یہ روایات صحیح ہیں یا نہیں ؟‌

مون لائیٹ آفریدی نے 'آپ کے سوال / ہمارے جواب' میں ‏ستمبر 10, 2008 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. مون لائیٹ آفریدی

    مون لائیٹ آفریدی -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏ستمبر 22, 2007
    پیغامات:
    4,799
    السلام علیکم ورحمتہ اللہ ۔​
    مندرجہ ذیل دو روایت کے متعلق وضاحت درکار ہے کہ آیا یہ صحیح ہیب یا نہیں ؟ تفصیل کیساتھ ۔
    [QH]
    1: أخرجه العسقلاني في ’’التلخيص‘‘ : أَنَّهُ صلي الله عليه وآله وسلم صَلَّي بِالنَّاسِ عِشْرِيْنَ رَکْعَةً لَيْلَتَيْنِ فَلَمَّا کَانَ فِي اللَّيْلَةِ الثَّالِثَةِ اجْتَمَعَ النَّاسُ فَلَمْ يَخْرُجْ إِلَيْهِمْ ثُمَّ قَالَ مِنَ الْغَدِ : خَشِيْتُ أَنْ تُفْرَضَ عَلَيْکُمْ فَلَا تَطِيْقُوْهَا.[/QH]

    اور امام عسقلانی نے ’’التلخیص‘‘ میں بیان کیا ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لوگوں کو دو راتیں 20 رکعت نماز تراویح پڑھائی جب تیسری رات لوگ پھر جمع ہوگئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کی طرف (حجرہ مبارک سے باہر) تشریف نہیں لائے۔ پھر صبح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مجھے اندیشہ ہوا کہ (نمازِ تراویح) تم پر فرض کردی جائے گی لیکن تم اس کی طاقت نہ رکھوگے۔‘‘
    اصل اقتباس

    2" " اے زمیں والو! خوشیاں مناؤ ہم نے تمھاری طرف اپنا رسول بھیجا"
    اصل اقتباس ۔کیا جشن میلاد منانا جائز ہے ۔
     
  2. باذوق

    باذوق -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏جون 10, 2007
    پیغامات:
    5,623
    حافظ ابن حجر العسقلانی کی "التلخیص" کا پورا نام ہے :
    [QH]تلخيص الحبير في أحاديث الرافعي الكبير[/QH]
    اصل عربی کتاب یہاں سے ڈاؤن لوڈ کی جا سکتی ہے۔
    یہ حدیث ورڈ فائل Vol02.doc میں موجود ہے۔
    جلد:2 ، حدیث:540 ، ورڈ فائل صفحہ نمبر:19
    مکمل مواد یوں ہے :
    ===
    [QH]حديث أنه صلى الله عليه وسلم صلى بالناس عشرين ركعة ليلتين فلما كان في الليلة الثالثة اجتمع الناس فلم يخرج إليهم ثم قال من الغد خشيت أن تفرض عليكم فلا تطيقوها متفق على صحته من حديث عائشة دون عدد الركعات وفي رواية لهما خشيت أن تفترض عليكم صلاة الليل فتعجزوا عنها زاد البخاري في رواية فتوفي رسول الله صلى الله عليه وسلم والأمر على ذلك وأما العدد فروى بن حبان في صحيحه من حديث جابر أنه صلى بهم ثمان ركعات ثم أوتر فهذا مباين لما ذكر المصنف نعم ذكر العشرين ورد في حديث آخر رواه البيهقي من حديث بن عباس أن النبي صلى الله عليه وسلم كان يصلى في شهر رمضان في غير جماعة عشرين ركعة والوتر زاد سليم الرازي في كتاب الترغيب له ويوتر بثلاث قال البيهقي تفرد به أبو شيبة إبراهيم بن عثمان وهو ضعيف وفي الموطأ وابن أبي شيبة والبيهقي عن عمر أنه جمع الناس على أبي بن كعب فكان يصلي بهم في شهر رمضان عشرين ركعة الحديث[/QH]
    ===
    اردو ترجمہ :
    نبی صلى الله عليه وسلم نے لوگوں کو دو راتیں بیس رکعت نماز پڑھائی۔ پھر جب تیسری رات تھی تو لوگ اکٹھے ہوئے تو آپ (صلى الله عليه وسلم) ان کی طرف نہیں نکلے۔ پھر اگلے دن فرمایا "مجھے ڈر ہوا کہ یہ تم پر فرض نہ کر دی جائے تو تم اس کی طاقت نہ رکھ سکو"
    عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث کے مطابق اس کے صحیح ہونے پر اتفاق کیا گیا ہے سوائے رکعتوں کی تعداد کے۔
    اور ان دونوں کی ایک دوسری روایت میں ہے کہ "مجھے ڈر ہوا کہ رات کی نماز تم پر فرض نہ کر دی جائے تو تم اس سے عاجز آ جاؤ"۔
    امام بخاری نے اس پر یہ اضافہ کیا ہے کہ "رسول اللہ صلى الله عليه وسلم جب فوت ہوئے تو معاملہ اس پر تھا"۔
    جہاں تک رکعات کی تعداد کا تعلق ہے تو ابن حبان نے نے اپنی صحیح میں جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ نبی صلى الله عليه وسلم نے انہیں آٹھ رکعت پڑھائیں پھر وتر پڑھے۔
    تو یہ ظاہر ہے جیسا کہ مصنف نے ذکر کیا ہے۔ ہاں، انہوں نے بیس کا ذکر جسے بیہقی نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے بیان کیا ہے کہ نبی صلى الله عليه وسلم رمضان میں جماعت کے بغیر بیس رکعت پڑھتے تھے اور وتر کا اضافہ کرتے تھے۔ سلیم الرازی نے اپنی کتاب الترغیب میں اضافہ کیا ہے کہ تین رکعت وتر پڑھتے تھے۔
    بیہقی نے کہا کہ ابوشیبہ ابراھیم بن عثمان اس روایت میں منفرد ہے اور وہ ضعیف ہے۔

    اور موطا اور ابن ابی شیبہ اور بیہقی نے عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں بیان کیا کہ انہوں نے لوگوں کو اکٹھا کیا ابی بن کعب کی امامت میں تو وہ انہیں رمضان کے مہینے میں بیس رکعت پڑھاتے تھے۔
     
  3. باذوق

    باذوق -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏جون 10, 2007
    پیغامات:
    5,623
    امام عسقلانی نے "التلخیص" میں‌ جیسا کہ کہا ہے کہ یہ حدیث‌ انہوں نے "مصنف ابن ابی شیبہ" سے نقل کی ہے۔ جو کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کی گئی ہے۔

    امام بیھقی کہتے ہیں کہ : اس روایت میں ابوشیبہ ابراھیم بن عثمان منفرد ہے اور وہ ضعیف ہے۔

    معروف حنفی محدث علامہ زیلعی لکھتے ہیں :
    یہ روایت امام ابوبکر ابن ابی شیبہ کے دادا ابوشیبہ ابراہیم بن عثمان کی وجہ سے معلول (علت والی) ہے کیونکہ اس کے ضعیف ہونے پر تمام محدثین کرام کا اتفاق ہے۔
    بحوالہ : نصب الرایہ فی تخریج احادیث الھدایة

    دوسرے مشہور حنفی عالم مولانا شوق نیموی نے اپنی کتاب "آثار السنن" کے حاشیہ پر لکھا ہے :
    ابوشیبہ ابراہیم بن عثمان ضعیف ہے۔

    تیسرے حنفی عالم ابن الھمام نے فتح القدیر شرح ھدایہ میں اس حدیث کو نقل کر کے لکھا ہے :
    ابوشیبہ ابراہیم بن عثمان کی وجہ سے یہ (حدیث) ضعیف ہے۔ اور تمام محدثین اس کے ضعف پر متفق ہیں اور پھر یہ ایک صحیح حدیث کے مخالف بھی ہے۔

    چوتھے حنفی عالم علامہ عینی لکھتے ہیں :
    امام ابن ابی شیبہ کے دادا ابوشیبہ ابراہیم بن عثمان کی امام شعبہ نے تکذیب کی ہے۔ اور امام احمد ، ابن معین ، بخاری اور نسائی نے اسے ضعیف قرار دیا ہے۔
    بحوالہ : عمدة القاری

    تہذیب الکمال میں مزی نے لکھا ہے :
    امام احمد ، یحییٰ اور ابن داؤد نے کہا ہے کہ یہ (ابوشیبہ ابراہیم بن عثمان) ضعیف ہے۔
    اور یحییٰ نے یہ بھی کہا ہے کہ : یہ ثقہ نہیں ہے۔

    امام نسائی اور دولابی نے کہا ہے کہ : یہ متروک الحدیث ہے۔
    ابو حاتم نے کہا : حدیث بیان کرنے میں ضعیف و کمزور ہے اور محدثین اس سے حدیث روایت کرنے سے سکوت کئے ہوئے ہیں۔

    خود حافظ ابن حجر العسقلانی نے تقریب التہذیب میں اسے متروک الحدیث قرار دیا ہے !!

    اس کی بھی حقیقت جلد پیش کی جائے گی بتوفیق اللہ۔ ان شاءاللہ۔
     
  4. مون لائیٹ آفریدی

    مون لائیٹ آفریدی -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏ستمبر 22, 2007
    پیغامات:
    4,799
    جزاک اللہ خیرا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بہترین تحقیق پیش کی ہے ۔
    نمبر 2 کا جواب باقی ہے ۔۔۔۔۔ جیسے ہی فرصت ملے ارسال کریں ۔ یا اگر پہلے سے آپ نے کہیں پر اس کے متعلق کچھ لکھا ہو تو بتادیں‌۔ شکریہ۔
     
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں