اسلامی طرز معاشرت اور انسانی زندگی پر اس کے اثرات،

کارتوس خان نے 'اسلامی متفرقات' میں ‏جنوری 31, 2009 کو نیا موضوع شروع کیا

موضوع کی کیفیت:
مزید جوابات کے لیے کھلا نہیں۔
  1. کارتوس خان

    کارتوس خان محسن

    شمولیت:
    ‏جون 2, 2007
    پیغامات:
    933
    بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

    السلام علیکم ورحمہ اللہ وبرکاتہ۔۔۔وبعد!۔
    اسلامی طرز معاشرت اور انسانی زندگی پر اس کے اثرات، حقوق وفرائض کا اسلامی فلسفہ معاشرے میں امن وامان، انصاف اور مساوات کے قیام کا حقیقی ضامن ہے۔۔۔ اسی لئے اللہ وحدہ لاشریک نے تخلیق کائنات کے بعد کائنات میں اپنا رنگ بھرنے کے لئے آدم وحوا کو پیدا کیا۔۔۔ جن کے ذریعے اللہ وحدہ لاشریک نے انسانی معاشرت سے دنیا کو رونق بخشی اور باعث تخلیق کائنات، محسن انسانیت اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے انسانی معاشرے میں تہذیب وتربیت کے لئے اور اس لئے کے دنیا خوشی مسرت اور سکون واطمعنان کا گہوارہ بنی رہے اور انسانی زندگی جملہ امور احکامات الٰہی کے مطابق انجام پاتے رہیں، انسان کو قرآن مجید کی شکل میں ایک ضابطہ حیات عطاء فرمایا، جس میں انسان کے لئے معاشرتی زندگی گزارنے کے بہترین اُصول بیان کئے گئے ہیں تاکہ انسان جو خیروشر کا مجموعہ ہے بالکل پایہ انسانیت سے گرہی نہ جائے بلکہ اس طرح زندگی گزارے کہ اس کی ذات اپنے ہم جنسوں کے لئے باعث خیروبرکت ہو، باعث شر نہ ہو۔۔۔

    اللہ وحدہ لاشریک کا فرمان ہے کہ!۔
    إِنَّا أَنزَلْنَا إِلَيْكَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ لِتَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ بِمَا أَرَاكَ اللّهُ وَلاَ تَكُن لِّلْخَآئِنِينَ خَصِيمًا
    (اے پیغمبر) ہم نے تم پر سچی کتاب نازل کی ہے تاکہ اللہ کی ہدایت کے مطابق لوگوں کے مقدمات میں فیصلہ کرو اور (دیکھو) دغابازوں کی حمایت میں کبھی بحث نہ کرنا (النساء)۔۔۔

    انسان مدنی الطبع ہے، وہ معاشرے میں زندہ رہنے کے لئے اپنے ہم جنسوں کا محتاج ہے اس لئے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنے اور ایک دوسرے کا مفاد خیال رکھنے کا پابند ہے۔۔۔ کیونکہ انسانی میل جول سے بہت سے معاملات پیدا ہوتے ہیں جو عام معاشرتی زندگی پر اثر انداز ہوتے ہیں اس لئے منشائے ایزدی یہ ہے کہ روز مرہ کے معاملات حُسن وخوبی کے ساتھ نمٹائے جائیں اور معاشرتی عمل میں مثبت عمل میں مثبت رویئے اختیار کئے جائیں یہ ہی وجہ ہے کہ اللہ تعالٰی نے حقوق اللہ کے ساتھ ساتھ حقوق العباد پر بڑا زور دیا ہے یعنی اللہ تعالٰی کی فرماں برداری کے ساتھ اس کے بندوں کے حقوق کی ادائیگی ایک بڑی عبادت قرار پائی قرآن حکیم واشگاف الفاظ میں اعلان کرتا ہے۔۔۔

    اللہ وحدہ لاشریک کا فرمان ہے کہ~۔
    إِنَّ اللّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالإِحْسَانِ وَإِيتَاء ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاء وَالْمُنكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ
    اللہ تم کو انصاف اور احسان کرنے اور رشتہ داروں کو (خرچ سے مدد) دینے کا حکم دیتا ہے۔ اور بےحیائی اور نامعقول کاموں سے اور سرکشی سے منع کرتا ہے (اور) تمہیں نصیحت کرتا ہے تاکہ تم یاد رکھو (النحل)۔۔۔

    اس آیت مبارکہ میں معاشرتی زندگی کی جو روح کارفرما نظر آرہی ہے، پوری دنیائے انسانیت کے لئے اس میں ایک لائحہ عمل ہے جو کامیاب زندگی کی طرف آپ کی راہنمائی کرتا ہے اگر معاشرے میں عدل وانصاف عام ہوجائے لوگوں میں احسان کرنے کا جذبہ پیدا ہوجائے تو معاشرہ امن وامان کا گہوارہ بن جاتا ہے۔۔۔ صلہ رحمی یعنی عزیزواقارت کے ساتھ نیک سلوک اور حاجت مندوں کی مدد کرنے سے معاشرہ عیوب سے پاک ہوسکتا ہے اور انسانی زندگی کا دامن خوشیوں سے بھرسکتا ہے۔۔۔ بدی اور بےحیائی انسانی زندگی کا مستقل روگ ہیں۔۔۔ یہ پاکیزہ معاشرے کی روح کو مجروح اور صالح گروہ کو بےآبروکرنے والی مکروہات ہیں اس ہی لئے قرآن نے ہمیں اس سے دور رہنے کا حکم دیا ہے۔۔۔

    جس طرح ظلم وزیادتی کا گھناؤنا عمل معاشرے میں جرائم اور منفی رجحانات کو فروغ دینے کا سبب بنتا ہے۔۔۔بین اُسی طرح قرآن کی تعلیمات ہمیں ان سے سختی کے ساتھ عمل سے روکتی بھی ہیں۔۔۔ اور ان خباثتوں کے نقصان دہ اثرات سے انسانی معاشرے کو محفوظ رکھنے کی تلقین بھی کرتا ہے۔۔۔

    احکامات الٰہی کے سلسلے میں یہ بات ہمشہ یاد رکھنی چاہئے کہ ان احکامات میں ہر موقع پر اللہ رب العزت نے مسلمانوں سے خطاب کیا ہے۔۔۔ ‘‘ اے لوگوں جو ایمان لائے ہو ‘‘ اس کا مطلب یہ ہوا کے اللہ وحدہ لاشریک نے ایمان کو اپنے احکامات کی پیروی سے مشروط کردیا یعنی صاحب ایمان وہی قرار پائے گا جو ایمان لاچکا ہو۔۔۔ اب روزمرہ زندگی میں جس کا عمل احکامات الٰہی کے مطابق ہوگا اور جو لوگ ان احکامات کو من وعن تسلیم کریں گے وہ اللہ کے پسندیدہ بندوں میں شامل ہیں جو عقل رکھتے ہوئے اللہ کی نافرمانیوں سے بچتے ہیں ان ہی لوگوں کو اللہ نے فلاح نصیب فرمائی ہے۔۔۔

    حقیقت میں نزول قرآن کا اصل مقصد یہ ہی ہے کہ اس کتاب اور اس میں موجود تعلیمات ہر مسلمان کے قلب ونظر میں سماء جائیں اور اس میں بیان کردہ احکامات، ہدایت غرض جملہ اُصول وقواعد انسانی رگ وپے میں اس طرح پیوست ہوجائیں جس طرح شاخ گل میں شبنم کا نم جو اس میں شگفتگی، تازگی اور حیات نو پیدا کردیتا ہے۔۔۔ اسی طرح فرمان الٰہی انسانی روح اور انسانی قوتوں کو شگفتہ پرجوش، پرمسرت، اور نشاط انگیز بنادیتا ہے اس کی حکمت انسان میں حکیمانہ اور بصیرت افروز سوچ پیدا کرتی ہے جس سے وہ زندگی کے اعلٰی ترین مقصد کو پالینے میں کامیاب رہتا ہے لہذا جو لوگ اللہ پر ایمان رکھتے ہیں انہیں چاہئے کہ وہ ان احکامات کی پوری پوری پابندی کریں جو قرآن مجید میں بیان کئے گئے ہیں تاکہ انسانی زندگی امن وامان، سکون واطمعنان، خوش حالی اور فارغ البالی سے بسر ہو اور صالح معاشرہ وجود میں آئے جس میں ہر انسان کو ترقی اور کامیابی کی ضمانت ملے اور یہ ہی قرآن مجید کی منشاء بھی ہے یہ ہی وجہ ہےقرآن مجید معاشرتی زندگی کے اہم پہلو روشن کرتا ہے روزمرہ کے اُصول بیان کرتا ہے اور زندگی کا کوئی بھی مسئلہ ایسا نہیں جس کا حل قرآن مجید میں موجود نہ ہو۔۔۔

    معاشرتی زندگی میں پاکیزہ روایات کے فروغ اور شرم وحیا کی پاسداری کے احساس کو اُجاگر کرنے کے سلسلے میں سورہ الاحزاب کی درج ذیل آیات بنیادی اہمیت کی حامل ہیں۔۔۔

    يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُل لِّأَزْوَاجِكَ إِن كُنتُنَّ تُرِدْنَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا وَزِينَتَهَا فَتَعَالَيْنَ أُمَتِّعْكُنَّ وَأُسَرِّحْكُنَّ سَرَاحًا جَمِيلًا وَإِن كُنتُنَّ تُرِدْنَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَالدَّارَ الْآخِرَةَ فَإِنَّ اللَّهَ أَعَدَّ لِلْمُحْسِنَاتِ مِنكُنَّ أَجْرًا عَظِيمًا
    اے پیغمبر اپنی بیویوں سے کہہ دو کہ اگر تم دنیا کی زندگی اور اس کی زینت وآرائش کی خواستگار ہو تو آؤ میں تمہیں کچھ مال دوں اور اچھی طرح سے رخصت کردوں اور اگر تم اللہ اور اس کے پیغمبر اور عاقبت کے گھر (یعنی بہشت) کی طلبگار ہو تو تم میں جو نیکوکاری کرنے والی ہیں اُن کے لئے اللہ نے اجر عظیم تیار کر رکھا ہے (الاحزاب)۔۔۔

    ان آیات میں واضح کیا جارہا ہے کہ دنیاوی زندگی اور گھریلو زندگی میں زمین آسمان کا فرق ہے دنیاوی زندگی طمع، حرص وہوس اور خواہشات نفسانی کی طرف مائل کرتی ہے جبکہ دین کی پیروی پر مشتمل زندگی شرم وحیاء، صبروقناعت اور ایثار وقربانی کی خصوصیت پیدا کرتی ہے جو معاشرتی زندگی کا جوہر ہے قرآن مجید معاشرتی زندگی کے اسی پہلو کو اُجاگر کرتا ہے گھریلو زندگی کی تمام مسرتیں وجود زن سے ہیں لہذا خاتون خانہ پر سب سے زیادہ گھریلو ذمدایاں عائد ہوتی ہیں۔ قرآن ان کی تعلیم وتربیت پر خاص طور سے زور دیتا ہے معاشرتی زندگی میں روحانی اقدار کی بڑی اہمیت ہے دنیاوی آلائشوں سے پاک زندگی ہی اسلامی طرز حیات اور اسلامی روایات کی پاسدار ہے لہذا قرآن اس زندگی میں پاکیزہ حصار قائم کرنے پر زور دیتا ہے اور ان میں غیر محسوس طور پر درآنے والی خرابیوں سے بچنے کی تنبیہ کرتا ہے۔۔۔

    جیسا کے ارشاد ہوا۔۔۔
    يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُل لِّأَزْوَاجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَاء الْمُؤْمِنِينَ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِن جَلَابِيبِهِنَّ ذَلِكَ أَدْنَى أَن يُعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَّحِيمًا
    اے پیغمبر اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دو کہ (باہر نکلا کریں تو) اپنے (مونہوں) پر چادر لٹکا (کر گھونگھٹ نکال) لیا کریں۔ یہ امر ان کے لئے موجب شناخت (وامتیاز) ہوگا تو کوئی ان کو ایذا نہ دے گا۔ اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے (الاحزاب)۔۔۔

    اس آیت مبارکہ کا مقصد معاشرے کو یہ بات باور کرانا ہے کے عورتیں پردے میں رہ کر محفوظ رہ سکتی ہیں لہذا روزمرہ زندگی میں انہیں محتاط رویہ اختیار کرنے کا مشورہ دیا گیا ہے۔۔۔

    گھریلوزندگی میں قریب ترین ومستحکم ترین رشتہ میاں کا بیوی کا ہے گھریلوی زندگی میں نشیب وفراز آتے رہتے ہیں لہذا میاں بیوی میں اگر کسی قسم کی ناچاقی ہوجائے تو فتنہ فساد برپا کرنے کی بجائے قرآن پرُ امن اور شریفانہ راہ دکھاتا ہے جو معاشرتی زندگی کا اصل مقصد ہے قرآن کہتا ہے۔۔۔

    وَإِنِ امْرَأَةٌ خَافَتْ مِن بَعْلِهَا نُشُوزًا أَوْ إِعْرَاضًا فَلاَ جُنَاْحَ عَلَيْهِمَا أَن يُصْلِحَا بَيْنَهُمَا صُلْحًا وَالصُّلْحُ خَيْرٌ وَأُحْضِرَتِ الأَنفُسُ الشُّحَّ وَإِن تُحْسِنُواْ وَتَتَّقُواْ فَإِنَّ اللّهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرًا
    اور اگر کسی عورت کو اپنے خاوند کی طرف سے زیادتی یا بےرغبتی کا اندیشہ ہو تم میاں بیوی پر کچھ گناہ نہیں کہ آپس میں کسی قرارداد پر صلح کرلیں۔ اور صلح خوب (چیز) ہے اور طبیعتیں تو بخل کی طرف مائل ہوتی ہیں اور اگر تم نیکوکاری اور پرہیزگاری کرو گے تو اللہ تمہارے سب کاموں سے واقف ہے (النساء)۔۔۔

    معاشرتی زندگی کے استحکام وانضباط میں اولاد کی اہمیت مسلم ہے اولاد کی تربیت کی ذمداری والدین پر عائد کی گئی ہے مگر والدین کے حقوق اولاد پر مقدم قرار دیئے گئے ہیں اور اولاد کو تنبیہ کردی گئی ہے جیسا کے قرآن بیان کرتا ہے۔۔۔

    وَقَضَى رَبُّكَ أَلاَّ تَعْبُدُواْ إِلاَّ إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِندَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُمَا أَوْ كِلاَهُمَا فَلاَ تَقُل لَّهُمَآ أُفٍّ وَلاَ تَنْهَرْهُمَا وَقُل لَّهُمَا قَوْلاً كَرِيمًا
    اور تمہارے پروردگار نے ارشاد فرمایا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرتے رہو۔ اگر ان میں سے ایک یا دونوں تمہارے سامنے بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو اُن کو اُف تک نہ کہنا اور نہ انہیں جھڑکنا اور اُن سے بات ادب کے ساتھ کرنا (الاسراء)۔۔۔

    انسانی معاشرے کی تشکیل واخلاقی اقدار کی ترویج کے سلسلے میں قرآن مجید کی یہ آیت مبارکہ انسان کے لئے اخلاقی منشور کی اہمیت رکھتی ہے اولاد کا ماں باپ کے ساتھ نیک سلوک ہی معاشرتی استحکام کے لئے مضبوط بنیاد فراہم کرتا ہے انسانی برادری میں امن کا شعور اور امن کی ترغیب احترام انسانیت اور تسلیم ورضا کی روح پیدا ہوتی ہے جس معاشرے میں بزرگوں کو مرکزی حیثیت دی جائے ان کی بڑائی، بزرگی اور عظمت کو تسلیم کیا جائے ان کے سامنے جھک کر انہیں میٹھی زبان میں مخاطب کیا جائے وہ معاشرہ حقیقی معنوں میں انسانی معاشرہ کہلانے کا مستحق ہے قرآن ایسے ہی مثالی معاشرے کی تشکیل چاتا ہے۔۔۔

    اسی طرح قرآن انسانی معاشرے کی فلاح وبہبود کو قدم قدم ملحوظ رکھتا ہے اور ایسے اُصول مقرر کرتا ہے جنہیں اپنا کر معاشرتی اور انفرادی اعتبار سے زندگی کی حقیقی مسرتیں حاصل کی جاسکتی ہیں انسان معاشرے میں ایک دوسرے کی مدد کے بغیر نہیں رہ سکتا۔۔۔اللہ مُسبب الاسباب ہے مگر اس نے انسان کو بھی ایک دوسرے کے لئے وسیلہ بنادیا ہے تاکہ روزمرہ زندگی میں پیش آنے والی مشکلات کا مقابلہ بہ آسانی کیا جاسکے اور ان برائیوں کو بروقت روکا جاسکے جو انسان کے ایک دوسرے سے لاتعلقی کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہیں۔۔۔اسی لئے تلقین کی گئی کے رشتداروں کو اُن کا حق دو اور مسکین اور مسافروں کو اُن کا حق۔۔۔ اس حد بندی سے معاشرے کے تمام انسانوں پر ایک دوسرے کے حقوق کا تعین ہوتا ہے رشتدار، مسکین اور مسافر معاشرے کے ناگزیر جُز ہیں معاشرے میں رہتے ہوئے ان میں سے کسی کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا رشتدار کا حق یوں ہے کہ اس سے کسی نے کسی نوع کا نسلی تعلق ہوتا ہے لہذا اس کا حق مقدم ہے مسکین خوش حال معاشرے کا غیر متوازن کردار ہے اگر اس کی ضرورت زندگی پوری کردی جائیں تو وہ معاشرے میں پرامن طریقے سے اپنا کردار ادا کرے گا اور اگر اس کے مسائل سے صرف نظر برتتے ہوئے نظر انداز کردیا جائے اور مسائل کے سمندر میں اُسے تنہا چھوڑ دیا جائے تو وہ مسائل کے حل لئے لازمی منفی راہیں تلاش کرے گا جس سے معاشرے میں کسی بھی نوع کی خرابیاں جنم لے سکتی ہیں لہذا اس کی زندگی کو متوازن بناکر معاشرتی کے توازن کو برقرار رکھا جاسکتا ہے یہ ہی وجہ ہے کہ اسلام زکات، صدقات اور خیرات کی ادائیگی پر غیر معمولی زور دیتا ہے۔۔۔

    اسلام انسانی زندگی کی حفاظت اور اُس کی بقاء کا سب سے بڑا ضامن ہے وہ پوری انسانیت کو معاشرے میں ایک دوسرے کی جان ومال کی حفاظت اور حرمت کا پابند بناتا ہے اور جزا وسزا کے اُصولوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے بڑے متوازن انداز میں تنبیہ کرتا ہے۔۔۔

    وَلاَ تَقْتُلُواْ النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللّهُ إِلاَّ بِالحَقِّ وَمَن قُتِلَ مَظْلُومًا فَقَدْ جَعَلْنَا لِوَلِيِّهِ سُلْطَانًا فَلاَ يُسْرِف فِّي الْقَتْلِ إِنَّهُ كَانَ مَنْصُورًا
    اور جس جاندار کا مارنا اللہ نے حرام کیا ہے اسے قتل نہ کرنا مگر جائز طور پر (یعنی بفتویٰ شریعت)۔ اور جو شخص ظلم سے قتل کیا جائے ہم نے اس کے وارث کو اختیار دیا ہے (کہ ظالم قاتل سے بدلہ لے) تو اس کو چاہیئے کہ قتل (کے قصاص) میں زیادتی نہ کرے کہ وہ منصورو فتحیاب ہے (الاسراء)۔۔۔

    عزیز دوستو!۔
    انسانی حقوق کی جتنی پاسداری دین اسلام میں پائی جاتی ہے۔۔۔ وہ شاید دنیا کے کسی مذہب میں نہیں۔۔۔اگر یہ بات دل ودماغ میں بیٹھ جائے تو گویا انسان کی نظری، فکری اور علمی رہنمائی ہو گئی لیکن اگر نگاہیں یہیں الجھی رہیں اور دلچسپیاں انہی ظاہری چیزوں تک محدود رہ گئیں اور بھاگ دوڑ صرف ان ہی کا حصول اور ان ہی کو زندگی سمجھا جانے لگا۔۔۔ حٰتی کے انسان اپنے آپ کو اسی ظاہری جسم سے تعبیر کر لے تو آدمی چاہے ۔۔۔ فلسفی ہو، پی ایچ ڈی ہو، مفسر ہو، محدث ہو، فقیہ ہو، یا مفتی وہ درحقیقت اندھیروں (ظلمات) ہی میں ہے۔۔۔ یہ جو ظواہر ہیں ان کی بجائے حقائق پر توجہ اور نگاہیں مرکوز ہوں تو یہ نظری ہدایت ہے کیونکہ ظاہر تو سب کو نظر آرہا ہے اگر کُتا بھی گاڑی کو اپنی طرف آتے دیکھ لیتا ہے تو راستہ بدل لیتا ہے۔۔۔ اگر ہم نے بھی یہ کرلیا تو کون سا بڑا تیر مار لیا۔۔۔ تو پہلی بات یہ سمجھ لیجئے کے نظری ہدایت یہی ہے کہ اس سے ظاہر وباطن کا فرق معلوم ہوجائے حق اور باطل پوری طرح واضع ہوجائیں۔۔۔ یہ ہی قرآن کی دعوت ہے اور یہ ہی دین اسلام کا پیغام ہے۔۔۔

    وما علینا الالبلاغ۔۔۔

    والسلام علیکم ورحمہ اللہ وبرکاتہ۔۔۔
     
Loading...
موضوع کی کیفیت:
مزید جوابات کے لیے کھلا نہیں۔

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں