“تقدیر” کے بارے میں دوگروہوں کی گمراہی اور ان کا رد

بابر تنویر نے 'دین کے تین بنیادی اصول اور ان کی شرح' میں ‏نومبر 9, 2013 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. بابر تنویر

    بابر تنویر -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏دسمبر 20, 2010
    پیغامات:
    7,320
    اور تقدیر کے مسئلہ میں دو گروں گمراہ ہوۓ ہیں:

    1-ان میں سے ایک جبریہ کا ٹولہ ہے، یہ وہ لوگ ہیں، جو کہتے ہیں کہ بندہ اپنے ہر کام میں 'مجبور محض' ہے اور اس کے کسی کام میں بندے کے اپنے ارادے یا قدرت و اختیار کو کوئ دخل نہیں (یعنی بندہ اپنے ہر کام کے کرنے میں مجبور ہے خواہ وہ اچھا ہو یا برا)

    2- دوسرا ٹولہ قدریہ کا ہے، جو یہ دعوی کرتے ہیں، کہ بندہ اپنے ہر عمل میں مستقل (یعنی با اختیار اور آزاد ہے) اور اس کے عمل کی انجام دہی میں اللہ تعالی کی مرضی اور قدرت کا کوئ اثر و رسوخ نہیں۔

    پہلے گروہ کا شرعی اعتبار سے رد:

    بلاشک و شبہ اللہ تعالی نے بندے کے ارادے اور مشیت (مرضی) کا اثبات کیا ہے اور مزید یہ عمل کی بھی اس کی جانب اضافت (اور نسبت) کی ہے،
    ارشاد باری تعالی ہے ( مِنْكُمْ مَنْ يُرِيدُ الدُّنْيَا وَمِنْكُمْ مَنْ يُرِيدُ الآخِرَةَ )(آل عمران:الآية152)
    " تم میں سے کچھ تو وہ تھے، جو دنیا چاہتے تھے اور تم میں سے کچھ وہ تھے جو آخرت چاہتے تھے۔"

    سورہ الکہف میں اللہ جل شانہ کا ارشاد ہے:(وَقُلِ الْحَقُّ مِنْ رَبِّكُمْ فَمَنْ شَاءَ فَلْيُؤْمِنْ وَمَنْ شَاءَ فَلْيَكْفُرْ إِنَّا أَعْتَدْنَا لِلظَّالِمِينَ نَاراً أَحَاطَ بِهِمْ سُرَادِقُهَا )(الكهف:الآية29)
    " اور )اے نبی!) صاف کہہ دو کہ یہ حق ہے، تمہارے رب کی طرف سے، اب جس کا جی چاہے مان لے اور جس کا جی چاہے انکار کر دے، ہم نے (انکار کرنے والے) ظالموں کے لیۓ ایک آگ تیار کر رکھی ہے، جس کی لپٹیں انہیں گھیرے میں لے چکی ہے۔"

    اور سورہ فصلت میں حق تعالی یوں ارشاد فرماتا ہے:
    : (مَنْ عَمِلَ صَالِحاً فَلِنَفْسِهِ وَمَنْ أَسَاءَ فَعَلَيْهَا وَمَا رَبُّكَ بِظَلامٍ لِلْعَبِيدِ) (فصلت:46) .
    " جس شخص نے کوئ نیک عمل کیا تو اس کا فائدہ اسی کو ہوگا اور جو کوئ برائ کرے گا، اس کا وبال بھی اسی پر ہوگا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پروردگار اپنے بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں۔"

    واقعاتی اعتبار سے رد:

    ہر انسان اپنے ان اختیاری کاموں، جنہیں وہ اپنے ارادے اور چاہت سے انجام دیتا ہے، جیسے کھانا پینا، خرید و فروخت وغیرہ اور ان کے درمیان جو اس پر بغیر اس کے ارادے اور چاہت کے واقع ہوتے ہیں جیسے بخار کی شدت سے اس پر لرزہ اور کپکپی طاری ہونا اور اونچی چھت سے نیچے گر پڑنا وغیرہ کے درمیان بخوبی فرق جانتا ہے، تو وہ پہلی نوعیت کے کاموں میں بغیر کسی جبر و اکراہ کے خود مختار اور انہیں اپنے ارادے سے سر انجام دیتا ہے، جبکہ دوسری قسم کے کاموں میں وہ بے بس ہے اور اپنے اوپر طاری ہونے والے ایسے حوادث میں اس کے ارادے اور چاہت کا کوئ عمل دخل نہیں۔"

    اور جہاں تک دوسرے گمراہ فرقے قدریہ کا تعلق ہے، تو اس کا رد شرعی اور عقلی ہر دو طرح سے کیا جاتا ہے۔ .

    شرعی اعتبار سے رد:

    بلا شک و شبہ اللہ تعالی ہر چیز کا خالق ہے (پیدا کرنے والا) ہے، اور اس کائنات میں ہر چیز اس حقیقی خالق و مالک کی مرضی سے ہی وجود میں آتی ہے، اللہ تعالی نے اپنے کتاب (قران حکیم) میں یہ بات بیان فرما دی ہے کہ بندوں کے جملہ افعال (کام) اس کی مشیت (اور مرضی) سے ہی وقوع پذیر ہوتے ہیں۔

    اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ مَا اقْتَتَلَ الَّذِينَ مِنْ بَعْدِهِمْ مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَتْهُمُ الْبَيِّنَاتُ وَلَكِنِ اخْتَلَفُوا فَمِنْهُمْ مَنْ آمَنَ وَمِنْهُمْ مَنْ كَفَرَ وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ مَا اقْتَتَلُوا وَلَكِنَّ اللَّهَ يَفْعَلُ مَا يُرِيدُ)(البقرة:الآية253)
    " اور اگر اللہ تعالی چاہتا، تو ان رسولوں کے بعد لوگ آپس میں لڑائ جھگڑا نہ کرتے، جبکہ ان کے پاس واضح احکام بھی آچکے تھے، لیکن انہوں نے آپس میں اختلاف کیا، پھر کوئ تو اس احکام پر ایمان لایا اور کسی نے انکار کردیا اور اگر اللہ چاہتا، تو وہ آپس میں لڑائ جھگڑے نہ کرتے، لیکن اللہ تو وہی کچھ کرتا ہے، جو وہ چاہتا ہے۔"

    اور سورہ السجدہ میں اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے :
    (وَلَوْ شِئْنَا لآتَيْنَا كُلَّ نَفْسٍ هُدَاهَا وَلَكِنْ حَقَّ الْقَوْلُ مِنِّي لأَمْلأَنَّ جَهَنَّمَ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ) (السجدة:13)
    " اور اگر ہم چاہتے تو (پہلے ہی) ہر شخص کو ہدایت دے دیتے، لیکن میری یہ بات پوری ہو کے رہی کہ میں دوزخ کو جنوں اور انسانوں سے بھر دوں گا۔"

    عقلی اعتبار سے رد:

    یہ بات عین ممکن ہے کہ کائنات ساری کی ساری اللہ تعالی کی ملکیت اور اس کے تصرف میں ہے، لہذا اس کائنات میں بسنے والا انسان بھی اسی حقیقی خالق و مالک کا مملوک (یعنی ملکیت) ہے اور کسی بھی 'مملوک' کے لیۓ یہ بات ممکن نہیں ہو سکتی کہ وہ حقیقی مالک کے ملک میں اس کی اجازت اور مرضی کے بغیر کسی قسم کا کوئ تصرف کرے ( اور اپنی مرضی سے ہی جو چاہے کرتا پھرے)
    دین کے تین بنیادی اصول اور ان کی شرح(شرح اصول الثلاثة) - URDU MAJLIS FORUM
     
  2. ام ثوبان

    ام ثوبان رحمہا اللہ

    شمولیت:
    ‏فروری 14, 2012
    پیغامات:
    6,690
    جزاک اللہ خیرا
     
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں