فقہا کی شان میں من گھڑت قصے کی حقیقت

ابوعکاشہ نے 'اسلامی متفرقات' میں ‏دسمبر 15, 2009 کو نیا موضوع شروع کیا

موضوع کی کیفیت:
مزید جوابات کے لیے کھلا نہیں۔
  1. ابوعکاشہ

    ابوعکاشہ منتظم

    رکن انتظامیہ

    شمولیت:
    ‏اگست 2, 2007
    پیغامات:
    15,941
    بسم اللہ الرحمن الرحیم
    اسباب اختلاف الفقہا (حقیقی و مصنوعی عوامل)
    مولانا ارشاد الحق اثری
    السلام علیکم ورحمتہ اللہ !
    فقہا کی شان میں ایک من گھڑت قصہ بیان کیا جاتا ہے کہ '' امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ امام سلیمان بن مہران الاعمش کے پاس بیٹھے تھے کہ امام صاحب سے ایک مسئلہ کے بارے میں دریافت کیا گیا تو انھوں نے اس کا جواب دیا ـ امام الاعمش رحمہ اللہ نے پوچھا آپ نے یہ جواب کس دلیل کی بنا پر دیا ہے ـ تو امام صاحب نے فرمایا آپ ہی نے تو ہمیں ابوصالح عن ابوھریرہ ، ابووائل عن عبد اللہ ابن مسعود ، وعن ابی ایاس عن ابی مسعود الانصاری سے یہ حدیث سنائی کہ '' من دل علی خیر کان لہ مثل اجرعلمہ ''کہ جس نے بھلائی پر توجہ دلائی اسے عمل کرنے والے کے برابر ثواب ملے گا ''اور آپ ہی نے ابوصالح عن ابی ھریرہ سے فلاں اور حکم عن ابی الحکم عن حذیفہ سے اور ابوصالح عن ابی ھریرہ سے اور ابوالزبیر عن جابر سے اور یزید الرقاشی عن انس سے مرفوعا حدیث سنائی ہے ــ امام اعمش رحمہ اللہ نے کہا ائے فقہا کی جماعت تم الطباء اور ہم پنساری ہیں ـ''(اثر الحدیث الشریف ص 86)
    یہ قصہ ملا علی قاری کی ''مناقب الامام ابوحنیفہ ''سے نقل کیا گیا ہے جو الجواہر المضیہ کے ساتھ ملحق ہے ـ ملاحظہ ہو (الجواہر ، ج2 ص 484 )ملا علی قاری نے اس کی سند یا حوالہ قطعا ذکر نہیں کیا اور تتبع بسیار کے باوجود اس کی کوئی سند اس عاجز کی نظر سے نہیں گزری ـ البتہ اسی نوعیت کا ایک قصہ قاضی الصیمری کی''مناقب ابی حنیفہ واصحابہ ص 13 میں منقول ہے جسے خطیب بغدادی نے الفقیہ المتفقہ (ج2 ص 84 ) میں بھی نقل کیا ہے اس کے الفاظ یہ ہیں ـ

    ''وانت حدثتنا عن ابراہیم کذا و کذا وحدثتنا عن الشعبی کذا ''
    یہ سن کر امام اعمش رحمہ اللہ نے کہا' یا معشر الفقہا ءانتم الاطباء ونحن الصیادلہ ''
    ''ائے فقہا کی جماعت تم طبیب ہو اور ہم پنسیاری (دوا فروش ) ہیں ـ
    مگر اس کا مدار احمد بن محمد بن الصلت بن المغلس الحمانی پر پے ، جسے بعض تدلیس کر کے احمد بن عطیہ بھی کہتے ہیں اور وہ سخت ضعیف بلکہ کذاب ہے ـ امام ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں ، میں نے کذابوں میں سے اس سے زیادہ بے حیا کسی کو نہیں دیکھا ـ کاتبوں سے کتابیں اٹھا کر لے جاتا اور جن راویوں کا ان میں نام ہوتا ان سے وہ روایت لیتا اور اسکی پرواہ نہیں کرتا تھا کہ وہ کب فوت ہوا ، اور کیا راوی مروی عنہ کی وفات سے پہلے پیدا ہوا یا نہیں ـ ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں وہ حدیثیں وضع کرتاتھا ـ میں نے اسے دیکھا کہ وہ ان سے حدیثیں بیان کرتا تھا جن سے اس نے سنا بھی نہیں تھا ہوتا تھا ـ امام دارقطنی رحمہ اللہ فرماتے ہیں وہ حدیثیں گھڑتا تھا ـــ حافظ عبد الباقی بن قانع فرماتے ہیں وہ ثقہ نہیں تھے ـ ابن ابی الفورس ، امام حاکم وغیرہ نے کہا ہے کہ وہ کذاب اور وضاع ہے ـ خطیب بغدادی رحمہ اللہ خود فرماتے ہیں اس نے ثابت بن محمد اور ابو نعیم وغیرہ سے روایتیں لی ہیں جو کہ اکثر باطل ہیں جنہیں اس نے خود گھڑا ہے ـ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں اس کی روایات منکر اور باطل ہیں(الکامل لابن عدی ، ج 1 ص 202 ، لسان ج 1 ص 270 ـ 271 ، تاریخ بغداد ج 5 ص 104 ـ ج 4 ص 207 ، الضعفاء لابن الجوزی ج 1 ص 86 ، المروحین ـ ج ا ص 153 )
    اب اس کا فیصلہ تو قارئین کرام باسانی کر سکتے ہیں کہ ایسے کذاب اور وضاع کے بیان کردہ واقعہ کی حیثیت کیا ہوگی ـ اسی احمد الحمانی کو علمائے احناف نے ''حنفی اکابرین ''میں شمار کیا ہے ـ علامہ عبد القادر القرشی نے ''الجواہر المضیتہ فی طبقات الحنفیہ ''ج 1 ص 69 میں اس کا ترجمہ لکھا ہے مگر حق حنیفیت ادا کرتے ہوئے آئمہ ناقدین کا کوئی قول نقل نہیں کیا اور لطف کی یہ کہ کسی سے اس کی توثیق بھی نقل نہیں کر سکے ـ اسی الحمانی نے '' مناقب ابی حنفیہ '' کے نام سے مستقل کتاب لکھی جس کے بارے میں امام دارقطنی رحمہ اللہ فرماتے ہیں وہ تمام کی تمام موضوع روایات اور قصوں پر مبنی ہے جنہیں حمانی نے خود وضع کیا ہے ـ قاضی الصیمری رحمہ اللہ اور موفق کی ''المناقب '' کی اکثر و بیشتر روایت کا ماخذ یہی ہے ـ
    علامہ ابن عبد البر رحمہ اللہ نے اسی نوعیت کا ایک واقعہ جامع بیان العلم ج2 ص 131 میں ذکر کیا ہے لیکن اس کی سند بھی ضعیف ہے چنانچہ اس میں ابراہیم بن عثمان بن سعید مجہول ہے (لسان ج1 ص 85 ) اس کے استاد علان بن المغیرہ کا ترجمہ کوشش کے باوجود کہیں نہیں ملا ـ اس کے ایک راوی محمد بن القاسم بن شعبان المالکی پر ابن حزم رحمہ اللہ نے کلام کیا ہے ـ قاضی عیاض نے لکھا ہے اس کی کتابوں میں غرائب اور شاذ اقوال ہیں ـ(لسان ج 5 ص 348 ، السیر16 ص 78 ، ترتیب المدارک ج3 ص 294 )
    اسی طرح اسی نوعیت کا ایک واقعہ امام اعمش اور قاضی ابویوسف کے مابین بیان کیا جاتا ہے جے علامہ ابن البر نے (الجامع ، ج 2 ص 131 ، 132 ) میں ، خطیب نے تاریخ بغداد (ج 14 ص 446 میں ) اور قاضی الصیمری نے مناقب ص 96 میں ذکر کیا ہے ـ قاضی ابویوسف نے جب یہ کہا کہ یہ جواب آپ ہی کی بیان کردہ حدیث سے ماخوذ ہے تو انہوں نے فرمایا '' یا یعقوب انی لااحفظ ھذا الحدیث من قبل '' ائے یعقوب مجھے اس سے پہلے یہ حدیث یاد نہیں تھی ـ'' یہ قصہ سندا درست ہے کیونکہ حدیث کا یاد نہ رہنا اور بھول جانا ایک بشری تقاضا ہے ـ اسی طرح حدیث کی تاویل اور اس کا مفہوم سمجھنے یا نہ سمجھنے میں فرق مراتب بھی خداد صلاحیت پرموقوف ہے ـ مگر قاضی ابویوسف رحمہ اللہ اور امام الاعمش رحمہ اللہ کے واقعہ میں وہ رنگ آمیزی نہیں جو احمد الحمانی وغیرہ جیسے کذاب نے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اور اعمش رحمہ اللہ کے واقعہ میں پیدا کر دی ہے ـ
    خطیب بغدادی نے الفقیہ والمتفقہ ج 2 ص 84 میں امام ابوحنیفہ کے اس واقعہ کو احمد بن عطیہ الحمانی کے علاوہ ایک دوسری سند سے بھی ذکر کیا ہے جس کے راوی ثقہ ہیں ـ مگر اس میں بھی وہ رنگ آمیزی نہیں جو علامہ ملا علی القاری کی المناقب میں پائی جاتی ہے ـ ہم پہلے عرض کر آئے کہ علم و عقل ، تفقہ و تیقظ ، معاملہ فہمی و فراست اللہ تعالٰی کی عطا کردہ صلاحیتیں ہیں ، اللہ نے ہر انسان کو اس کی استطاعت کے مطابق ان اوصاف سے نوازا ہے مگر تمام انسان اس میں مساوی نہیں '' وفوق کل ذی سلیم علیم '' کا قانون قدرت بہرحال مسلم ہے
    لیکن ان واقعات سے یہ نتیجہ اخذ کرنا کہ محدیثین فقیہ نہیں ہوتے وہ محض دوا فروش ہوتے تھے اور پھر اسی بنا پر طبقات کی تقسیم قطعی طورپر غلط اور حقیقت واقعی سے بےخبری کی دلیل ہے جس طرح ہر ''راوی حدیث ''اور حدیث لکھنے والے کو محدیثین کرام کی فہرست میں شامل کرنا درست نہیں اسی طرح محض مروجہ فقہی متون و شرح کے ماہرین کو فقیہ و عطار قرار دینا درست نہیں ـ کیا امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اور ان کے تلامذہ وغیرہ کا تفقہ میں مرتبہ برابر ہے ؟ خطیب بغدادی نے ''الفقیہ والمتفقہ ''اور علامہ ابن عبد البر رحمہ اللہ ''جامع العلوم میں '' اس موضوع پر بڑی نفیس بحث کی ہے اور واشگاف الفاظ میں کہا ہے کہ جب محدیثین کا ذکر ہوتا ہے تو اس سے مراد ہر راوی حدیث نہیں بلکہ امام مالک ، امام اوزاعی ، امام شعبہ ، امام ثوری ، امام یحیی بن سعید قطان ، امام عبد الرحمن بن مھدی ، امام احمد بن حنبل وغیرہ مراد ہوتے ہیں ـ امام وکیع فرمایا کرتے تھے نوجوانو! حدیث کو خوب سمجھ کر پڑھو یہ اہل الرای تم پر کسی صورت غالب نہیں آ سکتے ، امام ابوحنیفہ اپنے فتاوی میں جس چیز کے محتاج ہیں ہم اس کے بارے میں کئی احدیث بیان کر سکتے ہیں ـ امام وکیع ہی کا بیان ہے کہ ایک بارمجھے امام ابوحنیفہ نے کہا کہ تم احادیث کی بجائے فقہ پر توجہ دو ، میں نے کہا کہ کیا حدیث میں فقہ نہیں ہے تو انہوں نے کہا بھلا بتلاو اگر عورت حمل کا دعوی کرے اور خاوند اس کا انکار کرے تو فیصلہ کیونکر کیا جائے گا ؟ میں نے کہ مجھے عباد بن منصور رحمہ اللہ نے عکرمہ کے واسطہ سے حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے یہ حدیث سنائی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایسی صورت میں لعان کیا جائے گا ، یہ سن کر وہ چلے گئے (الفقیہ والمتفقہ ج 2 /ص 83)
    کیا امام بخاری ، امام یحیی بن آدم ، امام ابی دواؤد ، ترمذی ، امام ابوعبید ، امام لیث ، امام ابوثور ، امام داؤد ، امام ابراہیم رحمھم اللہ صرف محدث تھے فقیہ نہیں تھے ؟ لٰہذا اس مثال کی بنیاد پر فقہیا اور محدیثین کی تقیسم سراسر لغو اور ایک بے فائدہ شغل ہے ـ محدیثین کرام کو اللہ تبارک وتعالٰی نے جہاں حدیث جمع کرنے کی توفیق بخشی وہاں انہیں تفقہ فی الدین کا ملکہ بھی وافر عطا فرمایا ،
    ] یہی وجہ ہے کہ مولانا عبد الحی لکھنوی مرحوم نے واشگاف الفاظ میں اس حقیقت کا اظہار کیا ہے کہ
    "ومن نظر بنظر الإنصاف وغاض في بحار الفقه والأصول محبتا من الاغتساف يعلم علما يقيننا إن أكثرا لمسائل الفرعية وألا صليه التي اختلف العلماء فيها المحدثين فيها اقوي من مذاهب غيرهم واني كلما اشتر في شعب الاختلاف أجد قول المحدثين فيه قريبا من الإنصاف فلله درهم وعليه شكرهم كيف لا وهم ورثة النبي صلي الله عليه وسلم حقا و نواب شرعة صدقا حشرنا الله في زمرتهم وأمانتا على حبهم و سيرهم(امام الکلام ص 216 )

    کہ جس نے بھی نظر انصاف سے دیکھا اور فقہ و اصول کے سمندر میں بے راہ روی سے بچتے ہوئے غوطہ زنی کی ہے وہ یقینی طورپر جانتا ہے کہ اکثر وپ فقہی اور اصول مسائل میں جن میں اختلاف ہے ان میں محدثین کا موقف دوسرے اقوال سے زیادہ قوی ہے اور میں جب بھی اختلاف کی گھاٹیوں کی سیر کرتا ہوں وہاں محدثین کے قول کو انصاف کے زیادہ قریب پاتا ہوں ـ اللہ تعالٰی ان کابھلا کرے اور وہی انہیں اس کا انعام و اکرام بخشے گا ـ کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ ولسم کے صحیح وارث ہیں اور آپ کی شریعت کے سچے نائب ہیں ـ اللہ تعالٰی ہمیں ان کے زمرے میں اٹھائے اوران سے محبت اور ان کے طریقے ہر موت عطا فرمائے ''

    جاری ہے ۔ ۔
     
  2. ابوعکاشہ

    ابوعکاشہ منتظم

    رکن انتظامیہ

    شمولیت:
    ‏اگست 2, 2007
    پیغامات:
    15,941
    محدثین رحمھم اللہ کے تفقہ واجتھاد کے بارے میں بعض مدعیان فقہ کی الزام تراشیوں سے بھی ہم واقف ہیں اور اسی سلسلے میں احمد الحمانی جیسے دروغ گو راویوں کی حکایتوں سے بھی الحمد للہ باخبر ہیں ـ مگر اس تفصیل کی نہ ضرورت ہے اور نہ ہی اس کی یہاں گنجائش ـ مقصد صرف اتنا ہے کہ ان حکایات کی بنیاد پر نہ محدثین و فقہا کی یہ تقیسم درست ہے اور نہ ہی امام ابوحنیفہ اور اہل الرائے کے مقابلہ میں آئمہ محدثین رحمھم اللہ کو دوا فروش قرار دینا صحیح ہے ـ علامہ علی قاری کے حوالہ سے جو مفصل واقعہ نقل کیا ہے غالب گمان یہی ہے کہ یہ بھی احمد الحمانی کی کارستانی ہے پھر یہ بات بجائے غور طلب ہے کہ اس واقعہ میں جن روایت کا ذکر ہے وہ کیا امام صاحب کی سند سے انہی الفاظ کے ساتھ منقول ہیں ؟ ملا علی قاری نے اس گفتگو کی پہلی روایت جس سند سے ذکر کی ہے وہ بجائے خود اس کہانی کے باطل ہونے کی دلیل ہے چنانچہ اس میں امام ابوحنیفہ کے الفاظ یوں ہیں :
    ''أنت حدثنا عن أبي صالح عن أبي هريرة و عن أبى وائل عن عبد الله (بن مسعود و)عن إياس عن أبي مسعود الأنصاري انه قال :قال رسول صلي الله عليه وسلم من دل على خير كان له مثل اجر عمله – ''
    ھالین کے مابین الفاظ کا اضافہ ہم نے خود کیا ہے ـ مناقب کی عبارت میں جھول واضح ہےجسے شیخ محمد عوامہ نے محسوس کیا مگر بلا وضاحت ''عن عبد اللہ بن مسعود وعن '' لکھ دیا ، گویا یہ روایت امام صاحب نے امام اعمش سے تین سندوں سے سنی تھی جنمیں ایک '' عن ابی ایاس عن ابی مسعود الانصاری '' کے طریق سے ہے ـ حالانکہ ابومسعود رضی اللہ عنہ انصاری کی یہ روایت صحیح مسلم ج 2 ص 137 ، عبدالرزاق رقم 20054، مشکل الاثار ج 1 ص 484 ، مسند احمد ج1 صفحہ 120 و ج 5 ص 274 ، ابن حبان ، المورد ص 867،868- جامع بیان العلم ج 1 ص 16 ، ابوداؤد رقم 5129، ترمذی ج 3 ص 376، بیہقی ج 9 ص 28 ، طبرانی ج 17 ص 22 و 228 میں سفیان ، شعبہ ، معمر ، عیسی بن یونس ، محمد بن عبید ، حفص بن عیاث ، عبد الواحد ، ابومعاویہ ، فضیل بن عیاض ، زائدہ ، شریک ، عبد اللہ بن عمیر اور ابواسحاق (یہ تمام ) امام اعمش سے ، ابو عمرو والشیانی عن ابی مسعود '' کے طریق سے روایت کرتے ہیں –
    مناقب کی روایت میں ''ابو ایاس '' کون ہے ؟ ابوایاس عبد المالک بن جویہ یا ابو ایاس جو مغیرہ بن مقسم النصبی سے روایت کرتا ہے نہیں ہو سکتے ـ کیونکہ کہ یہ دونوں متاخرین ہیں ـ
    دیکھئے کتاب الکنی للدولابی ج 1 ص 115 ابوایاس ، معاویہ بن قرتہ بھی نہیں ہو سکتا کیونکہ معاویہ کی وفات 113 ھج میں ہوئی جب ان کی عمر 76 سال تھی ـ یہ بھی کہا گیا کہ وہ واقعہ الجمل کے سال پیدا ہوئے (تہذیب ـ ج 10 ص 217 ) تو گویا وہ 36 یا 37 ھجری میں پیدا ہوئے ـ لہذا جب حضرت عبد اللہ بن مسعود سن وفات 40 ھجری ہے (تہذیب ج 7 ص 248 ) تو ابو ایاس معاویہ بن قرہ کی حضرت ابو مسعود سے روایت صحیح نہ ہوئی ـ تین چار سال کے بچے کا سماع عموما ممکن الوقوع نہیں ہوتا ، اسی طرح ابوایاس عامر بن عبدہ بھی نہیں ہو سکتا ، وہ گو حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں مگر الکندی للدوبی ج 1 ص 115 میں ہے کہ امام اعمش اس سے ایک واسطہ سے روایت کرتے ہیں '' یروی الاعمش عن رجل عنہ '' خیال آتا ہے کہ شاید '' ابوایاس '' نہیں بلکہ ''ابن ایاس '' کیونکہ ابوعمر الشیانی کا نام سعد بن ایاس ہےـ کتابت میں '' ابن '' ''ابو'' سے بدل گیا ہو ـ مگر مشکل یہ ہےکہ ''سعد بن ایاس '' ابن ایاس سے معروف نہیں ، بہرحال ثقات کی ایک جماعت کے خلاف ''ابو ایاس '' کے طریق سے یہ روایت ذکر کرنا بجائے خود اس کی کمزوری کی دلیل ہے ـ امام ابو حنیفہ سے یہی روایت '' علقمہ بن مرثد عن سلیمان بن برید عن ابیہ '' کے طریق سے مروی ہے جسے علامہ الخوارزمی نے محمد بن الحسن الشیبانی ، ابومحمد ،بخاری ، ابن خسرو ، حافظ علجہ بن محمد اور قاضی عمر بن الحسن الاشنائی کی مسانید سے جامع المسانید (ج 4 ص 289-290 ج 1 ص 120 ) میں یہی ذکر کیا ہے ـ یہی روایت امام احمد نے مسند میں ذکر کی ہے مگر امام ابوحنیفہ کا نام نہیں لیا ـ الفاط یہ ہیں :ثناه اسحق بن يوسف أنا أبو فلانة
    كذا قال أبي لم يسمه علي عمد , وثنا غيره فسماه يعني أبا حنيفة عن علقمة بن مرتد عن سليمان بن بريده عن أبيه الخ(مسند احمد ج 5 ص 357 )(1)

    ''یعنی امام احمد نے ابوفلانہ کہا ـ امام ابوحنیفہ کا نام عمدا نہیں لیا ـ"
    اس لیے امام احمد انہیں ضعیف قرار دیتے تھے ـ ملاحظہ ہو الضعفاء للعقیلی ج 4 ص 285 بغدادی ج 13 ص 418
    اسی روایت کو علامہ ہیثمی نے ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ
    ''فیہ ضعیف ومع ضعفہ لم یسم (المجمع ج 1 ص 166 )
    یعنی اس میں ضیعف راوی ہے ـ اس کے ضعیف کی بنا پر اس کا نام نہیں لیا ''
    عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ یہ روایت امام صاحب کی مسند میں حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے اگر حضرت ابوہرہ ، ابومسعود اور عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہم سے بھی ان کی یہ روایت ہوتی تو علامہ الخوارزمی اسے جامع المسانید میں ذکر کرتے ہوئے جسے انہوں نے امام صاحب کی مرویات کو جع کرنے والے حضرات کی مسانید سے مرتب کیا ہے ـ خود اس کی سند کی اندرونی شہادتیں بھی اسکی بناوٹی ہونے کی دلیل ہیں ـ
    انہی روایات میں آخر روایت ''یزید الرقاشی عن انس '' کے طریق سے ہے جس کے الفاظ ہیں ــ
    ''کادالحسدان یغلب القدور کادالفقران یکون کفرا '' الخ
    اور کسے معلوم نہین کہ یزید الرقاشی کو امام نسائی ، امام حاکم وغیرہ نے متروک کہا ہےـ امام نسائی نے اس کے بارے میں ''لیس بثقتہ ''بھی کہا ہے ـ امام ابن حبان فرماتے ہیں '' کان یقلب کلامہ الحسن فیجعلہ عن انس عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم کہ وہ حضرت حسن بصری کا قول حضرت انس رضی اللہ عنہ کا نام لے کر مرفوع بیان کردیا کرتا تھا ـ
    (تہذیب ،ج 11 ص 310-311 ) مسند احمد بن منیع میں یہی روایت ہے '' عن الحسن او انس '' کے الفاظ سے ہے مگر (الحلیتہ ج 3 ص 109-53 ، الکامل لابن عدی ج 7 ص 2692 ، شعب الایمان ج 5 ص 267 ) وغیرہ میں یہ بغیر شک کے مروی ہے ، امام ابن حبان کے کلام کی روشنی میں یہی معلوم ہاتا ہے کہ یہ حسن کا قول ہے جسے یزید رقاشی حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مرفوعا بیان کرتا تھا ـ مسند ابن منیع کی روایت سے اس کی تائید ہوتی ہے ـ بلکہ ابن الابناری وغیرہ نے کہا ہے کہ ''کاد کے ساتھ ''ابن '' کا استعمال کلام عرب میں گو جائز تھا مگر قلیل الاستعمال ہے اور فضاحت کے منافی ہے ـ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ےو افصح العرب تھے اور یہ کلام کس کہ سکتے تھے ـ یہ کسی راوی کا کلام ہے ـ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا کلام نہیں ـ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو ـ (فیض القدیر ج4 ص 542 ، المقاصد الحسنہ ص 311 کشف الخفاء ج 2 ص 141 المغنی العراقی علے الحیاء ج 3 ص 184 )
    لہذا جس کا راوی ضیعف بلکہ متروک ہو اس کا متن فضاحت کے منافی ، اس کے ضعیف پر علماء کا اتفاق ـ اس سے امام ابوحنیفہ استدلال کریں ـ دل اسے تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ـ اور اگر اس سے استدلال درست ہے اور کہا یہ گیا ہے کہ جس روایت سے امام استدلال کرے وہ روایت صحیح ہو گی (انھاء السکن 16) تو تسلیم کیجئے یہروایت آئمہ فن کے فیصلے کے برعکس صحیح ہے ـ فصاحت کے منافی بھی نہیںـ آئمہ نے جو کہا وہ بھی غلط ہے اور یزید الرقاشی بلکل ضیعف نہیں وہ ثقہ اور صدوق ہے ، نتیجہ واضح ہے کہ ان بے اصولیوں کا قائل کون ہو سکتا ہے ، یہی وہ اندرونی شہادتیں ہیں جو اس مفصل روایت کے موضوع ہونے کی دلیل ہیں ـ ہمارا مطالبہ ہے کہ شیخ محمد عوامہ اور ان کے ہم نوا اس واقعہ کی سند پیش کریں اور جو اعتراضات اس پر وارد ہوتے ہیں ان پر بھی توجہ منذول فرمائیں ـ تنہا کسی کے لکھ لینے سے کوئی چیز ثابت نہیں ہو سکتی (انتہی)​
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
Loading...
موضوع کی کیفیت:
مزید جوابات کے لیے کھلا نہیں۔

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں