لوگوںکا بعض مقامات،درختوں اور کنوؤں سے اس عقیدہ کے ساتھ تبرک پکڑنا کہ یہاں کوئی نبی یا نیک بندہ آیا تھا رافض حضرات کربلا کی مٹی سے اندھا دھند تبرک حاصل کرتے ہوئے اس کے ایسے ٹکڑے بنا لیتے ہیں جن پر ثواب کے لیے سجدے کرتے ہیں،اسی طرحاپنے آپ کو پکا ’’اہل سنت‘‘ سمجھنے والے بعض لوگ انبیاء یا نیک لوگوں سے منسوب قدموںکے آثار اور درختوں وغیرہ سے پورا تبرک حاصل کرتے ہیں،اس کے فاسد خیال میںیہاںعبادت کرنے میںبڑا اجر اور فضیلت ہے۔حالانکہ جن لوگوںنے مشرکین کی مشابہت میں ذات انواط کے درخت کو بطور تبرک مقرر کرنے کی درخواست کی تھی ان پر بنی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سختی سے منع فرمایا تھا۔ ابو واقد اللیثی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب خیبر کی طرف جا رہے تھے تو ایک درخت کے پاس سے گزرے جسے ذات انواط کہا جاتا تھا‘اس پر مشرکین اپنے ہتھیار ‘تبرک کے لیے لٹکاتے تھے۔بعض لوگوں نے جو نئے نئے مسلمان ہو چکے تھے کہا:اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! آپ ہمارے لیے بھی ان لوگوںجیسا ذات انواط یعنی درخت مقرر کر دیں تاکہ ہم وہاںبرکت کے لیے اسلحہ لٹکائیں تو دشمن پر فتح حاصل ہو۔یہ سن کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: [qh]((سبحان اللہ ھذا کما قال قوم موسی : اجعل لنا الھا کما لھم آلھۃ والذی نفسی بیدہ لترکبن سنہ من کان قبلکم))[/qh] ’’سبحان اللہ! یہ تو وہی بات ہے جو موسٰی کی قوم نے کہی تھی کہ جس طرح ان (مشرکوں) کے خدا ہیں ہمارا بھی ایک خدا بنا دے۔اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میںمیری جان ہے! تم (یعنی بعض امت محمدیہ) اگلے لوگوں (یہود و نصاریٰ) کے قدموں پر ضرور چلو گے۔‘‘ (صحیح ‘سنن ترمذی‘کتاب الفتن‘باب ماجاء لترکبن سنن من کان قبلکم (2180) و صححہ الترمذی وابن حبان ) اس کی شرح میںشیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیںکہ ’’کفار جس درخت پر اپنے ہتھیار لٹکارتے اور اس کی اعتکاف کرتے تھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس درخت کی مشابہت تک کی بھی مخالفت کی ۔آپ سوچیںکہ جو لوگ مشرکین کی پوری پوری مشابہت کر رہے ہیں کیا یہ بعینہ شرک نہیں ہے؟ (اقتضاء الصراط المستقیم: ص 248) جناب عمر رضی اللہ عنہ سے ثابت ہے کہ جب انہوںنے حجر اسود کو بوسا دیا تو کہا: ’’اگر میںرسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تجھے چومتا نہ دیکھتا تو تجھے کبھی نہ چومتا۔‘‘ (صحیحالبخاری،کتاب الحج،باب تقبیل الحجر (1610) صحیحمسلم،کتاب الحج،باب استحباب تقبیل الحجر الاسود فی الطواف (1270) ) ایک دوسری روایت میںیوںالفاظ ہیں کہ: ’’اور میںجانتا ہوں کہ تو پتھر ہے،نہ نفع دے سکتا ہے اور نہ نقصان۔‘‘ (صحیح بخاری،کتاب الحج،باب ما ذکر الحجر الاسود،ح 1597 و صحیح مسلم، دیکھئے ص 92) یہ اس لیے کی فضیلت‘تبرک اور ثواب کی بنیاد دین حق کی اتباع میںہے،بدعات کے ذریعے تو شرک اور گمراہی کے چور دروازے کھل جاتے ہیں۔