** احسانِ غزل اصل میں عرفانِ غزل ہے **

ابومصعب نے 'نقد و نظر' میں ‏فروری 6, 2010 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. ابومصعب

    ابومصعب -: منفرد :-

    شمولیت:
    ‏اپریل 11, 2009
    پیغامات:
    4,063
    احسانِ غزل اصل میں عرفانِ غزل ہے



    ڈاکٹر صباحت عاصم واسطی معرفت،روما نیت اور علامت کی منفرد آواز ہے اگر یقین نہ آتا ہو تو انکی نئی کتاب "ترا احسان غزل ہے" دیکھیں ۔ عرفان اگر اعلیٰ و ارفع نہ ہو تو وہ معرفت کہلانے کا حقدار نہیں ہوتا اور اگر رومانیت سے لطافت نکل جائے تو وہ مختلف قسم کی کثافتوں سے آلودہ ہوجاتی ہے ۔ علامت وتمثیل کا مقصد ہی سہل نگاری ہے اگر وہ افہام کےبجائے ابہام کا سبب بن جائے تو اپنی افادیت کھو دیتی ہے ۔ عاصم واسطی کی شاعری میں ان تینوں کا حسین امتزاج پایا جاتا ہے ۔ کسی ایک تحریر میں تینوں اوصاف کا احاطہ طوالت کا باعث ہو جائیگا اسلئے اس بار میں اپنے موضوع کو معرفت کے دائرے میں محدود رکھوں گا ۔ اپنی بات کے آغاز کیلئے میں نے اس غزل کا انتخاب کیا جسکو عاصم صاحب نے کتاب کے اختتام پر رکھا ،یہ غزل بھی ہے اور دعا بھی ہے۔حسنِ ترتیب کا تقاضہ ہے کہ ابتداء حمد سے ہو اور اسکے بعد نعتیہ اشعار ہوں [عاصم بھائی کے لئے حمد ونعت بھی غزل کے پیراہن میں الہام ہوتی ہے] لیکن خاتمہ بہر حال دعاپر ہو کہ اس میں شکر و طلب دونوں موجود ہوتا ہے ۔دعا کون نہیں کرتا ؟ لیکن سبھی کی دعا یکساں نہیں ہوتی اور اس فرق کی وجہ طالب و مطلوب کے درمیان پایا جانے والا تعلق ہے دراصل یہی تعلق معرفت کی سنگِ بنیاد ہے عاصم کا اپنے رب تعلق ملاحظہ فرمائیں ۔
    بے ارادہ بھی کوئی حرفِ دعا یاد آجائے
    کوئی تکلیف نہ ہو اور خدا یا د آجائے

    اردو غزل کا دامن غم ِجاناں کے پہلو بہ پہلو غمِ دوراں سے تار تار ہے لیکن اس نیرنگی کے باوجود محبوب کے خانے میں مجازی بت کے علاوہ کسی اور کا گذر شاذونادر ہی ہوتا ہے حالانکہ جب تک عشق مجازی کی جگہ عشقِ حقیقی مزیّن نہ ہو حسن کی احسان کے مقامِ بلندوبالا تک رسائی ممکن نہیں ہے اس مرحلہ میں شاعر خالقِ نطق و بیان کے احسانات کا اعتراف کرتے ہوئے شکر و نیاز مندی سے جھک جاتا ہے اسکی نگاہِ بلند اپنے معبود کی حقانیت و رحمانیت کی جانب سے جب پلٹ کر واپس آتی ہے تو اسے اپنے گریبان کے علاوہ کچھ اور نظر نہیں آتا وہ اس میں جھانک کر دیکھتا ہے اور اپنے گناہوں پرکچھ اسطرح شرمسار ہوتا ہے ۔

    یوں بھی ہو، یوں ہی خیال آئے کہ رحمٰن ہے تو
    اور پھر کوئی گنہ کوئی خطا یاد آجائے


    عاصم واسطی کی شاید ہی کوئی غزل ایسی ہو کہ جس میں وہ خدا سے یکسر غافل ہو، کسی نہ کسی بہانے، بلواسطہ یا بلا واسطہ اپنے رب کو یاد نہ کرے اور جس میں ربِّ ذوالجلال کی تعریف و توصیف بیان نہ ہو لیکن عاصم کی غزلوں میں جہاں ایک طرف خدا کی ذاتِ والا صفات موجود ومشہود ہے وہیں کسی نہ کسی کونے اس کامعصوم سا یہ بندہ بھی حاضر و شاہدہے ۔نہ تنہا خدا ہے اور نہ بندہ تنہا ہے یہی غزل کاا متیاز ہے جس میں عاشق و معشوق دور ہوں یا پاس ساتھ ساتھ ہوتے ہیں ۔بلندی افکار کے ساتھ اندازِ بیان اور لب و لہجہ نے عاصم واسطی کی غزلوں کے حسن کو احسان کے درجہ پرفائزکردیا ہے عاصم کی شاعری میں محبوب کی جگہ معبود کے وجود بہت نمایاں ہے تقریباً ہر غزل میں ذکر الٰہی کا پایا جانا اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ شخص ہمیشہ اپنے رب کی معیت میں رہتا اسے یاد کرتا ہے اسے یاد رکھتا اورانتظارِ دید سے محظوظ ہوتا رہتا ہے اگر یہ کیفیت نہ ہو تو ممکن نہیں کہ یہ شعر ہو جائے

    بتا کتنے برس کا فاصلہ ہے ؟
    مری آنکھوں سے تیری روشنی تک


    آگے چل کرعاصم واسطی کی خودکلامی ملاحظہ فرمائیں کہتے ہیں " تیرے ہر اک گمان سے ہے ما ورا خدا " لیکن اک حدیثِ قدسی میں یہ بھی ہے کہ "میں اپنے بندے کے گمان و خیال کے ساتھ ہوں۔ جیسا بھی وہ میرے ساتھ گمان رکھے" عاصم چونکہ ہر ہر موقع پر خدا کو یاد کرتے رہتے ہیں اس لئے موقع اور محل کے لحا ظ سے اللہ تعالیٰ کے متعلق نت نئے گمان نت نیا خیال کلامِ سخن میں جھلکتا رہتا ہے ۔خدائے واحد کے یہ دھنک رنگ خیال ایسے منفرد اور انوکھے کہ بس خدا جیسے ۔ان کو محسوس تو کیا جاسکتا ہے لیکن چھو کے دیکھنا ممکن نہیں ہے ۔ رعنائی خیال کی ندرت ختم ہونے کا نام نہیں لیتی ایسا لگتا ہے گویا ہر ہر لمحہ عاشق اپنے محبوبِ حقیقی کے ساتھ ہےان دونوں کے درمیان فاصلے کی چلمن اٹھ چکی ہے قربت کا اندازہ لگانے کیلئے اس شعر میں "تھپک تھپک" کے اندر پائی جانے والی محبت و شفقت پر توجہ دیں


    ہر اک تڑپ کو سلایا تھپک تھپک اس نے
    ہر اضطراب کے اندر قرار اس کا ہے


    احسانِ غزل کی اس حمدیہ غزل میں تڑپ و اضطراب کےشانہ بشانہ قرار بھی ہے بندے کا اضطراب اور آقا کا قرار جب یکجا ہوتے ہیں توایسا شعر اپنے آپ ہو جاتا ہے ۔حدیث کا اگلا حصہ یوں ہیکہ "میں اسکے ساتھ ہوتا ہوں جب وہ مجھے یاد کرتا ہے "۔انسان اگر اس سعادت کا اندازہ کرلے کہ وہ کس کے ساتھ ہوتا جب وہ اسے یاد کرتا ہے توپھر وہ ہر کسی کی یاد اور ساتھ سے بے نیاز ہو جائے وہ اس دنیائے فانی میں سودوزیاں کے جھگڑے سے آزاد ہو جائے جیسا کہ عاصم کہتا ہے


    ہے آسماں کے خزانوں اب نظر میری
    زمین کا تو بہت مال و زر سمیٹ لیا


    حدیث آگے بڑھتی ہے "جب وہ مجھے جی میں یاد کرتا ہے تو میں بھی اسے اپنے آپ میں یاد کرتا ہوں اور اگر وہ کسی اجتماع یا محفل میں میرا ذکر کرتا ہے تو میں بھی اس کا ذکر ایک ایسی جماعت میں کرتا ہوں جو اس سے بہتر ہے" اس حدیثِ پاک کی روشنی میں جب میں سوچتا ہوں کہ اگر کسی انسان پر "الہام کے مالک کا احسان غزل" ہو اور وہ شخص اعترافِ نعمت سے سر بسجود ہو شکر کےجذبات سے سرشار اپنے اشعار میں رحمان و رحیم کا ذکر تنہائی میں اور محفلوں میں یوں کرتا ہو کہ


    کسی کواٹھ کے یہاں سے کہیں نہیں جانا
    سجی ہے بزم کے موضوعِ گفتگو تو ہے


    تو ربِّ کریم اس کے ساتھ کیا معاملہ کرے گا وہ یقیناً اسے یاد کرے گا، لیکن کیسے؟ اس کا گمان ہم نہیں کر سکتے لیکن میرا دل گواہی دیتاہے کہ صدقِ دل سے اشعار کے پیرائے میں اپنے رب کو یاد کرنے والے کو اسکا رب بھی اشعار میں یاد کرتا ہو گا اور جب عاصم ہماری محفل میں مالک الملک کو یاد کرتے ہیں تو ربِّ ذوالجلال بھی بہتر ین محفلوں ان کا ذکر اچھےاچھے اشعار میں کرتا ہوگا کاش کے ایسی کسی محفل میں شریک ہونے کا موقع خالقِ کائنات ہمیں بھی عطا فرمائے۔۔ آمین
    مندرجہ بالا شعر میں "تو" کے حوالے سے اگر کسی کے ذہن میں کوئی خلجان ہو تو وہ غزل کا مطلع دیکھ کر اطمینان کر لے ۔۔


    کہاں تلاش میں جاوں کہ جستجو تو ہے
    کہیں نہیں ہے، یہاں اور چارسو توہے


    جو لوگ عاصم واسطی کو نہیں جانتے وہ سوچ رہے ہونگے کہ یہ کسی صوفی سنت کا ذکر ہو رہا ہےجو کسی جنگل بیابان میں دھنی رمائے ہوئے ہے جی نہیں وہ بھی ہمارے آپ کی طرح ہنسنے بولنے والا ایک عام سا آدمی ہے لیکن حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے قول کی مصداق وہ دنیا کے اندر ضرور رہتا ہے دنیا اسکے اندر نہیں رہتی اس لئے کہ یہ پانی جس جہاز میں داخل ہو جاتا ہے اسے لے ڈوبتا ہے لیکن بہر حال کشتی کا مقصدِوجود پانی میں تیرنا ہے اسی لئے تمام تر خطرات کا ادراک کرتے ہوئے عاصم پانی میں قدم رکھتے ہوےکہتے ہیں ۔۔

    جابر مچھلی ،تند بھنور ، سفاک مگر مچھ ، گہرائی
    سب معلوم تھا پھر بھی ہم نے پاوں رکھا ہے پانی میں


    حیاتِ دنیااس طرح کی آزمائشوں میں گھری ہوئی ہے جب دنیا کا ادنیٰ پانی دل کے نہاں خانے میں داخل ہو جاتا ہے تو اعلیٰ و ارفع لا شریک کی یاد وہاں سے نکل جاتی فرمانِ رسولِ اکرم صلی
    ا للہ علیہ وسلّم کے مطابق ایسا دل کسی کھنڈر کی مانند ہوجاتا ہے اور سمندر کی طہ میں اترنا اس تاریک و ویران جہاز کیلئےمقدر کر دیا جاتا ہے۔ ایسے میں کشتئی دل کیلئے حفظ و امان کا سب سے مضبوط حصار یادِ الٰہی ہے اسی لئے عاصم کہتا ہے۔۔


    اسی کے ہاتھ ہے ساری حفاظتوں کا نظام
    کسی بھی ا ور کو ا پنا حصار مت کرنا


    انسان اس قدر ظاہر بین اور خود سر واقع ہوا ہےکہ برہنہ آنکھوں سے جن چیزوں کو نہیں دیکھ پاتا ان کے وجود کا انکار کردیتا ہے حالانکہ یہ ایک عام حقیقت ہیکہ جن چیزوں کو ہم دیکھتے ہیں ان سے کہیں زیادہ ایسی چیزیں ہمارے آس پاس موجودتو ہوتی ہیں مگر ہماری نگاہ سے اوجھل ہوتی ہیں ڈاکٹر حضرا ت آلات کی مدد سے چند پوشیدہ اشیاء کا مشاہدہ کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں لیکن آلات کی بھی اپنی محدودیت ہے ، شاعر اپنے چشمِ تصور سے ظاہر کا پردہ اٹھا کر باطن کی معرفت حاصل کر لیتا ہے اگرچہ کے اسکے پاس روشن دل ہو۔ ڈاکٹر روح پر پڑی جسم کی چادر کو دیکھتے ہیں اور شاعر روح میں لپٹے ہوئے جسم کا مشاہدہ کرتا ہے انسان پر یہ حقیقت اس وقت بھی نہیں کھلتی جب موت کی آندھی اس روحانی چادر کو اڑا لے جاتی ہے اور ہیرے موتی کی طرح چمکنے والی روشن آنکھیں چشمِ زدن پتھرا جاتی ہیں غیر محسوس روحانی قبا کاادراک ڈاکٹر عاصم واسطی کے اس شعر میں ملاحظہ فرمائیں۔


    اوڑھ لیتا ہے بدن روح کی چادر عاصم
    اور ہوتی ہے مرے تن پہ قبا را ت کے وقت



    خدا ہر وقت ہر جگہ موجود توہوتا ہے محسوس نہیں ہوتا معرفت کی حقیقت اسکے سوا کچھ اور نہیں کہ انسان ہر وقت خدائے بر حق کو اپنے ہمراہ محسوس کرے ہر دکھ سکھ میں اس کی آہٹ کو سنے کچھ مل جانے پر یا کھو جانے کی صورت میں اسکو اپنے آس پاس پائے بظاہر یہ سب مشکل نظر آتا ہے لیکن جوشخص ایمان ویقین کی دولت سے مالا مال ہو جس کا دل زندہ ہو ضمیر روشن ہو اس کیلئے تاریکیوں کے سارے بادل چھٹ جاتے ہیں اور وہ اعتماد کے ساتھ کہتا ہے۔۔


    اس قدر اپنے خدا پر ہے بھروسہ مجھ کو
    جب ضرورت کوئی ہوگی وہ مدد کر دے گا


    مادیت کا شکار ذہن معرفت کو اپنی ضرورت نہیں سمجھتا حالانکہ انسان کی سب پہلی ضرورت اور سب سے بڑی سعادت ،معرفت ہی ہے اس اولین ضرورت کو بھی وہی مہیا کرتا ہے جو انسان کی ساری ضرورتوں کو پورا کرتا ہے اس لئے عاصم اس ضرورت کیلئے بھی یکسو ہو کراسی کی جانب رجوع کرتے ہیں۔


    وہ جو کرے سو کرے اختیار اس کا ہے
    مری تو نوکری ہے کاروبار اس کا ہے



    شاعری بھی انسان کی طرح جسم و روح کا مرکب ہے شاعری کا جسم حسنِ بیان ہے اور روح حسنِ خیال ہے اگر بیان میں غنائیت و رعنائی موجود نہ ہو تو اشعار بد صورت ہوجاتے ہیں اوراگر خیال سےنزاکت وگہرائی ندارد ہوجائے تو شعر بے جان ہو جاتا ہےجسمانی اعضاء کی طرح الفاظ کا توازن شعر کا حسن ہے اور روح کی مانند خیال کی گہرائی و گیرائی اشعار کا عروج ہے ایک اچھا شعر ان دو پہلووں کے درمیان ایک حسین امتزاج و توازن سے جنم لیتا ہے مثلاً ۔۔


    دل اور مرے خون کا دوران غزل ہے
    ہر سانس توازن ہیکہ میزان غزل ہے


    شعر وشاعری کے بازارِ حسن میں لب و رخسار کا چرچا تو خوب پایا جاتا ہے لیکن فکروخیال کی جدّت وندرت کم ہی دکھا ئی دیتی ہے اسکی وجہ یہ ہیکہ مالک کون و مکاں نے اس کائناتِ ہستی کو حضرتِ انسان کیلئے مسخر کردیا ہے اس لئے جب کوئی فنکار اپنے افکارو ادراک کی پرواز کو کائنات کے حصار میں محدود کر لیتا ہے تو لازماً تنگئی دامانی کے کرب میں مبتلا ہو جاتا ہے بقول عاصم


    پھیلاو ہوا ہے مرے ادراک سے پیدا
    وسعت مرے اندر ہے سمندر میں نہیں ہے


    وسعتِ فکر تو لامحدود جستجو کا تقاضہ کرتی ہے جو انسان کی حدِ پرواز سے پرے ہو اور جسکی خاطر فنکار بلند سے بلند تر منزلوں کوسر کرتا چلا جائے اسکے ارتقاء کا سفر کبھی بھی ختم نہ ہواوراس کے تکمیلِ فن کی پیاس سے کبھی بھی نہ بجھے اس حقیقت کا اعتراف اس شعر میں دیکھیں


    صدیوں سے ہو رہا ہے مرا ارتقاء مگر
    اپنی نظر میں اب بھی مکمل نہیں ہوں میں



    دلچسپ بات یہ ہیکہ اپنے نامکمل ہونے پر عاصم نہ پریشان ہے اور نہ پشیمان بلکہ وہ اس کیفیت کو اپنے لئے غنیمت جانتا ہے اور کہتا ہے


    جستجو ، شوق ، لگن، مشق ، تجسس، محنت
    مجھ میں کچھ بھی نہ رہیگا مری تکمیل کے بعد


    بفضلِ تعالیٰ ڈاکٹر صباحت عاصم واسطی بڑے زور و شور کیساتھ اپنی ذا ت و فن کی تکمیل جانب رواں دواں ہیں زور تو اشعار کے اندر ہے اور شور ہے سو باہر سنائی دیتا ہے وہ اپنی انتہاوں سے بے نیازنہایت سکون و اطمینان کے ساتھ محو ِسفر ہیں انہوں نے برضا و رغبت اپنی سواری کی باگیں کسی اور کے حوالے کر رکھی ہیں اور اپنے اس فیصلے پر نازاں وفرحاں، مالک و پروردگار پرکامل توکل کا اظہار کرتے ہوے وہ چلے جارہے ہیں ۔عاصم بھائی کے پہلے شعر میں اقبال کا رنگ تھا اور اولین مجموعہ میں فیض کا آہنگ دوسرا مجموعہ جسے میں دیکھ نہ سکا ہوسکتا ہے فراز کا سا ہولیکن یہ تیسری کتاب یقیناً خالصتاً عاصم واسطی کی اپنی انفرادیت کی حامل ہے اسے پڑھتے ہوئے کسی شاعر کا خیال نہیں آتا"ترا احسان غزل "میں صرف اور صرف عاصم واسطی کی چھاپ ہے ایک ایسی منفردپہچان کہ نہ وہ کسی کے جیسے اور نہ کوئی ان جیسا خود ان کے اپنے الفاظ میں---





    ویسے تو کئی اور تعارف بھی ہیں عاصم
    ہر بزمِ سخن میں مری پہچان غزل ہے

    ڈاکٹر سلیم خان
     
    Last edited by a moderator: ‏فروری 6, 2010
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
  2. m aslam oad

    m aslam oad نوآموز.

    شمولیت:
    ‏نومبر 14, 2008
    پیغامات:
    2,443
    بہت خوب
     
  3. نویدظفرکیانی

    نویدظفرکیانی -: معاون :-

    شمولیت:
    ‏اکتوبر، 1, 2010
    پیغامات:
    15
    بہت خوب
    سیرحاصل مضمون ہے
    شکریہ
     
  4. بنت واحد

    بنت واحد محسن

    شمولیت:
    ‏نومبر 25, 2008
    پیغامات:
    11,962
    بیت خوب
     
  5. ساجد تاج

    ساجد تاج -: رکن مکتبہ اسلامیہ :-

    شمولیت:
    ‏نومبر 24, 2008
    پیغامات:
    38,751
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں