صحیح بخاری میں منتقد علیہ روایات کا بیان از محدث نورپوری رحمہ اللہ

آزاد نے 'حدیث - شریعت کا دوسرا اہم ستون' میں ‏مارچ 8, 2013 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. آزاد

    آزاد ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏دسمبر 21, 2007
    پیغامات:
    4,558
    صحیح بخاری میں منتقد علیہ روایات:

    یہ بات مشہور ہے کہ بخاری ومسلم کو علماء کی طرف سے تلقی بالقبول حاصل ہے۔ لیکن تلقی ان روایات کو حاصل ہے جن پر کسی نے تنقید نہیں کی۔ اس لیے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ جہاں تلقی بالقبول کا مسئلہ ذکر کرتے ہیں، تو وہاں استثنائی صورت بھی بیان کرتے ہیں۔ بخاری ومسلم کی روایات پر تنقید کرنے والوں میں ابومسعود دمشقی، ابوعلی غسانی اور ابوالحسن دارقطنی ہیں۔ بخاری ومسلم کے اندر کل منتقد علیہ روایات 210 ہیں۔ صرف بخاری میں منتقد علیہ روایات کی تعداد 110 ہے، جن میں سے 32 احادیث مسلم میں موجود ہیں، تو صرف اور صرف بخاری میں منتقد علیہ روایات کی تعداد 78 ہوئی۔ یہ منتقد علیہ روایات معلقات سے ہوں گی یا مسندات سے ہوں گی۔ معلقات تو کتاب کے موضوع سے ہی خارج ہیں۔ اس لیے معلقات پر اعتراض درست نہیں ہوگا۔ اسی لیے دارقطنی نے اعتراض کرتے ہوئے معلقات پر کوئی تنقید نہیں کی۔
    مسندات احادیث پر تنقیدات اور ان کے جوابات:
    احادیث کی دوسری قسم جن پر تنقید کی گئی ہے، وہ مسندات ہیں۔ ایسی منتقد علیہ مسندات نہیں پائی جاتیں، جن کا جواب نہ ہو۔ بلکہ ان کے معقول جواب موجود ہیں۔ تنقید بر مسندات کے تین قسم کے جواب ہیں:
    1: اجمالی جواب
    2: قدرے تفصیلی جواب
    3: مکمل تفصیلی جواب
    1: اجمالی جواب:

    اس بات میں اہل علم کے درمیان کوئی اختلاف نہیں کہ امام بخاری اپنے تمام معاصرین سے مقدم ہیں۔ ان کے بعد پھر امام مسلم کا مقام ہے۔ اس کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ جن مشائخ سے شیخین کو استفادہ کرنے کا موقع ملا ہے ، وہ اپنے معاصرین سے بڑھ کر خصوصی مہارت رکھتے تھے۔ مثلاً: امام بخاری نے علی بن مدینی سے فائدہ حاصل کیا ہے اور علی بن مدینی اپنے اقران سے بڑھ کر علل حدیث کو جاننے والے تھے۔ علل حدیث میں جو مقام ان کو حاصل ہے، وہ ان کے معاصرین میں سے کسی کو حاصل نہیں۔ امام بخاری ان کے متعلق فرماتے ہیں:
    ’’[font="al_mushaf"]مااستصغرت نفسی عند احد الا عند علی بن المدینی۔
    ‘‘
    کہ میں نے صرف علی بن المدینی کے پاس اپنے آپ کو چھوٹا سمجھا۔
    اس بات سے علی بن المدینی کے مرتبہ کا پتہ چلتا ہے۔ یہ بات جب علی بن المدینی کو پہنچی تو انہوں نے فرمایا: ’’[font="al_mushaf"]دعوا قولہ
    ‘‘ اس کی بات کو چھوڑ و، وہ کسر نفسی سے کام لیتے ہیں۔ اس نے اپنی مثل کو نہیں دیکھا۔ اس قول سے امام بخاری کا مقام عظیم ظاہر ہوتا ہے۔ امام بخاری کے دوسرے استاد محمد بن یحییٰ ذہلی ہیں۔ ان کے متعلق یہ مشہور ہے کہ یہ امام زہری کی احادیث کے متخصص تھے۔ یہ مقام باقی کسی کو حاصل نہیں ہوا۔ زہری امام مالک کے بھی استاد ہیں۔ اسی طرح امام مسلم نے بھی محمد بن یحییٰ ذہلی سے استفادہ کیا ہے۔
    علل حدیث میں شیخین کا مرتبہ بعد میں آنے والوں سے بہت بلند ہے۔ یہ ان کا اپنا علمی مقام ہے جس کو انہوں نے ملحوظ بھی رکھا۔ اسی لیے انہوں نے روایت حدیث میں اتنی کڑی شرائط لگائی ہیں۔ پھر ان دو اماموں نے اپنی کتابوں میں صحت احادیث کا خاص خیال رکھا ہے۔ امام بخاری کے شاگرد فربری کہتے ہیں کہ امام بخاری نے فرمایا:
    ’’[font="al_mushaf"]ما ادخلت فی الصحیح حدیثا الا بعد ان استخرت اللہ وتیقنت صحتہ[/font]‘‘ کہ میں نے استخارہ اور یقین صحت کے بعد صحیح بخاری میں احادیث درج کی ہیں۔
    امام مسلم فرماتے ہیں کہ میں نے ابوزرعہ رازی پر کتاب لکھ کر پیش کی تو انہوں نے کچھ احادیث میں علت نکالی تو میں نے ان کو نکال دیا۔ اس طرح صحیح مسلم کو امام ابوزرعہ رازی کی تصدیق حاصل ہوگئی۔
    امام بخاری اور مسلم کے علمی مقام، صحت احادیث کے یقین اور ان کی شرائط کو ایک طرف رکھیں۔ دوسری طرف تنقید کرنے والوں کو رکھیں۔ جو شیخین کے مرتبہ کے نہیں۔ جب دونوں کی رائے میں تعارض آئے گا تو مقدم بات شیخین کی ہوگی کیونکہ فن میں ان کا مقام بلند ہے، شرائط سخت ہیں۔ اس طرح تمام منتقد علیہ روایات کی تنقید ختم ہوجائے گی۔ کیونکہ ابومسعود دمشقی، ابوعلی غسانی اور دارقطنی ان کے مرتبہ کے نہیں۔
    قدرے تفصیلی جواب:

    جتنے احادیث پر اعتراضات ہوئے، ان کو سات حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔
    النوع الاول:
    ایک سند کے رجال ایک مقام پر زیادہ ہیں، اسی سند کے رجال دوسرے مقام پر کم ہیں۔ اس صورت میں ناقدین حضرات تنقید کرتے ہیں کہ بخاری جس سند کے رجال زیادہ ہیں، ان کو بیان کیا ہے، لیکن جس سند میں رجال کم ہیں، ان کو امام بخاری نے بیان ہی نہیں کیا۔ یا ایک مقام پر مکمل رجال کو بیان کیا، دوسرے مقام پر ان کو ذکر نہیں کیا۔ اب ناقد اعترض کرتا ہے کہ دوسری سند میں رجال کم ہیں اور بخاری کی روایت میں رجال زیادہ ہیں، لہٰذا کچھ نہ کچھ کمی ضرور ہے۔
    یہ اعتراض ناقابل التفات ہے کیونکہ ایک آدمی ایک استاد سے حدیث سنتا ہے ، پھر وہ اپنے شیخ کے شیخ سے بلاواسطہ حدیث سن لیتا ہے۔ تو اس طرح سند میں رجال کی کمی ہوئی اور پہلی صورت میں رجال کی زیادتی ہوئی۔
    یہ جواب اس صورت میں ہے جب اس نے بالواسطہ اور بلا واسطہ سنا ہے۔ لیکن جب اس نے بلاواسطہ نہیں سنا تو اس صورت میں اس کی وہ روایت منقطع ہوگی کیونک جس روایت کی بنا پر وہ اعتراض کررہے ہیں، وہ منقطع ہے۔ یہ اعتراض اس صورت میں ہے کہ جب امام بخاری نے زیادہ رجال والی سند ذکر کی ہو اور کم رجال والی سند ذکر نہ کی ہو۔ جب دونوں سندیں سامنے ہوں تو دیکھیں گے کہ کم رجال والی سند میں کوئی راوی مدلس تو نہیں، جس نے واسطہ چھور دیا ہے۔ اگر راوی مدلس نہ ہو، راوی مروی عنہ کا زمانہ ایک ہے اور ملاقات بھی ثابت ہے تو پھر وہ سند متصل ہی سمجھی جائے گی۔ اسی طرح اگر واسطہ چھوڑنے والا صحابی ہے تو پھر بھی کوئی اعتراض نہ ہوگا ۔ اگر واسطہ چھوڑنے والا راوی مدلس ہے، تو دوسری کتب میں اس کا تتبع کریں گے کہ وہاں سماع کی تصریح ہے کہ نہیں۔ اگر سماع کی تصریح نہ ہوتو اعتراض وزنی ہوسکتا ہے، لیکن ایسا بخاری میں شاذ ونادر ہی ہے۔ اگر کہیں ہوتو وہاں متابعات وشواہد اور دیگر قرائن صحت کی وجہ سے بخاری اسے ذکر کرتے ہیں۔
    النوع الثانی:
    دوسرا اعتراض یہ ہے کہ بخاری ومسلم کے اندر کچھ ایسی احادیث آگئی ہیں جو انہوں نے اپنے شیخ سے نہیں سنیں۔ مکاتبۃً یا اجازۃ ذکر کر دی ہیں۔اعتراض یہ ہے کہ یہ احادیث منقطع ہوگئیں؟
    اس صورت میں یہ اعتراض ناقابل التفات ہے کیونکہ مکاتبۃ اور اجازۃ احادیث بیان کرنے میں علماء کا اختلاف ہے کہ اس کو اتصال پر محمول کریں گے یا انقطاع پر محمول ہوں گی۔ اکثر علماء کا خیال ہے کہ اس سند کو اتصال پر محمول کریں گے ۔ امام بخاری نے اتصال والے مذہب کو اختیار کیا ہوا ہے۔ اگر کوئی دلائل سے اس کو غلط ثابت کردے تو ٹھیک ہے۔ لیکن دلائل کوئی نہیں۔
    النوع الثالث:
    ناقدین کا تیسرا اعتراض یہ ہے کہ ایک سند میں ایک راوی ہے، دوسری جگہ دوسرا راوی ہے۔ دونوں سندوں کے رجال برابر ہیں۔ جیسے اعرج اور ابو سلمہ والی ہے۔ اس پر اعتراض کرتے ہیں کہ اضطراب آگیا۔ حالانکہ بسا اوقات ایسے مقامات پر اعتراض نہیں ہوتا کیونکہ جن دو راویوں کا اختلاف آگیا ہے، وہ دونوں عادل ہوں گے، ہم پلہ متعادلین ہوں گے یا متقاربین ہوں گے۔ متعادلین ہونے کی صورت میں امام بخاری دونوں کی حدیث کو صحیح سمجھتے ہیں ۔ اگر متقاربین والی صورت ہو تو امام بخاری ایک کو ترجیح دیں گے۔ جس کو زیادہ پختہ سمجھیں گے، اس کو درج کریں گے۔ کیونکہ اضطراب کےلیے شرط ہے کہ تطبیق وترجیح نہ ہوسکے، تب اضطراب ہوگا۔
    النوع الرابع:
    ناقدین کا چوتھا اعتراض یہ ہے کہ ایک راوی ایک لفظ بیان کرنے میں متفرد ہے، اس سے اوثق یا اکثر راوی اس لفظ کو بیان نہیں کرتے۔ ایسے مقام پر ناقدین یہ اعتراض کرتے ہیں کہ ثقہ راوی کی نسبت اوثق یا اکثر رواۃ کی روایت میں یہ لفظ نہیں۔
    اس کا جواب یہ ہے کہ اگر قوی دلائل سے ثابت ہوجائے کہ وہ متفرد لفظ حدیث میں نہیں ہے، تو وہ مدرج ہوگا، ورنہ اعتراض ختم ہوجائے گا۔
    اگر یہ ثابت نہ ہوتو پھر ایک راوی کا ذکر کرنا اور باقی کا ذکر نہ کرنا ضعف نہیں۔ اگر یہ لفظ اوثق کے خلاف ہے تو اس کے شذوذ کا فیصلہ کیا جائے گا۔ مگر ایسی صورت بخاری میں نہیں ہے۔
    النوع الخامس:
    بعض راوی اپنے ضعیف شیوخ سے بیان کرتے ہیں۔ اس پر اعتراض یہ آتا ہے کہ مروی عنہ راوی ضعیف ہے۔
    اس کا جواب یہ ہے کہ وہاں کہیں اس کی متعابعت ہوتی ہے، خواہ بخاری میں ہو یا کسی دوسری کتاب میں ہو۔ امام بخاری صرف اس کی ایک سند کی وجہ سے حدیث کو صحیح نہیں سمجھتے، بلکہ من حیث المجموع اس کو صحیح سمجھتے ہیں، لہٰذا اعتراض بے فائدہ ہے۔
    النوع السادس:
    بعض رواۃ پر وہم کا اعتراض ہوتا ہے۔ لیکن امام بخاری ایسے راوی کی حدیث لاتے ہیں۔
    اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ کسی راوی کو وہم ہوجانے سے لازم نہیں آتا کہ ہر وقت اسے وہم لاحق رہتا ہے ، بلکہ دیکھنا یہ ہے کہ اس حدیث میں اس کو وہم ہوا ہے کہ نہیں؟ اگر مذکورہ حدیث میں وہم ثابت ہوجائے تو اعتراض ہوگا، ورنہ کسی وقت کسی وجہ سے کسی دوسری حدیث میں وہم کو لے کر اعتراض نہیں کیا جاسکتا۔ پھر ایک لفظ میں وہم ہوجانے سے پوری حدیث کا ضعف لازم نہیں آتا۔
    النوع السابع:
    حدیث کے متن کے الفاظ مختلف ہوگئے۔ ایک جگہ کچھ الفاظ ہیں، دوسری جگہ الفاظ دوسرے ہیں، جیسے جابر کی اشتراء جمل سے متعلق حدیث ہے۔ تو ان الفاظ پر اعتراض ہے۔
    اس کا جواب یہ ہے کہ تطبیق یا ترجیح ہوسکتی ہے۔ پھر دارقطنی نے جن پر تنقید کی ہے، ان میں اس اعتراض کو شامل نہیں کیا۔
    یہ سات قسم کے اعتراضات تھے، جن کے قدرے تفصیلی جواب بھی ہوگئے۔ ان جوابات سے جو بات سمجھ آتی ہے کہ بخاری کے اندر اکثر صحیح احادیث ایسی ہیں جن پر کسی کو کوئی اعتراض نہیں۔ لیکن کچھ ایسی صحیح احادیث ہیں ، جن پر اعتراضات کیے جاتے ہیں اور ان کے جواب بھی موجود ہیں۔ تو دراصل یہ اعتراض امام بخاری کی ذات پر ہیں کہ انہوں نے اس سند یا لفظ کو کیوں اختیار کیا؟ دوسری کو کیوں نہیں لیا؟ باقی بخاری میں درج شدہ حدیث پر نہیں۔
    مکمل تفصیلی جوابات ان ان مقامات پر ذکر کیے جائیں گے ، جن جن مقامات پر کتاب کے اندر وہ منتقد علیہ احادیث مذکور ہوں گی۔ ان شاء اللہ تبارک وتعالیٰ۔

    مرآۃ البخاری از محدث نور پوری رحمہ اللہ
    ص: 131 تا 139
    کمپوزنگ: آزاد​
    [/font]
    [/FONT]
     
  2. امان اللہ اصضر

    امان اللہ اصضر رکن اردو مجلس

    شمولیت:
    ‏اپریل 17, 2015
    پیغامات:
    7
    مکمل تفصیلی جواب
    شایدنہیں دیا گیا
     
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں