قرآنی تراجم اور قوسین میں القاب اور صلوٰۃ و سلام کا استعمال

رفی نے 'غیر اسلامی افکار و نظریات' میں ‏جولائی 9, 2009 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. رفی

    رفی -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏اگست 8, 2007
    پیغامات:
    12,395
    بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
    السلام علیکم

    قرآن پاک کے اردو ترجموں میں قرآنی متن میں غیر مذکورہ، مترجم کی طرف سے بڑھائے گئے بعض القاب اور انبیاء علیہ السلام کے ناموں کے بعد "علیہ السلام" اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے نام مبارک یا نبی اور رسول کے بعد صلی اللہ علیہ و سلم کے بارے میں کچھ عرض کروں گا۔ یہاں یہ واضح کر دوں کہ میں اپنے مضامین میں جب قرآنی آیات سے استدلال کرتا ہوں تو ان کے ترجموں میں صلی اللہ علیہ و سلم نہیں لکھتا اسی طرح ایسی احادیث جن میں‌ صلی اللہ علیہ و سلم لکھنے کا محدثین نے التزام نہیں کیا ہے، کیونکہ ان کے راویوں نے اسی طرح ان کی روایت کی ہے، ان کے ترجمے میں بھی صلی اللہ علیہ و سلم نہیں لکھتا لیکن محترم ایڈیٹر صاحب اصلاح کر دیتے ہیں اور اپنی طرف سے صلی اللہ علیہ و سلم لکھ دیتے ہیں جس طرح قرآن کے مترجمین قرآن کی اصلاح کر دیتے ہیں۔

    یہاں یہ بتانا تحصیل حاصل ہے کہ اللہ تعالٰی کے کلام میں ایک حرف کی کمی بیشی بھی حرام ہے خود رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم بھی اس کے مجاز نہیں تھے اگر کوئی نادانستہ ایسی غلطی کر بیٹھے تو ان شاء اللہ اس پر مواخذہ نہیں ہوگا، لیکن اگر کوئی دانستہ ایسا کرے تو وہ دائرہ اسلام سے خارج ہو سکتا ہے۔

    بعض لوگوں کا دعوٰی ہے کہ وہ قرآنی آیات کے ترجموں میں صلی اللہ علیہ و سلم یا علیہ سلام یا علیہم السلام قوسین (بریکٹ) میں لکھتےہیں جس میں کوئی قباحت نہیں، تو عرض ہے کہ اگر مذکورہ الفاظ قوسین میں نہ لکھے جاتے تو مترجم کی خیانت شمار ہوتےہیں اور قوسین میں لکھنے سے وہ اللہ تعالٰی پر "استدراک" شمار ہوتے ہیں، گویا مترجم نے نعوذ باللہ اللہ تعالٰی کی گرفت کی ہے اور اس کے کلام میں اصلاح کی ہے۔

    اقتباس از مضمون "اللہ تعالٰی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارےمیں اسلامی عقیدہ"
    تحریر: ڈاکٹر سید سعید عابدی
    بشکریہ: روشنی، جمعہ 10 رجب 1430 ہجری
     
  2. باذوق

    باذوق -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏جون 10, 2007
    پیغامات:
    5,623
    جزاک اللہ خیر رفی بھائی۔
    ذاتی طور پر میں بھی ڈاکٹر عابدی حفظہ اللہ کے اس نظریے سے اتفاق رکھتا ہوں۔

    ذاتی طور سے میں تو اس بات کا قائل ہوں کہ
    اگر کلامِ اللہ کی ترجمانی کرنا ہو تو جوں کا توں ترجمہ درست عمل ہے۔
    پرانے اردو تراجم دیکھے جائیں تو بیشتر مترجمین نے ایسا ہی کیا ہے۔ ہاں ترجمہ سے ہٹ کر "تشریح" میں درود یا سلام لکھنا ہو تو وہ الگ بات ہے۔
    کلام اللہ میں درود/دعا کی قلمی طور پر شمولیت ، اس قدر ضروری امر بہرحال نہیں ہے۔ کیونکہ رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کا نام آتے ہی غیرشعوری طور پر درود و سلام تو ہمارے لبوں پر خود بخود جاری ہو جاتا ہے۔ کیا یہ کافی نہیں ہوگا؟

    ڈاکٹر عابدی صاحب نے اپنے مقالے میں مثالوں کے ساتھ سمجھایا ہے کہ :
    اس کی ایک سادہ سی مثال ، اوبامہ اور حافظ سعید کے حوالے سے کچھ یوں ملاحظہ فرمائیں:
    اوبامہ پاک حکومت کو یوں حکم دے : "حافظ سعید کے ارادوں پر مجھے بھروسہ نہیں لہذا ۔۔۔۔۔"
    اب اس کو پاکستان کے کسی اردو اخبار میں یوں لکھا جائے :
    اوبامہ نے پاک حکومت کو حکم دیا ہے : "(الشیخ)حافظ سعید(دامت برکاتہم العالیہ حفظہ اللہ) کے ارادوں پر مجھے بھروسہ نہیں لہذا ۔۔۔۔۔"

    تو سوچ لیجئے کہ اس طرح کے "استدراک" سے اوبامہ کے حکم والے تاثر کا کیا حشر نشر ہو جائے گا !!

    ایک اور مثال ڈاکٹر طاہر القادری کے ترجمہ سے لیجئے :
    مگر ۔۔۔۔۔ ترجمہ کو پڑھنے سے قبل ، اصل عربی کلام ملاحظہ فرمائیں اور خود محسوس کریں کہ اللہ تعالیٰ کی تنبیہ کتنے سخت الفاظ میں ہے اور لہجہ کس قدر گرج والا ہے :
    [qh]وَلَوْلاَ أَن ثَبَّتْنَاكَ لَقَدْ كِدتَّ تَرْكَنُ إِلَيْهِمْ شَيْئًا قَلِيلا
    إِذاً لَّأَذَقْنَاكَ ضِعْفَ الْحَيَاةِ وَضِعْفَ الْمَمَاتِ ثُمَّ لاَ تَجِدُ لَكَ عَلَيْنَا نَصِيرًا
    ( الإسراء:17 - آيت:74-75 )[/qh]
    اب قادری صاحب کا ترجمہ دیکھیں ۔۔۔۔۔
    اور اگر ہم نے آپ کو (پہلے ہی سے عصمتِ نبوت کے ذریعہ) ثابت قدم نہ بنایا ہوتا تو تب بھی آپ ان کی طرف (اپنے پاکیزہ نفس اور طبعی استعداد کے باعث) بہت ہی معمولی سے جھکاؤ کے قریب جاتے۔(ان کی طرف پھر بھی زیادہ مائل نہ ہوتے اور وہ ناکام رہتے مگر اﷲ نے آپ کو عصمتِ نبوت کے ذریعہ اس معمولی سے میلان کے قریب جانے سے بھی محفوظ فرما لیا ہے)
    (اگر بالفرض آپ مائل ہو جاتے تو) اس وقت ہم آپ کو دوگنا مزہ زندگی میں اور دوگنا موت میں چکھاتے پھر آپ اپنے لئے (بھی) ہم پر کوئی مدد گار نہ پاتے


    امید ہے کہ قوسین کا "کمال" ملاحظہ فرما لیا گیا ہوگا کہ کس طرح محبتِ رسول (؟) کی آڑ میں کلام اللہ کی تنبیہ کے اثر کو "زائل" کر دیا گیا ہے۔
    اب انہی آیات کے دوسرے تراجم بھی ذیل میں ملاحظہ فرمائیں ۔۔۔۔۔

    اور اگر یہ نہ ہوتا کہ ہم نے تجھ کو سنبھالے رکھا تو لگ جاتا جھکنے ان کی طرف تھوڑا سا
    تب تو ضرور چکھاتے ہم تجھ کو دونا مزہ زندگی میں اور دونا مرنے میں پھر نہ پاتا تو اپنے واسطے ہم پر مدد کرنے والا

    (ترجمہ : محمود الحسن)
    اور اگر ہم تم کو ثابت قدم نہ رہنے دیتے تو تم کسی قدر انکی طرف مائل ہونے ہی لگے تھے۔
    اس وقت ہم تمکو زندگی میں بھی عذاب کا دگنا اور مرنے پر بھی دگنا مزہ چکھاتے۔ پھر تم ہمارے مقابلے میں کسی کو اپنا مددگار نہ پاتے۔

    (ترجمہ : فتح محمد جالندھری)

    یہی سبب ہے کہ میں ذاتی طور پر اس بات میں ایقان رکھتا ہوں کہ الفاظ کی نشست و برخاست اور لب و لہجہ کے زیر و بم سے ہی انسان فطرتاً متاثر ہوتا ہے۔
    اور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    جب کلام اللہ کے درمیان درود سلام شامل کیا جائے تو محبت و تعلق کے فطری انسانی جذبات غالب ہو جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اپنے کلام سے جو تاثر دینا چاہتا ہے وہ پسِ پشت چلا جاتا ہے !!

    اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اپنے فضل و کرم سے میری اصلاح فرمائے اگر میری ایسی سوچ نادرست ہو۔
     
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں