’خَلق‘ اور ’خُلق

کارتوس خان نے 'اتباعِ قرآن و سنت' میں ‏اگست 28, 2007 کو نیا موضوع شروع کیا

موضوع کی کیفیت:
مزید جوابات کے لیے کھلا نہیں۔
  1. کارتوس خان

    کارتوس خان محسن

    شمولیت:
    ‏جون 2, 2007
    پیغامات:
    933
    بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

    اسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔۔۔وبعد!۔
    عزیز دوستوں!۔
    مُّضۡغَةِِ مُّخَلَّقَةِِ وَغَيۡرِ مُخَلَّقَةِِ
    سچ یہ ہے کہ عربی ایک بے انتہاءخوبصورت زبان ہے۔ ’خَلق‘ اور ’خُلق‘ انسان کے وجود کی دراصل دو جہتیں ہیں۔ اول الذکر ‘تخلیق’ اور ‘پیدائش’ کیلئے مستعمل ہے اور ثانی الذکر ‘سیرت’ اور ‘کردار وعمل’ کیلئے۔(1) جذر دونو ں کا ایک ہے۔ خَلق (خ کی زبر کے ساتھ) سے مراد ہے انسان کا چہرہ مہرہ، ڈیل ڈول، شکل وشباہت اور نقوش وغیرہ (مضغة مخلقة وغیر مخلقة الحج: ۵) اور خُلق سے مراد وہ اسلوب اور انداز اور طریق تعامل ہے جو انسان اپنی مرضی اور اختیار سے اپنے لئے زندگی میں اپناتا ہے۔ یعنی ایک اس کی جسمانی زندگی ہے تو ایک اس کی معنوی زندگی۔ اول الذکر اگر وہ چیز ہے جو انسان کے اندر اللہ ‘پیدا’ کرتا ہے اور اس کا 'پیدا' کرنا اللہ کے ہی اختیار میں ہے تو ثانی الذکر وہ چیز ہے جو انسان اپنے اندر آپ 'پیدا' کرتا ہے جس کے 'پیدا؛ کرنے اور ؛صورت دینے؛ والا اللہ ہے اور اس میں کسی پر کوئی ملامت ہے اور نہ سرزنش۔ کوئی گورا ہے یا کالا، لمبا ہے یا کوتاہ قامت، خوبصورت ہے یا بدصورت اس کا اپنا اس میں کوئی دخل ہی نہیں۔ البتہ دوسرے پہلو سے، اپنے آپ کو ’پیدا کرنے‘ اور ’صورت دینے‘ والا بڑی حد تک انسان خود ہے اور اس پر تحسین یا مذمت خود اسی کو جاتی ہے۔ یہ ہدایت وضلالت میں انتخاب کرنے کا میدان ہے اور ادب وتہذیب اختیار کرنے یا نہ کرنے کا۔

    (1 ۔ دیکھیے لسان العرب (بہ ذیل خلق)پس جس پہلو سے انسان اپنے آپ کو آپ 'بناتا' ہے اور 'بناتے' رہنے کی اس کے پاس زندگی زندگی گنجائش رہتی ہے خُلق کہلاتا ہے جس کی جمع اَخلاق (2)ہے۔ البتہ جس پہلو سے انسان دُنیا میں 'بنا بنایا' آتا ہے اور اس میں کوئی تبدیلی لے آنے کی اس کے اپنے پاس کوئی گنجائش نہیں ہوتی خَلق کہلاتا ہے۔ دونوں کا مطلب ’ساخت‘ ہے مگر ایک مادی وجسمانی ہے تو ایک شعوری و روحانی۔ البتہ 'ساخت' کا تصور جب دنیوی اور اخروی جہتوں میں بڑھتا ہے تو اس کو کچھ اور ہی معانی مل جاتے ہیں۔

    (2الف کی زبر کے ساتھ۔
    الف کی زیر کے ساتھ یہ جمع نہیں رہتا بلکہ باب افعال سے مصدر اخلاق بنتا ہے جو کہ بالکل ایک اور معنی رکھتا ہے یعنی کسی چیز کو برت کر پرانا اوربوسیدہ کرلینا۔
    ایک مسنون دُعا میں یہ دونوں جہتیں آمنے سامنے لے آئی جاتی ہیں کیونکہ وہ ایک موقع ہی 'آمنے سامنے' کا ہوتا ہے ....

    آدمی آئینے کے سامنے کھڑا ہو تو وہ ایک ایسا لمحہ ہوتا ہے جب پوری کائنات سے نگاہ ہٹ کر اس کا اپنا سراپا ہی اس کے سامنے آجاتا ہے۔ آئینے کے روبرو کھڑا اپنی جسمانی صورت پر انسان کسی پہلو سے اتراتا ہے تو کسی پہلو سے کچھ 'حسرتیں' تازہ کرتا ہے۔ یہاں ضروری ہو جاتا ہے کہ اس کے شعور کو حسن وبدصورتی کی ایک اور جہت سے بھی آشنا کرایا جائے۔ حسن وبدصورتی کی یہ وہ جہت ہے جس کے دیکھنے کو 'آئینہ' بھی کم ہی کہیں دُنیا میں میسر آتا ہے اور جو کہ 'انسان' کے پریشان ہونے کی اصل بات ہے کیونکہ یہ تصویر تو جو آئینے میں اب اس کے سامنے ہے اچھی یا بُری چند سالوں کے اندر اپنے سب 'نقوش' سمیت خاک میں دفن ہو جانے والی ہے جبکہ اس کی دوسری تصویر ایک ایسی امر صورت ہے کہ مٹی جس کا کچھ بھی نہ بگاڑ سکے اور وہ اتنی اہم ہے کہ اس کو دیکھ کر ہی اس کو دارالمتقین میں جگہ ملنے والی ہے کہ جہاں 'بدصورتوں' کو پاس پھٹکنے تک نہ دیا جائے گا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اس کو بنانے کیلئے 'برش' شروع زندگانی سے اس کے اپنے ہی ہاتھ میں رہا ہے اور اس کیلئے اصل طعنہ تو وہی کوڑھ پن اور وہی بدصورتی ہو سکتی ہے جو اس کی اپنی بنائی ہوئی اس تصویر میں پائی جائے اور جس پر جگ ہنسائی اس دن ہوگی جب سارا جگ اکٹھا ہوگا اور جب لوگوں کے خود اپنی ہی اختیار کی ہوئی 'صورتوں' پر مبنی 'نتیجے' نکلیں گے۔

    اس چھوٹی سی وقتی سی مختصر دُنیا میں بھی .... ذرا تصور کیجئے اپنی شکل وصورت، رنگ وروپ، حلیہ اور قسمت 'بنانے' کا تمام تر اختیار اگر یہاں لوگوں کے اپنے ہی پاس ہوتا! اللہ یا!!! صورت کا نقص تب کتنا بڑا عیب کہلاتا! معیوب صورتوں کو ڈوب مرنے کا ہر طرف سے 'مشورہ' ملتا۔ ہر شخص سب سے پہلا کام شاید یہ کرتا کہ اپنی صورت کا وہ بھدا پن جس پر وہ آئینے کے سامنے اپنے سراپے کے ساتھ گھنٹوں 'مفاہمت' کرتا ہے ایک لمحے سے پہلے اتار پھینکتا اور دُنیا یہاں ایک ایسا 'مقابلہ حسن' دیکھتی کہ اس کا تصور بھی ویسے محال ہے۔ ابھی جب لوگوں کا اپنی جسمانی شکل وصورت اور قدوقامت پر ذرہ بھر اختیار نہیں اور سب ایک دوسرے کی یہ 'مجبوری' بخوبی سمجھتے ہیں لوگ ایک دوسرے کو بخش دینے پر بہت کم راضی ہوتے ہیں! اب بھی صورتحال یہ ہے کہ بہت سے مرد وخواتین جمالِ صورت کی پریشانی میں ہر وقت گھلے جاتے ہیں۔ رنگت میں معمولی ترین فرق لے آنے کیلئے ہزاروں پاپڑ بیل سکتے ہیں جبکہ 'آرزو وانتظار' کے یہ کل 'چار دن' ہیں .... وہ بھی 'اگر' ہیں ....

    اب اگر انسان کو اپنی صورت آپ بنانے کا اختیار ہو جائے اور وہ بھی ایک دائمی جہان میں اور خلد کی زندگی میں جہاں 'آرزو' نہ 'انتظار' .... وہاں بدصورت پھرنے کا روادار پھر کون ہو؟ لیکن ادھر اس علیم اور حکیم کو دیکھئے .... ہمیشگی کے جہان کی بات آتی ہے تو 'قلم وقرطاس' انسان کے اپنے ہی ہاتھ میں تھما دیتا ہے کہ لو آپ اپنی شکل تجویز کر لو اور اپنی دائمی صورت کی نقشہ گیری یہیں دارِ عمل سے کرجاﺅ۔

    'اپنی صورت پر بھلا کس کو اختیار؟' یہ بے بسی بس اسی جہان محدود کا واقعہ ہے اگلے جہان کا تو اصل چیلنج ہی یہ ہے کہ وہاں ہر کسی کو اس کی اپنی ہی تجویز کردہ صورت وہئیت ملنے والی ہے! اللہ یا خیر!!

    پس یہ ’مقابلہ حسن‘ تو یہاں بالفعل اس وقت ہو رہا ہے اور پورے زور وشور سے منعقد ہے مگر وائے حسرت، حُسن کا کوئی جتنا بڑا پجاری وہ یہاں اتنی ہی بڑی مات کھا کر جاتا ہے۔ پر جو یہاں آکر سب سے پہلے حسن کے خالق کا ہی پتہ دریافت کرے اور حسن کی بجائے حسن کو وجود دینے والے کی ہی پوجا کرکے جائے اس کو پھر خالق بھی ملتا ہے اور حسن بھی۔ یہ وہ خوش بخت ہے جو اس معبود کو ہی ہدیہ تحسین پیش کر لینے کا سلیقہ اور برتہ رکھتا ہے جس نے ہستی میں نہ صرف حسن پیدا کیا بلکہ انسان کو اس حسن کے سراہ لینے کا ملکہ بھی ودیعت کیا۔ یہ جب اس ذات کو سجدہ کر لیتا ہے اور اسی کی پاکی اور تسبیح کو اس اعزاز کے بعد پھر کیا کمی!!؟

    لِّلَّذِينَ أَحۡسَنُواْ ٱلۡحُسۡنَیٰ وَزِيَادَةُُۖ وَلَا يَرۡهَقُ وُجُوهَهُمۡ قَتَرُُ وَلَا ذِلَّةٌۚ أُوْلَـٰۤٮِٕكَ أَصۡحَـٰبُ ٱلۡجَنَّةِۖ هُمۡ فِيہَا خَـٰلِدُون (یونس: 26)
    ‘جن لوگوں نے یہاں (سوچ اور کردار کا) حُسن پیدا کرلیا ان کا بدلہ بھی کیا ہی حسین ہے اور ’وہ‘ بھی جو اس سے بڑھ کر ہے۔ ان کی صورتوں پہ کالک آئے گی اور نہ ان پر ذلت برسے گی۔ وہ بہشت کے مکین ہیں کہ جہاں وہ جاوداں ہو رہنے والے ہیں۔

    ‘پر وہ جن کی کمائی پر برائیاں اور بدکاریاں رہیں، سو جیسی ان کی برائی ویسا ان کا بدلہ۔ ان پر ذلت ہی ذلت برسے گی۔ کوئی ان کو اللہ سے بچا کر نہ دے گا۔ ان کی صورتیں کیا ہوں گی گویا رات کے سیاہ پردے اوپر سے اوپر اُن پر تان دیے گئے۔ یہ دوزخ کے اصحاب ہیں جہاں سے کبھی ان کی جان نہ چھوٹے'۔

    یہ ہے خَلق اور خُلق میں جزا از جنس عمل۔ جس چیز کو ’ساری عمر‘ مانگا اسی سے ’ساری عمر‘ محروم رہنے کا عذاب .... سوائے ان کے جن کا معبود سچا تھا!!! کیا کوئی حسن کے پجاریوں کو بتا سکے گا!!؟

    یہ ہے ’خَلق‘ اور ’خُلق‘ میں بیک وقت وہ لفظی اور معنوی مناسبت جو شاید عربی زبان میں ہی ادا ہو سکتی تھی۔

    اللھم حسَّنت خَلق¸ فحسِّن خُلقی
    (1 مسند ابی یعلی: مسند عبداﷲ بن مسعود حدیث نمبر 5075، صحیح ابن حبان کتاب الرقائق، باب الادعیہ 9359، والبہیقی فی شعب الایمان عن عائشۃ: اللہم احسنت خلقی فحسن خلقی: 8543

    ‘یا اللہ! جس طرح تو نے مجھے صورت کا حسن دیا ویسے ہی مجھے سیرت کا حسن دے’۔
     
  2. سگ مدینہ

    سگ مدینہ -: Banned :-

    شمولیت:
    ‏جولائی 5, 2007
    پیغامات:
    144
    جزاک اللہ خیر کارتوس خان پاک پرودگار آپ کے علم مزید اضافہ کرے بہت ہی شاندار تحریر پیش کی ہے
     
  3. irum

    irum -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏جون 3, 2007
    پیغامات:
    31,578
    جزاک اللہ
     
  4. ہیر

    ہیر -: Banned :-

    شمولیت:
    ‏اگست 20, 2007
    پیغامات:
    432
    جزاک اللہ خیر
     
Loading...
موضوع کی کیفیت:
مزید جوابات کے لیے کھلا نہیں۔

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں