آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا مقصد اور سفر "معراج"

بابر تنویر نے 'دین کے تین بنیادی اصول اور ان کی شرح' میں ‏نومبر 16, 2013 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. بابر تنویر

    بابر تنویر -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏دسمبر 20, 2010
    پیغامات:
    7,320
    بعثه الله بالنذارة عن الشرك ، ويدعو إلى التوحيد (2) . والدليل قوله تعالى: )يَا أَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ(2) * قُمْ فَأَنْذِرْ (3) * وَرَبَّكَ فَكَبِّرْ * وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ * وَلا تَمْنُنْ تَسْتَكْثِرُ* وَلِرَبِّكَ فَاصْبِرْ) (المدثر:1 - 7) ومعنى } قم فأنذر { : ينذر عن الشرك ويدعو إلى التوحيد . } وربك فكبر { أي : عظمه بالتوحيد، } وثيابك فطهر { أي : طهر أعمالك عن الشرك. } وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ { الرجز: الأصنام وهجرها تركها ، والبراءة منها وأهلها.
    أخذ على هذا عشر سنين يدعو إلى التوحيد(5) وبعد العشر عرج به إلى السماء(6)
    اللہ تعالی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو شرک سے ڈرانے ، اور توحید کے لیۓ معبوث فرمایا، اس بات کی دلیل اللہ جل شانہ کا یہ فرمان ہے ۔" اے اوڑھ لپیٹ کر لیٹنے والے اٹھو، اور خبردار کرو، اور اپنے رب کی بڑائ کا اعلان کرو اور اپنے کپڑے پاک رکھو، اور گندگی سے دور رہو اور زیادہ حاصل کرنے کے لیۓ احسان نہ کرو اور اپنے پروردگار کی خاطر صبر سے کام لو۔،
    مفردات کی شرح:
    (قُمْ فَأَنْذِرْ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان لوگوں کو شرک سے ڈرائیں اور توحید کی طرف دعوت دیں۔
    (وَرَبَّكَ فَكَبِّرْ) توحید کے ساتھ ساتھ اپنے پرودگار کی عظمت اور کبریائ بیان کریں۔
    (وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ) اپنے اعمال کو شرک سے پاک رکھیں
    (وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ) الرجز کا معنی اصنام (بت) اور فاھجر کا مطلب یہ ہے، کہ جس طرح اب تک آپ صلی للہ علیہ وسلم ان سے دور رہے ہیں، اسی طرح انکے بنانے والوں اور پوجنے والوں سے دور رہیں، اور ان بتوں اور ان کے پجاری مشرکوں سے بیزاری اور براءت کا اظہار کریں۔۔۔۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بنیادی نقطہ نظر (توحید) پر دس سال صرف کیۓ اور لوگوں کو اللہ کو توحید کی طرف دعوت دیتے رہے، دس سال کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آسمانوں کی سیر (معراج) کرائ گئ۔"
    (2)مطلب یہ کہ دنیا والوں کو شرک سے ڈرائیے اور بچائیے اور اللہ عزو جل کی توحید ربوبیت، توحید الوہیت اسماء و صفات کی طرف دعوت دے۔
    (3) اللہ تعالی کی اس فرمان )يَا أَيُّهَا الْمُدَّثِّر) میں خطاب اور نداء اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لیۓ ہے۔
    (4) اللہ جل شانہ کے اس فرمان (قُمْ فَأَنْذِرْ) میں، اللہ عزوجل ، اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ حکم دے رہے ہیں کہ وہ اس فریضہ رسالت کو پوری محنت، تگ و دو اور جانفشانی سے ادا کریں، لوگوں کو شرک کے خوفناک انجام سے ڈرائیں اور اس میں واقع ہونے سے بچائیں، جیسا کہ شیخ الاسلام محمد بن عبد الوھاب نے بھی ان آیات مبارکہ کی تفسیر (اسی انداز سے) کی ہے۔
    (5) یعنی اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بنیادی نقطہ توحید پر دس سال صرف کیۓ اور اس دوران آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسلسل لوگوں کو اللہ کی توحید کی طرف اور اسی یکتا ذات کی عبادت کی دعوت دیتے رہے۔
    (6) کلمہ العروج کا مطلب الصعود یعنی بلندی کی طرف چڑھنا اور اسی سے اللہ جل شانہ کا یہ فرمان ہے تَعْرُجُ الْمَلَائِكَةُ وَالرُّوحُ (المعارج 4) جس (اللہ تعالی) کی طرف روح اور فرشتے ایک دن میں چڑھتے ہیں۔"


    معراج کی رات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب مبارک کا حکمت اور ایمان سے بھرا جانا اور سفر معراج کی ابتداء

    اور یہ معراج اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بڑی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت ہے، جس سے اللہ تعالی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت سے قبل بہرہ وہ فرمایا اور تفصیل اس واقعہ معراج کی ہے ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کعبہ مشرفہ (یعنی حطیم مقام) میں سو رہے تھے کہ ایک آنے والے فرشتے نے آکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سینہ اطہر کے اوپر ہنسلی سے لے کر نیچے بطن اطہر تک پیٹ کھولا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب اطہر کو نکالا اور اس مبارک سفر (اسراء معراج) کے لیۓ تیاری کے طور پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حکمت اور ایمان سے بھر دیا پھر وہ فرشتہ اپنے ساتھ ایک سفید رنگ کا جانور (سواری کے لیۓ) لایا، جو قد و قامت میں خچر سے چھوٹا اور گدھے سے بڑا تھا، اور جس کا نام براق تھا (اس کی تیز رفتاری کا یہ عالم تھا کہ) وہ اپنی نگاہ کی مسافت کی حد تک اپنا قدم رکھتا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر سوار ہوۓ اور (اس مبارک سفر میں) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رفیق اور ساتھی حضرت جبریل روح الامین علیہ السلام تھے،

    بیت المقدس میں تمام انبیاء علیہم السلام کی امامت

    یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیت المقدس پہنچے، وہاں اتر کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم تمام انبیاء اور رسولوں کے امام بنے، سب نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھی، تاکہ اس امامت سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی فضیلت اور شرف و کمال عیاں ہو جاۓ اور یہ بھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی سب کے امام اعظم اور مقتدی ہیں؟

    پہلے آسمان پر حضرت آدم علیہ السلام سے ملاقات

    بعد ازاں (سفر معراج میں) حضرت جبریل علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو لے کر آسمان دنیا (پہلے آسمان) کی طرف چڑھے اور آسمان میں داخلے کا دروازہ کھٹکھٹایا، اس پر اندر سے کہا گيا کہ :کون ہے؟ حضرت جبریل علیہ السلام نے کہا : جبریل ہوں، پھر پوچھا گيا : آپ کے ساتھ کون ہے؟ حضرت جبریل علیہ السلام نے کہا محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ پھر کہا گیا: کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بلا بھیجا گيا ہے؟ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے کہا :ہاں تب اندر سے کہا گيا: خوش آمدید' کتنا ہی مبارک اور اچھا ہے آنے والے کا آنا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیۓ (پہلے آسمان کا) دروازہ کھول دیا گيا، تو وہاں حضرت آدم علیہ السلام کو کھڑے پایا، حضرت جبرائیل علیہ السلام نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا : یہ آپ کے باپ آدم علیہ السلام ہیں، انہیں سلام کہیۓ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو سلام کہا تو انہوں نے سلام کا جواب دیا، اور پھر کہا : صالح (نیک) بیٹے اور صالح نبی کا آنا مبارک ہو۔۔۔۔۔ اور وہاں ناگہاں حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد میں سے سعادت مند لوگوں کی روحیں ان کے دائیں طرف اور برے اور بدبخت لوگوں کی روحیں ان کے بائیں طرف تھی، تو جب حضرت آدم علیہ السلام دائیں جانب دیکھتے تو خوش ہوتے اور ہنستے اور جب بائیں جانب دیکھتے تو رونے لگتے،

    دوسرے آسمان پر حضرت یحیی اور حضرت عیسی علیہما السلام سے ملاقات

    پھر حضرت جبریل علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ السلام کو لے کر دوسرے آسمان کی طرف چڑھے اور اس کا دروازہ کھٹکھٹایا،،،،، اور وہی سوال و جواب ہوۓ، جو پہلے آسمان پر ہوۓ تھے، تو جب دروازہ کھولا گیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں یحیی اور حضرت عیسی علیہما السلام کو موجود پایا، جو ایک دوسرے کے رشتے میں خالہ زاد بھائ ہیں، حضرت جبریل علیہ السلام نے کہا : حضرت یحیی و عیسی (علیہما السلام) ہیں، ان کو سلام کہیۓ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو سلام کہا تو ان دونوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا جواب دیا، پھر ان دونوں نے کہا :" صالح بھائ اور صالح نبی کا آنا مبارک ہو"

    تیسرے آسمان پر حضرت یوسف علیہ السلام سے ملاقات

    پھر حضرت جبریل علیہ السلام کو لے کر تیسرے آسمان کی طرف چڑھے اور آسمان کا دروازہ کھٹکھٹایا۔۔۔۔۔ اور وہی سوال و جواب ہوۓ، جو پہلے اور دوسرے آسمان پر ہوۓ تھے جب دروازہ کھولا تو وہاں حضرت یوسف علیہ السلام کو پایا، حضرت جبريل علیہ السلام نے کہا : یہ یوسف علیہ السلام ہیں۔ ان کو سلام کہیۓ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو سلام کہا، حضرت یوسف (علیہ السلام) سلام کا جواب دیا اور کہا :" صالح بھائ اور صالح نبی کا آنا مبارک ہو۔"۔۔۔۔۔۔

    چوتھے آسمان پر حضرت ادریس علیہ السلام سے ملاقات

    پھر حضرت جبریل علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ وسل کو لے کر چوتھے آسمان کی طرف چڑھے اور آسمان کا دروازہ کھٹکھٹایا۔۔۔۔۔ اور بعینہ وہ سوال و جواب ہوۓ جو پہلے تین آسمانوں کے دروازے کھلوانے پر ہوئے تھے" پھر جب یہ دروازہ بھی کھول دیا گيا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں ادریس علیہ السلام کو پایا، حضرت جبریل علیہ السلام نے کہا یہ ادریس علیہ السلام ہیں، آپ ان کو سلام کہیۓ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ادریس کو سلام کہا انہوں نے سلام کا جواب دیا اور کہا: صالح بھائ اور صالح نبی کا یہاں آنا مبارک ہو۔"۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

    پانچویں آسمان پر حضرت حضرت ہارون علیہ السلام سے ملاقات

    پھر حضرت جبرائیل علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو لے کر پانچویں آسمان کی جانب چرھے اور آسمان کا دروازہ کھولنے کی لیۓ دستک دی،،،،،، اور وہی سوال و جواب ہوۓ جو پہلے آسمانوں پر ہوۓ تھے، پھر جب دروازہ کھول دیا گيا تو وہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت موسی کے بھائ حضرت ہاروں بن عمران علیہما السلام کو موجود پایا۔ حضرت جبریل علیہ السلام نے کہا یہ ہارون علیہ السلام ہیں ان کو سلام کہیے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو سلام کہا، انہوں نے سلام کا جواب دیا اور یہ بھی کہا:" صالح بھائ اور صالح نبی کا آنا مبارک ہو۔"۔۔۔۔۔۔۔۔

    چھٹے آسمان پر حضرت موسی کلیم اللہ علیہ السلام سے ملاقات

    پھر حضرت جبرائیل علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو لے کر چھٹے آسمان کی طرف چڑھے اور دوروازے پر دستک دی۔۔۔۔۔۔۔ اور دونوں طرف سے وہی سوال و جواب ہوۓ جو پہلے آسمانوں پر ہوئے ھے۔ دروازہ کھلنے پر، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں حضرت موسی کلیم اللہ علیہ السلام کو پایا، حضرت جبرائیل علیہ السلام نے کہا : یہ موسی علیہ السلام ہیں، آپ ان کو سلام کہیۓ، آپ صلی االلہ علیہ وسلم نے ان کو سلام کہا، تو انہوں نے سلام کا جواب دیا اور کہنے لگے: صالح بھائ اور صالح نبی کا یہاں آنا مبارک ہو۔" ۔۔۔۔۔۔ پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے چلے تو موسی علیہ السلام نے رونا شروع کردیا، آپ علیہ السلام سے کہا گیا : کہ آپ کو کس چیز نے رلایا ہے؟ تو حضرت موسی علیہ السلام نے جواب دیا: میں اس لیۓ روتا ہوں کہ ایک لڑکا میرے بعد نبی بنا کر بھیجا گيا، جس کی امت کے لوگ، میری امت کی نسبت بہت زیادہ تعداد میں جنت میں جائیں گے۔"
    تو حضرت موسی علیہ السلام کا یہ رونا ان کا اپنی امت کا، ان فضائل سے محروم رہ جانے کے غم میں تھا ( جس کی بناء پر وہ کثیر تعداد میں جنت میں جانے سے محروم ہو گۓ) نہ کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ کی امت سے حسد کی بنا پر۔"۔۔۔۔۔

    ساتویں آسمان پر حضرت ابراہیم خلیل اللہ سے ملاقات

    پھر حضرت جبریل علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو لے کر ساتویں آسمان کی طرف چڑھے اور دروازہ کھولنے کے لیۓ دستک دی، اندر سے آواز آنے پر وہی سوال و جواب ہوۓ، جو قبل ازیں تمام آسمانوں پر ہوۓ تھے۔۔۔۔۔۔ پھر جب ساتویں آسمان کا دروازہ کھلا تو وہاں آپ صلی اللہ علیہ نے حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کو پایا۔ حضرت جبریل علیہ السلام نے کہا : یہ آپ کے باپ (جد امجد) ابراہیم علیہ السلام ہیں، آپ ان کو سلام کہیۓ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو سلام کہا: انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سلام کا جواب دیا اور کہا : صالح بیٹے اور صالح نبی کا آنا مبارک ہو،"

    اور حضرت جبریل الامین علیہ السلام کی رفاقت میں، ان انبیاء علیہم السلام سے اس لۓ ملاقات کی تاکہ (اس سفر مبارک میں) آپ صلی اللہ علیہ کا شرف و کمال اور عزت و تکریم ظاہر ہوجاۓ اور حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام ساتویں آسمان پر اس "بیت معمور" (فرشتوں کے قبلہ) کی طرف کمر کے سہارے ٹیک لگاۓ ہوۓ تھے، جس میں روزانہ ستر ہزار فرشتے (عبادت اور طواف کے لیۓ) داخل ہوتے ہیں، وہ نماز پڑھتے ہیں اور پھر باہر نکل جاتے ہیں اور پھر وہ دوسرے دن واپس نہیں لوٹتے، بلکہ ان کے علاوہ اور فرشتوں کا گروہ عبادت و طواف کے لیۓ آتا ہے، جن کو اللہ عزوجل کے سوا اور کوئ شمار نہیں کرسکتا۔ بعد ازاں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سدرۃ المنتہی کی طرف اٹھایا گیا اس سدرۃ المنتہی کو اللہ کے حکم سے جن دلفریب، پر رونق اور حسین اور جمیل اشیاء نے ڈھانپ لیا ہے، ان کے حسن و جمال اور کمال کو بیان کرنا کسی کے بس میں نہیں۔

    50 نمازوں کا فرض کیا جانا اور ان میں تخفیف کا بیان

    پھر اللہ تعالی نے اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم ہر دن اور رات میں پچاس نمازیں فرض کیں، جس پر آپ صلی اللہ علیہ راضی ہوۓ، (بارگاہ الہی میں) سر تسلیم خم کیا۔۔۔۔۔۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم واپس ہوۓ تو جب موسی علیہ السلام کے پاس سے گزرے، تو انہوں نے پوچھا: کی آپ کے رب نے آپ کی امت پر کیا کچھ فرض کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا، ہر دن پچاس نمازیں، اس پر حضرت موسی کہنے لگے، بلا شک آپ کی امت ان فرائض کی ادائیگی کی طاقت نہیں رکھے گي، میں نے آپ سے پہلے لوگوں کو خوب آزمایا ہے اور بنی اسرائیل کو (خاص طور پر) خوب جانچا پرکھا ہے، لہذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے پرودگار کی طرف جائیے اور اس سے اپنی امت کے لیۓ تخفیف (یعنی نمازوں کو کم کرنے ) کی درخواست کیجیۓ۔۔۔ تو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " میں اپنے رب کے پاس واپس گیا، تو میری درخواست پر میرے رب نے مجھ سے دس نمازیں کم کردیں، اور اسی طرح میں بار بار (موسی علیہ السلام کے کہنے پر) اپنے پروردگا کی بارگاہ میں حاضر ہوتا رہا، اس سے کمی اور تخفیف کی درخواست کرتا رہا، یہان تک کہ فرض نمازیں صرف پانچ رہ گئيں، تو ایک منادی (آواز دینے والے) نے آواز دی :" میں نے فریضہ عبادت جاری و نافذ کردیا اور اپنے بندوں پر آسانی کردی ہے۔"

    جنت کی سیر اور سفر معراج سے واپسی

    اور اسی معراج کی شب اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جنت کی سیر کرائ گئ، تو آپ صلی اللہ علیہ نے اس میں موتیوں کے بنے ہوۓ قبہ نما (محلات) دیکھے، جن کی مٹی مسک (کستوری) تھی، پھر آپ صلی علیہ وسلم واپس زمین کی طرف اترے، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رات کے وقت (صبح کے) گہرے اندھیرے میں مکہ مکرمہ تشریف لاۓ اور صبح (فجر) کی نماز وہاں ( مکہ مکرمہ) ادا کی۔" (60)

    دین کے تین بنیادی اصول اور ان کی شرح(شرح اصول الثلاثة) - URDU MAJLIS FORUM
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
  2. Ishauq

    Ishauq -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏فروری 2, 2012
    پیغامات:
    9,612
    جزاک اللہ خیرا
     
  3. زبیراحمد

    زبیراحمد -: ماہر :-

    شمولیت:
    ‏اپریل 29, 2009
    پیغامات:
    3,446
    جزاک اللہ خیر
     
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں