے نیاز کی جاتی ہے، نذر مانی جاتی ہے اور ان سے مدد مانگی جاتی ہے حتی کہ ان کا سجدہ بھی کیا جاتا ہےاور تعزیہ کے نیچے سے بچوں کو گزارا جاتا ہے اس اعتقاد کے ساتھ صاحب قبر کی پناہ میں آجائے گا۔ گویا ایک انسان کو معبود کی حیثیت سے پوجا جاتا ہے ، اگر یہ شرک نہیں ہے تو پھر کس کا نام شرک ہے اور اگر کوئی کلمہ پڑھ کر یہ سارے مشرکانہ اعمال انجام دے گا تو اس کا بھی وہی حشر ہوگا جو مورتی پوجنے والوں کا حشر ہوگاکیونکہ ان دونوں میں اعتقاد وعمل کے اعتبار سے کوئی فرق نہیں ہے ۔
    (4)کہیں پر تعزیہ میں ذوالجناحین (دوپروں والے گھوڑے) اور دلدل نامی سواری تیار کرکے اس کا جلوس نکالا جاتا ہے ، یہ دیکھنے میں عجیب مورتی کی شکل میں ہوتی ہے ، اسے نفع ونقصان کا مالک سمجھ کراس کی تعظیم کی جاتی ہے ، اس سے مرادیں مانگی جاتی ہیں ، اس کی زیارت اور اس کے جلوس میں شامل ہونا باعث اجروثواب سمجھا جاتا ہے ۔ عموما اس طرح کی رسم شیعہ انجام دیتے ہیں مگر اس میں تعزیہ منانے والے بھولے بھالے مسلمان بھی شریک ہوتے ہیں جو بیحد شرمناک ہے ۔ اللہ تعالی نے ہمیں بتوں کی عبادت سے نجات دے کر اسلام میں داخل فرمایا پھر بھی بعض مسلمان عمدا یا سہوا بتوں ، گھوڑوں، پتھروں ، قبروں اور مورتیوں کی عبادت کسی نہ کسی شکل میں کرتے ہیں ۔ہم ایسے بے راہوں کے لئے اللہ سے ہدایت کی دعا کرتے ہیں ۔
    (5)تعزیت تو میت کے غم پہ صبر دلانے کو کہتے ہیں مگر تعزیہ داری میں باقاعدہ ڈھول بجایا جاتا ہے، اس میں ناچا اور تھرکا جاتاہے ، جوان لڑکے اورجوان لڑکیاں اس میں رقص کرتے ہیں اور خوب خوب ہنستے گاتے ، کھیل تماشہ کرتے اورمیل ٹھیلہ لگاتے ہیں ۔اولا ڈھول باجوں کی تعزیہ سے کوئی نسبت نہیں بنتی ، ثانیا ڈھول ورقص ہمیشہ منع ہے پھر تعزیہ کے ساتھ کیونکر جائز ہوگا۔ نبی ﷺ نے ان جیسے آلات کو شیطان کا ساز قرار دیا ہے اور آپ فرماتے ہیں کہ اس امت میں خسف،مسخ اور قذف واقع ہوگا ، ایک مسلمان نے عرض کیا : اللہ کے رسول! ایساکب ہوگا؟ آپ نے فرمایا:جب ناچنے والیاں اورباجے عام ہوجائیں گے اورشراب خوب پی جائے گی۔(صحیح الترمذی:2212)
    مسلم بھائیو!اللہ کبھی تمہارے ان عملوں سے راضی نہیں ہوگابلکہ تم ایسے اعمال کرکے قہرالہی کو دعوت دے رہے ہو، ذرا غور کروکہ شہدائے کربلا کے واسطے یوم شہادت پر شہنائی بجاناکیا حب اہل بیت ہے یا یہ اہل بیت سے بغض کی علامت ہے اور جواسلام عورتوں کواپنے گھر میں سکونت اختیار کرنے کا حکم دیتا ہے مگرتم انہیں گھروں سےسڑکوں، گلی کوچوں اور چوک چوراہوں پر نکالتے ہو، خود بھی ناچتے ہو، ان سے بھی نچواتے ہواور یوں مسلم خواتین کی عزت اپنوں اور غیروں کے سامنے نیلام کرتے ہو ۔
    (6) تعزیہ کی مناسبت سے مرثیہ خوانی، نوحہ، ماتم ، گریبان چاک ، چیخنا چلانا ، رونادھونا کیا جاتا ہے ۔ ہم نے سطور بالا میں بتایا ہے کہ صرف وفات کےوقت میت کے گھروالوں میں خاتون کو تین دن سوگ منانے کی اجازت ہے اور شوہر کی وفات ہو تو چار ماہ دس دن سوگ منانے کا حکم ہے مگر مردوں کو سرے سے کبھی بھی سوگ منانے کی اجازت نہیں ہے ، سوگ صرف عورت کے لئے وہ بھی وفات کے وقت ۔ اور ماتم ونوحہ تو کبھی بھی اسلام میں جائز نہیں ہے ، نہ موت کے وقت اور نہ زندگی میں کبھی ۔ نبی ﷺ کافرمان ہے :حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:ليس مِنَّا من ضربَ الخدودَ ، وشَقَّ الجيوبَ ، ودعا بدَعْوَى الجاهليَّةِ .(صحيح البخاري:1297)
    ترجمہ: جس نے منہ پیٹا ،گریبان چاک کیا اور دور جاہیلت کی پکار لگائی وہ ہم میں سے نہیں ہے۔
    بلکہ میت پر رونے دھونے اور نوحہ کرنے سے میت کو عذاب دیا جاتا ہے ، نبى كريم ﷺ نے فرمايا:ميت كو قبر ميں اس پر كيے گئے نوحہ كى وجہ سے عذاب ہوتا ہے(صحيح البخارى:1292)
    نیز آپ ﷺ كا فرمان ہے:يقينا ميت كو اس كے گھر والوں كے رونے سے عذاب ديا جاتا ہے۔(صحيح البخارى:1288)
    ذرا سوچو کہ تم ماتم ونوحہ کرکےحب اہل بیت کاثبوت دے ہواور ثواب دارین حاصل کررہے ہو یا شہدائے کربلا کو تکلیف پہنچارہے ہو؟
    (7)اسی طرح تعزیہ کے پس منظر میں صحابہ کرام کو سب وشتم کیا جاتا ہے بالخصوص امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ پر طعن کیا جاتا ہے ، صحابہ کو گالی دینا شیعہ کی خاص پہچان ہے مگر آج شیعہ کے جھانسے میں بہت سارے مسلمان آگئے اور مسلمان بھی بعض صحابہ کو برا بھلا کہنے لگے ۔ اس بارے میں مختصرا یہ جان لیں کہ ایک دل میں ایمان اور صحابی کا بغض دونوں جمع نہیں ہوسکتا ہے ۔ اگر دل میں ایمان ہے تو صحابی کی محبت ہوگی اور اگر کوئی آدمی صحابی سے بغض رکھتا ہے تو اس کے دل میں ایمان نہیں ہوگا۔
    (8) تعزیہ میں ایک عمل خود کو تکلیف دینا ہے جیسے تلوار وچاقوسے خودکو زخمی کرنا، دھاردار اسلحے سے جسم لہولہان کرنا، آگ زنی ، سینہ کوبی ا ور زنجیر زنی کرکے خود کو نقصان پہنچانا ۔یہ سارے شیعی اعمال ہیں اور یہ ان کے برے کرتوت کے نتیجے ہیں جن کے سبب بطور ذلت ورسوائی یہ قیامت تک خود کو اذیت وتکلیف میں مبتلا رکھیں گے ۔واضح رہے ان المناک حرکتوں کااسلام سے اور شرعی تعزیت سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ اسلام تو خود کو ادنی سی تکلیف پہنچانے سے منع کرتا ہے۔ شیعوں کی دیکھادیکھی کہیں کہیں بریلوی لوگ بھی اسی طرح کی حرکتیں انجام دیتے ہیں ۔برصغیر میں اکثر بریلوی تعزیہ میں تلوار، زنجیراور لاٹھیوں سے عجیب وغریب کھیل ، تماشے ،کرتب اور سرکس والا عمل کرتے ہیں ، یہ عمل چوک چوراہوں ، گلی کوچوں اور بازاروں میں انجام دیا جاتا ہے ،ان حرکتوں کو دیکھ ایسے بدنصیب مسلمانوں پر افسوس ہوتا ہے ۔ کیا نبی کی امت ایسی ہوسکتی ہے اور ایسے لوگ خود کو اصلی سنی کہتے ہیں ۔ میں نے سنا ہے کہ ان بریلویوں کو بعض جگہوں پر شیعوں سے تعزیہ منانے کے پیسے بھی ملتے ہیں اور ان پیسوں سے یہ بریلوی دھوم دھام سے تعزیہ مناتے ہیں ۔ کس قدر افسوس کا مقام ہے کہ صحابہ کو گالی دینے والے شیعوں کی محفل عزاداری میں بریلوی شوق سے جاتے ہیں ، ان کی طرح ماتم اور تعزیہ مناتے ہیں جبکہ دوسری طرف یہ کہتے ہیں کہ دیوبندی یا اہل حدیث سے سلام کرنے پر نکاح ٹوٹ جاتا ہے اور ان کو بدمدہب اور بدعقیدہ کہاجاتا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ گمراہ مسلمانوں کو گمراہ فرقوں سے ہی محبت ہوسکتی ہے ۔
    (9) تعزیہ میں غیراللہ کے نام کی نذرونیاز کی جاتی ہے ، مختلف قسم کے پکوان پکائے جاتے ہیں اور انہیں مزارات پر پیش کئے جاتے ہیں اور لوگوں میں بھی تقسیم کئے جاتے ہیں اور جھوٹی روایات کا سہارا لے کر ان نذرونیاز کےجھوٹے فضائل بیان کئے جاتے ہیں ۔ ہمیں معلوم ہونا چاہئے کہ نذر عبادت ہے اور غیراللہ کے لئے نذر ماننا اور غیراللہ کے لئے نیاز کرنا شرک ہے اور اللہ شرک کو کبھی معاف نہیں کرے گا۔
    (10)مسلمانوں میں الحمدللہ اہل حدیث جماعت بدعتوں سے بالکلیہ دور ہے ، رسم تعزیہ داری سے بھی دور دور کا بھی واسطہ نہیں ہے بلکہ اس کفریہ اور شرکیہ رسم کی سخت لہجہ میں کوئی جماعت تردید کرتی ہے تووہ اہل حدیث جماعت ہی ہے ۔ دیوبند کے علماء بھی تعزیہ کو نہیں مانتے اور اپنی عوام کو اس سے روکتے ہیں پھر بھی کہیں کہیں دیوبندی عوام اس کام میں ملوث ہیں ۔ جہاں تک بریلویوں کا مسئلہ تو یہ لوگ ڈنکے کی چوٹ پہ علی الاعلان تعزیہ بناتے ، مناتے اور یہ باورکراتے ہیں کہ اصلی مسلمان اور اہل بیت سے سچی محبت کرنے والے یہی بریلوی ہیں جبکہ میں بتاچکاہوں کہ تعزیہ بدعت ہے، کفربھی ہے اور اس میں شرکیہ عمل بھی پایا جاتا ہے ۔ کم ازکم بریلوی اپنے اعلی حضرت احمد رضا کے فتوی جو رسالہ تعزیہ داری میں موجود ہے اسی کومان لے اوراسی پر عمل کرلےیہی بہت ہے ۔ اس رسالہ میں احمد رضا کا کہنا ہے "اب کہ تعزیہ داری اس طریقہ نامرضیہ کا نام ہے قطعا بدعت وناجائز وحرام ہے۔
    ویسے تعزیہ سے متعلق بہت سارے اور بھی امور پائے جاتے ہیں جن کا اسلام سے تعلق نہیں ہے تاہم میں نے اہم ترین دس امور کا ذکر کیا ہے اور خلاصہ کے طور پر ایک جملہ میں یہ سمجھ لیں کہ تعزیہ داری سرے سے ناجائز اور حرام ہے اورتعزیہ کےساتھ جتنے اعمال انجام دئے جاتے ہیں وہ بھی تعزیہ کی طرح ہیں ناجائز ہیں کیونکہ جس عمل کی بنیاد ہی حرام ہے اس سے جڑے تمام اعمال بھی حرام ٹھہریں گے ۔ اور قرآن وحدیث کے دلائل سے معلوم ہوتا ہے کہ تعزیہ داری کرنےو الے مذکورہ بالا اعمال سے توبہ کئے بغیر مرگئے تو اللہ کے یہاں ان کی بخشش محال ہےاور جو جنت میں نوجوانوں کے سردار ہیں یعنی حسن وحسین رضی اللہ عنہما وہ خود بھی کبھی نہیں چاہیں گے کہ ان کے نام پر بے پناہ بدعت ومعصیت اور کفروشرک کرنے والے لوگ جنت میں داخل ہوں ۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ لوگوں کو ہدایت دے تاکہ صراط مستقیم پرآجائیں اور مذکورہ بالا کفرومعصیت سے تائب ہوکر سچے ایمان والے اور پکے توحیدوالے بن جائیں ۔
     
  2. حافظ عبد الکریم

    حافظ عبد الکریم محسن

    شمولیت:
    ‏ستمبر 12, 2016
    پیغامات:
    592
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں