واٹس ایپ گروپ" اسلامیات" کے سوالات اور ان کے جوابات

مقبول احمد سلفی نے 'اتباعِ قرآن و سنت' میں ‏جولائی 26, 2017 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. مقبول احمد سلفی

    مقبول احمد سلفی ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏اگست 11, 2015
    پیغامات:
    871
    کرونا وائرس سے متعلق مسائل اور ان کا شرعی حل

    جوابات از شیخ مقبول احمد سلفی
    اسلامک دعوۃ سنٹر، مسرہ (طائف) سعودی عرب

    ایک وبا کی وجہ سے پوری دنیا میں خوف کا ماحول بنا ہواہے، لاکھوں لوگ اس کی لپیٹ میں ہیں اور ہزاروں کی موت بھی واقع ہوچکی ہے ، روز بروز اموات کا سلسلہ جاری ہے اور وائرس کی خطرناکی مزید بڑھنے کا امکان ہے ۔ایسےمیں ہر ملک احتیاطی تدابیر اپنارہا ہے ، مسلمان ممالک اور مسلمانوں کے لئے بھی اس مرض کی وجہ سے معاملات سے لیکر عبادات تک میں کئی قسم کے مسائل پیدا ہوگئے ہیں ، ان میں سے افادہ عام کے لئے چند مسائل کا شرعی حل آپ کی خدمت میں پیش کررہا ہوں ۔

    سوال (1): یہ کرونا وائرس کیا ہے ، عذاب ہے ، بیماری ہے یا پھر گناہوں کی سزا ہے ؟
    جواب : کرونا وائرس کو ہوبہو طاعون نہیں کہا جائے گا مگر طاعون کی طرح یہ بھی ایک قسم کا وبائی مرض ہے جو میل جول سے ایک دوسرے میں سرایت کرتا ہے ۔ طاعون کی حدیث مدنظر رکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ کرونا وائرس بھی طاعون کی طرح ایک قسم کا عذاب ہے اور عذاب گناہوں کی سزا ہی ہوتی ہے لیکن حقیقی مومنوں کے حق میں رحمت ہے ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کہ وہ بیان کرتی ہیں :سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الطَّاعُونِ فَأَخْبَرَنِي أَنَّهُ عَذَابٌ يَبْعَثُهُ اللَّهُ عَلَى مَنْ يَشَاءُ ، وَأَنَّ اللَّهَ جَعَلَهُ رَحْمَةً لِلْمُؤْمِنِينَ لَيْسَ مِنْ أَحَدٍ يَقَعُ الطَّاعُونُ فَيَمْكُثُ فِي بَلَدِهِ صَابِرًا مُحْتَسِبًا يَعْلَمُ أَنَّهُ لَا يُصِيبُهُ إِلَّا مَا كَتَبَ اللَّهُ لَهُ إِلَّا كَانَ لَهُ مِثْلُ أَجْرِ شَهِيدٍ.(صحيح البخاري:3474)
    ترجمہ: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے طاعون کے بارے میں پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ ایک عذاب ہے، اللہ تعالیٰ جس پر چاہتا ہے بھیجتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے اس کو مومنوں کے لیے رحمت بنا دیا ہے۔ اگر کسی شخص کی بستی میں طاعون پھیل جائے اور وہ صبر کے ساتھ اللہ کی رحمت سے امید لگائے ہوئے وہیں ٹھہرا رہے کہ ہو گا وہی جو اللہ تعالیٰ نے قسمت میں لکھا ہے تو اسے شہید کے برابر ثواب ملے گا۔
    اس دور کے مسلمان اکثر گمراہ اورکمزور ایمان والے ہیں اس لئے یہ بھی ممکن ہےکہ شرک وبدعت میں ملوث لوگوں ، حرام کاروبار کرنے والوں ، بے حیائی کا ارتکاب کرنے والو ں اور گمراہ لوگوں کے حق میں تنبیہ وسزا ہو۔

    سوال(2): وبائی مرض کے خوف سے ترک جماعت اور گھروں میں نماز پڑھنے کا حکم کیا ہے ؟
    جواب : متعدد احادیث سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ شدید بارش یا تیز آندھی و طوفان کی وجہ سے لوگوں کو اپنے گھروں میں نماز کا حکم دیا جاسکتا ہے چنانچہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے ایک ٹھنڈی اور برسات کی رات میں اذان دی، پھر یوں پکار کر کہہ دیا «ألا صلوا في الرحال‏» کہ لوگو! اپنی قیام گاہوں پر ہی نماز پڑھ لو پھر فرمایا:
    إنَّ رَسولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ كانَ يَأْمُرُ المُؤَذِّنَ إذَا كَانَتْ لَيْلَةٌ ذَاتُ بَرْدٍ ومَطَرٍ، يقولُ: ألَا صَلُّوا في الرِّحَالِ(صحيح البخاري:666)
    ترجمہ:نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سردی و بارش کی راتوں میں مؤذن کو حکم دیتے تھے کہ وہ اعلان کر دے کہ لوگو اپنی قیام گاہوں پر ہی نماز پڑھ لو۔
    جب محض جسمانی مشقت کی وجہ سے شریعت ہمیں شدیدبارش کے وقت گھروں میں نماز ادا کرنے کی اجازت دیتی ہے تو جہاں جان کا خطرہ ہو وہاں گھروں میں نماز ادا کرنا بدوجہ اولی جائز ہوگا۔نیز وہ تمام احادیث بھی دلیل ہیں جن میں نقصان سے بچنے اور جان کو ہلاکت میں ڈالنے سے منع کیا گیا ہے۔بڑی آسانی سے یہ بات سمجھ سکتے ہیں کہ جان بچانے کی غرض سے خنزیر کا گوشت کھانا جائز ہے تو کرونا وائرس کے خوف سے جس میں جان کا جانے کا ٖخدشہ ہے کیوں نہیں گھر میں نماز پڑھ سکتے ہیں ؟

    سوال(3): قرآن کی روشنی میں کیا مساجد بند کرنے والاظالم نہیں قرا رپائے گا؟
    جواب : بطور ضرورت ومصلحت مساجد بند کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے جیساکہ خانہ کعبہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے سے بند ہے جبکہ اس میں خود آپ ﷺنے نماز ادا کی ہیں ۔ہرمسلمان اس میں نماز پڑھنے کی خواہش رکھتا ہے مگرفتنہ کے سبب اس کا دروازہ بند کردیا گیا ہے اور وہ روئے زمین کی سب سے عظیم اور اول مسجد ہے ۔ اسی طرح دنیا کی تما م مساجد نماز کے بعد غیراوقات میں بند رکھی جاتیں ہیں ۔سورہ بقرہ آیت 114 میں اللہ کے ذکر سے روکنے اور مسجد کو خراب وبرباد کرنے والے سے مراد یا تو عیسائی ہیں جنہوں نے یہودیوں کو بیت المقدس میں نماز سے روکا اور مسجد کو نقصان پہنچایا یا مشرکین مکہ ہیں جو مسلمانوں کو خانہ کعبہ میں عبادت سے روکتے۔ اس سے وہ لوگ بھی مراد ہوسکتے ہیں جو مسجد میں عبادت سے روکتے ہیں اور مسجد کو ڈھانے اور نقصان پہنچانے کا کام کرتے ہیں لیکن وقتی طور پر ضرورت ومصلحت کے تئیں مساجد بندکرنے والا ہرگز ظالم نہیں ہے ۔

    سوال(4): اہل خانہ مل کر گھر میں جمعہ کی نماز ادا کرسکتے ہیں؟
    جواب : گھر میں جمعہ کی نماز نہیں ہوگی کیونکہ شریعت میں ایسی کوئی دلیل نہیں ہے ، شریعت کئی مواقع سے اس بات کی اجازت دیتی ہے کہ اگر جمعہ کےدن کسی عذر کی وجہ سے نمازجمعہ ادا نہ کرسکیں تو اس کے بدلے ظہر کی نماز ادا کرلیں ۔ آج کل کرونا وائرس کی وجہ سے اکثر ممالک میں مساجد میں باجماعت نماز پڑھنے سے منع کردیا گیا ہے ۔ اس حال میں پنج وقتہ نمازیں گھر میں ادا کرنی ہیں اور جمعہ کے دن گھر میں نماز جمعہ نہیں پڑھنی ہے بلکہ ظہر کی نماز ادا کرنی ہے اوراہل خانہ ایک ساتھ مل کر نماز ادا کریں تو جماعت کا اجر ملے گا۔

    سوال(5): جب مسجد میں اذان ہو اور جماعت کی آواز آئے تو اپنے گھروں میں اقتداء کرسکتے ہیں ؟
    جواب : بروقت مساجد میں صرف اذان ہورہی اور لوگ اپنے اپنے گھروں میں نماز ادا کررہے ہیں ،فقط مؤذن ، امام اوردوایک لوگ مل کر وہاں نماز پڑھ رہے ہوں گے۔ اگر کہیں پر مسجد سے جماعت کرانے کی آواز آرہی ہے تب بھی اپنے گھروں میں اس جماعت کی اقتداء نہیں کریں گے ۔مسجد کی جماعت کی اقتداء مسجد میں ہی کریں گے ۔

    سوال(6): ایک میسج گردش کررہا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ کرونا وائرس سے حفاظت کے لئے روزانہ پوری قوم ٹھیک دس بچے اپنے اپنے گھروں کی چھت پر اور مؤذن حضرات مساجد میں ایک ساتھ اذان دیں ، اس پیغام کی کیا حقیقت ہے ؟
    جواب : اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اذان برکت ورحمت کا سبب ہے مگر ہم کسی بھی عمل میں شریعت کے پابند ہیں ۔ ہمیں اسلام نے جہاں پر اذان دینے کا حکم دیا ہے وہیں اذان دیں گے ۔ الحمد للہ آج بھی جبکہ لوگ گھروں میں نماز ادا کررہے ہیں مساجد سے پانچ اوقات اذان ہورہی ہیں ، اللہ کی رحمت وبرکت کے لئے کے حصول کے لئےیہ اذانیں کافی ہیں ۔ بارش کی نماز، جنازہ کی نماز، عیدین کی نماز، سورج گرہن کی نماز،چاند گرہن کی نماز ، جب ان نمازوں کے لئے اپنی طرف سے اذان نہیں دے سکتے تو بلاؤں کو ٹالنے کے لئے گھر کی چھت سے کیسے اذان دے سکتے ہیں ؟ یہ بھی یاد رہے مصیبت دور کرنے کے لئے اذان دینے سے متعلق کوئی صحیح حدیث نہیں ہے اس لئے اپنے گھروں کی چھت سے اذان دینا بدعت ہے اور بدعت کے کام سے آپ مصیبت کو دور نہیں بھگا سکتے ہیں بلکہ اور مصیبت مول لے سکتے ہیں ۔

    سوال (6): کرونا وائرس سے بچنے کی کیا دعا ہے ؟
    جواب : سیدھی بات سن لیں کہ کرونا وائرس سے حفاظت کے لئے کوئی مخصوص دعا نہیں ہے لیکن احادیث میں بیماری سے بچنے کے لئے کئی ساری دعائیں ہیں ، آپ ان دعاؤں کو پڑھ سکتے ہیں ۔ بعض لوگوں نے یہ مشہور کردیا ہے کہ یہ دعا کرونا وائرس کی ہےجبکہ یہ بات غلط ہے۔
    اللهم إنِّي أعوذُ بك من البَرَصِ و الجنونِ و الجُذامِ ، و من سَيِّئِ الأسقامِ(صحيح ابي داؤد:1554)
    ترجمہ:اے اللہ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں برص، دیوانگی، کوڑھ اور تمام بری بیماریوں سے۔
    یہ دعا خاص کرونا وائرس کے لئے نہیں ہے لیکن بیماریوں سے حفاظت کے لئےیہ دعا اور دیگر مسنون دعائیں پڑھ سکتے ہیں ۔

    سوال(7): ابھی جو خوف وہراس کا ماحول ہے ایسے ماحول میں ہمیں کیا کرنا چاہئے ؟
    جواب : اس وقت اللہ کی طرف رجوع کرنے کا موقع ہے ۔ ہم نے زندگی میں کس قدر گناہ کئے ، فرائض وواجبات سے غفلت برتیں، اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کیں ۔ ان تمام گناہوں سے توبہ کرنے اور اللہ پرتوکل وایمان مضبوط کرنے کا وقت ہے ۔

    سوال(8): کرونا وائرس سے مرنے والے کو شہید کہہ سکتے ہیں ؟
    جواب : طاعون والی حدیث کو مدنظر رکھتے ہوئے کہاجائے گا کہ کسی قسم کے وبائی مرض سے مرنے والا شہید کہلائے گا جیساکہ نبی ﷺ کا فرمان ہے :
    مَن ماتَ في الطَّاعُونِ فَهو شَهِيدٌ(صحيح مسلم:1915)
    ترجمہ:جو طاعون (وبا) میں وفات پاجائے وہ شہید ہے۔
    بلکہ اگر کوئی وبائی جگہ پر موجود ہو ، صبر سے کام لے اور اللہ سے اجر کی امید لگائے تو اسے شہید کا اجر ملے گا اگرچہ اس کی موت نہ ہو۔

    سوال (9): جو کرونا وائرس سے مرتا ہے اس کا چھونا یا اس کے قریب جانا مضر ہے ایسے میں اس کو کیسے غسل دیا جائے گا اور کیسےجنازہ پڑھا جائے گا اور کیسےتدفین عمل میں آئے گی ؟
    جواب : مسلمان میت کو غسل دینا، کفن دینا اور نماز جنازہ پڑھ کرمسلمانوں کے قبرستان میں دفن کرنا ان کے حقوق میں سے ہیں ۔ کرونا وائرس کے میت کے حقوق بھی ادا کئے جائیں گے ۔ یہ صحیح ہے کہ اس مریض سے اختلاط مضر ہے تاہم جیسے مریض کا احتیاط سے علاج کیا جاتا ہے اسی طرح احتیاط سے غسل بھی دیا جائے گا، کفن بھی پہنایا جائے گا اور زیادہ لوگ جنازہ میں حاضر نہ سکیں تو چند افراد ہی سہی نمازجنازہ ادا کرکے مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کریں گے ۔ ممکن ہے کسی ملک میں حکومت کی طرف سے غسل(تیمم بھی) اور کفن دینے پر پابندی ہو وہاں مسلمان معذورہیں ، وہ میت کی نمازجنازہ ادا کرکے دفن کردیں گے ۔جولوگ میت کے پاس نماز جنازہ نہ ادا کرسکیں وہ دوسری جگہ غائبانہ نمازجنازہ ادا کرلیں ۔

    سوال(10): پاکستان کے مفتی تقی عثمانی کی جانب سے ایک میسج میں کہاگیا ہے کہ ان کو کسی نے کہا کہ انہیں نبی ﷺ کی زیارت نصیب ہوئی ، آپ نے انہیں کرونا وائرس کا علاج بتلایاکہ صبح وشام سورہ فاتحہ تین مرتبہ ، سورہ اخلاص تین مرتبہ اور حسبنا اللہ ونعم الوکیل تین سو تیرہ مرتبہ پڑھنا ہے ۔ اس خواب کی شرعی حیثیت کیا ہے؟
    جواب : خواب میں ایک مومن کو رسول اللہ ﷺ کی زیارت نصیب ہوسکتی ہے مگر خواب سے اب کوئی رسالت کا پیغام نہیں آسکتا ہے کیونکہ اللہ تعالی نے آپ ﷺ کی حیات مبارکہ میں ہی دین اسلام کو مکمل کردیا ۔اس لئے شریعت کے نصوص سےصا ف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ خواب دیکھنے والااور خواب بیان کرنے والا سراسر جھوٹا ہے ۔ اللہ ان سب کو ہدایت دے اور اس جھوٹ سے توبہ کرنے کی توفیق دے ۔

    سوال(11): سارا ملک جب کرونا وائرس کی ہیبت میں ہے ایسے میں لوگ سوشل میڈیا پر درود تنجیناکثرت سے شیئر کررہے ہیں، کیا ہمیں اسے پڑھنا چاہئے اور دوسروں میں شیئر کرنا چاہئے ؟
    جواب : عوام میں درود تنجینا کو کافی شہرت حاصل ہے ، بدعتیوں میں مختلف مواقع پر کثرت سے اس کا وردکیا جاتا ہے مثلا بیماری سے شفا، مشکلات سے نجات اور قضائے حاجت کے طور پر ۔ دراصل یہ بناوٹی درود ہے ، کسی بزرگ شیخ موسی کی طرف منسوب ہے جب وہ ایک قافلے کے ساتھ ایک بحری جہاز میں سفر کر رہے تھے کہ جہاز طوفان کی زد میں آگیا۔ یہ طوفان قہرِ خداوندی بن کر جہاز کو ہلانے لگا،لوگوں کو یقین ہوگیاکہ جہاز ڈوبنے والا ہے اور سب مر جائیں گے، اسی عالم افراتفری میں ان پر نیند کا غلبہ ہو گیا اور نبی خواب میں آئے، بزرگ اور ان کے ساتھیوں کو یہ درود ہزار بار پڑھنے کا حکم دیا ۔ بیدار ہوکروہ اپنے دوستوں کے ساتھ درود پڑھنا شروع کیا،ابھی تین سو بار ہی پڑھا تھا کہ طوفان کا زور کم ہونے لگا۔ آہستہ آہستہ طوفان رُک گیا اور تھوڑے ہی وقت میں آسمان صاف ہو گیا اور سمندر کی سطح پُر امن ہو گئی۔ اس درود پاک کی برکت سے تمام جہاز والوں کو نجات مل گئی۔
    یہ سراسر جھوٹ ہے ، اس واقعہ سے ہی جھوٹ پکڑ سکتے ہیں کہ اس بزرگ کو طوفان کے وقت کیسےنیند آگئی یعنی جب لوگ مرنے والے ہیں اور جہاز ڈوبنے والا ہے اس وقت کس کو نیند آتی ہے اور ویسے بھی یہ واقعہ وفات رسول کے کئی صدی بعد کا ہے جبکہ دین عہد رسول میں ہی مکمل ہوگیا اور پھر یہ واقعہ خواب کا ہے اور خواب سے تو ہرگز دلیل نہیں پکڑی جائے گی ۔ اس لئے نہ آپ لوگ درود تنجینا پڑھیں اور نہ ہی سوشل میڈیا پر اسے شیئر کریں بلکہ جو لوگ ایسا کررہے ہیں انہیں اس کے جھوٹ ہونے کی حقیقت بتائیں ۔

    سوال (12): ہم نے مشاہدہ تو نہیں کیا ہے لیکن بہت سارے لوگوں سے بطور خاص خواتین سے سنا ہے کہ سورہ بقرہ پڑھنے سے قرآن میں بال نکل آئے اور اس بال کو پانی میں ڈبوکر پینے سے کرونا وائرس ختم ہوجاتا ہے کیا یہ بات سچ ہے ؟
    جواب : مسلمانوں کو کیا ہوگیا کہ جب مصیب کا وقت آتا ہے تو ایمان اور بھی کمزور ہوجاتا ہے اور غلط طریقے سے مصیبت دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں ؟ قرآن میں بال نکلنےکی کوئی حقیقت نہیں ہے ،یہ جھوٹ ہے جو کسی نے لوگوں میں پھیلادیا ہے ۔ہوسکتا ہے کوئی سورہ بقرہ کی تلاوت کررہاہو اور اس کے سر سے بال ٹوٹ کر قرآن پرگیا ہو اس نے سمجھ لیا کہ قرآن سے ہی بال نکلاہے ۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے ایک مرتبہ ایک عورت بچے کی نجاست صاف کررہی تھی اچانک رمضان کا چاند نکلنے کا شور ہوا ، اس کےہاتھ میں نجاست لگی تھی وہ اس ہاتھ کو آنکھ کے اوپر رکھ چاند دیکھنے لگی اور پھر لوگوں میں شور کرنے لگی کہ ہاں چاند تو نکل گیا ہے مگر اس سے بدبو آرہی ہے، دراصل اس عورت کو اپنے ہی ہاتھ کی بدبو محسوس ہورہی تھی ۔ بہرکیف! قرآن سے بال نکلنے والی بات جھوٹ ہے اس پر اعتماد نہ کیا جائے ، اگرخدانخواستہ کسی کے قرآن سے بال نکلے تو سمجھیں کہ خود کے یا کسی دوسرےکے سر سے گراہوگا۔

    سوال (13): بعض لوگ کرونا وائرس کی خطرناکی کو نہیں سمجھ رہے ہیں اور کہتے ہیں کہ موت آنی ہے تو آکر رہے گی ، اس سے کیا ڈرنالہذا وہ نہ تو بھیڑ سے ڈرتے ہیں اور نہ ہی لوگوں سے ملنے جلنے سے باز آتے ہیں ایسے حالات میں یہ سوچنا کیسا ہے ؟
    جواب : یہ حماقت ہے ، جن چیزوں میں خطرہ ہو اسلام ان خطرات سے بچنےکا حکم دیتا ہے ، کرونا وائرس ایک وبائی مرض ہے جو اختلاط کی وجہ سے ایک سےدوسرے کو لگتا ہے لہذا جس شخص کو یہ مرض لاحق ہو یا جہاں جمع ہونے سے مرض پھیلنے کاخطرہ ہواس سے دوری اختیار کرنا کوئی غلط نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ نبی ﷺ نے طاعون پھیلی جگہ جانے سے ہمیں منع فرمایاہے ۔

    سوال(14): کیا علماء چیخ چیخ کر صرف تقریر ہی کرتے رہیں گے یا قرآن میں رسرچ کرکے کوئی دوا ایجاد کریں گے کیونکہ قرآن میں ہرمسئلے کا حل موجود ہے ہم تو دیکھ رہے ہیں آپ حضرات یہودونصاری کے انتظار میں ہیں کہ وہ کوئی دوا ایجاد کرے جن کی مخالفت میں زندگی گزارتے ہیں؟
    جواب : نبی ﷺ نے علماء کو انبیاء کا وارث قرار دیا ہے اور انبیاء داعی الی اللہ ہوتے ہیں، بنایں سبب علمائے امت بھی قرآن وحدیث کی دعوت لوگوں میں عام کرتے ہیں ۔ قرآن کریم نوروحکمت کی کتاب ہے ،یہ انگریزی دواؤں کی کتاب نہیں ہے کہ علماء اس میں رسرچ کرکے دوا ایجاد کرتے رہیں ۔اگر یہ بات آپ علماء سے کہہ رہے ہیں تو کیااللہ اور اس کے رسول سے بھی شکایت کریں گےکہ انہوں نے قرآن میں قیامت تک آنے والی بیماری کا علاج نہیں بتلایا؟ اللہ کے رسول نے کوڑھ اورطاعون سے بچنے کی تعلیم دی مگر کوڑھی اورطاعون زدہ شخص کا علاج نہیں بتلایا، حضرت عمر نے طاعون عمواس میں ہزاروں مسلمانوں کو مرتا چھوڑدیا انہوں نے کوئی دوا بناکر مسلمانوں کو نہیں بچایا؟
    یہاں ایک بات اہم یہ ہے کہ کوئی چائنا کی طرح گندا کام ہی کیوں کرے کہ یہ ایسی خطرنا ک بیماری پھیل جائے اور دوسری بات یہ ہے کہ اگر یہ وائرس عذاب ہے تو اسے اللہ ہی ٹال سکتا ہے اور تیسری بات یہ ہے کہ یہودونصاری کی مخالفت صرف مذہبی چیزوں میں ہے دنیاوی معاملات میں نہیں۔

    سوال(15): کرونا لاحق ہونے کے خوف سے لوگ مختلف قسم کے اذکار اور متعین سورتیں مثلا سورہ نوح یا سورہ بقرہ یا سورہ یسین پڑھ رہے ہیں ، ایک صحیح العقیدہ مسلمان کو کس قسم کی دعائیں اور اذکار پڑھنا چاہئے ؟
    جواب: ایک بات اچھی طرح سمجھ لیں کہ کرونا وائر س دور کرنے کے لئے اسلام میں کوئی مخصوص ذکر، مخصوص سورہ، مخصوص نمازاور کوئی مخصوص طریقہ نہیں ہے ۔ جو لوگ کرونا وائرس بھگانے کے لئے سورہ نوح پڑھ رہے ہیں یا کوئی مخصوص ذکر کررہے ہیں یا مخصوص نماز پڑھ رہے ہیں ، یا اجتماعی روزہ رکھ رہے ہیں یا چھت پر اذان دے رہے ہیں یا درود تنجینا پڑھ رہے ہیں سب بدعات وخرافات میں ملوث ہیں ۔ یقینا یہ وقت بڑی مشکل کا ہے ،ایسے وقت میں ہمیں اللہ کی طرف رجوع کرنا چاہئے ، اپنے گناہوں کو یاد کرکے اس سے معافی مانگنی چاہئے اورگریہ وزاری کے ساتھ دعائیں کرنی چاہئے ۔

    سوال(16): حدیث میں مذکور ہے کہ مدینہ میں طاعون داخل نہیں ہوگا مگر آج کل مدینہ میں وبائی مرض کرونا وائرس کا خطرہ ہے اور لوگوں کو اپنے گھروں میں محصور کردیا ہے پھر حدیث کا کیا جواب ہوگا؟
    جواب : واقعی یہ پیشین گوئی رسول اللہ ﷺ کی صحیحین میں موجود ہے اور ہمیں آپ کی بات پر سو فیصد یقین ہے کہ یہ پیشین گوئی برحق ہے ۔ آپ کی پیشین گوئی ہرقسم کے وبائی امراض کے بارے میں نہیں ہے بلکہ خاص طاعون کے بارے میں ہے یعنی مدینہ میں کبھی طاعون نہیں پھیلے گاتاہم دوسرے امراض اور دوسری قسم کی وبا پھیل سکتی ہے جیساکہ عہد عمر میں مدینہ میں ایسی وبا پھیلی تھی جس میں کثرت سے لوگ مر رہے تھے ۔

    سوال (17): آج ہم دیکھتے ہیں کرونا وائرس کی وجہ سے طواف رک گیا ، عمرہ بند ہے ،ممکن ہے حج بھی ملتوی ہوجائے ، کیایہ قیامت کی نشانی نہیں ہے جیساکہ حدیث میں ہے قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی جب تک بیت اللہ کا حج نہ رک جائے ؟
    جواب : ابھی وقتی طور پر لوگوں کو طواف وعمرہ سے روکا گیا ہے پھر شروع کیا جائے گاجبکہ حج کے بارے میں تو قطعی فیصلہ نہیں ہوا ہے کہ امسال ہوگا کہ نہیں ہوگا۔ قیامت کے قریب جب حج بیت اللہ روک دیا جائے گا اس وقت اور بھی قیامت کی نشانیاں ظہورپذیر ہوں گی مثلا صحیح بخاری (1593) میں ہے کہ یاجوج و ماجوج کے نکلنے کے بعد بھی حج وعمرہ ہوگا جبکہ ابھی تو جاجوج و ماجوج کا ظہور بھی نہیں ہوا پھر کرونا وائرس کی وجہ سے وقتی طورپر عمرہ اور طواف بند کئے جانے کو قیامت کی نشانی کیسے قرار دی جائے گی ۔ ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ زمانہ ماضی میں کتنی بار حج وعمرہ بند ہوچکا ہے، یہ کوئی پہلی بار نہیں ہے کہ طواف بیت اللہ بند ہوا ہے۔

    سوال (18): بعض علاقوں میں وائرس کو بھگانے کے لئے لوگ ایک ساتھ روزہ رکھ رہے ہیں اور مخصوص قسم کی نمازیں پڑھ رہے ہیں کیا ہمیں ان کے ساتھ ایسا کرنا چاہئے ؟
    جواب : یہ بدعت ہے اس طریقے سے وائرس بھاگے گا نہیں اور بھی بڑھے گا کیونکہ غلط طریقے سے بیماری کا علاج کرنے پر یقینی ہے کہ بیماری میں مزید اضافہ ہوگا۔ مصیبت کے وقت ہمیں نبی ﷺسے روزہ رکھنے کا ثبوت نہیں ملتا ہے ، ہاں پریشانی اور گھبراہٹ کے وقت نمازیں پڑھ سکتے ہیں مگر مخصوص طریقے پر نہیں کہ فلاں فلاں رکعت میں اتنی اتنی بار فلاں فلاں سورہ اور نماز بعد فلاں ذکر اتنی دفعہ اور فلاں دعا اتنی دفعہ ۔ اس سے پہلے فرائض اداکریں یعنی پانچ وقت کی فرض نماز ادا ہی نہ کریں ،صرف چند اذکار پڑھ لیں یا ایک وقت کی نفل نماز کریں تو اس سے کچھ نہیں ہوگا۔

    سوال (19): آپ سے ایک سوال ہے کہ آج کل جس قسم کے حالات ہیں ایسے میں قنوت نازلہ پڑھنا صحیح ہے اور دعا میں بیماریوں کی دعائیں بھی پڑھ سکتے ہیں ؟
    جواب : نازلہ مصیبت کو کہتے ہیں اور قنوت دعا کا نام ہے یعنی مصیبت کے وقت دعا کرنا قنوت نازلہ ہے۔کرونا وائرس ایسی مصیبت وبلا ہے جس کی لپیٹ میں ساری دنیا ہے ایسے میں دفع بلا کی غرض سے فرض نمازوں میں قنوت نازلہ پڑھی جاسکتی ہے اور چونکہ قنوت نازلہ کی دعائیں خاص نہیں ہیں اس وجہ سے تمام قسم کی ماثورہ دعائیں پڑھ سکتے ہیں ۔قنوت نازلہ کے علاوہ درمیان نماز ، نماز کے بعد اور تمام افضل اوقات میں بیماریوں سے حفاظت اور دفع بلاء کی دعا مانگ سکتے ہیں ۔

    سوال (20): اذان میں صلوا فی رحالکم کب کہنا ہے اور اس کے جواب میں اذان سننے والا کیا کہے گا؟
    جواب : جب شدید بارش ہو یا شدید ٹھنڈک ہواور لوگوں کو مسجد پہنچنے میں کلفت کا سامنا ہو تو مؤذن مسجد میں اذان دے گا اور حی علی الصلاۃ کی جگہ دومرتبہ صلوا فی رحالکم کہے گا اور بقیہ کلمات حی علی الفلاح ، حی علی الفلاح ، اللہ اکبر اللہ اکبر ، لاالہ الااللہ تک مکمل کرے گا۔ صلوا فی رحالکم کے جواب میں کچھ نہیں کہاجائے گا کیونکہ یہ اذان کے کلمات نہیں ہیں ۔

    سوال(21): کیا ماسک لگاکر نماز پڑھ سکتے ہیں ؟
    جواب : گوکہ بحالت نماز منہ ڈھکنے سے منع کیا گیاہے مگر ان دنوں کرونا وائرس پھیلنے کے ڈر سے ماسک لگانا ضرورت ہے لہذا ایسی جگہ جہاں چند افراد اکٹھاہو کر نماز پڑھ رہے ہوں وہاں ماسک لگا سکتے ہیں اور جہاں آپ اکیلے نماز پڑھ رہے ہیں وہاں ماسک کی ضرورت نہیں رہتی وہاں بغیر ماسک نماز پڑھیں۔

    سوال(22): گھر میں جماعت بنانے کا طریقہ کار کیا ہوگا؟
    جواب : گھر میں جب فرض نماز پڑھیں تو بہترہے کہ گھر کے تمام افراد ایک ساتھ پڑھیں تاکہ جماعت کا ثواب ملے ۔ اس کا طریقہ یہ ہوگا کہ مرد امام کے پیچھے مرد کھڑے ہوں اور مرد کے پیچھے عورتیں کھڑی ہوں یعنی عورتیں مرد کی صف میں کھڑی نہیں ہوسکتی بلکہ مرد کے پیچھے کھڑی ہوں گی حتی کہ بیوی بھی شوہر کے بغل میں کھڑی نہیں ہوسکتی،میاں بیوی دونوں مل کر نماز پڑھیں تب بھی شوہر آگے اور بیوی پیچھے ۔دو مرد جماعت سے پڑھیں تو مقتدی امام کے دائیں کھڑا ہوگا۔ایک عورت دوسری عورتوں کی امامت کراسکتی ہے ، ان کا امام درمیان میں ہوگا اور کوئی عورت مرد کی امامت نہیں کراسکتی ہے نہ ہی عورتوں کی جماعت میں کوئی مرد شامل ہوسکتا ہے ۔

    سوال(23): آج کل لوگ احتیاطی طور پر ایک دوسرے سے مصافحہ کرنے سے کترارہے ہیں ، اس میں کوئی گناہ تو نہیں ہے ؟
    جواب : اس میں کوئی گناہ نہیں ہے ، نبی ﷺ نے ایک کوڑھی سے ہاتھ نہیں ملایا اس لئے ہمیں سنت سے بھی دلیل ملتی ہے کہ مجبوری میں مصافحہ ترک کرسکتے ہیں اور سلام کے ساتھ مصافحہ کرنا ضروری بھی نہیں ہے یہ مسنون عمل ہے۔

    سوال (24): کرونا وائرس سے دنیا میں ہزاروں لوگ مر گئے ، اگر یہ اللہ کا عذاب ہے تو اس میں ہمارے لئے کوئی نصیحت ہے ؟
    جواب : اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ کرونا وائرس کی وجہ سے آ ج پوری دنیا اس کی لپیٹ میں ہے اور ہزاروں کی تعداد میں موت واقع ہوچکی ہے اور روز بروز اموات کا سلسلہ جاری ہے ،جانے کب تک یہ چلتا رہے ۔ اس مہاماری سے جہاں دنیا میں بہت کچھ جانی اور مالی نقصان ہوا اور ہورہا ہے اس سے الگ اس کے کچھ فوائد وثمرات بھی نظر آرہے ہیں ۔ ایک طرف کافر وظالم اور طاقتور قوم کا نشہ چکنا چور ہوتے اور اس کی بے بسی کا منظر دیکھنے کو مل رہا ہے تو وہیں مسلمانوں کو اللہ کی طرف رجوع کرنے کا ، اپنے گناہوں سے توبہ کرنے کا اور ایمان وتوکل مضبوط کرنے کا موقع مل رہا ہے ۔

    سوال(25): الیاس قادری لوگوں کو کرونا وائرس سے حفاظت کے لئے کوئی تعویذ دے رہے ہیں ، کیا ہم اس موقع سے تعویذ لگا سکتے ہیں ؟
    جواب : تعویذ لٹکانا شرک ہے ، اور شرک سے بڑا کوئی گناہ نہیں ۔ آپ ذرا سوچیں کہ کوئی بڑے گناہ کے ذریعہ مصیبت ٹال سکتا ہے ؟ ہرگز نہیں ۔ اس لئے ظاہر ہے کہ کروناوائرس کے لئے ہم تعویذ نہیں لگا سکتے بلکہ کسی بھی موقع پر تعویذ لٹکانا جائز نہیں ہے ۔

    آخر میں ایک پیغام دینا چاہتا ہوں کہ آج ہمارے ملکوںمیں لاک ڈاؤن ہے ، ہم اپنے اپنے گھروں میں محصور ہیں ۔ دینی مشاغل ، دنیاوی کام کاج اور ہر قسم کی تجارت معطل ہے ایسے میں ایک طرف گھروں میں قید ہونے سے فارغ وقت کافی مل رہا ہے دوسری طرف روزانہ کمانے کھانے والوں کے گھر کھانے پینے کی قلت ہے ۔ اس تناظر میں ہم سب کو دو کام کرنے ہیں ایک کام گھریلو ہے وہ یہ ہے کہ اپنے بچوں کو دین سکھائیں، دعائیں اور قرآن حفظ کرائیں اور خود بھی مطالعہ کریں ، دینی بیانات سے فائدہ اٹھائیں اور فرائض کے ساتھ رات کی عبادت کرکے اللہ سے پناہ طلب کریں ۔دوسرا کام سماجی ہے وہ یہ کہ جن لوگوں کے گھر فاقے اور مجبوریاں ہوں ان کا مالی تعاون کریں ۔ اللہ ہم سب کے ایمان اور ملک وقوم کی حفاظت فرمائے۔ آمین
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 2
  2. مقبول احمد سلفی

    مقبول احمد سلفی ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏اگست 11, 2015
    پیغامات:
    871
    معاشیات سے متعلق سوال وجواب
    جوابات از شیخ مقبول احمد سلفی​
    اسلامک دعوۃ سنٹر مسرہ طائف

    سوال(1):ایک مسئلہ یہ کہ کسی کمپنی کے جائز products سیل کرنے پر کمیشن دیا جاتا۔ایک لاکھ کا پروڈکٹ سیل کریں تو 25 فیصداور 5 لاکھ کا سیل کریں تو 40 فیصد کمیشن ملتا ہے اور اس کمپنی میں شامل ہونے کے لئے نقدا 70000 يا قسطوں میں 77000 ادا کرنا ہوتا ہے۔ کمپنی کے founder کے مطابق یہ investment ہے اور اس کے بعد training دی جاتی ہے اور ہاں بعد میں 70000میں سے آدھے سے زیادہ واپس بھی کر دیا جاتا ہے تو اس پراسیس میں کوئی غیر شرعی امر تو نہیں ہےرہنمائی فرمائیں گے۔
    جواب: کسی بھی تجارت میں شامل ہونے اوراس کی مصنوعات بیچنے کے لئے ہمیں صرف جائز مصنوعات کو ہی نہیں دیکھنا ہے بلکہ اس کے اصول وضوابط اور منفعت کے حصول کا طریقہ کار بھی دیکھنا ہوگا۔ صورت بالا میں اگر داخلہ فیس نہ ہوتی تو اس تجارت میں بحیثیت بائع یا مندوب بن کر تجارت کرنے اور نفع کمانے میں کوئی حرج نہیں تھا لیکن داخلہ فیس کی صورت میں ایک طرف ۷۰۰۰۰ ہے تو دوسری طرف منفعت مجہول ہے جس کی وجہ سے یہ تجارت قمار میں داخل ہے چاہے کچھ پیسے یا آدھے واپس ہی کیوں نہ کردئے جائیں ۔آپ کسی کمپنی میں ستر ہزار اس لئے لگارہے ہیں تاکہ اس بنیاد پر فائدہ حاصل کرسکیں اور آپ کا فائدہ یہاں مجہول ہے ،یہی قماربازی میں ہوتا ہے اس لئےکسی مسلمان کے لئے ایسی تجارت میں شامل ہونا جائز نہیں ہے ۔ ہاں اگر ۷۰۰۰۰ کی قیمت کا سامان تجارت خریدکر آپ اپنی خریدی ہوئی مصنوعات سے تجارت کرتے ہیں اور نفع کماتے ہیں تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔
    سوال(2):میں سونے اور چاندی کی انگوٹھیاں بناتا ہوں ، اس میں کچھ حصہ مصنوعی دھات اور نگینے کابھی ہوتا ہے ۔ ان انگوٹھیوں کو آگے تاجروں کو ادھار بیجتاہوں پھر ہمیں کچھ دنوں بعد انگوٹھی کےوزن کےبرابر خالص سونا وچاندی دیتے ہیں اس سونے وچاندی میں میری مزدوری اور مصنوعے دھات ونگینے کی قیمت بھی شامل ہوتی ہے، کیا یہ کاروبار جائز ہے ؟
    جواب: یہ کاروبار جائز نہیں ہے ، اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ سونےوچاندی کو ادھار بیچا جاتا ہے جو کہ جائز نہیں ہے ، سونا اور چاندی کا کاروبار نقد ہونا چاہئے اور دوسری وجہ یہ ہے کہ انگوٹھی میں سونے وچاندی کے علاوہ بھی مصنوعی چیزیں ملی ہوتی ہیں یعنی سونے وچاندی کی مقدار کم ہوتی ہے جبکہ حاصل اس سے زیادہ کیا جاتا ہے ۔شرعی طورپر سونے کو سونے سے اور چاندی کو چاندی سے بیچتے وقت اتنی ہی مقدار میں سونا لیا جائے گا جتنی مقدار میں سونا تھا اور اتنی ہی مقدار میں چاندی لی جائے گی جتنی مقدار میں چاندی تھی ۔رہا مزدوری کا معاملہ تو اس کو سونے وچاندی کی شکل میں مذکورہ صورت میں حاصل کرنا جائز نہیں ہے۔ اس کاروبار کی ایک جائز صورت تویہ ہے کہ آپ اپنی چیزوں کو تاجروں کے ہاتھوں نقدا بیج دیں ، ادھار نہ رہے ۔دوسری صورت یہ ہے کہ جس قدر سونا اور چاندی استعمال ہوئے ہیں اسی قدر سونا وچاندی حاصل کریں اور مزدوری و مصنوعی دھاتوں کی قیمت الگ سے حاصل کریں ،وہ بھی نقد ادھار نہیں۔ ایک تیسری صورت یہ ہوسکتی ہے کہ آپ اپنی چیزوں کا تاجروں کو وکیل بنالیں ، مالک آپ ہی رہیں گے وہ آپ کے لئے بیچیں گے اور آپ انہیں بیچنے کے عوض جو کمیشن یا مزدوری دینا چاہیں دے دیں ۔
    سوال(3): ہمارے یہاں کسان پیاز وغیرہ کی مزدوری کرتے ہیں تو منڈی کے تاجروں سے کھیتی سے قبل اڈوانس رقم لے لیتے ہیں پھر پیاز کی کھیتی کے بعد ان تاجروں سےبازار سے کم قیمت پہ بیچتے ہیں کیونکہ ان سے اڈوانس لئے ہوتے ہیں ، کیا یہ طریقہ درست ہے ؟
    جواب : اڈوانس کس حیثیت سے ہے وہ واضح نہیں ہے ، کیا یہ بطور قرض ہے یا پھر پیشگی خریدگی کی رقم ہے ؟ بطور قرض ہے تو بعد میں کم قیمت پر تاجر کا سامان خریدنا سود کہلائے گا لیکن پیشگی خریداری کی ادائیگی ہے تو اس کی صحیح شکل بیع سلم ہوگی ۔ اس کا طریقہ یہ ہوگا کہ تاجر کسان کو قبل ازکھیتی پیاز ودوسرے سامانوں کی مواصفات کی تحدید کے ساتھ مکمل رقم دیدے اور جب کھیتی ہوجائے تو جتنے کیلو سامان کی قیمت پہلے اداکی گئی ہے اتنا کیلو سامان تاجر کو مہیا کردے ۔ایسی صورت میں قیمت وہی مانی جائے گی جو کھیتی سے قبل طے ہوگئی تھی چاہے بازار میں فروختگی کے وقت جو بھی قیمت ہو۔
    سوال(4): کچھ لوگوں کو دیکھاگیا ہے کہ بغیر اجازت وہ کسی مکتبہ کی کتابوں کی تصاویرلیکربیچنے کی نیت سے انٹرنیٹ پہ تشہیر کرتے ہیں ،جب کسی خریدار کی طرف سے مانگ ہوتی ہے تو وہ مکتبہ والوں سے خریدکر آگے انٹرنیٹ کے خریدارکوزیادہ قیمت پہ فروخت کرتے ہیں، شرعا اس کا کیا حکم ہے ؟
    جواب: کتاب بیچنے کی جائز شکلیں تین ہوسکتی ہیں ، ایک تو یہ ہے کہ پہلے خود کتاب خریدکر اور اس کو قبضے میں لیکر مالک بن جائیں پھر آگے بیچیں ۔ دوسری شکل یہ ہے کہ بائع کی طرف سے وکیل یا کمیشن ایجنٹ بن کر بیچیں یعنی وہ آپ سے یہ کہے کہ فلاں کتاب آپ کوسو روپئے میں دیتا ہوں آپ آگے جتنے پر بیچیں یا یہ کہ کتاب کی تعداد یا قیمت کے اعتبار سے کمیشن متعین کرلیں ۔ ایک تیسری شکل یہ ہے کہ آپ مشتری کی طرف کمیشن ایجنٹ بن کر کتاب بیچیں ۔ یہاں جو صورت ہے وہ شرعی لحاظ سے جائز نہیں ہے ، بیچنے والا کتابوں کو اس طرح بیچ رہا ہے جیساکہ وہ ان کتابوں کا بروقت مالک ہے اور وہ کتاب اس کے پاس موجود ہے جبکہ حقیقت میں وہ کتاب اس کے وقت پاس موجود نہیں ہوتی ہے ۔ اسلام نے ہمیں ایسی چیز کو بیچنے سے منع کیا ہے جس کے ہم مالک نہیں ہیں ۔
    سوال(5): کئی کرکٹ ٹیم مل کر ٹورنامنٹ کھیلتی ہے ،اس ٹورنامنٹ میں شریک ہونے والی تمام ٹیمیں داخلہ فیس جمع کرتی ہیں ،اسی داخلہ فیس سے جتنے والی ٹیم کو انعام دیا جاتا ہے کیا یہ صحیح ہے ؟
    جواب: اس طرح کا ٹورنامنٹ جوا کی قسم سے ہے کیونکہ ایک طرف رقم معروف ومتعین ہے جبکہ دوسری طرف فائدہ مجہول ہے یعنی شرکت کرنے والی ٹیم جتنی رقم لگارہی ہے ہوسکتا ہے وہ رقم ہار جائے یا ہوسکتا ہے اس سے کئی گنا جیت لے یہی حال جوا کا ہے اس لئے یہ عمل صحیح نہیں ہے۔
    سوال(6):سپاری (چھالیہ)جو پان میں کھائی جاتی ہے اس کا کاروبار کرنا کیسا ہے ؟
    جواب: عموما سپاری کا استعمال پان اور مختلف قسم کے گٹکھوں میں ہوتا ہے اور یہ دونوں چیزیں جسم کو مختلف قسم کی بیماریوں میں مبتلا کرنے والی ہیں بلکہ موت کے دہانے پر پہنچانے والی ہیں ، یہ بغیر دھوئیں والا سگریٹ ہے مگر نقصان میں سگریٹ سے بھی بڑھ کرہےحتی کہ جو کوئی میٹھی سپاری یا صرف سادہ سپاری کھاتا ہے وہ بھی سپاری کے نقصانات اٹھاتا ہے ،اس میں بدبو کے علاوہ دانتوں کے سڑنے اورجھڑنے کا چالیس فیصد امکان بڑھ جاتا ہے۔محض سپاری سے سیکڑوں قسم کی زہریلی اشیاء تیار کی جاتی ہیں اور روزانہ ان کے سبب بے شمار اموات ہوتی ہیں گویا سپاری کاایک کاروباری ہزاروں انسان کا قاتل ہے۔یہی وجہ ہے کہ ایک طرف جہاں طبی رپورٹ چھالیہ کو مضر بتلاتی ہے تو دوسری طرف کئی ممالک میں اس پرپابندی بھی عائد ہےاس لئے ایک مسلمان کے لئے سپاری کا کاروبار کرنا جائز نہیں ہے ، ہاں اگراس کا کوئی مثبت استعمال ہو مثلا بطور علاج تو بس اسی قدر استعمال کی گنجائش ہوگی۔
    سوال(7): میں نے کپڑے کی دوکان کھولی ہے اور میرا ارادہ یہ ہےکہ شرعی طورپر کاروبار کروں ، اس لئے مجھے یہ بتائیں کہ کپڑوں پر کتنا نفع لے سکتے ہیں ، کیا اسلام نے کوئی قید لگائی ہے ؟
    جواب: اللہ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ آپ کے کاروبار میں برکت دے اور آپ کو اور تمام مسلمانوں کو حلال طریقے سے تجارت کرنے اور حلال روزی کھانے کی توفیق دے۔
    آپ نے سوال کیا ہے کہ سامان تجارت پرخرید ریٹ سے کتنا زیادہ منافع لے سکتا ہوں اس کا جواب یہ ہے کہ سامان تجارت میں نفع لینے کی کوئی حد مقرر نہیں ہے، یہ بازار کے اتاروچڑھاؤ پر منحصر ہے اس لئے آپ حالات کے مطابق اپنے سامان کی جو قیمت لگانا چاہیں لگاسکتے ہیں ، اس میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ابوداؤ، ترمذی اور ابن ماجہ وغیرہ میں ہے انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! گرانی بڑھ گئی ہے لہٰذا آپ (کوئی مناسب) نرخ مقرر فرما دیجئیے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نرخ مقرر کرنے والا تو اللہ ہی ہے، (میں نہیں) وہی روزی تنگ کرنے والا اور روزی میں اضافہ کرنے والا، روزی مہیا کرنے والا ہے، اور میری خواہش ہے کہ جب اللہ سے ملوں، تو مجھ سے کسی جانی و مالی ظلم و زیادتی کا کوئی مطالبہ کرنے والا نہ ہو (اس لیے میں بھاؤ مقرر کرنے کے حق میں نہیں ہوں)۔
    تجارت میں اصل یہ ہے کہ جھوٹ نہ بولاجائے، دھوکہ نہ دیا جائے ، سامان کا عیب نہ چھپایاجائے،حرام چیز نہ بیچی جائے، سامان روک پر نرخ چڑھنے کا انتظار نہ کیا جائے بلکہ ایک امانتدار تاجر کی طرح تجارت کی جائے۔
    سوال(8): کیا فارماسسٹ اپنا سرٹیفکیٹ کرائیے پر دے سکتا ہے، اس کا طریقہ یہ ہے کہ میڈیکل (دوا کی دوکان /فارمیسی) چلانے کیلئے حکومت کی جانب سے ایک سرٹیفکیٹ لگتی ہے جس کیلئے دو سالہ کورس D-Pharm یا چار سالہ کورس B-Pharm کرنا ہوتاہے۔ سرٹیفکیٹ حاصل کرنے کے بعد فارماسسٹ حکومت کی جانب سے دوسرے کے میڈیکل پر اپنا سرٹیفکیٹ فارماسسٹ(ملازم) کے طور پر لگا سکتا ہے جس کی ڈیوٹی 8 گھنٹے ہوتی ہے یہاں تک تو درست ہے البتہ اگر کوئی فارماسسٹ صرف اپنی سرٹیفکیٹ لگائےاور وقت نہ دے یعنی سرٹیفکیٹ کرائے پر دے تو کیسا ہے؟
    جواب: جس نے فارمیسی ڈپلومہ کیا ہوتا ہے وہ میڈیکل اسٹور کھولنے کا مجاز ہوتا ہے مگر آج کل ہندوپاک سمیت بہت سارے ممالک میں دیکھا جاتا ہے کہ کسی فارماسسٹ کی ڈگری پہ دوسرا شخص مارمیسی کھولتا ہےاور فارماسسٹ کو بغیر عمل کے محض ڈگری کے بدلے میں طے شدہ رقم دی جاتی ہے ۔ اس طرح کسی فارماسسٹ کا اپنی ڈگری کرائے پہ دینا جائز نہیں ہے کیونکہ یہ ڈگری (شہادۃ یعنی گواہی )فارماسسٹ کی ذاتی اہلیت کی گواہی ہے ۔ کسی کام کی اہلیت ایسی چیز نہیں ہے جس کو ہم کسی غیرکے حوالے کرکے اس سےکرایہ وصول کرسکیں ۔ اس عمل میں جھوٹ اور دھوکہ شامل ہے ۔
    مذکورہ بالا سوال کی نوعیت یہ ہے کہ کوئی فارماسسٹ اپنی ڈگری کسی فارمیسی کو کرائے پر دیتا ہے مگر وہاں عمل نہیں کرتا اس کا کیا حکم ہے ؟ اس کا وہی جواب ہے جو اوپر دیا گیا ہےیعنی اس میں بھی وہی جھوٹ اور فریب ہے ۔ فارمیسی کی اس ڈگری پہ ظاہر سی بات ہے کسی دوسرے فرد کو مزدوری کرنے کے لئےرکھائے گا جو سراسر جھوٹ اور فریب ہے ، جب وہ ڈگری فارمیسی میں کام والے کی نہیں ہے تو وہ کیسے اس بنیاد پہ وہاں کام کرسکتا ہے، یہ تو محض اہلیت کی گواہی ہے اور اس شخص کے حق میں ہے جس نے اسےحاصل کیا ہے۔بہت سے انجینئر حضرات بھی کمپنیوں کو اس طرح اپنی ڈگری کرائے پر دیتے ہیں ۔مصر کے سلفی عالم دین جنہوں نے جامعہ اسلامیہ مدینہ سے تعلیم حاصل کی پھر کویت کے مدرسہ اور جمعیۃ احیاء التراث الاسلامی سے منسلک ہوئے ان سے سوال کیا گیا کہ کیا ڈگریوں کو کرائے پر دینا جائز ہےبطور خاص طبی سرٹیفکیٹ کو فارمیسی کے لئے دینا ، کبھی وہ وہاں کام کرتا ہے اور کبھی کام نہیں کرتا بلکہ سرٹیفکیٹ کی اجرت لیتا ہے ؟ توانہوں نے جواب دیا کہ غیر کو دے کراس قسم کی ڈگریوں کے ذریعہ تجارتی لائسنس حاصل کرنا اور اجرت لینا جائز نہیں ہے کیونکہ یہ عمل جھوٹ اور دجل میں سے ہے ۔
    ذرا غور کریں کہ ایک فرد کی وجہ سے کم ازکم تین افراد (سرٹیفکیٹ دینے والا، لینے والا اور اس پر کام کرنے والا ) گنہگار ہورہے ہیں اس لئے آپ کو نصیحت کرتا ہوں کہ جھوٹ اور فریب والا کام نہ کریں ، اللہ کافرمان ہے : اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور سچوں کے ساتھ رہو۔ اور رسول اللہ نے فرمایاکہ جو دھوکہ دیتا ہے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔
    آپ کے لئے دو ہی راستے ہیں یا تو اپنی فارمیسی کھولیں یا جس جگہ اپنی ڈگری لگارہے ہیں وہاں کام کریں اور کام کے عوض مال کمائیں ۔
    سوال(9): آج کل اکثر مقامات پر لوگ کمیٹی ڈالتے ہیں ، اس کمیٹی میں ایک شخص حساب وکتاب کے لئے متعین ہوتا ہے ایسے شخص کا اجرت لینا جائز ہے جبکہ کمیٹی والے راضی ہوں اور یہ اجرت لوگوں کے جمع شدہ مال سے کاٹ لی جاتی ہے ؟
    جواب: جب سارے ممبران اس بات پر راضی ہوں کہ کمیٹی کا حساب وکتاب کرنے والا شخص ماہانہ یا سالانہ اتنی رقم لے گا اور وہ لوگوں کے حساب وکتاب سے ان کے علم ورضامندی کے ساتھ اپنی اجرت ماہ بہ ماہ یا سالانہ حسب اتفاق کاٹ لیتا ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے ۔
    سوال(10): انٹرنیٹ پر ایسی بہت ساری کمپنیاں ہیں جن کا ممبر بن کر نفع کمایا جاتا ہے ، ہرممبر بننے والا اپنے نیچے ممبر بناتا چلا جاتاہے اور نفع اوپر سے لیکر نیچے تک تمام درجات کے ممبران کو ملتا ہے ، ساتھ ہی یہ بات بھی واضح رہے کہ اس میں شامل ہونےکےلئےمقرر ہ قیمت تک کا سامان خریداجاتا ہے جو بازا ر ریٹ سے مہنگا بھی ہوتا ہے اور کتنے سامان ضرورت کے قابل بھی نہیں ہوتے، ایسی کمپنی میں شمولیت اختیارکرکے روپیہ کمانا کیسا ہے ؟
    جواب: مذکورہ کمپنی کو ملٹی لیول مارکیٹنگ کہاجاتا ہے اس پر مفصل مضمون میرے بلاگ پرموجودہے ، یہاں مختصرا یہ عرض کردوں کہ ایسی کمپنیوں میں نہ شمولیت اختیار کرنا جائز ہے اور نہ ہی متعدد طبقات کے ممبران کی محنت کھانا جائز ہے کیونکہ یہاں سامان خریدکرکمپنی کا ممبر بناجاتا ہےجس کے مقابلے میں نفع متعین نہیں ہے اس لئے سرے سے اس میں شرکت جائز نہیں ہے اور اپنی محنت سے جوڑنے والے اشخاص کے علاوہ دوسرے افراد کی ممبرسازی کا منافع لینا بھی جائز نہیں ہے ۔
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں