امتِ مسلمہ کے لیے ایک اطلاع -- شاہنواز فاروقی

لالکائی نے 'حالاتِ حاضرہ' میں ‏دسمبر 11, 2009 کو نیا موضوع شروع کیا

موضوع کی کیفیت:
مزید جوابات کے لیے کھلا نہیں۔
  1. لالکائی

    لالکائی -: محسن :-

    شمولیت:
    ‏اکتوبر، 15, 2008
    پیغامات:
    175
    ایک اطلاع
    شاہ نواز فاروقی

    امتِ مسلمہ کے پاس جو ”اطلاع“ ہے، وہ اطلاع امریکا کے پاس ہوتی تو اس سے اب تک پانچ سو گھنٹے کی ”ٹیلی نیوز“ برآمد ہوچکی ہوتیں، اس کے حوالے سے دوہزار چھوٹے بڑے مذاکرے نشر ہوچکے ہوتی، ممتاز شخصیات کے ایک ہزار انٹرویوز نشر ہوکر ناظرین کے حافظے کا حصہ بن چکے ہوتی، چھوٹی بڑی دوسو دستاویزی فلمیں تخلیق ہوچکی ہوتیں، ہالی ووڈ میں پانچ چھ بڑے بجٹ کی فیچر فلموں پرکام جاری ہوتا۔ لیکن امتِ مسلمہ کے پاس اطلاع کیا ہی؟ عزیزانِ گرامی قدر! صرف یہ کہ افغانستان میں امریکا اور اس کے اتحادیوں کو مجاہدین نے شکست دے دی ہے۔ یہ ایک تاریخ ساز اطلاع ہے۔ کبھی امریکا کے پاس ایسی ہی تاریخ ساز اطلاع تھی۔ امریکا کو معلوم ہوگیا تھا کہ مجاہدین نے افغانستان میں سوویت یونین کو شکست دے دی ہے۔ اس ایک اطلاع پر امریکا اور اس کے مغربی اتحادیوں نے خبروں‘ تبصروں‘ تجزیوں‘ انٹرویوز‘ دستاویزی اور فیچر فلموں کے کارخانے نہیں ملیں لگالی تھیں۔ ابلاغ کا عمل اسی کا نام ہے۔ مگر امتِ مسلمہ کا معاملہ عجیب ہے۔ اس کے پاس تاریخ ساز اطلاع ہے لیکن اس سے کچھ اور کیا اخبار کی ایک شہ سرخی بھی تخلیق نہیں ہو پارہی۔ یہ ہماری اطلاعاتی عسرت اور ابلاغی غربت کی انتہا ہے۔ اس دائرے میں پوری امتِ مسلمہ بلاشبہ ”خطِ غربت“ سے نیچے زندگی بسر کررہی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمیں تو ٹھیک طرح سے اپنی خوشی منانی بھی نہیں آتی۔ مگر اس کی وجہ کیا ہی؟بعض حلقوں کا خیال ہے کہ اس کی وجہ وسائل کی قلت ہے۔ لیکن مسئلہ وسائل کی قلت نہیں، ترجیحات کا درست تعین ہے۔ مسلم معاشروں میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو مسجد اور مدرسے کی تعمیر کے لیے آپ کو کروڑوں روپے دے سکتے ہیں، لیکن آپ اُن سے کہیں کہ ہمیں ایک ٹیلی ویژن چینل شروع کرنا ہی، تو اس منصوبے کے لیے وہ آپ کو دس روپے بھی نہیں دیں گی، کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ کوئی دینی کام نہیں ہے۔ اُن کے ایسا سمجھنے کی ایک وجہ ٹیلی ویژن کا عام تصور ہے۔ ٹیلی ویژن کو عام طور پر فسخ وفجور پھیلانے کا آلہ سمجھا جاتا ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ رائے سازی کی جنگ میں ٹیلی ویژن سب سے بڑے ذریعے کی حیثیت اختیار کرگیا ہے۔ کروڑوں لوگوں کے لیے جو کچھ ٹیلی ویژن اسکرین پر ہے وہی حقیقت ہی، اور جو کچھ ٹیلی ویژن پر نہیں ہے اس کا یا تو وجود ہی نہیں، یا ہے تو اس کی اہمیت نہیں۔ ٹیلی ویژن کی یہ اہمیت افسوس ناک ہی، مگر امر واقع یہی ہے۔رائے سازی کے سلسلے میں ٹیلی ویژن کی اہمیت کی ایک اچھی مثال ”الجزیرہ“ ہے۔ مشرق وسطیٰ بادشاہوں اور آمروں کی سرزمین ہے۔ وہاں سیاسی رائے تخلیق کرنا اور عرب عوام کو بیدار و متحرک کرنا آسان نہیں تھا۔ لیکن الجزیرہ نے یہ کام کردکھایا۔ کیا آپ کو اندازہ ہے کہ الجزیرہ نے یہ کام کس طرح کیا؟ مقبوضہ عرب علاقوں میں اسرائیلی جارحیت کی ”تفصیلات“ دکھاکر۔ مگر یہاں تفصیلات کا مفہوم کیا ہی؟ اس کا مفہوم یہ ہے کہ الجزیرہ نے صرف اسرائیل کی بمباری‘گولہ باری اور حملے ہی رپورٹ نہیں کیی، بلکہ اس نے ان حملوں کے نتیجے میں پیدا ہونے والی انسانی صورت حال کو بھی رپورٹ کیا۔ مثلاً یہ کہ جس گھرانے کے لوگ شہید ہوئے اس گھرانے پرکیا گزری؟ وہاں کس طرح گریہ و زاری کی گئی؟ اس گھرکی معاش کا کیا ہوا؟ بچوں کی تعلیم کا کیا ہوا؟ یہ تفصیلات ہمیشہ سے موجود تھیں مگر کبھی رپورٹ نہیں ہوتی تھیں۔ الجزیرہ نے انہیں رپورٹ کرکے اسرائیل ہی نہیں امریکا کے خلاف بھی عرب دنیا میں زبردست ردعمل پیدا کیا۔ ہم اطلاعاتی عسرت اور ابلاغی غربت کے مارے ہوئے نہ ہوتے تو امریکا کی شکست کا کامل ابلاغ امتِ مسلمہ کی نفسیات کو کچھ سے کچھ بناسکتا تھا۔ امتِ مسلمہ مغرب کے حوالے سے احساسِ کمتری میں مبتلا ہی، اسے لگتا ہے کہ ہمارے پاس کچھ نہیں، جوکچھ ہے مغرب کے پاس ہے۔ لیکن جو امت 20 سال میں دوسپر پاورزکو شکست سے دوچار کردے وہ معمولی امت تو نہیں ہوسکتی۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ افغانستان میں امریکا اور مجاہدین کا معرکہ برپا ہے۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔ افغانستان میں ایک جانب ایمان اور ٹیکنالوجی کا معرکہ برپا ہے اور دوسری جانب شوقِ شہادت اور عسکری طاقت کی پنجہ آزمائی ہورہی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ ان معرکوں میں ایمان کو ٹیکنالوجی پر اورشوقِ شہادت کو عسکری طاقت پر فتح حاصل ہوگئی ہے۔ مگر یہ اطلاع امتِ مسلمہ تک کیسے پہنچی؟

    لنک
     
    Last edited by a moderator: ‏دسمبر 11, 2009
  2. Fawad

    Fawad -: ماہر :-

    شمولیت:
    ‏دسمبر 19, 2007
    پیغامات:
    954
    Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

    امريکہ کا مقصد يا ايجنڈہ کسی بھی موقع پر افغانستان کو فتح کرنا نہيں تھا۔ يہ بيان کردہ اور تصديق شدہ حقیقت ہے کہ امريکی حکومت افغانستان ميں حکومت سازی اور افغان فورسز کو مستحکم کرنے کے ليے ہر ممکن کوشش کر رہی ہے۔ امريکہ کی جانب سے افغانستان کو "فتح" کرنے کی منطق اس لحاظ سے بھی ناقابل فہم ہے کہ ايک خود مختار افغان حکومت اور فوج امريکی اور نيٹو افواج کے ساتھ نہ صرف مکمل تعاون کررہی ہے بلکہ ان کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہے۔

    صدر اوبامہ نے اپنی تقرير ميں افغانستان ميں امريکی اہداف کی وضاحت اور ان کی اہميت پيش کر دی ہے

    " میں نے ایک ہدف مقرر کیا جس کی محدود وضاحت ان الفاظ میں کی گئی تھی کہ ہمارا مقصد القاعدہ اور اس کے انتہا پسند اتحادیوں کو درہم برہم کرنا، اسے منتشر کرنا، اور شکست دینا ہے۔ میں افغان عوام کو ایک بات سمجھانا چاہتا ہوں- ہمیں آپ کے ملک پر قبضہ کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ ہم افغانستان کے ساتھ ایسی شراکت داری قائم کرنا چاہیں گے جس کی بنیاد باہم احترام پر ہو۔"

    يہ الفاظ اور بيانات ايک ايسی انتظاميہ کے ارادے اور عزم کو واضح کر رہے ہيں جس کا مقصد کسی قوم کو فتح کرنا نہيں بلکہ اس کی مدد اور سپورٹ کرنا ہے تا کہ مشترکہ کاوششوں کے ذريعے دہشت گردی کے اجتماعی خطرے کا مقابلہ کيا جا سکے۔

    فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
    digitaloutreach@state.gov
    www.state.gov
     
  3. سپہ سالار

    سپہ سالار -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏دسمبر 21, 2007
    پیغامات:
    2,018
    محترم فواد آپ ان کے بیانات نہیں‌کارتوت نوٹ کریں ، کیا القاعدہ دہشت گرد ہے؟‌اگر ہے تو اس کو بنانے والا کون ہے، روس کے خلاف جب یہی لوگ لڑ رہے تھے تو یہ امن پسند اور حق پرست تھے، اور اب جب امریکہ نے ان کا امن تباہ کیا تو یہ دہشت گرد ہوگئے۔ کیا کسی شادی کی تقریب پر بم گرانا ، امن قائم کرنے کے لئے ہوسکتا ہے، کیا کسی گاؤں کو صفحہ ہستی سے مٹانا امن کے لئے ہو سکتا ہے؟‌نہ جانے کتنے ہی ایسے بے گناہ جانوں‌کا خون ہے امریکہ پر اور آپ اس کی حمایت کر رہے ہیں۔ اور اب پاکستان میں ڈرون حملے کیا یہ بھی دہشت گردی کو روکنے کے لئے ہیں۔
    اللہ آپ کو صحیح سمجھ عطا فرمائے۔
     
  4. Fawad

    Fawad -: ماہر :-

    شمولیت:
    ‏دسمبر 19, 2007
    پیغامات:
    954
    Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

    ميں نے يہ بات ہميشہ تسليم کی ہے کہ امريکی حکومت نے افغانستان ميں سويت حملے کے بعد مجاہدين کی مکمل حمايت کی تھی۔ اس حقیقت سے کوئ انکار نہيں کر سکتا۔ حالات کے تناظر ميں وہ ايک درست اور منصفانہ فيصلہ تھا۔

    کيا آپ کے خيال ميں افغانستان کے لوگوں کی مدد نہ کرنا ايک درست متبادل ہوتا؟

    يہاں يہ بات ياد رکھنی چاہيے کہ افغانستان پر سوويت افواج کے حملے کے بعد صرف امريکہ ہی وہ واحد ملک نہيں تھا جس نے امداد مہيا کی تھی بلکہ اس ميں مسلم ممالک جيسے سعودی عرب اور شام سميت ديگر بہت سے ممالک بھی شامل تھے۔ دنيا کے مختلف ممالک سے آنے والی فوجی اور مالی امداد براہ راست پاکستان منتقل کی جاتی رہی۔ اور پھر پاکستان کے توسط سے يہ امداد افغانستان پہنچتی۔ اس حقيقت کے ثبوت کے طور پر ميں آپ کو بے شمار دستاويزات اور ريفرنس مہيا کر سکتا ہوں۔ اس ضمن ميں آئ – ايس – آئ کے سابق چيف جرنل حميد گل کا حاليہ انٹرويو آپ اس ويب لنک پر ديکھ سکتے ہیں۔

    http://pakistankakhudahafiz.wordpress.com/2009/06/14/loud-clear-episode-3-hamid-gul/

    انھوں نے اپنے انٹرويو ميں يہ واضح کيا کہ يہ پاکستانی افسران ہی تھے جنھوں نے يہ فيصلہ کيا تھا کن گروپوں کو اسلحہ اور ديگر سہوليات سپلائ کرنا ہيں۔ انٹرويو کے دوران انھوں نے يہ تک کہا کہ "ہم نے امريکہ کو استعمال کيا"۔

    يہ کسی امريکی اہلکار کا بيان نہيں بلکہ شايد پاکستان ميں امريکہ کے سب سے بڑے نقاد کا ہے۔

    اور يہ واحد شخص نہيں ہيں جنھوں نے اس ناقابل ترديد حقيقت کو تسليم کيا ہے۔

    کچھ ہفتے پہلے اس وقت کے پاکستانی صدر ضياالحق کے صاحبزادے اعجازالحق نے بھی ايک ٹی وی پروگرام ميں يہ تسليم کيا تھا کہ پاکستان افغانستان ميں بيرونی امداد منتقل کرنے ميں واحد کردار تھا۔ اس کے علاوہ بہت سے اہلکار جو اس تناظے کے اہم کردار تھے، انھوں نے بھی اس حقيقت کی تصديق کی ہے۔

    يہ ايک تلخ مگر تاريخی حقيقت ہے کہ پاکستان ميں اس وقت کے حکمرانوں نے اس صورتحال کو اپنے مفادات کے ليے استعمال کيا اور مستقبل ميں افغانستان ميں اپنا اثر و رسوخ برقرار رکھنے کے ليے امداد کا رخ دانستہ طالبان کی طرف رکھا اور افغانستان ميں موجود ديگر گروپوں اور قبيلوں کو نظرانداز کيا۔ يہ وہ حقائق ہيں جو ان دستاويز سے بھی ثابت ہيں جو ميں اس فورم پر پوسٹ کر چکا ہوں۔


    فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
    digitaloutreach@state.gov
    www.state.gov
     
  5. Fawad

    Fawad -: ماہر :-

    شمولیت:
    ‏دسمبر 19, 2007
    پیغامات:
    954
    Fawad – Digital Outreach Team - US State Department


    افغانستان ميں عام شہريوں کی ہلاکت کے ضمن ميں ميرا آپ سے ايک سوال ہے۔ کيا آپ واقعی يہ سمجھتے ہيں کہ بے گناہ شہريوں پر دانستہ حملے سے امريکہ کو کوئ فائدہ جاصل ہوتا ہے؟ کيا ان ہلاکتوں سے امريکہ کو فوجی، سياسی يا انتظامی معاملات ميں اپنے مقاصد کی تکميل ميں کوئ کاميابی حاصل ہوتی ہے؟ حقيقت يہ ہے کہ ان ہلاکتوں سے امريکہ کو سياسی اور سفارتی سطح پر بہت سی مشکلات، چيلنجز اور مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ يہ اور ايسی ديگر وجوہات کی بنا پر امريکہ کی يہ ہر ممکن کوشش ہوتی ہے کہ بے گناہ شہريوں کی ہلاکت کے واقعات رونما نہ ہوں۔ يہ حکمت عملی بہرحال ان ہتھکنڈوں سے متضاد ہے جو اپنے سياسی ايجنڈے کی تکميل کے ليے دہشت گرد استعمال کرتے ہيں جس کا محور دانستہ زيادہ سے زيادہ بے گناہ افراد کی ہلاکت ہے۔

    کسی بھی تناظے، جنگ يا فوجی کاروائ کے دوران عام شہريوں کی ہلاکت يقينی طور پر قابل مذمت اور افسوس ناک ہے۔ اور تاريخ کی کسی بھی جنگ کی طرح افغانستان ميں بھی ايسی فوجی کاروائياں يقينی طور پر ہوئ ہيں جن ميں بے گناہ شہری ہلاک ہوۓ ہيں۔ ليکن ايسے واقعات کی روک تھام کے ليے ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے۔ جب آپ ایسے کسی واقعے کا ذکر کرتے ہيں اور اس ضمن ميں خبر کا حوالہ ديتے ہيں تو اس وقت يہ بات بھی ياد رکھنی چاہيے کہ ايسے واقعات بھی رونما ہوۓ ہيں جس کے نتيجے ميں نيٹو افواج کی کاروائ کے نتيجے ميں خود امريکی اور اتحادی فوجی بھی ہلاک ہوۓ ہيں۔ ان تمام واقعات کی باقاعدہ فوجی تفتيش ہوتی ہے اور اس کے نتيجے ميں حاصل شدہ معلومات کی روشنی ميں ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے کہ مستقبل ميں اس طرح کے واقعات سے بچا جا سکے۔ ليکن کيا آپ دہشت گردوں سے اس رويے اور حکمت عملی کی توقع کر سکتے ہيں جن کی اکثر "فوجی کاروائياں" دانستہ بےگناہ افراد کے قتل پر مرکوز ہوتی ہيں؟


    فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
    digitaloutreach@state.gov
    www.state.gov
     
Loading...
موضوع کی کیفیت:
مزید جوابات کے لیے کھلا نہیں۔

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں