علامہ اقبال اور سنت نبوی از مولانا عبدالغفار حسن رحمانى

عائشہ نے 'تاریخ اسلام / اسلامی واقعات' میں ‏فروری 9, 2010 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. عائشہ

    عائشہ ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏مارچ 30, 2009
    پیغامات:
    24,484

    علامہ اقبال اور سنت نبوی ​


    عام طور پر ايك گروه علامہ اقبال كو منكرين سنت ميں شمار كرتا ہے حالانکہ ان كى نظم ونثر گواہ ہے کہ وه دين مبين ميں سنت كو شرعى حجت مانتے تھے ۔

    1 _ايك خط ميں نشان ہلال کے بارے میں حديث سے استدلال كرتے ہیں: "تمام امت كا صديوں سے اس پر اجماع ہے جن اسلامى قوموں كا نشان اور ہے ، وہ اس نشان پر کبھی معترض نہیں ہوئیں ، اور حديث صحيح ہے کہ ميرى امت كا اجماع كبھی ضلالت پر نہیں ہو گا ۔ اس واسطے اس كو (يعنى نشانِ ہلال كو ضلالت تصور كرنا درست نہیں ہے" ۔( اقبال نامہ ج1، ص 337)

    2 _ "ان (احاديث ) میں ایسے بیش بہا اصول ہیں کہ سوسائٹی باوجود اپنی ترقى اور تعلى کے اب تک ان بلندیوں تک نہیں پہنچی ۔" (حوالہء مذکور ص 102)

    3 _ ایک مرتبہ ايك صاحب نے ان ( علامہ اقبال) کے سامنے بڑے اچنبھےکے انداز میں اس حديث كا ذكر كيا جس ميں بيان ہوا ہے کہ

    رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم "اصحاب ثلاثہ" (حضرات ابو بكر ، عمر، عثمان رضي اللہ عنہم ) کے ساتھ احد پہاڑ پر تشریف رکھتے تھے، اتنے ميں احد لرزنے لگا، اور حضور صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمایا : "ٹھہر جا ، تیرے اوپر ایک نبی ، ایک صدیق اور دو شہداء کےسوا کوئی نہیں ہے "۔ اس پر پہاڑساکن ہو گیا۔

    اقبال نے حدیث سنتے ہی کہا : "اس ميں اچنبھے کی کون سی بات ہے ؟ ميں اس کو استعارہ يا مجاز نہیں بلكہ ايك مادى حقيقت سمجھتا ہوں ، اور ميرے نزديك اس كے لیے کسی تاویل کی ضرورت نہیں ہے ۔اگر تم حقائق سے آگاہ ہوتے تو تمہیں معلوم ہوتا کہ ایک نبی کے نیچے مادے کے بڑے بڑے تودے بھی لرز اٹھتے ہیں ، مجازی نہیں، واقعی لرز اٹھتے ہیں ۔" (جوہرِ اقبال، ص 38، نيز اقبالِ كامل ص 64 تا ص 66)

    جاری ہے ۔۔۔۔۔​

    اقتباس از : عظمتِ حديث : تاليف: مولانا عبدالغفار حسن رحمانى عمر پوری (تغمدہ اللہ برحمتہ ) ، ص 301، ناشر : دارالعلم، آب پارہ مارکیٹ، اسلام آباد ۔
     
  2. عائشہ

    عائشہ ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏مارچ 30, 2009
    پیغامات:
    24,484
    2ـ علامہ اقبال اور سنت نبوی

    4ـ شعر اقبال :
    از بلا ترسى حديث مصطفٰى است

    مرد را روزِ بلا روز صفا است ​
    ( چراغِ رہ اسلامى قانون نمبر ، بحوالہ اقبال نامہ ج 1، ص 152) ​

    مسلمانوں کے زوال كا سبب بيان كرتے ہوئے لکھتے ہیں كہ مسلمانوں کے زوال کا سبب سنت نبوى كو چھوڑ دینا ہے ۔

    تا شعارِ مصطفى از دست رفت

    قومِ را رمزِ حيات از دست رفت​
    (حوالہ مذكور) ​

    لا نبي بعدى ز احسانِ خدا است

    پردہء ناموسِ دینِ مصطفٰی است ​

    (از تلميحاتِ اقبال : مؤلفہ پروفیسر ڈاکٹر اکبر حسین صاحب، بحوالہء رموزِ بے خودی ص 102) ​

    اسى شعر ميں اس روايت كى طرف اشارہ ہے ۔

    [ar]عن سعد بن وقاص رضي الله عنه قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم لعلي : أنت منى بمنزلة هارون من موسى ، الا أنه لا نبي بعدي ۔(متفق عليہ) [/ar]\

    يعنى حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے روايت ہے کہ رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم نے حضرت علي رضي اللہ عنہ سے فرمایا کہ تم ميرے ليے ايسے ہو جیسے موسى عليہ السلام كے ليے ہارون عليہ السلام تھے الا یہ کہ ميرے بعد كوئى نبى نہیں ہے ۔

    جاری ہے ۔۔۔۔​
     
  3. عائشہ

    عائشہ ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏مارچ 30, 2009
    پیغامات:
    24,484
    آں امنّ النّاس بر مولائے ما

    آں کلیم اول سینائے ما​
    ( حوالہ مذكور: ص 156) ​

    اس شعر ميں حضرت ابو بكر صديق كے فضائل میں جو روایت ہے اس كى طرف اشارہ ہے :

    [ar]ان من أمن الناس علي في صحبته أبو بكر ، ولو كنت متخذا خليلا لاتخذت أبابكر خليلا ۔ (متفق عليه) [/ar]

    يعنى رسول اكرم صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ لوگوں میں حسن سلوک کے اعتبار سے سب سے زیادہ احسان مجھ پر ابوبکر نے کیا ہے ، اگر میں کسی کو ( اللہ تعالی کے علاوہ ) خلیل بناتا تو ابوبکر کو خلیل بناتا ۔

    مزيد ايك شعر ملاحظہ ہو :

    بمصطفى برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست

    گر بہ او نہ رسیدی تمام بو لہبی است​


    اقتباس از : عظمتِ حديث : تاليف: مولانا عبدالغفار حسن رحمانى عمر پوری (تغمدہ اللہ برحمتہ ) ، ص -302 301، ناشر : دارالعلم، آب پارہ مارکیٹ، اسلام آباد ۔
     
  4. محمد زاہد بن فیض

    محمد زاہد بن فیض نوآموز.

    شمولیت:
    ‏جنوری 2, 2010
    پیغامات:
    3,702
    جی سسٹر آپ نے ٹھیک لکھا ہے علامہ اقبال کی شاعری میں توحید کی جھلک نظر آتی ہے۔اور یہی وجہ ہے کے علماء کی اکثریت انہی کی اشعار کو اپنی تقاریر میں کہتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

    لیکن ایک شعر ہے جو میری سمجھ میں‌نہیں آ رہا پلیز سمجھا دیں۔

    جس کا آخری مصرعہ ہے
    ،،اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد،،،
    اس کا کیا مقصد ہے نعوز با اللہ کیا کربلا سے پہلے اسلام زندہ نہیں تھا؟؟؟؟
     
  5. عائشہ

    عائشہ ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏مارچ 30, 2009
    پیغامات:
    24,484
    قتل حسین اصل میں مرگِ یزید ہے
    اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد

    یہ شعر اقبال کا نہیں ہے !
     
  6. جاسم منیر

    جاسم منیر Web Master

    شمولیت:
    ‏ستمبر 17, 2009
    پیغامات:
    4,636
    جزاک اللہ خیر عین سسٹر
     
  7. dani

    dani نوآموز.

    شمولیت:
    ‏اکتوبر، 16, 2009
    پیغامات:
    4,329

    اس میں ان کے لیے نصیحت ہے جو قرآنی آیات اور احادیث کی عجیب تاویلیں کرتے ہیں ۔ فلسفہ جان کر بھی اقبا ل نے حدیث کو مجازا لے کراس کی تاویل نہیں کی۔

    مولانا محمد علی جوہر کا ہے
     
  8. رفی

    رفی -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏اگست 8, 2007
    پیغامات:
    12,395
  9. الطحاوی

    الطحاوی -: منفرد :-

    شمولیت:
    ‏دسمبر 5, 2008
    پیغامات:
    1,825
    دور حیات آئے گا قاتل، قضا کے بعد
    ہے ابتدا ہماری تری انتہا کے بعد

    جینا وہ کیا کہ دل میں نہ ہو تیری آرزو
    باقی ہے موت ہی دلِ بے مدعا کے بعد

    تجھ سے مقابلے کی کسے تاب ہے ولے
    میرا لہو بھی خوب ہے تیری حنا کے بعد

    لذت ہنوز مائدہء عشق میں نہیں
    آتا ہے لطفِ جرمِ تمنا سزا کے بعد

    قتلِ حسین اصل میں مرگِ یزید ہے
    اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد ​

    مولانا محمد علی جوہر کی یہ مکمل غزل پیش خدمت ہے۔جس کے ایک شعرپر بحث ومباحثہ ہورہاہے۔ویسے اگر تھوڑاحسن ظن اورشاعر کو گھماپھراکر اپنی بات کہنے کے حق کو ماناجائے تواس شعرجس پر اعتراض ہے اس کی بھی اچھی تاویل ہوسکتی ہے۔
    شعر کا یہ مطلب بھی لیاجاسکتاہے کہ اسلام کے عروج کیلئے بڑی قربانی کی ضرورت ہے اورجب جب مسلمانوں نے بڑی قربانیاں دی ہیں اسلام اوراس کے طفیل میں خود مسلمانوں کو عروج حاصل ہواہے۔ اس شعر میں انہوں نے اہل حق کے استعارے کے طورپر امام حسین اوراہل باطل کیلئے یزید کو اوراہل حق وباطل کے درمیان معرکہ کیلئے واقعہ کربلاکوبطوراستعارہ استعمال کیاہے۔اب ان کا یہ استعارہ مستعار لیناکہاں تک درست ہے اس پر بات ہوسکتی ہے۔لیکن کم ازکم مولانا محمد علی جوہر کو صرف اس شعر کی وجہ سے شیعت سے متاثر قراردینادرست نہیں ہے۔جب کہ اس کی ایک بہترتاویل بھی ہوسکتی ہو۔
     
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں