دین کے تین درجات پر سنت مطہرہ سے دلیل "حدیث جبرائیل"

بابر تنویر نے 'دین کے تین بنیادی اصول اور ان کی شرح' میں ‏نومبر 12, 2013 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. بابر تنویر

    بابر تنویر -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏دسمبر 20, 2010
    پیغامات:
    7,320
    والدليل من السنة: حديث جبرائيل المشهور عن عمر رضي الله عنه قال : بينما نحن جلوس عند رسول الله صلى الله عليه وسلم ذات يوم إذ طلع علينا رجل شديد بياض الثياب ، شديد سواد الشعر لا يرى عليه أثر السفر ولا يعرفه منا أحد، حتى جلس إلى النبي صلى الله عليه وسلم فأسند ركبتيه إلى ركبتيه، ووضع كفيه على فخذيه وقال: يا محمد أخبرني عن الإسلام ، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم "الإسلام أن تشهد أن لا إله إلا الله وأن محمدا رسول الله ، وتقيم الصلاة ، وتؤتي الزكاة ، وتصوم رمضان ، وتحج البيت إن استطعت إليه سبيلاً" قال: صدقت ، فعجبنا له يسأله ويصدقه. قال: فأخبرني عن الإيمان، قال : "أن تؤمن بالله وملائكته ، وكتبه ، ورسله، واليوم الآخر ، وتؤمن بالقدر خيره وشره" ، قال: صدقت ، قال: فأخبرني عن الإحسان ، قال: "أن تعبد الله كأنك تراه ، فإن لم تكن تراه فإنه يراك" ، قال : فأخبرني عن الساعة ، قال ما المسئول عنها بأعلم من السائل ، قال : فأخبرني عن أماراتها قال: "أن تلد الأمة ربتها، وأن ترى الحفاة العراة العالة رعاء الشاءِ يتطاولون في البنيان" قال: فمضى فلبثنا ملياً فقال: "ياعمر أتدري من السائل"؟ قلت : الله ورسوله أعلم، قال: "قال هذا جبريل أتاكم يعلمكم أمر دينكم"(57).
    " اور دین کے ان تین درجات پر سنت مطہرہ سے دلیل نبئ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ مشہور حدیث ہے جو 'حدیث جرائیل' علیہ السلام کے نام سے معروف ہے " حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں :" اس حال میں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں بیٹھے تھے کہ اچانک ایک (اجنبی) آدمی ہماری مجلس میں وارد ہوا، جس کا لباس نہایت سفید اور بال انتہائ سیاہ تھے اس پر سفر کے کوئ آثار (گرد و غبار وغیرہ) بھی دکھائ نہ دیتے تھے اور نہ ہم میں سے کوئ ان کو جانتا تھا، تب وہ (اجنبی آدمی) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھٹنوں سے گھٹنے ملا کر بیٹھ گیا، اور کہا اے محمد! صلی اللہ علیہ وسلم مجھے بتائیے کہ اسلام کیا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں فرمایا : اسلام یہ ہے کہ آپ اس بات کی گواہی دیں کہ اللہ تعالی کے سوا کوئ معبود برحق نہیں اور حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اللہ کے (سچے) رسول ہیں اور یہ کہ آپ نماز قائم کریں، زکات ادا کریں، رمضان المبارک کے روزے رکھیں اور اگر زاد راہ کی توفیق ہو تو بیت اللہ شریف کا حج کریں۔"
    اس نووارد (مسافر ) نے (یہ سن کر) کہا : آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سچ فرمایا (حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں) ہم نے اس کی اس بات پر تعجب کیا کہ پہلے تو آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) سے سوال کرتا ہے، پھر خود ہی تصدیق بھی کر رہا ہے، اس کے بعد اس نے کہا: مجھے بتایۓ کہ ایمان کیا ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:" ایمان یہ ہے کہ آپ اللہ تعالی، اس کے فرشتوں، اس کی کتابوں، اس کے رسولوں، روزقیامت اور اچھی اور بری تقدیر پر ایمان رکھیں، یہ جواب سن کے اس اجنبی مسافر نے پھر کہا :آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سچ فرمایا۔"
    پھر اس نے کہا (اے محمد! صلی اللہ علیہ وسلم) مجھے بتائیے کہ "احسان" کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :"احسان" یہ ہے کہ آپ اللہ تعالی کی عبادت (اس خشوع و خضوع، انابت، تذلیل اور تضرع سے) کریں کہ گویا آپ اسے اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں، اور اگر آپ عبادت میں اس بلند درجہ کو نہیں پاسکے تو (کم ازکم) یہ کیفیت ضرور ہونی چاہیۓ کہ وہ (حقیقی معبود) آپ کو دیکھ رہا ہے، تو پھر اس نے کہا: مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم قیامت کے بارے میں بتائیں کہ کب آنے والی ہے؟ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں فرمایا : کہ قیامت بپا ہونے کے بارے میں مسئول (جس سے سوال کیا جا رہا ہے) سائل (سوال کرنے والے) سے زیادہ نہیں جانتا، تو اس پر اس (اجنبی مسافر) نے کہا: کہ اس (قیامت) کی علامات ہی بتادیں، آپ صلی اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا" (قرب قیامت) حالات یہ ہو جائیں کے کہ لونڈی اپنے آقا کو جنم دے گي (مطلب یہ کو اولاد اپنی ماں کو اپنی زر خرید نوکرانی تصور کرے گی- العیاذ باللہ) اور آپ دیکھیں گے کہ ننگے پاؤں، ننگے جسم، بھیڑ بکریاں چرانے والے (چرواہے) لوگ بڑی بڑی (بلند و بالا) عمارتیں کھڑی کرنے میں ایک دوسرے پر فخر کریں گے۔"
    حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں: کہ وہ اجنبی مسافر اتنی بات کرنے اور سن لینے کے بعد وہاں سے تو چلا گيا، مگر ہم تھوڑی دیر تک (سراسیمہ و خاموش) بیٹھے رہے، تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (ہم سے مخاطب ہو کر) فرمایا: اے عمر! (رضی اللہ تعالی عنہ) آپ جانتے ہیں کہ یہ سوال کرنے والا کون نووارد تھا؟ ہم نے کہا:" اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی زیادہ بہتر جانتے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا کہ یہ جبرائیل امین (علیہ السلام) تھے، جن ایک اجنبی شخص کی صورت میں تمہیں، تمہارے امور دین کی تعلیم دینے آۓ تھے۔" (متفق علیہ)


    (50) اسے امام مسلم نے کتاب الایمان، باب الایمان و الاسلام، میں روایت کیا ہے، نیز اس حدیث کے زیادہ تر حصے کی شرح پہلے گزر چکی ہے اور اس حدیث پر ہماری (مراد شیخ صالح العثیمین ہیں) مبسوط شرح، مجموع الفتاوی و الرسائل، ج 3، ص 143 میں موجود ہے۔
    دین کے تین بنیادی اصول اور ان کی شرح(شرح اصول الثلاثة) - URDU MAJLIS FORUM
     
  2. اخت طیب

    اخت طیب -: ماہر :-

    شمولیت:
    ‏فروری 14, 2013
    پیغامات:
    769
    جزاك الله خيرا
     
  3. ام ثوبان

    ام ثوبان رحمہا اللہ

    شمولیت:
    ‏فروری 14, 2012
    پیغامات:
    6,690
    جزاک اللہ خیرا
     
  4. ام محمد

    ام محمد -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏فروری 1, 2012
    پیغامات:
    3,120
    جزاک اللہ خیرا
     
  5. عبد الرحمن یحیی

    عبد الرحمن یحیی -: رکن مکتبہ اسلامیہ :-

    شمولیت:
    ‏نومبر 25, 2011
    پیغامات:
    2,312
    [​IMG]
     
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں