روشنی کب تھی اتنی مرے شہر میں۔۔۔

ابومصعب نے 'شعری مجلس' میں ‏جون 16, 2012 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. ابومصعب

    ابومصعب -: منفرد :-

    شمولیت:
    ‏اپریل 11, 2009
    پیغامات:
    4,063
    السلام علیکم

    یہاں‌جناب حفیظ میرٹھی صاحب مرحوم کی چند غزلیں‌پیش کی جارہی ہیں، جو کہ پڑھی،اور انہی کی آواز میں سنی اور ایم پی تھری ڈاونلوڈ کی جاسکتی ہیں۔

    ڈاونلوڈ لنک

    سمٹے بیٹھے ہوکیوں‌بزدلوں‌کی طرح
    آو میدان میں‌غازیوں کی طرح

    کون رکھتا ہمیں‌موتیوں کی طرح
    مل گئے خاک میں‌آنسووں کی طرح

    نورنضحت سے معمور یادیں تری
    خوشبووں‌کی طرح جگنووں‌کی طرح

    روشنی کب تھی اتنی مرے شہر میں
    جل رہے ہیں‌مکاں‌مشعلوں‌کی طرح

    داد دیجئے کہ ہم جی رہے ہیں‌
    ہیں‌محافظ جہاں‌قاتلوں‌کی طرح

    زندگی اب ہماری خطا بخش دے
    دوست ملنے لگے محسنوں‌کی طرح

    کیسے اللہ والے یہ اے خدا
    گفتگومشورے سازشوں‌کی طرح

    میری باتوں‌پہ ہنستی ہے دنیا ابھی
    میں سناجاونگا فیصلوں کی طرح

    تم بھی درباد میں حاضری دو اے حفیظ
    پھر رہے ہوکہاں‌مفلسوں‌کی طرح
     
    Last edited by a moderator: ‏جون 17, 2012
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
  2. ساجد تاج

    ساجد تاج -: رکن مکتبہ اسلامیہ :-

    شمولیت:
    ‏نومبر 24, 2008
    پیغامات:
    38,751
    جزاک اللہ خیرا ابو طلحہ بھائی
     
  3. محمد آصف مغل

    محمد آصف مغل -: منتظر :-

    شمولیت:
    ‏نومبر 18, 2011
    پیغامات:
    3,847

    ماشاء اللہ بھائی! آپ نے حریت کو آواز دے کر جگا دیا ہے۔ اللہ کرے کہ اس نظم میں پایا جانے والا سبق میرے نوجوان اور جوان یاد کر لیں اور پھر اللہ تعالیٰ انہیں دین کو نافذ کرنے کے لئے مشعل راہ کے طور استعمال کرنے کی توفیق عطا فرما دے۔
     
  4. ابومصعب

    ابومصعب -: منفرد :-

    شمولیت:
    ‏اپریل 11, 2009
    پیغامات:
    4,063
    آمین ثم آمین
    ویسے آصف بھائی، انکی ساری غزلیں‌جو میں‌یہاں‌پیش کرنے جارہاہوں، ہر غزل کا ایک ایک لفظ کسی نہ کسی کہانی اور فسانہ کوظاہر کرتا ہے، اور ہرجگہ شاعر منظوم انداز میں‌، کہیں‌آزادی اور کہیں درد پنہاں اور کہیں‌انقلاب کی آواز دیتا نظر آتا ہے، "زنجیریں" انکی شہرہ آفاق غزل ہے، وہ سنیں‌تب کہیں۔۔۔!!!

    اللہ مرحوم کی مغفرت فرمائے۔۔۔! بہت ہی خداترس راہ حق کا ایک جانباز انسان تھا۔۔۔!!! انکی زندگی ایک مجاہدہ تھی۔۔۔!!!

    کہتے ہیں

    "یہ دور سنگ دل ہی نہیں تنگ دل بھی ہے۔۔۔گر بس چلے تو آہ بھی کرنے نہ دے مجھے۔۔۔"
     
    Last edited by a moderator: ‏جون 16, 2012
  5. محمد آصف مغل

    محمد آصف مغل -: منتظر :-

    شمولیت:
    ‏نومبر 18, 2011
    پیغامات:
    3,847
    بہت بہت شکریہ بھائی۔

    اُمید ہے کہ روزانہ ایک دو نظمیں یاد کرنے کو ملیں گی۔ اس سے زیادہ یاد نہیں رہتا۔
     
  6. ابومصعب

    ابومصعب -: منفرد :-

    شمولیت:
    ‏اپریل 11, 2009
    پیغامات:
    4,063
    السلام علیکم

    یہاں‌سے حفیظ صاحب مرحوم کی چند غزلیات سنیں اور ڈاون لوڈ کریں (مزید آڈ کی گئی ہیں)

    جزاک اللہ خیرا۔


    1 ajeeb_log.mp3
    2 baday_adab_say.mp3
    3 dil_faroshoun_kaliay.mp3
    4 hafiz_in_dubai.mp3
    5 janay_kitnay_hangamoun_ki.mp3
    6 jeena_sikha_diya.mp3
    7 nukta_chin_achcaha_laga.mp3
    8 mayassar_ho_agar_iman_kamil.mp3
    9 pi_kar_chain.mp3
    10 shisaha_tootay_gul_mach_jay.mp3
    11 simtay_baithay_ho_kiun.mp3
    12 usi_say_nou_insan.mp3
    13 zanjirain.mp3
     
  7. ابومصعب

    ابومصعب -: منفرد :-

    شمولیت:
    ‏اپریل 11, 2009
    پیغامات:
    4,063
    کھوج کرنے پر مجھے حفیظ میرٹھی صاحب مرحوم کی غزلیں یونیکوڈ میں‌ملی ہیں۔قارئین کیلئے پیش ہے۔

    جزاک اللہ خیرا۔


    ------------------------------------------------------------------
    1
    بڑے ادب سے غرورِ ستمگراں بولا
    جب انقلاب کے لہجے میںبے زباں بولا

    ’’تکوگے یو نہی ہواؤں کا منہ بھلا کب تک ؟‘‘
    یہ نا خداؤں سے اک روز بادباں بولا

    ابھی سے ہوش اڑے مصلحت پرستوں کے
    ابھی میں بزم میں آیا ابھی کہاں بولا

    چمن میں سب کی زباں پر تھی میری مظلومی
    مرے خلاف جو بولا تو باغباں بولا

    ’’یہی بہت ہے کہ زندہ توہو میاں صاحب !‘‘
    زمانہ سن کے مرے غم کی داستاں بولا

    تلے ہیں قتل پہ پھولوں میں تولنے والے
    اک ایسا بول میں جھوٹوں کے درمیاں بولا

    حصارِ جبر میں زندہ بدن جلائے گئے
    کسی نے دم نہیں مارا مگر دھواں بولا

    اثر ہوا تو یہ تقریر کا کمال نہیں
    مرا خلوص مخاطب تھا میں کہاں بولا

    ’’کہانہ تھا کہ نوازیں گے ہم حفیظؔتجھے ‘‘
    اڑاکے وہ مرے دامن کی دھجیاں بولا
    ***
    2
    ایسی آسانی سے قابو میں کہاں آتی ہے آگ
    جب بھڑکتی ہے تو بھڑکے ہی چلی جاتی ہے آگ

    خاک سر گرمی دکھائیں بے حسی کے شہر میں
    برف کے ماحول میں رہ کر ٹھڑ جاتی ہے آگ

    پاسباں آنکھیں ملے ،انگڑائی لے ،آوازدے
    اتنے عرصے میں تو اپنا کام کر جاتی ہے آگ

    آنسوؤں سے کیا بجھے گی دوستودل کی لگی
    اور بھی پانی کے چھینٹوں سے بھڑک جاتی ہے آگ

    حل ہوئے ہیں مسئلے شبنم مزاجی سے مگر
    گتھیاں ایسی بھی ہیں کچھ جن کو سلجھاتی ہے آگ

    یہ بھی اک حساس دل رکھتی ہے پہلو میں ضرور
    گد گدا تا ہے کوئی جھونکا تو بل کھاتی ہے آگ

    جب کوئی آغوش کھلتا ہی نہیں اس کے لیے
    ڈھانپ کر منہ راکھ کے بستر پہ سوجاتی ہے آگ

    امن ہی کے دیوتاؤں کے اشاروں پر حفیظؔ
    جنگ کی دیوی کھلے شہروں پہ برساتی ہے آگ
    ***
    3
    مہرباں وہ لبِ جو آج ہوا پانی پر
    چھیڑ کر پاؤں سے احسان کیا پانی پر

    ہوگیا شیخ کی مہمان نوازی کا شکار
    اکتفا رند کو کرنا ہی پڑا پانی پر

    لیجیے مل گئی بیچارے غریبوں کو دوا
    پڑھ کے اک شخص نے کچھ پھونک دیا پانی پر

    کتنے پانی میں ہوں میں جان گیا یہ پانی
    اک جھجک نے ہی بھرم کھول دیا پانی پر

    جھیل میں ڈوب گیا جان سے بیزار بدن
    تیر تارہ گیا مٹی کا گھڑا پانی پر
    ***
    4
    بزمِ تکلفات سجانے میں رہ گیا
    میں زندگی کے نازا اٹھانے میں رہ گیا


    تاثیر کے لیے جہاں تحریف کی گئی
    اک جھول بس وہیں پہ فسانے میں رہ گیا

    سب مجھ پہ مہر جرم لگاتے چلے گئے
    میں سب کو اپنے زخم دکھانے میں رہ گیا

    خود حادثہ بھی موت پہ اس کی تھادم نجود
    وہ دوسروں کی جان بچانے میں رہ گیا

    اب اہلِ کارواں پہ لگاتا ہے تہمتیں
    وہ ہمسفر جوحیلے بہانے میں رہ گیا

    میدانِ کا ر زار میں آئے وہ قوم کیا
    جس کا جوان آئنہ خانے میں رہ گیا

    وہ وقت کا جہاز تھا کرتا لحاظ کیا
    میں دوستوں سے ہاتھ ملانے میں رہ گیا

    باز ارِ زندگی سے قضا لے گئی مجھے
    یہ دور میرے دام لگانے میں رہ گیا

    یہ بھی ہے ایک کارِ نمایاں حفیظؔ کا
    کیا سادہ لوح کیسے زمانے میں رہ گیا
    ***
    5
    نہیں ہوتیں کبھی ساحل کے ارمانوں سے وابستہ
    ہماری کشتیاں رہتی ہیں طوفانوں سے وابستہ

    ہمارا ہی جگر ہے یہ ہمارا ہی کلیجہ ہے
    ہم اپنے زخم رکھتے ہیں نمکدانوں سے وابستہ

    نہ لے چل خانقاہوں کی طرف شیخ حرم مجھ کو
    مجاہد کا تو مستقبل ہے میدانوں سے وابستہ

    میں یوں رہزن کے بدلے پاسباں پردار کرتا ہوں
    مرے گھر کی تباہی ہے نگہبانوں سے وابستہ

    ہماری بے قراری کو نہ چھیڑ و مطمئن لوگو !
    کہ تقدیرِ سکوں ہے ہم پزیشانوںسے وابستہ

    کہیں مسلی ہوئی کلیاں ،کہیں روندے ہوئے غنچے
    بہت سی داستانیں ہیں شبستانوں سے وابستہ

    مورخ ! تیری رنگ آمیز یاں تو خوب ہیں لیکن
    کہیں تاریخ ہوجائے نہ افسانوں سے وابستہ

    ابھی یہ چلتے چلتے دیکھ لیتے ہیں خراشوں کو
    ابھی کچھ اور زنجیریں ہیں دیوانوں سے وابستہ

    محبت خامشی بھی ،چیخ بھی ،نغمر بھی ،نعرہ بھی
    یہ اک مضمون ہے کتنے ہی عنوانوں سے وابستہ

    حفیظ میرٹھی کو کون پہچانے کہ بے چارہ
    نہ ایوانوں سے وابستہ ،نہ دربانوں سے وابستہ
    ***
    6
    سوز نہ ہو تو سازِ حیات
    بس اک روکھی پھیکی بات

    جل اٹھ جل اٹھ شمع یقیں
    رات ہے اور اندھیری رات

    آہ یہ حسن کی نایابی
    اف یہ جلووں کی بہتات

    ان کا کھیل دل آزادی
    اور مرے نازک جذبات

    جان ہتھیلی پر رکھ لے
    کہنی ہے گر سچی بات
    ***
    7
    سمٹے بیٹھے ہوکیوں بزدلوں کی طرح
    آؤ میدان میں غازیوں کی طرح

    کون رکھتا ہمیں موتیوں کی طرح
    مل گئے خاک میں آنسوؤں کی طرح

    روشنی کب تھی اتنی مرے شہر میں
    جل رہے ہیں مکاں مشعلوںکی طرح

    داد دیجے کہ ہم جی رہے ہیں وہاں
    ہیں محافظ جہاں قاتلوں کی طرح

    زندگی اب ہماری خطا بخش دے
    دوست ملنے لگے محسنوں کی طرح

    کیسے اللہ والے ہیں یہ اے خدا
    گفتگو ،مشورے ،سازشوں کی طرح

    میری باتوں پہ ہنستی ہے دنیا ابھی
    میں سنا جاؤں گا فیصلوں کی طرح

    تم بھی دربار میں حاضری دو حفیظؔ
    پھر رہے ہو کہاں مفلسوں کی طرح
    ***
    8
    چاہے تن من سب جل جائے
    سوزِ دروں پر آنچ نہ آئے

    شیشہ ٹوٹے ،غل مچ جائے
    دل ٹوٹے آواز نہ آئے

    بحر محبت توبہ ! توبہ !
    تیرا جائے نہ ڈوبا جائے

    اے وائے مجبوری انساں
    کیا سوچے اور کیا ہو جائے

    ہائے وہ نغمہ جس کا مغنی
    گاتا جائے ،روتا جائے

    عزت ،دولت آنی جانی
    مل مل جائے چھن چھن جائے

    جس کو ہو کہنی دل کی کہانی
    سرتا پا دھڑ کن بن جائے

    دنیا کا اپنا نا ہی کیا
    کانٹے اپنے پھول پرائے

    میخانے کی سمت نہ دیکھو
    جانے کون نظر آجائے

    کاش ہمارا فرضِ محبت
    عیشِ محبت پر چھا جائے
    ***
    9
    کارواں چاہے مختصر ہوجائے
    کوئی رہزن نہ ہمسفر ہو جائے

    خام اب بھی نہیں ہے عشق مگر
    چوٹ کھالے تو پختر تو ہوجائے

    بارِ مرہم بھی زخم پر منظور
    تاکہ تسکینِ چارہ گر ہوجائے

    اس فریب سکون و راحت پر
    اتنا ہنسیے کہ آنکھ تر ہوجائے

    ہو نہ تقدیر کا اگر قائل
    آدمی ،آدمی کے سر ہوجائے

    دھڑکنیں ہیں اب اہلِ دل کا پیام
    سننے والا قریب تر ہوجائے
    ***
    10
    کہاں یہ سطح پسندی ادب کو لے آئی
    جہاں نظر کی بلندی نہ دل کی گہرائی

    اب آدمی کا ٹھکانہ ،نہ کائنات کی خیر
    سنا ہے اہل خرد ہوگئے ہیں سودائی

    ہزار حیف کہ ہم تیرے بے وفا ٹھہرے
    ہزار شکر کہ ہم کو ہو س نہ راس آئی

    اب اپنے جیب و گریباں کا کیا سوال رہا
    جنوں کا ہاتھ بٹانے کو خود بہار آئی

    حیات پوچھ رہی تھی سکون کا مفہوم
    تڑپ کے دل نے ترے درد کی قسم کھائی

    اسی کی راہ میں آنکھیں بچھائے گی منزل
    وہ عزم جو نہیں محتاج ہمت افزائی

    مشاعروں میں حفیظؔ آج کل وہی جائے
    کہ جس کو حد سے زیادہ ہو ذوق رسوائی
    ***
    11
    بادصبا! یہ ظلم خدارا نہ کیجیوں
    اس بے وفا سے ذکر ہمارا نہ کیجیو

    غم کی کمی نہیں ہے جہانِ خراب میں
    اے دل ترس ترس کے گذارا نہ کیجیو

    بدتر ہے موت سے بھی غلامی کی زندگی
    مر جائیو مگر یہ گوارا نہ کیجیو

    اے صاحبِ عروج تو بامِ عروج سے
    سورج کے ڈوبنے کا نظارا نہ کیجیو

    ایسا نہ ہو کہ لوگ ہمیں پوجنے لگیں
    اتنا بھی احترام ہمارا نہ کیجیو

    ساحل اگر نصیب بھی ہوجائے اے حفیظؔ
    طوفاں سے بھول کر بھی کنارا نہ کیجیو
    ***
    12
    دار و رسن نے کس کو چنا دیکھتے چلیں
    یہ کون سر بلند ہوا ؟ دیکھتے چلیں

    آئے گا پھر چمن پہ تصرت کا وقت بھی
    پہلے قفس کی آب وہوا دیکھتے چلیں

    جاتے تھے ہم تو پھیر کے منہ جلوہ گاہ سے
    لیکن دل و نظر نے کہا ’’دیکھتے چلیں ‘‘

    تہذیبِ نو کے عہد میں انسانیت کے ساتھ
    انساں نے کیا سلوک کیا ؟ دیکھتے چلیں

    ہاں اک نظر حفیظؔ پہ عبرت کے واسطے
    کیا رہ گئی ہے قدرِ وفاٰدیکھتے چلیں
    ***
    13
    وادیء حسن ! ہم اس سیر و سفر سے گذرے
    دل لرزا ٹھا وہ نظارے نظر سے گذرے

    راہ روکے ہوئے خود راہنما بیٹھے ہیں
    اب کوئی قافلہ گذرے توکدھر سے گذرے

    اف یہ جادہ کہ جسے دیکھ کے جی ڈرتا ہے
    کیا مسافر تھے جو اس راہ گذر سے گذرے

    حسن منزل کی قسم ،زندگیِ دل کی قسم
    رقص کرتے ہوئے ہم برق وشرر سے گذرے


    کوئی چپکے سے دیا د ل کا جلا کر سوجائے
    کاروانِ مہ و انجم جب ادھر سے گذرے

    جانے کیا کہہ گئے ماحول سے ،جاتے جاتے
    وہ اندھیر ے جو ابھی چاکِ سحر سے گذرے
    ***
    14
    کہاں کے مالک و مختار ہم تو کچھ بھی نہیں
    فریب دے نہ درِ یار ہم تو کچھ بھی نہیں

    مری جھجک پہ وہ ساقی سے شیخ کا ارشاد
    ’’بس اک یہی تو ہیں دیندار ہم تو کچھ بھی نہیں

    کہاں وہ گرمی گفتار ’’ہم ہی سب کچھ ہیں ‘‘
    کہاں یہ سردیِ کردار ’’ہم تو کچھ بھی نہیں ‘‘

    ادھر جو چھاؤں سی دیکھی تو آکے بیٹھ گئے
    لرز نہ سایۂ دیوار ! ہم تو کچھ بھی نہیں

    نکالنا تھا چمن سے حفیظؔ کو پہلے
    یہی ہے واقعی اک خار ہم تو کچھ بھی نہیں
    ***
    15
    نہ شوخیوں سے نہ سنجیدگی سے ملتی ہیں
    وہ لذتیں جو تری برہمی سے ملتی ہیں

    جب اس کے غم کے سوازیست کچھ نہیں ہوتی
    وہ ساعتیں بڑی خوش قسمتی سے ملتی ہیں

    نہیں ضرور کہ قربت ہو وصل کا حاصل
    کہ دوریاں بھی تو وابستگی سے ملتی ہیں

    دل تباہ مری بات کا خیال نہ کر
    ملا متیں بھی تو ہمدرد ہی سے ملتی ہیں

    نقاب حسن کو جلووں سے مختلف نہ سمجھ
    نظر کو دید کی راہیں اسی سے ملتی ہیں

    جو درد و غم کی طلب ہے سنو کلام حفیظ
    یہ بخششیں کسی محروم ہی سے ملتی ہیں
    ***
    16
    آخرش چوٹ کھاگئی دنیا
    اپنی ہی زد میں آگئی دنیا

    آدمی نے کب آنکھ کھولی ہے
    آہ جب مٹ مٹا گئی دنیا

    ہم ابھی جرم بھی سمجھ نہ سکے
    فیصلہ بھی سنا گئی دنیا

    رات کو رات کہہ دیا میں نے
    سنتے ہی بوکھلا گئی دنیا

    ساتھ چلنا تو خیر مشکل تھا
    روکنے سے بھی کیا گئی دنیا

    تجھ سے پھیرا تری قسم دے کر
    کیا کروں بھید پا گئی دنیا

    کس نے سمجھا ہے میرے غم کو حفیظؔ
    گدگدا کر رلا گئی دنیا
    ***
    17
    کتنے اہلِ ہوش کس کس طرح بہکانے اٹھے
    آپ کے کوچے سے اٹھنے تھے نہ دیوانے اٹھے

    رنج و راحت کا وہ یوں مفہوم سمجھا نے اٹھے
    راہ میں کانٹے بچھا کر پھول برسانے اٹھے

    ظرفِ ساقی ہی نہ جب دیکھا تو پھر کیا بیٹھتے
    آنسوؤں سے بھر کے ہم آنکھوں کے پیمانے اٹھے

    آج کی بد حال دنیا کے بھی دن پھر جائیں گے
    اے مورخ ہم اگر تاریخ دہرانے اٹھے

    غمگسار آئیں نہ آئیں بزم برپا ہو نہ ہو
    دل جلوں سے دل جلے کہہ سن کے افسانے اٹھے

    اب خدا حافظ متاعِ دین و دانش کا حفیظ
    واعظِ کج فہم بھی تقدیر فرمانے اٹھے
    ***
    18
    ہر سکوں کی یہ میں سو آتش فشاں رکھتا ہوں میں
    ضبط کا اک رخ نمایاں اک نہاں رکھتا ہوں میں

    اے پر ستارانِ نغمہ! چھوڑ کر تارِ رباب
    آج کچھ دکھتی رگوں پر انگلیاں رکھتا ہوں میں

    ہائے رے نیرنگیاں ہوں تو چراغ اب بھی مگر
    روشنی رکھتا تھا پہلے اب دھواں رکھتا ہوں میں


    آج تک گذری اجل کی آرزو میں زندگی
    زندگی سے آج بھی دلچسپیاں رکھتا ہوں میں

    مجھ سے کب ہوتی بھلا پابندی رسمِ وجود
    ان کی دلداری کی خاطر جسم وجاں رکھتا ہوں میں

    ہیچ ہیں میری نظر میں آشیاں وگلستاں
    آدمی ہوں عزم تعمیر جہاں رکھتا ہوں میں

    اب بھی وہ اپنا سمجھ کر مجھ کو اپنا لیں حفیظؔ
    کون جانے ورنہ پھر یہ سر کہاں رکھتا ہوں میں
    ***
    19
    اف رے شکایت جفا، واہ رے شکوئہ ستم
    ہنستے رہے حضور میں ، رو دیے دور جاکے ہم

    دستِ ہوس میں سیف ہے ، جہل کے ہاتھ میں قلم
    معر کۂ حیات میں رہ گئے خالی ہاتھ ہم

    ہائے یہ کیا مقام ہے ، ہائے یہ کیا نظام ہے
    عشق کی آستیں بھی نم ، حسن کی آستیں بھی نم

    ایسا بھی انقلاب کیا ، شیخ تمھیں یہ کیا ہوا
    رخ تو ہے سوئے بتکدہ ، پشت ہے جانب حرم

    شاید اسی طرف سے کچھ ، لطف میں ہو گئی کمی
    جانب کو ے دوست جو آج نہ اٹھ سکے قدم
    ***
    20
    کسی جبیں پر شکن نہیں ہے کوئی بھی مجھ سے خفا نہیں ہے
    بغور میرا پیام شاید ابھی جہاں نے سا نہیں ہے
    سفینۂ عہدِ نو پہ چھایا ہوا ہے بہرو پیوں کا لشکر
    یہاں ہر اک نا خدا نماہے مگر کوئی نا خدا نہیں ہے

    خیال کے دیوتا بھی جھوٹے عمل کے سب سورما بھی جھوٹے
    خرد بھی فریاد رس نہیں ہے جنوں بھی مشکل کشا نہیں ہے

    ہر ایک میکش کے ظرف سے باخبر ہے کتنی نگاہِ ساقی
    کسی کو ہے حکمِ جاں نثاری ،کسی کو اذنِ وفا نہیں ہے

    کہاں کا شاعر خدائے شعر و سخن بھی ہم اس کو مان لیتے
    حفیظؔ میں یہ بڑی کمی ہے کہ بندہ خود نما نہیں ہے
    ***
    21
    بے سہاروں کا انتظام کرو
    یعنی اک اور قتلِ عام کرو

    خیر خوا ہوں کا مشورہ یہ ہے
    ٹھوکر یں کھاؤ اور سلام کرو

    دب کے رہنا ہمیں نہیں منظور
    ظالمو جاؤ اپنا کام کرو

    سر پھروں میں ابھی حرارت ہے
    ان جیالوں کا احترام کرو

    خواہشیں جانے کس طرف لے جائیں
    خواہشوں کو نہ بے لگام کرو

    سیز بانوں میں جو جہاں ان بن
    ایسی بستی میں مت قیام کرو

    آپ چھٹ جائیں گے ہوس والے
    تم ذرا بے رخی کو عام کرو

    ڈھونڈ ھتے ہو گروں پڑوں کو کیوں
    اڑنے والوں کو زیرِ دام کرو

    دینے والا بڑائی بھی دے گا
    تم سمائی کا اہتمام کرو

    بددعا دے کے چل دیا وہ فقیر
    کہہ دیا تھا کہ کوئی کام کرو

    یہ ہنر بھی بڑا ضروری ہے
    کتنا جھک کر کسے سلام کرو

    سانپ آپس میں کہہ رہے ہیں حفیظؔ
    آستینوں کا انتظام کرو
    ***
    22
    ہم تو جہ کے سزا وار نہ تھے
    سیدھے سادے تھے اداکار نہ تھے

    ہم سے کیوں بچ کے زمانہ گزرا
    ہم کوئی سنگ نہ تھے خار نہ تھے

    اس لیے گر گئے نظروں سے تری
    ہم ترے حاشیہ بردار نہ تھے

    ا ن کو تو چارہ گروں نے مارا
    اتنے بیمار یہ بیمار نہ تھے

    دیکھتے رہ گئے حق اور سبھی
    لے اڑے چند جو حق دار نہ تھے

    بات منصب سے نہ دولت سے بنی
    کیونکہ ہم صاحبِ کردار نہ تھے

    پاس آکر بھی کوئی کیا لیتا
    ہم کوئی سایۂ دیوار نہ تھے

    خوفِ رسوائی سے پیچھا چھوٹا
    دشت میں کوچہ و بازار نہ تھے

    مول پانی کے بکا خونِ جگر
    مطمئن پھر بھی خریدار نہ تھے

    ہم بھے رندوں کے بھی غمخوار حفیظؔ
    یہ الگ بات کہ مے خوار نہ تھے
    ***
    23
    یہ بات نرالی دل خود دار کرے ہے
    تڑپے ہے مگر دردسے انکار کرے ہے

    دنیا کا یہ انداز سمجھ میں نہیں آتا
    دیکھے ہے حقارت سے کبھی پیار کرے ہے

    تسلیم اسے کوئی بھی دل سے نہیں کرتا
    وہ فیصلہ جو جبر کی تلوار کرے ہے

    اس دشمنِ ایماں نے کیا شیخ پہ جادو
    کافر جو کہے ہے وہی دیندار کرے ہے

    اب اپنے بھی سائے کا بھروسہ نہیں یارو !
    نزدیک جو آئے ہے وہی وار کرے ہے

    تقریر سے ممکن ہے نہ تحریر سے ممکن
    وہ کام جو انسان کا کردار کرے ہے

    شرماتا ہوں فنکار سمجھتے ہوئے ،خود کو
    جب جھوٹی خوشامد کوئی فنکار کرے ہے

    یہ ناچتی گاتی ہوئی اس دور کی تہذیب
    کیا جانئے کس کرب کا اظہار کرے ہے

    مانگے ہے حفیظؔ اور ہی کچھ شعر کا بازار
    کچھ اور طلب شعر کا معیار کرے ہے
    ***
    24
    اس دور بے ضمیر میں جینا سکھا دیا
    حالات نے ہمیں بھی منافق بنا دیا

    جب اس نے میرے فن کا مجھے واسطہ دیا
    اک نام اپنی نظم سے میں نے ہٹا دیا

    جینے ہی دے مجھے نہ وہ مرنے ہی دے مجھے
    خنجر چلا دیا کبھی مرہم لگا دیا

    پھر داغدار ہوگیا دامانِ گلستاں
    لو آج پھر کسی نے نشیمن جلا دیا

    دیتے پھر و ثبوتِ وفا اب جہاں تہاں
    الزام بے وفائی کا اس نے لگا دیا

    ہتھیار پہلے عقل نے ڈھالے نئے نئے
    دنیا کو پھر جنوں کا نشانہ بنادیا

    چنگاریوں کو اب کوئی پاگل ہوا نہ دے
    شعلہ تو جیسے ہو سکا ہم نے بجھادیا

    معیارِ زندگی کو اٹھانے کے شوق نے
    کردار پستیوں سے بھی نیچے گرادیا

    یہ بھی تو سوچیے کبھی تنہائی میں ذرا
    دنیا سے ہم نے کیا لیا ؟ دنیا کو کیا دیا ؟

    بربادیوں سے لینا ہے کچھ کام اے حفیظؔ
    یوں مرثیے کو ہم نے ترانہ بنا دیا
    ***
    25
    چھیڑدو دل کی داستاں لوگو
    آپ بندھ جائے گا سماں لوگو

    میں نے اقبال جرم کرتو لیا
    دیر اب کیا ہے حکمراں لوگو

    ظلم تھک کر سوال کرتا ہے
    کیوں نہیں مرتے سخت جاں لوگو

    تب جمیں گے قدم جزیر ے میں
    جت جلا دوگے کشتیاں لوگو

    دیکھ پاؤ گے کیا گھروں کے زخم
    راستے کے رواں دواں لوگو

    ہم اگر ترکِگفتگو نہ کریں
    اور بڑھ جائیں تلخیاں لوگو

    جن کو اہلِ خرد کا ہاتھ لگا
    اور الجھیں وہ گھتیاں لوگو

    بات جب ہے کہ فاصلہ نہ رہے
    فکر اور فن کے درمیاں لوگو

    کھوئے کھوئے حفیظؔ پائے گئے
    امتحاں پھر ہے امتحاں لوگو
    ***
    26
    آباد رہیں گے ویرانے ،شاداب رہیں گی زنجریں
    جب تک دیوانے زندہ ہیں پھولیں گی پھلیں گی زنجریں

    آزادی کا دروازہ بھی خود ہی کھولیں گی زنجریں
    ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں گی جب حد سے بڑھیں گی زنجریں

    جب سب کے لب سل جائیں گے ہاتھوں سے قلم چھن جائیں گے
    باطل سے لوہا لینے کا اعلان کریں گی زنجریں

    اندھوں بہروں کی نگری میں یوں کون تو جہ کرتا ہے
    ماحول سنے گا ،دیکھے گا جس وقت بجیں گی زنجریں

    جو زنجیروں سے باہر ہیں ،آزاد انھیں بھی مت سمجھو
    جب ہاتھ کٹیں گے ظالم کے اس وقت کٹیں گی زنجریں

    یہ طور بھی ہیں صیادی کے ،یہ ڈھنگ بھی ہیں جلادی کے
    سمٹیں ،سکڑیں گی زنجیریں ،پھیلیں گی ،بڑھیں گی زنجریں

    مجبوروں کو ترسائیں گی ،یوں اور ہمیں تڑپائیں گی
    زلفوں کی یاد دلائیں گی جب لہرائیں گی زنجریں

    زنجیریں توہٹ جائیں گی ،ہاں ان کے نشاں رہ جائیں گے
    میرا کیا ہے ظالم تجھ کو بدنام کریں گی زنجریں

    لے دے کے حفیظؔ ان سے ہی تھی امید وفا دیوانوں کو
    کیا ہوگا جب دیوانوں سے ناتہ توڑ یں گی زنجریں
    ***
    27
    دل فروشوں کے لیے کوچہ و بازار بنے
    اور جانبازوں کی خاطر رسن و دار بنے

    بس یہی دوڑ ہے اس دور کے انسانوں کی
    تیری دیوار سے اونچی مری دیوار بنے

    چھین کر غیر سے اپنوں نے مجھے قتل کیا
    آپ ہی ڈھال بنے ،آپ ہی تلوار بنے

    ہوگئے لوگ اپاہچ یہی کہتے کہتے
    ابھی چلتے ہیں ذرا راہ تو ہموار بنے

    مجھ کو ممنون کرم کرکے وہ فرماتے ہیں
    آدمی سوچ سمجھ کر ذرا خود دار بنے

    خود شناسی کے نہ ہونے سے یہی ہوتا ہے
    جن کو فن کار نہ بننا تھا وہ فن کار بنے

    تجھ سے کتنا ہے ہمیں پیار کچھ اندازہ کر
    ہم ترے چاہنے والوں کے روادار بنے

    شان و شوکت کے لیے تو ہے پریشان حفیظ
    اور میری یہ تمنا ترا کردار بنے
    ***
    28
    گداز دل سے ملا ،سوزشِ جگر سے ملا
    جو قہقہوں میں گنوایا تھا چشم تر سے ملا

    تعلقات کے اے دل ہزار پہلو ہیں
    نہ جانے مجھ سے وہ کس نقطۂ نظر سے ملا

    کبھی تھکن کا کبھی فاصلوں کا رونا ہے
    سفر کا حوصلہ مجھ کو نہ ہم سفر سے ملا

    میں دوسروں کے لیے بے قرار پھر تا ہوں
    عجیب درد مجھے میرے چارہ گر سے ملا

    ہر انقلاب کی تاریخ یہ بتاتی ہے
    وہ منزلوں پہ نہ پایا جو رہگزر سے ملا

    نہ میں نے سوزہی پایانہ استقامت ہی
    حجر حجر کو ٹٹولا ،شجر شجر سے ملا

    جدا ہے سارے زمانے سے اپنے فن کا مزاج
    نہ کو ہکن سے ملا اور نہ شیشہ گر سے ملا

    حفیظؔ ہوگیا آخر اجل سے آغوش
    تمام شب کا ستایا ہوا سحر سے ملا
     
  8. ساجد تاج

    ساجد تاج -: رکن مکتبہ اسلامیہ :-

    شمولیت:
    ‏نومبر 24, 2008
    پیغامات:
    38,751
    ابو طلحہ بھائی آپ اس شاعری کو الگ الگ تھریڈ کر کے پوسٹ کرتے جائیں
     
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں