ولادت باسعادت اور حیات طیبہ کے چالیس سال

mahajawad1 نے 'سیرت النبی (ص) : الرحیق المختوم' میں ‏نومبر 9, 2008 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. mahajawad1

    mahajawad1 محسن

    شمولیت:
    ‏اگست 5, 2008
    پیغامات:
    473
    ولادت باسعادت اور حیات طیبہ کے چالیس سال
    (الرحیق المختوم صفحہ نمبر 83 تا 86)​


    [font="alvi nastaleeq v1.0.0"]ولادت باسعادت اور حیات طیبہ کے چالیس سال

    ولادت باسعادت۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں شعب بن ھاشم کے اندر ۹ ربیعالاول سنہ۱ عام الفیل یوم دو شنبہ کو صبح کے وقت پیدا ہوئے۔اس وقت نو شیرواں کی تخت نشینی کا چالیسوا ں سال تھا اور ۲۰ یا ۲۲ اپریل سنہ ۵۷۱ء کی پہلی تاریخ تھی۔علامہ سلیمان پوری رح اور محمود پاشا فلکی کی تحقیق یہی ہے (۱)
    ابن سعد کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ نے فرمایا: جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت ہوئی تو میرے جسم سے ایک نور نکلا جس سے ملک شام کے محل روشن ہو گئے۔ امام احمد نے حضرت عرباض بن ساریہ سے بھی تقریبا” اسی مضمون کی ایک روایت نقل فرمائی ہے۔(۲) بعض روایتوں میں بتایا گیا ہے کہ ولادت کے وقت بعض واقعات نبوت کے پیش خیمے کے طور پر ظہور پذیر ہوئے۔یعنی ایوان کسری کے ۱۴ کنگورے گر گئے۔مجوس کا آتش کدہ ٹھنڈہ ہو گیا۔ بحیرہ سادہ خشک ہو گیا اور اسکے گرجے منہدم ہو گئے۔یہ بہیقی کی روایت ہے (۳) لیکن محمد غزالی نے اسکو درست تسلیم نہیں کیا ہے۔(۴)
    ولادت کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ نے عبدالمطلب کے پاس پوتے کی خوشخبری بھجوائی۔وہ شاداں و فرحاں تشریف لائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خانہ کعبہ میں لے جا کر اللہ تعالی سے دعا کی، اسکا شکر ادا کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام محمد تجویز کیا۔ یہ نام عرب میں معروف نہ تھا۔پھر عرب کے دستور کے مطابق ساتویں دن ختنہ کیا(۵)

    (۱) تاریخ خضری ۱/۶۲ ،رحمتہ اللعالمین ۱/۳۸،۳۹۔اپریل کی تاریخ کا اختلاف عیسوی تقویم کے اختلاف کا نتیجہ ہے۔
    (۱) مختصر السیرة شیخ عبداللہ ص۱۲، ابن سعد۱/۶۳۔(۳) ایضا” مختصر السیرة ص۱۲۔
    (۴) دیکھئے فقہ السیرة محمد غزالی ص ۴۶
    (۵) ابن ہشام ۱/۱۵۹ ،۱۶۰،تاریخ خضری۱/۶۲۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مختون(ختنہ کئے ہوئے) پیدا ہوئے تھے۔دیکھئے تلقیح الفہوم ص ۴ مگر ابن قیم کہتے ہیں کہ اس بارے میں کوئی ثابت حدیث نہیں ہے۔ دیکھئے زاد المعاد، ۱/۱۸۔


    آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ کے بعد سب سے پہلے ابو لہب کی لونڈی ثوبیہ رضی اللہ عنہ نے دودھ پلایا۔اس وقت اسکی گود میں جو بچہ تھا اسکا نام مسروح تھا، ثوبیہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے حضرت حمزہ بن عبدالمطلب کو اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعدابو سلمہ رضی اللہ عنہ بن عبدالاسد مخزومی کو بھی دودھ پلایا تھا۔(6)
    بنی سعد میں۔عرب کےشہری باشندوں کا دستور تھا کہ وہ اپنے بچوں کو شہری امراض سے دور رکھنے کے لئے دودھ پلانے والی بدوی عورتوں کے حوالے کر دیا کرتے تھے تاکہ انکے جسم طاقتور اور اعصاب مظبوط ہوں اور اپنے گہوارے ہی سے خالص عربی زبان سیکھ لیں۔اسی دستور کے مطابق عبدالمطلب نے دودھ پلانے والی دایہ تلاش کی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت حلیمہ رضی اللہ عنہ بنت ابی ذویب کے حوالے کیا۔یہ قبیلہ بنی سعد بن بکر کی ایک خاتون تھیں۔انکے شوہر کا نام حارث بن العزی اور کنیت ابو کبشہ تھی اور وہ بھی قبیلہ بنی سعدسے تعلق رکھتے تھے۔
    حارث کی اولاد کے نام یہ ہیں جو رضاعت کے تعلق سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بھائی بہن تھے۔عبداللہ،انیسہ،حذافہ یا جذامہ انہی کا لقب شیماء تھا اور اسی نام سے وہ زیادہ مشہور ہوئیں۔یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گود کھلایا کرتی تھیں۔انکے علاوہ ابو سفیان بن حارث بن عبدالمطلب جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچیرے بھائی تھے ،وہ بھی حضرت حلیمہ رضی اللہ عنہ کے واسطے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رضائی بھائی تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت حمزہ بن مطلب بھی دودھ پلانے کے لئے بنو سعد کی ایک عورت کے حوالے کئے گئےتھے۔اس عورت نے بھی ایک دن جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت حلیمہ رضی اللہ عنہ کے پاس تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دودھ پلایا۔اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ دوہرے رضائی بھائی ہو گئے ایک حضرت ثوبیہ کے تعلق سے اور دوسرے بنو سعد کی اس عورت کے تعلق سے۔(۷)
    رضاعت کے دوران حضرت حلیمہ رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی برکت کے ایسے ایسے مناظر دیکھے کہ سراپا حیرت رہ گئیں۔تفصیلات انہی کی زبانی سنئے۔ابن اسحاق کہتے ہیں کہ حضرت حلیمہ رضی اللہ عنہ بیان کیا کرتی تھیں کہ جب وہ اپنے شوہر کے ساتھ اپنا ایک چھوٹا سا دودھ پیتا بچہ لے کر کچھ عورتوں کے ساتھ قافلے میں اپنے شہر سے باہر دودھ پینے والے بچوں کی تلاش میں نکلیں۔ یہ قحط سالی کے دن تھے اور قحط نے کچھ باقی نہ چھوڑا تھا۔میں اپنی ایک سفید گدھی پر سوار تھی اور ہمارے پاس ایک اونٹنی بھی تھی،لیکن بخدا اس سے ایک قطرہ دودھ نہ نکلتا تھا۔ادھر بھوک سے بچہ اس قدر بلکتا تھا کہ ہم رات بھرسونہیں سکتے تھے۔

    6) تلقیح الفہوم ص۴۔ مختصر السیرة شیخ عبداللہ ص۱۳۔(۷) زاد المعاد ۱/۱۹۔
    نہ میرے سینے میں بچے کے لئے کچھ تھا۔نہ اونٹنی اسکی خوراک دے سکتی تھی۔بس ہم بارش اور خوشحالی کی آس لگائے بیٹھے تھے۔میں اپنی گدھی پر سوار ہو کر چلی تو وہ کمزوری اور دبلے پن کے سبب اتنی سست رفتار نکلی کہ پورا قافلہ تنگ آ گیا۔خیر ہم کسی نہ کسی طرح دودھ پینے والے بچوں کی تلاش میں مکہ پہنچ گئے۔پھر ہم میں سے کوئی عورت ایسی نہ تھی کہ جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پیش نہ کیا گیا ہو مگر جب اسے بتایا جاتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یتیم ہیں تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو لینے سے انکار کر دیتی،کیونکہ ہم بچے کے والد سے داد و ہش کی امید رکھتے تھے۔ہم کہتے کہ یہ تو یتیم ہے بھلا اسکی بیوہ ماں اور اسکے دادا کیا دے سکتے ہیں بس یہی وجہ تھی کہ ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو لینا نہیں چاہتے تھے۔ادھر جتنی عورتیں میرے ہمراہ آئی تھیں سب کو کوئی نہ کوئی بچہ مل گیا تو میں نے اپنے شوہر سے کہا، خدا کی قسم مجھے اچھا نہیں لگتاہ میری ساری سہیلیاں تو بچے لے لے کے جائیں اور تنہا میں کوئی بچہ لئے بغیر واپس جاؤں۔میں جا کر اسی یتیم بچے کو لے لیتی ہوں۔شوہر نے کہا کوئی حرج نہیں ! ممکن ہے اللہ اسی میں ہمارے لئے برکت دے۔اسکے بعد میں نے جا کر بچہ لے لیا اور محض‌اس بنا پر لے لیا کہ کوئی اور بچہ مل نہ سکا۔
    حضرت حلیمہ رضی اللہ عنہ کہتی ہیں کہ جب میں بچے کو لیکر اپنے ڈیرے پر واپس آئی اور اسے اپنی آغوش میں رکا تو اسنے جس قدر چاہا دونوں سینے دودھ کے ساتھ امنڈ پڑے اور اس نے شکم سیر ہو کر پیا۔ اسکے ساتھ اسکے بھائی نے بھی شکم سیر ہو کر پیا ، پھر دونوں سو گئے۔حالانکہ اس سے پہلے ہم اپنے بچے کے ساتھ سو نہیں سکتے تھے۔ادھر میرے شوہراونٹنی دوہنے گئے تو دیکھا کہ اسکا تھن دودھ سے لبریزہے۔انہوں نے اتنا دودھ دوہا کہ ہم دونوں نےنہایت آسودہ ہو کر پیا اور بڑے آرام سے رات گزاری۔ ان کا بیان ہے کہ صبح ہوئی تو میرے شوہر نے کہا حلیمہ !خدا کی قسم تم نے ایک بابرکت روح حاصل کی ہے۔میں نے کہا :مجھے بھی یہی توقع ہے۔
    حلیمہ رضی اللہ عنہ کہتی ہیں اسکے بعد ہمارا قافلہ روانہ ہوا تو میں اپنی اسی خستہ حال گدھی پر سوار ہوئی اور اس بچے کو بھی اپنے ساتھ لے لیا،لیکن اب وہی گدھی خدا کی قسم پورے قافلے کو کاٹ کر اسطرح آگے نکل گئی کہ کوئی گدھا اسکا ساتھ نہ پکڑ سکا۔یہاں تک کہ میری سہیلیاں مجھ سے کہنے لگیں : او! ابو ذویب کی بیٹی! ارے یہ کیا ہے؟ ذرا ہم پر مہربانی کر۔آخر یہ تیری گدھی تو وہی ہے جس پر تو سوار ہو کر آئی تھی؟ میں کہتی: ہاں بخدا وہی ہے۔وہ کہتیں، اسکا یقینا کوئی خاص معاملہ ہے۔ پھر ہم بنو سعد میں اپنے گھروں کو آگئے۔مجھے معلوم نہیں کہ اللہ کی روئے زمین کا کوئی خطہ ہمارے علاقے سے زیادہ قحط زدہ نہیں تھا لیکن ہماری واپسی کے بعد میری بکریاں چرنے جاتیں تو آسودہ حال اور دودھ سے بھرپور واپس آئیں۔ہم دوہتے اور پیتے جبکہ کسی اور انسان کو دودھ کا ایک قطرہ بھی نصیب نہیں ہوتا۔انکے جانوروں کے تھنوں میں دودھ سرے سے رہتا ہی نہ تھا۔ حتی کہ ہماری قوم کے شہری اپنے چرواہوں سے کہتے کم بختو! جانور وہیں چرانے لے جایا کرو جہاں ابو ذویب کی بیٹی کا چرواہا جاتا ہے۔لیکن تب بھی انکی بکریاں بھوکی واپس آتیں۔انکے اندر ایک قطرہ دودھ نہ رہتا جبکہ میری بکریاں آسودہ حال اور دودھ سے بھرپور پلٹتیں۔اس طرح ہم اللہ کی طرف سے مسلسل اضافے اور خیر کا مشاہدہ کرتے رہے۔یہاں تک کہ اس بچے کے دو سال پورے ہو گئے اور میں نے اسکا دودھ چھڑا دیا۔یہ بچہ دوسرے بچوں کے مقابلے میں اس طرح بڑھ رہا تھا کہ دو سال پورے ہوتے ہوتے وہ کڑا اور گٹھیلا ہو چلا۔اس کے بعد ہم اس بچے کو اسکی والدہ کے پاس لے گئے۔لیکن ہم اسکی جو برکت دیکھتے آئے تھے اسکی وجہ سے ہماری انتہائی خواہش یہی تھی کہ وہ ہمارے پاس رہے، چنانچہ ہم نے اسکی ماں سے گفتگو کی۔میں نے کہا: کیوں نہ آپ اپنے بچے کو میرے پاس ہی رہنے دیں کہ ذرا مضبوط ہو جائے، کیونکہ مجھے اسکے متعلق مکہ کی وباء کا خطرہ ہے۔ غرض ہمارے مسلسل اصرار پر انہوں نے بچہ ہمیں واپس دے دیا۔(۸)۔[/font]
     
  2. طارق راحیل

    طارق راحیل -: مشاق :-

    شمولیت:
    ‏اپریل 23, 2009
    پیغامات:
    351
    جزاک اللہ خیر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
     
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں