ايك مٹھى سے زائد داڑھى كاٹنا

محتشم نے 'آپ کے سوال / ہمارے جواب' میں ‏جون 5, 2009 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. عبداللہ حیدر

    عبداللہ حیدر -: رکن مکتبہ اسلامیہ :-

    شمولیت:
    ‏جون 29, 2008
    پیغامات:
    147
    اس ربط پر علامہ البانی کا موقف اور تقریبا تمام اہم اعتراضات کے جواب موجود ہیں۔
    http://www.alalbany.net/fatawa_results.php?search=%c7%e1%e1%cd%ed%c9
    مراجعت کرنے سے معلوم ہوا ہے کہ "بدعت" کا لفظ امام البانی نے استعمال نہیں کیا بلکہ فتوے کو عنوان دینے والے شخص نے ایسا لکھا ہے۔ براہ مہربانی تصحیح کر لیں۔
     
  2. محمدی

    محمدی -: محسن :-

    شمولیت:
    ‏اکتوبر، 5, 2008
    پیغامات:
    81
    بھئی کسی بھی صحابی کا کوئی قول فعل اس وقت تک حجت نہیں بن سکتا جب تک کہ وہ صحابی یہ نہ کہہ لے کہ یہ جو میں‌کررہا ہوں‌یہ سنت رسول ہے۔
    اگر عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی یہ کہہ دیتے کہ یہ عمل سنت رسول ہے تو پھر ہم سب اس پر عمل کرتے ۔
    اگر یہ سنت تھی تو عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی نے اس کو کرنے کا حکم کیو نہیں دیا اور باقی سب صحابی کیوں نہیں‌کرتے تھے۔ اگر جو حضرات عبداللہ بن عمر کے اس فعل کو لازمی سمجھتے ہیں۔ تو انہیں چاہیے کہ عبداللہ بن عمر کی روایت جو کہ صحیح‌بخاری میں ہے کہ میں‌نے رسول اللہ صلی للہ علیہ وصلم کو دیکھا وہ رفع الدین کرتے ہیں اس پر بھی عمل کریں۔یہ کیسی بات ہوئی کہ عبداللہ بن عمر کے اپنے فعل پر تو ہم عمل کریں جبکہ انکی لائی ہوئی صحیح روایت پر عمل نہ کریں جو کہ اللہ کے نبی کا عمل ہے۔
     
  3. ابو عبداللہ صغیر

    ابو عبداللہ صغیر -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏مئی 25, 2008
    پیغامات:
    1,979
    السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
    بھائی لیکن ہمارے ہاں کے اہلحدیث حضرات کی تو بہت لمبی لمبی داڑھیاں ہیں۔ ماشاءاللہ
    شکریہ
     
  4. الطحاوی

    الطحاوی -: منفرد :-

    شمولیت:
    ‏دسمبر 5, 2008
    پیغامات:
    1,825
    میری یہ بات غلط تھی میں اپنی بات سے رجوع کرتاہوں
     
  5. ابن عمر

    ابن عمر رحمہ اللہ بانی اردو مجلس فورم

    شمولیت:
    ‏نومبر 16, 2006
    پیغامات:
    13,354
  6. اعجاز علی شاہ

    اعجاز علی شاہ -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏اگست 10, 2007
    پیغامات:
    10,322
    جزاک اللہ خیرا
    غلطی کو تسلیم کرنا انسان کو مزید باعزت کردیتا ہے۔ میں نے ابھی اپنی پوسٹ کو ختم کردیا ہے کیوں کہ اگر ایک انسان رجوع کرتا ہے تو پھر دوسرے کو بھی اس کے موقف کے مطابق فیصلہ کرنا چاہیے۔
    خوش رہے بھائی۔
     
  7. Taha

    Taha محسن

    شمولیت:
    ‏اگست 20, 2009
    پیغامات:
    222
    وقال رسول اللّہ صلی اللّہ علیہ وسلم: أصحابي کالنجوم فبأیہم اقتدیتم اہتدیتم (مشکوٰة: ص554)

    مذکورہ حدیث سے واضح ہوگیا کہ صحابہ میں سے ہر ایک انفرادی طور پر معیار حق ہے۔
     
  8. باذوق

    باذوق -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏جون 10, 2007
    پیغامات:
    5,623
    آپ کی پیش کردہ بالا روایت موضوع روایت ہے۔
    تفصیل یہاں دیکھ لیں۔
     
  9. الطحاوی

    الطحاوی -: منفرد :-

    شمولیت:
    ‏دسمبر 5, 2008
    پیغامات:
    1,825
    ڈاڑھی کے مسئلہ پر حضرت مولانا زکریاٌ کی تحریر سے چند اقتباسات پیش کئے گئے ہیں جو درج ذیل مسئلہ میں امید ہے کہ چشم کشا ثابت ہوں گے اورزیر بحث مسئلہ کے مختلف گوشوں پر اس سے قیمتی رہنمائی حاصل ہوگی۔والسلام
    بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
    نحْمَدُہ وَنُصَلِّی عَلٰی رَسُوْلِہ الْکَرِیْم
    اس سال یعنی ۱۳۹۵ھ میں سفر ہند کے موقع پر ایک نئی بات پیش آئی اس ناکارہ کی روانگی جدہ سے ہندوستان کے لیے ۶/اگست ۱۹۷۵/ مطابق ۲۸/رجب ۱۳۹۵ھ چہارشنبہ کو ہوئی اور اسی روز بمبئی پہنچنا ہوا۔ خیال بمبئی میں دو تین روز قیام کا تھا۔ مگر بمبئی جاکر معلوم ہوا کہ مولانا انعام الحسن صاحب کو مالیرکوٹلہ کا تبلیغی سفر درپیش ہے۔ انھوں نے بمبئی کے احباب کو لکھ رکھا تھا کہ بمبئی میں زکریّا کا قیام زیادہ نہ کرایا جائے۔

    اس لیے یہ ناکارہ ایک دن بمبئی ٹھہرکر جمعہ کو بمبئی سے دہلی روانہ ہوگیا۔اور ایک شب قیام کے بعد مولانا انعام الحسن صاحب مالیرکوٹلہ کے لیے اور یہ ناکارہ سہارنپور کے لیے روانہ ہوگیا۔ سہارنپور سے امسال واپسی بجائے طیارہ کے بارڈر کے راستے ہوئی،اور ۲/ذیقعدہ جمعہ کے دن صبح کو پاکستانی بارڈر پر پہنچنا ہوا۔ پاکستان کا تبلیغی اجتماع جو شنبہ سے شروع ہورہا تھا سہ روزہ تھا۔ پاکستان میں چند مواقع پر ٹھہرنے کے بعد ۲۱/نومبر ۱۶/ذیقعدہ ہندی کو مکّہ مکرّمہ واپس پہنچا۔

    وہ نئی بات سہارنپور کے زمانہٴ قیام میں اس مرتبہ خلاف معمول ڈاڑھی کے مسئلہ پر مجھے بہت ہی اشتعال رہا۔ مجھے خود بھی خیال آتا رہا،اور دوستوں نے بھی کہا کہ اس شدت کی نکیر تو میرے مزاج میں پہلے نہیں تھی ہر موقع پر مقطوع اللحیہ کو دیکھ کر طبیعت میں جوش پیدا ہوتا تھا، اور ہر مجمع میں اس پر نکیر کرتا۔ بیعت میں بھی قطع لحیہ سے بچنے کی تاکیدکرتا تھا۔ اس شدت کی کوئی خاص وجہ تو میرے ذہن میں نہیںآ ئی بجز اس کے کہ یہ مرض بہت بڑھتا جارہا ہے، اور موجودہ دور میں اس پرنکیر بالکل متروک ہوگئی ہے۔

    حضرت شیخ الاسلام مولانا مدنی نوراللہ مرقدہ کے آخری تین چار سال بھی اس پر بہت ہی شدتِ نکیر کے گزرے۔ مجھے ایسے لوگوں کو دیکھ کر جو حضور اقدس صلى الله عليه وسلم کی صورت کے خلاف اپنی صورت بناتے اور ڈاڑھی منڈاتے ہیں یہ خیال ہوتا تھا کہ موت کا مقرروقت کسی کو معلوم نہیں اور اس حالت میں اگرموت واقع ہوئی تو قبر میں سب سے پہلے سیّدالرسل صلی اللہ وآلہ وسلم کے چہرئہ انور کی زیارت ہوگی تو کس منہ سے چہرئہ انور صلى الله عليه وسلم کا سامنا کریں گے۔

    اس کے ساتھ ہی بار بار یہ خیال آتا تھا کہ گناہِ کبیرہ زنا، لواطت، شراب نوشی، سودخوری وغیرہ تو بہت سے ہیں۔ مگر وہ سب وقتی ہیں کہ ہر وقت ان کا ظہور اور صدور نہیں ہوتا۔ نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے۔

    لاَیَزْنِی الّزَانِی حِیْنَ یَزْنِیْ وَہُوَ مُوٴمِنٌ (الحدیث) یعنی زناکار جب زنا کرتا ہے تو وہ اس وقت موٴمن نہیں ہوتا۔ مطلب اس حدیث کا مشائخ نے یہ لکھا ہے کہ زناکے وقت ایمان کا نور اس سے جدا ہوجاتا ہے۔ لیکن زنا کے بعد وہ نور ایمانی پھر مسلمان کے پاس آجاتا ہے۔ مگر قطع لحیہ ایسا گناہ ہے جس کا اثر اور ظہور ہر وقت اس کے ساتھ رہتا ہے نماز پڑھتا ہے تو بھی یہ گناہ ساتھ ہے۔ روزہ کی حالت میں، حج کی حالت میں، غرض ہرفرض ہر عبادت کے وقت یہ گناہ اس کے ساتھ لگارہتا ہے۔ اس وقت بار بار یہ خیال آیا کہ ایک رسالہ ڈاڑھی کے متعلق مختصر سا لکھوں۔

    مگر ہندوستان کے قیام میں اس کا بالکل وقت نہ ملا۔ ہندوستان سے واپسی پر وہ جوش تو اگرچہ باقی نہیں رہا۔ مگر رسالہ لکھنے کا خیال بدستور دامن گیر ہے۔ اس لیے آج ۲۹/ذی الحجہ ۱۳۹۵ھ یومِ چہارشنبہ بوقت ظہر مسجدِ نبوی میں اس کی بسم اللہ تو کرادی اللہ تعالیٰ پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ کیونکہ اس وقت حجاجِ کرام کی رخصت، اور ملاقات کی وجہ سے احباب کا ہجوم رہتا ہے۔ وَاللّٰہُ الْمُوَفِّقُ لِمَا یُحِبُّ وَیَرْضٰی.

    اس رسالہ میں دو فصلیں لکھوانے کا خیال ہے۔ فصل اوّل میں حضور پاک صلى الله عليه وسلم کے ارشادات اور حضرات صحابہ کے آثار مذکور ہیں۔ اور دوسری فصل میں مشائخ اور علماء کے اقوال نقل کیے گئے ہیں۔

    فصل اوّل

    (۱) عَنْ عَائِشَةَ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا قَالَتْ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَآلِہ وَسَلَّمْ عَشْرٌ مِنَ الْفِطْرَةِ قَصُّ الشَّارِبِ وَاعفَاءُ للّحِیَةِ الحَدِیْث رَوَاہُ اَبُودَاوٴدَ وعَزاہ فِیْ رِسَالَةِ حُکُمُ اللّحْیَةِ فِیْ الْاِسْلاَمِ لِلّشَیْخ مُحَمَّدِ الحَامِدِ الشَّامِیْ اِلٰی مُسْلِمٍ وَاَحْمَدَ وَالتِرمِذِیْ وَاِبْنِ مَاجَةَ.

    حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ دس چیزیں فطرت میں سے ہیں۔ جن میں مونچھوں کا کٹوانا اور ڈاڑھی کا بڑھانا ذکر فرمایاہے۔

    ف: بذل المجہود میں لکھا ہے کہ فطرت کے معنی سنن انبیاء ہیں یعنی یہ دس چیزیں جن میں مونچھوں کا کٹوانا اور ڈاڑھی کا بڑھانا بھی ہے جملہ انبیائے کرام علیہم الصلوٰة والسلام کی سنتوں سے ہیں جن کی اقتداء کا ہمیں حکم دیاگیا ہے (یہ اشارہ ہے قرآن پاک کی آیة شریفہ اُولٰئِکَ الَّذِیْنَ ہُدَی اللّٰہُ فَبِہُدَاہُمُ اقتَدِہ کی طرف) یہ آیت شریفہ ساتویں پارہ کی ہے۔

    جس میں اوپر سے انبیائے کرام علیہم الصلوٰة والسلام کے اسمائے گرامی ذکر کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو ارشاد فرمایا ہے کہ یہ حضرات ایسے تھے جن کو اللہ تعالیٰ نے ہدایت کی تھی سو آپ بھی ان ہی کے طریقہ پر چلئے۔ (بیان القرآن)

    بذل میں لکھا ہے کہ فطرت کے یہ معنی اکثر علماء سے نقل کیے گئے ہیں۔ اور بعض نے فطرت کے معنی سنتِ ابراہیمی بیان کیے ہیں۔ یعنی حضرت ابراہیم علی نبینا وعلیہ الصلوٰة والسلام کی سنت اور بعض علماء نے فطرت کے معنی یہ کیے ہیں کہ طبائع سلیمہ ان کو طبعاً قبول کرتی ہیں۔ یعنی جو طبیعتیں ٹیڑھی نہ ہوں ان کو یہ سب چیزیں پسند ہیں۔ اور مراد فطرت سے دین ہے جس کی طرف قرآن پاک کی دوسری آیت فِطْرَةَ اللّٰہِ الَّتِیْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْہَا میں اشارہ کیاگیا ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کا وہ دین ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے سب سے اوّل انسان کے لیے پسند فرمایا ہے۔ اور یہ دس چیزیں بھی دین کے توابع میں سے ہیں۔

    بذل کے اس قول میں جس آیة کی طرف اشارہ کیاگیا ہے وہ قرآن پاک کی دوسری آیت ہے جو اکیسویں پارہ میں ہے۔

    ”فِطْرَةَ اللّٰہِ الَّتِیْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْہَا لاَتَبْدِیْلَ لِخَلْقِ اللّٰہِ ذٰلِکَ الدِّیْنُ القَیِّمُ وَلٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لاَیَعْلَمُوْنَ.

    ترجمہ: اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی قابلیت کا اتباع کرو جس پراللہ تعالیٰ نے لوگوں کو پیدا کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی اس پیدا کی ہوئی چیز کو جس پراس نے تمام آدمیوں کو پیدا کیا ہے بدلنا نہ چاہیے۔ پس سیدھا دین یہی ہے اورلیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔(بیان القرآن)

    شیطا مردود نے جب وہ رندئہ درگاہ ہوا تھا تو کہاتھا۔

    ”وَلَاُضِلَّنَّہُمْ وَلَاُمَنِّیَنَّہُمْ وَلَاٰمُرَنَّہُمْ فَلَیُبَتِّکُنَّ اٰذَانَ الْاَنْعَامِ وَلَاٰمُرَنَّہُمْ فَلَیُغَیِّرُنَّ خَلْقَ اللّٰہِ وَمَنْ یَّتَّخِذِ الشَیْطَانَ وَلِیًّا مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ فَقَدْ خَسِرَ خُسْرَانًا مُبِیْنًا“

    ”جس کا ترجمہ یہ ہے اور میں ان کو گمراہ کروں گا، اور ان کو ہوسیں دلاؤں گا اور میں ان کو تعلیم دوں گا۔ جس سے چارپاؤں کے کانوں کو تراشاکریں گے اور میں ان کو تعلیم دوں گا جس سے وہ اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی صورت کو بگاڑا کریں گے۔اور جو شخص خدا تعالیٰ کو چھوڑ کر شیطان کو اپنا رفیق بنادے گا وہ صریح نقصان میں واقع ہوگا۔“ (بیان القرآن)۔
    حضرت تھانوی نوراللہ مرقدہ نے فوائد میں تحریر فرمایاہے کہ وَلَاٰمُرَنَّہُم فلَیُغَیِّرُنَّ خَلْقَ اللّٰہ میں ڈاڑھی منڈانا بھی داخل ہے۔ اور بھی متعدد روایات میں ڈاڑھی بڑھانے اور مونچھیں کٹوانے کا حکم ہے۔ رسالہ حکم اللحیہ فی الاسلام میں صحیح ابن حبان کے حوالہ سے بہ روایت حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا پاک ارشاد نقل کیا ہے جو درج ذیل ہے۔

    (۲) قَالَ رَسُوْلُ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمْ مِنْ فِطْرَةِ الْاِسْلاَمِ اَخْذُ الشَّارِبِ وَاِعْفَاءُ اللّحٰی فَاِنَّ الْمَجُوْسَ تُعْفِیْ شَوَارِبَہَا وَتُحْفِی لُحَافَخَالِفُوہُمْ خُذُوا شَوَارِبکُمْ وَاعْفُوْا لُحَاکُمْ.

    ترجمہ: حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا اسلام کی فطرت سے مونچھوں کا لینا (کٹوانا) ہے، اور ڈاڑھی کا بڑھانا ہے۔ اس لیے کہ مجوسی لوگ اپنی مونچھوں کو بڑھاتے ہیں اور ڈاڑھی کو کٹواتے ہیں۔ لہٰذا ان کی مخالفت کرو، مونچھوں کو کٹوایا کرو اور ڈاڑھی کو بڑھایا کرو۔“

    ف: اس حدیثِ پاک میں حضور پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ڈاڑھی رکھنے کو اسلام کی فطرت (خصلت و مقتضی) قرار دیا ہے۔اور ڈاڑھی کٹانے کو مجوس کا شعار فرمایا ہے۔ نیز مَنْ تَشَبَّہَ بِقَوْمٍ فَہُوَ مِنْہُمْ، مشہور حدیث ہے۔ یعنی جو شخص کسی قوم کی مشابہت اختیار کرتا ہے وہ ان ہی میں شمار ہوتا ہے۔ اسی بناء پر حضور پاک صلى الله عليه وسلم نے حدیثِ بالا میں مخالفتِ مجوس کا حکم دیا ہے۔

    پس اس سے صاف معلوم ہوگیا کہ ڈاڑھی رکھنا ایک شرعی حکم ہے۔اوراس میں تمام انبیاء علیہم الصلوٰة والسلام کی موافقت ہے جیساکہ حدیث نمبر ایک میں گذرا، لہٰذا جن لوگوں کا یہ خیال ہے کہ عرب میں چونکہ ڈاڑھی رکھنے کا دستور تھا اس لیے آپ نے عادت کے طور پر اس کا حکم فرمایا ہے، یہ خیال بالکل غلط اور بے اصل ہے، حق تعالیٰ شانہ اپنے فضل وکرم سے ہم سب کو اپنے حبیب پاک علیہ الصلوٰة والسلام کے ارشادات پر عمل اور وعیدات سے بچنے کی زیادہ سے زیادہ توفیق عطا فرمائے۔

    حضرت ابنِ عمررضی اللہ تعالیٰ عنہما سے بھی حضور اقدسصلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا پاک ارشاد نقل کیاگیاہے کہ مشرکین کی مخالفت کرو۔ ڈاڑھیوں کو بڑھایا کرو۔ اور مونچھوں کے کٹوانے میں مبالغہ کرو۔ اور بھی متعدد احادیث میں یہ مضمون کثرت سے نقل کیاگیا ہے کہ مشرکین کی مخالفت کرو ڈاڑھی کو بڑھایاکرو۔ اور مونچھوں کے کٹوانے میں مبالغہ کیا کرو۔

    حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کا پاک ارشاد نقل کیا گیا ہے کہ ڈاڑھی بڑھاؤ، مونچھوں کو کٹواؤ،اور اس میں یہود، اورنصاریٰ کی مشابہت اختیار نہ کرو۔

    افسوس ہے کہ ہمارے اس زمانے میں نصاریٰ ہی کے اتباع اور ان کی مشابہت اختیار کرنے کے لیے حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور جملہ انبیاء علیہم الصلوٰة والسلام کی اس مبارک سنت کو ختم کیاجارہا ہے اس ناکارہ کو خوب یاد ہے کہ میرے بچپن میں ہندوؤں میں بھی جو بڑے لوگ ہوتے تھے وہ ڈاڑھی رکھاکرتے تھے۔

    مصنّف ابن ابی شیبہ میں روایت نقل کی ہے کہ ایک مجوسی حضور اقدسصلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا جس نے ڈاڑھی منڈارکھی تھی، اور مونچھیں بڑھا رکھی تھی تو حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے فرمایا کہ یہ کیابنارکھا ہے۔ اس نے کہا یہ ہمارا دین ہے۔ حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ہمارے دین میں یہ ہے کہ مونچھوں کو کٹوادیں اور ڈاڑھی کو بڑھائیں (حکم اللحیہ فی الاسلام) ابنِ عساکر وغیرہ نے حضرت حسن سے مرسلاً حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا پاک ارشاد نقل کیا ہے کہ دس خصلتیں ایسی ہیں جو قومِ لوط میں تھیں جن کی وجہ سے وہ ہلاک ہوئے۔ ان دس چیزوں میں ڈاڑھی کا کٹوانا اور مونچھوں کا بڑھانا بھی ذکر کیاگیا ہے۔ حارث بن ابی اسامہ نے یحییٰ بن کثیر سے مرسلاً نقل کیا ہے کہ ایک عجمی (کافر) مسجد میں آیا۔ جس نے ڈاڑھی منڈا رکھی تھی اور مونچھیں بڑھا رکھی تھیں۔ حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ایسا کرنے پر تجھے کس چیز نے اُبھارا تو اس نے کہا کہ میرے رب (بادشاہ) نے یہ حکم دیا ہے۔

    حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے یہ حکم دیا ہے کہ ڈاڑھی کو بڑھاؤں اور مونچھوں کو کٹواؤں، ایک دوسری روایت میں زید بن حبیب سے نقل کیا ہے کہ حضور اقدس صلى الله عليه وسلم نے ڈاڑھی منڈائے ہوئے دو شخصوں کی طرف جو شاہ کسریٰ کی طرف سے قاصد بن کر آئے تھے ان کی طرف نگاہ فرمانا بھی گوارہ نہ فرمایا۔ اور فرمایا کہ تمھیں ہلاکت ہو، یہ حلیہ بنانے کو کس نے کہا۔ انھوں نے کہا ہمارے رب نے (شاہ کسریٰ نے) حکم دیا ہے۔ تو حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا لیکن مجھے میرے رب نے ڈاڑھی کے بڑھانے اور مونچھوں کے کٹوانے کا حکم دیاہے۔ (حکم اللحیہ) یہ قصّہ آگے مفصل آرہا ہے۔ مرنے کے بعد قبر میں سب سے پہلے سیّدالکونین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت ہوگی۔ کس قدر حسرت اورمایوسی کا وقت ہوگا اگر خدانخواستہ اس ذاتِ اقدس نے جس سے سفارشوں کی اُمیدیں ہیں پہلے ہی وہلہ میں ایسے خلافِ سنت چہرے اور صورت کو دیکھ کر منہ پھیرلیا؟

    (۳) عَنْ زَیْدِ بْنِ اَرْقَمْ رَضِیَ اللّٰہ تَعَالٰی عَنْہُ عَنْ رَسُوْلِ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْةِ وَاٰلِہ وَسَلَّمْ قَالَ مَنْ لَمْ یَأخُذْ شَارِبَہ فَلَیْسَ مِنَّا اَخْرَجَہ اَحْمَدُ وَالتِرْمِذیْ وَالنَّسَائِیْ وَالضِیَاءُ. (حکم اللحیة فی الاسْلاَم)

    ترجمہ: زید بن ارقم رضى الله تعالى عنه حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد نقل کرتے ہیں کہ جو شخص مونچھیں نہ کٹوائے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔

    ف: کس قدر سخت وعید ہے لمبی لمبی مونچھوں والے اپنے آپ کو شریف سمجھیں اور سرکاری کاغذات میں اپنے کو مسلمان بھی لکھوادیں۔ مگر سیّدالکونین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ان لوگوں کو اپنی جماعت میں شمار کرنے سے انکار فرمارہے ہیں۔ حضرت واثلہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد نقل کیاگیا ہے کہ جو اپنی مونچھوں کو نہ کاٹے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔

    طبع سلیم بھی مونچھوں کے بڑھانے سے کراہت کرتی ہے، پانی، چائے وغیرہ پینے کی جتنی بھی چیزیں منہ میں جائیں گی وہ مونچھوں کے دھووَن کے ساتھ جائیں گی۔ اگر کوئی شخص مونچھوں کو دھوکر پیالی میں رکھ لے اور اس کو پی لے توکس قدر گھن آوے گی۔ لیکن پانی اور ہر پینے کی چیز کا ہرگھونٹ اس دھووَن کے ساتھ اندر جارہا ہے مگر ذرا بھی گھن نہیں آتی۔

    امام احمد بن حنبل رحمة الله عليه نے اپنی کتاب الزہد میں عقیل بن مدرک سلمی سے نقل کیا ہے کہ اللہ جل شانہ نے بنی اسرائیل کے انبیاء میں سے ایک نبی کے پاس وحی بھیجی کہ اپنی قوم سے کہہ دو کہ وہ میرے دشمنوں کا کھانا (یعنی جوان کے ساتھ مخصوص ہو جیسے نصاریٰ کا کھانا سوٴر) نہ کھاویں۔ اور میرے دشمنوں کا پانی نہ پئیں(جیسے شراب) اور میرے دشمنوں کی شکل نہ بنائیں۔ اگر وہ ایسا کریں گے تو وہ بھی میرے دشمن ہوں گے جیساکہ وہ لوگ حقیقی میرے دشمن ہیں۔ (دلائل الاثر)

    پہلے کئی روایتوں میں گذرچکا کہ ڈاڑھی کا منڈانا عاجم کا یعنی مشرکین کا شعار ہے جس کی مخالفت کا حکم کئی حدیثوں میں گزرچکا ہے۔ یہاں ایک امر نہایت اہم اور قابل تنبیہ یہ ہے کہ بہت سے حضرات ایسے ہیں کہ جو ڈاڑھی منڈانے کو تو معیوب سمجھتے ہیں اور اس سے بچتے بھی ہیں۔ لیکن ڈاڑھی کے کم کرنے اور کتروانے کو معیوب نہیں سمجھتے حالانکہ شریعتِ مطہرہ میں جس طرح ڈاڑھی رکھنے کا حکم ہے۔ اسی طرح اس کی ایک مقدار بھی متعین ہے۔

    چنانچہ اس سے کم کرنا شرعاً معتبر نہیں ہے اور وہ مقدار ایک قبضہ (مٹھی) ہے اس سے کم رکھنا بالاتفاق تمام علماء کے نزدیک ناجائز اور حرام ہے گو اس میں علماء کا اختلاف ہے کہ اگر ایک قبضہ پر بڑھ جائے تو اس کو کم کرنا چاہیے یا نہیں۔

    حضرت مدنی نوراللہ مرقدہ اپنے رسالہ ڈاڑھی کے فلسفہ میں جو ایک صاحب کے خط کے جواب میں لکھا گیاتھا تحریر فرماتے ہیں کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ڈاڑھی کے طول اور عرض میں سے کتراکرتے تھے،اس لیے اس کی حد معلوم کرنی ضروری سمجھی گئی۔ چونکہ صحابہٴ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین جناب رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے اقوال وافعال کا مشاہدہ کرنے والے ہیں۔

    اس لیے ان کے عمل کو اس بارے میں امام بخاری نے ترازوبنایا ہے۔ اور حضرت عبداللہ بن عمررضى الله تعالى عنه جو کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے بڑے فدائی ہیں اور آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی سنتوں کی پیروی میں نہایت زیادہ پیش پیش رہنے والے ہیں۔ ان کے عمل کو بطورمعیار پیش کیا ہے۔ چنانچہ امام بخاری صحیح بخاری میں فرماتے ہیں۔

    ”کَانَ ابْنُ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا اِذَا حَجَّ اَوِاعْتَمَرَ قَبَضَ عَلٰی لِحْیَتِہ فَمَا فَضَلَ اَخَذَہ.

    ترجمہ: حضرت ابن عمررضى الله تعالى عنه جب حج یا عمرہ کرتے تھے تو اپنی ڈاڑھی کو مٹھی میں لے کرایک مشت سے زائد کو کتروادیتے تھے۔

    جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا عرض وطول میں ڈاڑھی کا کترنا اس مقدار اور کیفیت سے ہوتا تھا۔ علاوہ ابن عمررضى الله تعالى عنه اور حضرت عمررضى الله عليه اور حضرت ابوہریرہ رضى الله تعالى عنه بھی ایساکرتے تھے۔حافظ ابن حجر شرح بخاری میں طبری سے نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ایک جماعت کہتی ہے کہ ڈاڑھی جب ایک مشت سے زائد ہوجائے تو زائد کو کتردیا جائے۔

    پھر طبری نے اپنی سند سے حضرت ابن عمررضى الله تعالى عنه اور حضرت ابوہریرہ سے روایت کیا ہے کہ انھوں نے ایسا ہی کیا۔ اور حضرت عمررضى الله تعالى عنه سے بھی مروی ہے کہ انھوں نے ایک شخص کے ساتھ ایسا ہی کیا۔ اِسی عمل اور طریق کو فقہا حنفیہ وشافعیہ وغیرہ نے کتبِ فقہ وغیرہ میں ذکر کیا ہے۔ اسی طرح ابوداؤد شریف میں ہے۔

    ”عَنْ جَابِرٍ رضى الله تعالى عنه قَالَ کُنَّا نُعْفِیْ السِّبَالَ اِلاَّ فِیْ حَجَّةٍ اَوْ عُمْرَةٍ (ابوداؤد)

    ترجمہ: ”ہم لوگ ڈاڑھی کے اگلے اور لٹکنے والے حصّہ کو بڑھا ہوا رکھتے تھے مگر حج اور عمرہ سے فارغ ہوکر کتروادیا کرتے تھے۔ جس کی توضیح حضرت ابن عمررضى الله تعالى عنه کے عمل سے معلوم ہوگئی ہے جو بخاری شریف سے ابھی اوپر مذکورہوا۔“

    یہ حدیث صاف طورسے بتلارہی ہے کہ عام صحابہ کرام تمام سال میں ڈاڑھی کا اگلا اور لانبا حصہ کترواتے نہیں تھے ہاں جب حج اور عمرہ کرتے تھے تو ایک مشت سے زائد حصہ کو کتروادیتے تھے۔ نیز جناب رسول اللہ تعالیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ڈاڑھی مبارک کم از کم ایک مشت بلکہ اس سے زائد اتنی ثابت ہوتی ہے جس میں تخلیل (خِلال) فرماتے تھے۔ کنگھی سے درست فرمایا کرتے تھے۔ وہ اتنی بڑی گنجان تھی کہ اس نے سینہٴ مبارک کے اوپر کے حصہ کو طول و عرض کو بھرلیا تھا۔

    حضرت عمار بن یاسررضى الله تعالى عنه، عبداللہ بن عمر، حضرت عمر، حضرت ابوہریرہ، حضرت جابر رضی اللہ عنہم کے اقوال وافعال سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایک مشت یا اس سے زائدڈاڑھی رکھتے تھے اور رکھواتے تھے۔ تمام دوسرے صحابہٴ کرام کا بھی یہی عمل ہونا التزاماً ثابت ہوتا ہے۔ کیونکہ حضرت جابررضى الله تعالى عنه فرماتے ہیں کہ ہم لوگ ڈاڑھی لمبی رکھتے تھے۔ بجز حج عمرہ کے کترواتے نہیں تھے۔ جناب رسول اللہ تعالیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام اورامّت کو ڈاڑھی بڑھانے کا حکم فرمایا ہے۔اور اس عمل کو تمام مسلمانوں کے لیے مابہ التمیز قرار دیا ہے کہ یہ ان کا مخصوص شعار اور یونیفارم ہوگا، نہ منڈوانا جائز ہو نہ خشخشی رکھنا، نہ چھوٹی رکھنا۔ (ملتقط از ڈاڑھی کا فلسفہ)

    حضرت مولانا الحاج قاری محمد طیّب صاحب رحمة الله عليه نے اپنے رسالہ ”ڈاڑھی کی شرعی حیثیت“ میں اس مضمون کو تفصیل سے تحریر فرمایا ہے، اور مقدار قبضہ کو قرآن پاک احادیث اور آثار صحابہ سے ثابت فرمایا ہے۔ اس میں تحریر فرمایاہے کہ شیخ ابن ہمام صاحب فتح القدیر نے یہ دعویٰ فرمایا ہے کہ:

    ”وَاَمَّا الْاَخْذُ مِنْہَا وَہِیَ دُوْنَ الْقَبْضَةِ کَمَا یَفْعَلُہ بَعْضُ الْمَغارِبَةِ مُخَنَّثَةُ الرّجَالِ فَلَمْ یُبِحْہُ اَحَدٌ.

    ترجمہ: ”یعنی ڈاڑھی کا کٹانا جبکہ وہ مقدار قبضہ سے کم ہو جیسا کہ بعض مغربی لوگ اور مخنث قسم کے انسان یہ حرکت کرتے ہیں۔ اس کو کسی نے بھی مباح قرار نہیں دیا۔ یعنی تمام فقہاء امت اس پرمتفق ہیں کہ ڈاڑھی کا مقدار قبضہ سے کم کرنا جائز نہیں۔اور یہ اجماع خود ایک مستقل دلیل ہے اس کے وجوب کی۔ حضرت امام محمدرحمة الله عليه اپنی کتاب الآثار میں تحریر فرماتے ہیں۔

    مُحَمَّدٌ قَالَ اَخْبَرَنَا اَبُوْ حَنِیْفَةَ عَنِ الْہَیْثَمِ عَنِ ابْنِ عُمَررضى الله تعالى عنه اَنَّہ کَانَ یُقْبِضُ عَلٰی لَحْیَتِہ ثُمَّ یَقُصُّ مَا تَحْتَ القَبْضَةِ قَالَ مُحَمَّدٌ وَبِہ نَأْخُذُ وَہُوَ قَوْلُ اَبِیْ حَنِیْفَہ .

    ترجمہ: حضرت امام محمد فرماتے ہیں کہ ہم سے روایت کیاامام ابوحنیفہ رحمة الله تعالى عنه نے اور وہ روایت کرتے ہیں ہثیم سے اور وہ ابنِ عمررضى الله تعالى عنه سے کہ وہ یعنی ابن عمررضى الله تعالى عنه اپنی ڈاڑھی مٹھی میں لے کر مٹھی بھرسے زائد کو یعنی جو مٹھی سے نیچے لٹکی ہوئی باقی رہ جاتی ہے کتردیتے تھے۔ امام محمد نے فرمایا کہ ہم اسی کو اختیار کیے ہوئے ہیں۔اور یہی قول ہے امام ابوحنیفہ رحمة الله عليه کا۔

    اوجز المسالک میں اس سلسلہ میں ائمہ اربعہ وغیرہ دوسرے علماء کے مذاہب کو مدلّل اور مفصل بیان کیاگیاہے۔ اس میں لکھا ہے کہ ایک مشت سے زائد ڈاڑھی ہی حضرات شافعیہ کا راجح اور پسندیدہ قول یہ ہے کہ اس کو علیٰ حالہ باقی رکھاجائے۔ اور یہی قول حنابلہ کا ہے،اور مالکیہ کا مذہب مختار یہ ہے کہ جوڈاڑھی حد سے زیادہ بڑھ جائے اس کو کم کیاجائے۔اور یہ ضروری نہیں کہ ایک مشت سے زائد رکھی نہ جائے، اور حضرات حنفیہ کے یہاں مستحب یہ ہے کہ ایک مشت سے جتنی زائد ہے اس کو کاٹ دینا چاہیے۔
     
  10. ابوسفیان

    ابوسفیان -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏جون 30, 2007
    پیغامات:
    623
    السلام علیکم
    اگر کوئی تھریڈ کے موضوع سے ہٹ کر گفتگو کرنا چاہتا ہو تو براہ مہربانی اس کے لئے گپ شپ سیکشن میں علیحدہ دھاگہ کھول لیا جائے۔ یہاں کوئی بھی غیرضروری مراسلہ فوراَ حذف کر دیا جائے گا۔
     
  11. زبیراحمد

    زبیراحمد -: ماہر :-

    شمولیت:
    ‏اپریل 29, 2009
    پیغامات:
    3,446
    عام طور پر حدیث میں داڑھی کے سلسلے میں کوئی خاص لمبائی نھیں دی گئی ہے،بعد میں امام ابو حنیفہ رح نے داڑھی کے سلسلے میں ایک مٹھی کا نقطہ پیش کیا۔
     
  12. شاہد نذیر

    شاہد نذیر -: رکن مکتبہ اسلامیہ :-

    شمولیت:
    ‏جون 16, 2009
    پیغامات:
    792
    السلام علیکم

    احناف داڑھی کے ساتھ جو سلوک کرتے ہیں وہ خود ساختہ ہے اور اپنے خود ساختہ عمل کےلئے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے عمل کا سہارا لیتے ہیں کہ انہوں نے ایک مشت سے زائد داڑھی کٹائی تھی۔ لیکن احناف کا داڑھی کے ساتھ موجود سلوک کسی صحابی سے بھی ثابت نہیں ہے۔

    1۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے خاص حج اور عمرہ کے موقع پر ایسا کیا جبکہ موجود حنفی تقریبا ہر مہینے یا پندرہ دن بعد یہ عمل کرتے ہیں اور نہ وہ کوئی حج کا موقع ہوتا ہے اور نہ ہی عمرہ کا۔

    2۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے اس عمل کو سنت قرار نہیں دیا جبکہ احناف اسے سنت قرار دیتے ہیں

    3۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے داڑھی کو صرف لمبائی میں کٹوایا تھا جبکہ احناف داڑھی کو لمبائی کے علاوہ اطراف سے بھی کٹواتے ہیں اور خط بنوانے کے نام پر گالوں کے بال بھی کٹواتے ہیں جو کہ داڑھی کا حصہ ہیں۔


    کیا احناف کا یہ طرز عمل عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے ثابت ہے ؟؟؟ اپنے خود ساختہ اعمال کو کسی صحابی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرنا بڑی جرات ہے۔ اللہ محفوظ رکھے آمین
     
  13. جاسم منیر

    جاسم منیر Web Master

    شمولیت:
    ‏ستمبر 17, 2009
    پیغامات:
    4,636
    اللہ ہم سب کو سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
     
  14. شاہد نذیر

    شاہد نذیر -: رکن مکتبہ اسلامیہ :-

    شمولیت:
    ‏جون 16, 2009
    پیغامات:
    792
    السلام علیکم و رحمتہ اللہ

    محترم جمشید صاحب نے پوسٹ نمبر 21 پر احادیث اور عمل صحابہ میں تطبیق کی بات کی تھی جسکا رد کرتے ہوئے میں نے پوسٹ نمبر 32 پر لکھا تھا ہمارے لئے یہ بات بالکل نئی ہے اور دو صحیح احادیث کے درمیان تو تطبیق دی جاتی ہے لیکن آثار اور احادیث کے درمیان تطبیق نہیں دی جاتی پھر میں نے جمشید بھائی سے مطالبہ بھی کیا تھا کہ وہ اسکی کوئی مثال پیش کریں لیکن وہ کوئی مثال پیش کرنے یا اپنی بات کا دفاع کرنے میں ناکام رہے تھے۔

    میرے اس موقف کی تائید محترم باذوق بھائی نے بھی پوسٹ نمبر 39 پر کی تھی کہ شاہد نزیر صاحب کی یہ بات درست ہے۔

    میں یہاں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ جمشید صاحب کا موقف درست تھا جبکہ میرا موقف غلط تھا یہ اور بات ہے کہ جمشید صاحب اپنے صحیح موقف کا بھی دفاع نہیں کرپائے۔

    اپنے موقف کے غلط ہونے کا مجھے اس وقت علم ہوا جب حال ہی میں نے امام بخاری رحمہ اللہ کی مشہور زمانہ تصنیف جزرفع الیدین کا مطالعہ کیا۔ جسے مکتبہ اسلامیہ نے شائع کیا ہے اور اس کتاب کی تخریج و تعلیق اور اسکا ترجمہ محترم حافظ زبیر علی زئی حفظہ اللہ نے کیا ہے۔ اس کتاب کے صفحہ نمبر 106 کے حاشیہ میں درج ہے (اس کے علاوہ دوسرا مفہوم لینا غلط ہے کیونکہ اس سے اثر صحابی اور مرفوع احادیث میں تعارض واقع ہوجاتا ہے۔ آثار صحابہ اور احادیث مرفوعہ میں تطبیق و توفیق دینا ہی راجح ہے)

    شاید اسی اصول کو مد نظر رکھتے ہوئے زبیر علی زئی حفظہ اللہ نے داڑھی سے متعلق آثار صحابہ اور احادیث مرفوعہ میں تطبیق دی ہے اور یہ فتوی دیا ہے کہ داڑھی کو اسکے حال پر چھوڑ دینا افضل ہے اور ایک مشت سے زائد داڑھی کو اگر کوئی کٹواتا ہے تو جائز ہے۔ اس فتوی سے آثار اور احادیث دونوں پر تطبیق ہوجاتی ہے اور کوئی تعارض باقی نہیں رہتا۔ الحمد اللہ

    میں اپنے پرانے موقف سے رجوع کرتا ہوں۔ اور ان لوگوں سے خصوصا جمشد صاحب سے معذرت خواہ ہوں جنھیں میرے رویے سے تکلیف پہنچی۔
     
  15. رفیق طاھر

    رفیق طاھر علمی نگران

    رکن انتظامیہ

    ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏جولائی 20, 2008
    پیغامات:
    7,940
    محترم بهائی جان !
    آپ کا موقف اول درست وصحیح اور کتاب وسنت کے موافق تها
    اور موجوده موقف غلط وغیر صحیح اور کتاب وسنت کے خلاف هے
    کیونکه
    صحابه کرام کا قول وفعل وتقریر وحی نهین هوتا
    جبکه نبی کریم صلى الله علیه وسلم کا قول وفعل وتقریر وحی هوتا هے
    اور فرمان إلهی هے :
    اتَّبِعُواْ مَا أُنزِلَ إِلَيْكُم مِّن رَّبِّكُمْ وَلاَ تَتَّبِعُواْ مِن دُونِهِ أَوْلِيَاء قَلِيلاً مَّا تَذَكَّرُونَ [الأعراف : 3]
    یعنی: جو تمهاری طرف تمهارے رب کی طرف سے نازل کیا گیا هے اسکی اتباع کرو اور اسکے علاوه دیگر اولیاء کی اتباع نه کرو
    ـــــــ
    صحابه کرام رضوان الله علیهم أجمعین بهی بحیثیت بشر خطأ کے مرتکب هو سکتے هین لیکن الله نے انکی شان بهت بلند رکھی هے رضی الله عنهم ورضوا عنه
    اور همارے باره مین یه اعلان نهین فرمایا هے
    لهذا
    تلک امة قد خلت لها ماکسبت وعلیها مااکتسبت ولا تسألون عما کانوا یعملون
    ـــــ
    اور ایت مذکوره مین تو الله تعالى نے واضح الفاظ مین کتاب وسنت کے خلاف کسی کی بهی اتباع سے کلی منع فرمادیا هے
    عبد الله بن عمر رضی الله عنه کا یه عمل وحی نهین هے جبکه رسول الله صلى الله علیه وسلم کا عمل وحی هے
    اور صرف اور صرف وحی هی کی اتباع کا الله نے حکم دیا اور دیگر کی اتباع سے منع فرمایا هے
    فتدبر وافهم بارک الله فیک........
    ـــــــــــــ
    نیز زبیر علی زئی صاحب کا یه کہنا کہ :
    آثار صحابہ اور احادیث مرفوعہ میں تطبیق و توفیق دینا ہی راجح ہے
    قطعا غلط هے
    کیونکه وحی وغیر وحی برابر نهین
    جب تک دو ادله مین وزن برابر نه هو تطبیق نهین دی جاتی
    اور قول یا فعل یا تقریر صحابه کو تو کوئی بهی دلیل نهین مانتا
    دیکهین اصول فقه کی جسقد کتب هین سب مین زیاده سے زیاده دلائل چار اشیاء کو بنا گیا هے
    کتاب الله
    سنت رسول الله صلى الله علیه وسلم
    کتاب وسنت سے مستنبط کسی مسئله پر اجماع
    یا کتاب وسنت مین منصوص علیه مسأله پر غیر منصوص مسأله کو قیاس کرنا
    خوب سمجهـ‌ لین الله آپ کو جزائے خیر دے (آمیــــــــــــن )
     
    Last edited by a moderator: ‏نومبر 16, 2009
  16. باذوق

    باذوق -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏جون 10, 2007
    پیغامات:
    5,623
    جزاک اللہ خیر رفیق طاھر بھائی !
    کم سے کم آپ کی بات تو مجھے سمجھ میں آ گئی اور میری نظر میں آپ کا بیان کردہ موقف ہی مضبوط ہے !!
     
  17. باذوق

    باذوق -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏جون 10, 2007
    پیغامات:
    5,623
    پوچھنا یہ ہے کہ کسی صحابی کا انفرادی عمل ، جس میں وہ دیگر صحابہ سے منفرد ہو اور اس انفرادی عمل پر تمام صحابہ کا سکوتی اجماع ہو ۔۔۔۔
    کیا ایسا انفرادی عمل حجت بن سکے گا؟
     
  18. شاہد نذیر

    شاہد نذیر -: رکن مکتبہ اسلامیہ :-

    شمولیت:
    ‏جون 16, 2009
    پیغامات:
    792
    السلام علیکم و رحمتہ اللہ

    رفیق طاہر بھائی اللہ آپ کو جزائے خیر دے۔ بات تو آپ کی میری بھی سمجھ میں آگئی ہے اور میں اس سے اختلاف کرنے کی پوزیشن میں بھی نہیں ہوں۔ ہاں البتہ مزید تحقیق اور مطالعہ اور علماء سے معلوم کرنے کے بعد اگر کوئی مضوط دلیل میرے علم میں آئی تو یقینا آپ سے اختلاف کرونگا۔ فی الحال میں خاموشی اختیار کرتاہوں کیونکہ زبیر علی زئی حفظہ اللہ نے صرف ایک اصول بیان کیا ہے جس کے دلائل زکر نہیں کئے۔ اگر ان کی طرف سے اس اصول کی کوئی مضبوط دلیل سامنے آئی تو ہم قبول کرینگے وگرنہ محترم رفیق طاہر بھائی کا موقف ہی درست ہے کیونکہ ٹھوس دلائل پر مبنی ہے۔

    مجھے داڑھی کے مسئلہ پر ایک اشکال ہے جو اہلحدیث مسلک اختیار کرنے کے بعد سے آج تک حل نہیں ہوا تھا اسکے لئے میں نے علمائے اہلحدیث کی کئی کتابیں پڑھیں جو کہ داڑھی کے موضوع پر تھیں لیکن کسی عالم کے جواب سے تشفی اور تسلی نہیں ہوئی اور میرا یہ اشکال حال ہی میں دور ہو گیا جب میں حافظ زبیر علی زئی حفظہ اللہ کا داڑھی سے متعلق فتوی اور مذکورہ اصول پڑھا۔

    رفیق طاہر بھائی اگر آپ کے نزدیک مذکورہ اصول غلط ہے تو برائے مہربانی میرے اشکال کا حل پیش کردیں۔

    ہم سب کو معلوم ہے کہ کوئی صحابی بھی جان بوجھ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی حکم اور حدیث کے خلاف ورزی نہیں کرسکتا۔ اب عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا ایک مشت سے زائد داڑھی کاٹنے کا عمل بحوالہ بخاری آپ کے سامنے ہے۔

    کچھ صحابہ کا عمل جو خلاف حدیث ملتا ہے اسکا سبب ان تک حدیث کا نہ پہنچنا یا ناسخ کا نہ معلوم ہونا ہوتاہے۔ جیسے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا رکوع میں گھٹنوں پر ہاتھ نہ رکھنا۔ اب یہ مسئلہ اس طرح حل ہوجاتاہے کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو حدیث کا علم نہیں ہوسکا۔ لیکن جہاں تک عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے فعل کا تعلق ہے تو یہاں یہ نہیں کہا جاسکتا کہ ان تک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی داڑھی کو اس کے حال پر چھوڑ دینے والی حدیث نہیں پہنچی۔ کیونکہ ابن عمر رضی اللہ عنہ خود ہی اس حدیث کے راوی ہیں۔

    بہت سے علماء نے لکھا ہے کہ یہ عمل عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا زاتی اجتہاد ہے۔ لیکن اس سے بھی مسئلہ حل نہیں ہوتا کیونکہ نص کے مقابلہ پر اجتہاد باطل ہے۔

    بہت سے صحابہ سے جب کوئی اجتہادی غلطی ہوئی تو دوسرے صحابہ نے اسکی نشاندہی فرمائی اور اس پر اعتراض کیا لیکن عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے اس فعل پر کسی بھی صحابی سے کوئی نکیر یا اعتراض ثابت نہیں ہے۔ یعنی اس مسئلہ پر اجماع سکوتی ہے۔

    اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اس عمل میں منفرد بھی نہیں بلکہ چند دیگر صحابہ سے بھی ایک مشت سے زائد داڑھی کاٹنے کا عمل ملتا ہے۔ اسلئے اس عمل کو صرف عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا زاتی اجتہاد کہنا بھی درست نہیں۔

    کچھ علماء عبداللہ بن عمر کے ایک مشت سے زائد داڑھی کاٹنے والے عمل کے سلسلے میں کہتے ہیں کہ ہم پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع فرض ہے کسی صحابی کی نہیں۔ یہ بات سو فیصد درست ہے لیکن اس سے بھی مسئلہ حل نہیں‌ہوتا کیونکہ سوال یہ ہے کہ ایک صحابی نے حدیث کا حکم جانتے ہوئے اسکے خلاف کیوں کیا ؟؟

    یہ بات بھی یقینی ہے کہ احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فہم سب سے زیادہ صحابہ اکرام رضی اللہ عنھم اجمعین کو تھا۔

    یہ بھی مسلمہ اصول ہے کہ روای حدیث خصوصا جب وہ صحابی ہو اپنی روایت کردہ حدیث کے مفہوم سے سب سے زیادہ واقف ہوتا ہے۔ ایک مشت سے زائد داڑھی کاٹنا بھی عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا عمل ہے اور داڑھی کو اس کے حال پر چھوڑ دینے والی حدیث کے راوی بھی عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ خود ہیں۔


    اب جو بھی آپکے علم میں اس مسئلہ کا حل ہے برائے مہربانی مجھے بتادیں تاکہ میرا یہ اشکال دور ہوجائے۔ جزاک اللہ خیر
     
  19. رفیق طاھر

    رفیق طاھر علمی نگران

    رکن انتظامیہ

    ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏جولائی 20, 2008
    پیغامات:
    7,940
    1)) ميں نے سابقه بحث ميں جن چيزوں كا حجت هونا بيان كياہے اگر اسي كو دوباره غور سے پڑها جائے تو ان سوالوں كا جواب اس ميں موجود هے.
    مزيد سمجهـ ليں كه:
    دين اسلام ميں صرف اور صرف وحي الهي هي حجت ودليل بن سكتي هے وحي كے علاوه اور كوئي چيز حجت ودليل نهين بن سكتي اور اسكے ليے بطور دليل ميں سورة الأعراف كي آيت نمبر 3 پيش كر چكا هوں
    2)) اجماع صحابه كا هو يا كسي اور كا اس وقت حجت بنے گا جب وه كتاب وسنت سے مستنبط كسي مسأله پر هو گا ورنہ نهيں !!!!
    اور ياد رہے كه اجماع سكوتي ايك جهوٹ كانام هے !!!!
     
  20. رفیق طاھر

    رفیق طاھر علمی نگران

    رکن انتظامیہ

    ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏جولائی 20, 2008
    پیغامات:
    7,940
    آپكي ساري بحث كا دارومدار اس مذكوره بالا اصول پر هے
    جبكه يه اصول هي غلط هے
    كيونكه
    1)) رسول الله صلى الله عليه وسلم كي موجودگي ميں بهي كئي صحابه كرام رضوان الله عليهم اجمعين سے غلطياں سرزد هوئیں جوكه رسول الله صلى الله عليه وسلم کے کسی حکم اور حدیث کے خلاف تهيں بلكه بسا أوقات الله كے حكم كے بهي خلاف تهيں !!!!!!!!!!
    كيونكه وه بهي بشر تهے , انسان تهے اور انسان سے غلطي كا سرزد هو جانا بعيد نهيں هے !!!!!
    مثلا:
    1. صحابه كرام كا زنا كرنا....( طهرني ..........) (أحدكما كاذب فهل منكما......)
    ــــــــــ
    2)) ہم سب کو معلوم ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جان بوجھ کر الله تعالى کے کسی حکم اور قرآن کي خلاف ورزی نہیں کرسکتے۔ اب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا
    شهد كو حرام كرنا ( يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَا أَحَلَّ اللَّهُ لَكَ تَبْتَغِي مَرْضَاتَ أَزْوَاجِكَ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ [التحريم : 1])
    عبد الله بن ام مكتوم رضي الله عنه سے منه پهيرنا (عَبَسَ وَتَوَلَّى [عبس : 1])
    اسيران بدر كو فديه لے كرچهوڑ دينا(لَّوْلاَ كِتَابٌ مِّنَ اللّهِ سَبَقَ لَمَسَّكُمْ فِيمَا أَخَذْتُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ [الأنفال : 68])
    منافقين كو غزوه سے پيچھے ره جانے كي اجازت دينا (عَفَا اللّهُ عَنكَ لِمَ أَذِنتَ لَهُمْ حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكَ الَّذِينَ صَدَقُواْ وَتَعْلَمَ الْكَاذِبِينَ [التوبة : 43])
    بحوالہ قرآن آپ کے سامنے ہے۔
    اس بات كا جو جواب آپ كي سمجهـ ميں آئے وهي اوپر والي بات كا بهي جواب سمجهيں
     
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں