کیا ہر شخص طلب علم کا مکلف ہے ؟ اور کس قدر؟

ابوعکاشہ نے 'ميرى درس گاہ' میں ‏نومبر 22, 2013 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. ابوعکاشہ

    ابوعکاشہ منتظم

    رکن انتظامیہ

    شمولیت:
    ‏اگست 2, 2007
    پیغامات:
    15,952
    کیا ہر شخص طلب علم کا مکلف ہے ؟ اور کس قدر؟
    علم کی فضیلت مُسّلِم ہے،اس کی افادیت اور معنویت اور مقام و مرتبہ تمام بنی آدم کے مابین معترف بہ ہے ، مگر وہ علم جس کا سیکھنا ہر شخص فرض عین ہے ، اس سے ہمارے معاشرہ کس قدر تکاسل و تغاف کا شکار ہے ہم سب اس سے محفی نہیں ، جس کی ایک وجہ شاید یہ بھی ہو کہ اس امر کی نشاندہی اور توضیح عوام الناس میں نہیں کی جاسکی ، اس لیے اہل علم کے اقوال کی روشنی میں چند سطور تحریر کی جارہی ہیں جس سے امر کی تعیین میں ہمیں مدد ملے گی ہر شخص پر کس قدر علم سیکھنا فرض ہے ؟ تاکہ ہر شخص اپنی بساط اور استطاعت کے مطابق سیکھنے کی کوشش کرے ، اور تقصیر و کوتاہی ، سستی و غفلت کا شکار نہ ہو ، اللہ رب العالمین ہم سب کا حامی و ناصر ہو ـ آمین
    محترم قارئین ! یہ امر ہم سب پرمخفی نہیں کہ قول و عمل کی صحت علم پر مبنی ہے ،
    فرمان باری تعالٰی ہے ، فاعلم أنه لا إله إلا الله واستغفر لذنبك''

    یعنی آپ جان لیجئے کہ اللہ تعالٰی کے سوا کوئی معبود نہیں ، اور اپنے گناہوں کی بخشش طلب کریں''
    علم کے اس عظیم اساسی مقام کو واضح کرتے ہوئے امام بخاری اپنی (صحیح بخاری)میں فرماتے ہیں :
    باب العلم قبل القول االعمل لقولہ اللہ تعالیﷲ ! فاعلم أنه لا إله إلا الله )

    یعنی باب اس بارے میں علم قول و عمل سے پہلے ہے ، اس لیے کہ اللہ تعالٰی نے لا إله إلا الله کا علم حاصل کرنے کا حکم عمل سے پہلے دیا ''
    اسی لیے علامہ ابن منیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں : امام بخاری کا مقصود یہ ہے کہ قول وعمل کی صحت میں علم شرط ہے ، اس کے بغیر شریعت اسلامیہ میں قول و فعل کا کوئی اعتبار ہی نہیں ، اس لیے اس کا درجہ ان دونوں سے پہلے ہے کیونکہ اسی پر نیت و عمل کی تصیح موقوف ہے ـ (فتح الباری لابن حجر1/193)

    انسؓ بن مالک سے مروی ہے کہ نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا :
    '' -طلب العلم فريضة على كل مسلم '' یعنی علم کا حاصل کرنا ہر مسلمان فرض ہے ـ

    یہ حدیث متعدد صحابہ کرامؓ سے مروی ہے ـ علامہ البانی اور بعض معاصرین نے اس کی تحسین کی ہے ـ
    ( حاشیہ جامع بیان العلم و فضلہ لابن عبدالبر ، تحقیق فضیلتہ الشیخ ابی الاشبال الزہیری :1/23-53)
    اسحاق بن راہویہ فرماتے ہیں : علم کا سیکھنا واجب ہے مگراس تعلق سے جو حدیث سے مروی ہے صحیح نہیں ، البتہ اس کا معنی صحیح ہے ، اس لیے ہرشخص پر اس قدر علم سیکھنا واجب ہے جس قدر سیکھے بغیر اس پر عائد فرائض کی ادائیگی ممکن نہیں ، جیسے ، وضو ء اور نماز کے مسائل ، اسی طرح اس شخص کے لیے زکاتہ اور حج وغیرہ کے مسائل جس کے پاس مال ہو ، فرماتے ہیں ـ ''جس قدر علم سیکھنا اس پر فرض ہو چکا ہے اس قدر علم سیکھنے کے لیے اگرگھر سے والدین کی اجازت کے بغیر نکلنے کی ضرورت پڑے تو نکل کر سیکھ لینا چاہیے ـ البتہ علم کے باقی مسائل جن کا تعلق فرض کفایہ سے ہے ان کے سیکھنے کے لیے والدین کی اجازت کے بغیر گھر سے باہر نہ نکلے
    ( جامع بیان العلم و فضلہ (1/52 رقم 31)

    عبداللہ بن مبارک (متوفی 181 ھ) سے مذکور حدیث (طلب العلم فريضة على كل مسلم) کے حوالے سے پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا (اس سے مقصود وہ نہیں ہے جو تم لوگ طلب کر رہے ہو ، بلکہ اس سے مقصود یہ ہے کہ دین کا کوئی بھی امر کسی شخص پر آپہنچے تو اس کا تعلق سے دین کا حکم سمجھنے کے لیے سوال کرے یہاں تک کہ صحیح طریقے سے اس کا جان لے (یعنی پھر اس کے مطابق عمل کرے )

    جامع بیان العلم وفضلہ (1/53 رقم 33) والفقیہ والمتفقہ للخطیب البغدادی (1/171 رقم 162 و سندہ صحیح )
    عبداللہ بن مبارک ہی سے ایک بار پوچھا گا : کس قدر علم سیکھنا ہرشخص پر ضروری ہے اور اس سے ناواقف رہنے کی گنجائش نہیں ؟ فرمایا : ''کسی بھی چیز کی طرف پیش قدمی علم کے بغیر نہ کرے ، بلکہ سوال کے ذریعہ علم حاصل کرے ، مزید وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں : اگر کسی شخص کے پاس مال و دولت نہیں تو زکاتہ کے مسائل سیکھنا واجب نہیں ، البتہ اگر اس کے پاس دو سو درہم چاندی ہو ، تو اس پر زکاتہ کے مسائل کا اس قدر سیکھنا واجب ہے کہ جس سے وہ اس فریضہ کو ٹھیک طریقے سے ادا کر سکے، یعنی مذکورہ مال سے کس قدر زکاتہ نکالنی ہوگی ـ کب اور کہاں اسے ادا کرنا ہوگا ، یہی معاملہ باقی فرائض کے ساتھ بھی ہے ـ
    (الفقیہ والمتفقہ (1/171 رقم 162 ) و جامع بیان العلم (1/56 رقم 38 بسندصحیح)

    امام شافعی سے کسی نے کہا : علم کیا ہے ؟ اور لوگوں پر کس قدر علم سیکھنا واجب ہے ؟
    تو آپ نے جوابا عرض کیا: ''کہ علم دو ہیں ، ایک کا تعلق عوام الناس سے ہے جو ہرعاقل و بالغ پر اس کا حصول واجب ہے ، اس سے جہالت کسی بھی حال میں درست نہیں ، کہا گیا : کہ مثالوں سے اس کی وضاحت فرمائی جائے ؟ تو آپ نے فرمایا : جیسے پانچ وقت کی فرض نماز ، رمضان کے روزے ، صاحب استطاعت پر بیت اللہ کا حج اور صاحب نصاب پر مال زکارہ کی فرضیت ہے ـ اسی طرح لوگوں پر زنا کی حرمت، قتل ، چوری ، شراب نوشی اور اس کے علاوہ جو امور بھی اس نوع کے ہوں جن کی صحیح معنون میں سمجھ کر حاصل کرنے کا ہمیں مکلف کیا گیا ہے ، اور یہ کہ اس پرعمل ہوتے ہوئے واجبات کی ادائیگی ، اور محرمات سے مکمل اجتناب اور پرہیزکی راہ اختیار کی جائے ، اس قسم کے علوم اللہ تعالی کی کتاب میں صراحت سے موجود ہیں ، نیز اکثر علماء اسلام کے پاس متداول اور ان کے عوام کے مابین نسل در نسل متوارث چلے آرہے ہیں جن کا ڈنڈاہ پیارے نبی ﷺ سے ملتا ہے ، اور اس نقل اور تداول ، نیز ان امور سے متعلق حصول علوم کی فرضیت میں ان کے مابین کوئی اختلاف نہیں ، یہ وہ عام علم ہے جس کے بارے میں وارد اخبار و احادیث میں غلطی ، یا اس کے معنی و مفاہیم میں خطا کا کوئی امکان ہے ، نہ ہی انزاع واختلاف کا کوئی جواز(دیکھئے: الرسالہ ص 357 رقم 961-962)

    عبداللہ بن امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے والدمحترم (یعنی امام احمد بن حنبل متوقی 241ھ) سے اس شخص کے بارے میں پوچھا جس پر طلب علم واجب ہے؟ آپ نے فرمایا :'' اس قدر علم کہ جس سے نماز ، روزہ ، نیز دیگر شرائع اسلام کو صحیح طریق سے قائم کر سکے'' ہر شخص پر حاصل کرنا ضروری ہے ـ (الفقیہ والمتفقہ (1/173 ارقم 166) بسندصحیح)-
    طلب علم اتنا کہ جس سے ہرذی ہوش شخص مومن بن سکے ، اس کا حاصل کرنا ہرشخص پرفرض ہے ، اس سے ناواقف رہنے کی گنجائش کسی بھی شخص کے لیے کسی بھی حال میں نہیں ہے ـ یہ فرضیت تمام پر ہے اس دائرے سے کوئی بھی شخص مستثنی نہیں ہے ـ (المصدر نفسہ (1/170)
    امام احمد کے مذکورہ کلام پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
    '' ہرشخص پر واجب ہے کہ اس قدر علم حاصل کرے جن کا حاصل کرنا ان فرائض کے تئیں اس پر واجب ہو چکا ہے ـ جنہیں اللہ تعالی نے اس پر فرض قرار دیا ہے ـ اس لیے وہ مقدور بھرطلبِ علم کی کوشش کرے ، اس لیے ہر مسلم عاقل بالغ شخص پر واجب ہے خواہ مرد ہو یا عورت ، آزاد ہو یا غلام کہ طہارت ، نماز روزہ کے احکام اس قدر جانے کہ جس پر اس کی صحت موقوف ہےے ، اسی طرح ہر مسلمان پر اس امر کا جاننا بھی واجب ہے کہ اس کے لیے کھانے ، پینے ، پہننے ، اوڑھنے ، شادی بیاہ ، اور جان و مال میں حلال کس قدر ہے اور حرام کس قدر ؟ ـ یہ تمام وہ امور ہیں جن سے ناواقفیت کی گنجائش کسی بھی حال میں نہیں بلکہ ہر ایک شخص پر فرض ہے کہ ان سب کو سیکھے تاکہ جب وہ بلوغت کے مرحلے میں قدم رکھے وہ مسلمان ہو ، یا بلوغت کے بعد جب بھی دائرہ اسلام میں داخل ہو (تو مذکورہ بالا امور سیکھنے کی کوشش کرے کیونکہ ان کا سیکھنا فرض ہے ـ حاکم وقت کو چاہیے کہ وہ عورتوں کے شوہروں ، لونڈیوں کے آقاؤں پر آرڈر نافذ کرے کہ وہ اپنی ماتحت عورتوں کی مذکورہ بالا امور کے سیکھنے کا معقول بندوبست کرسکیں ـ یہی نہیں بلکہ حاکم وقت پر فرض ہے کہ اس معاملہ سے متعلق لوگوں کا محاسبہ کرے ، اور ایسے علماء کی تعیین حکومتی سطح پر کرے جو عوام الناس کو واجبی تعلیم دے سکیں ، جن کی تنخواہوں کا بندوبست حکومت بیت المال سے کرے ، اور علماء کو چاہیے کہ ان پڑھ ، نادان لوگوں کو تعلیم دیں تاکہ حق ان کے سامنے نکھر کر آجائے ، اور وہ حق کو باطل سے الگ کرنے کی صلاحیت پیدا کر سکیں
    (الفقہ والمتفقہ للخطیب البغدادی : 1/174)

    علامہ ابن عبدالبر نے واجبی علم کے حوالے سے نہایت ہی تفصیل کے ساتھ مثالوں سے کی روشنی میں وضاحت فرمائی ہے ، ان کی عبارت کا خلاصہ پیش خدمت ہے وہ فرماتے ہیں :
    ''(اہل علم کا اتفاق ہے کہ علم کا کچھ حصہ ہر ایک پر فرض عین ہے ، اور کچھ حصہ فرض کفایہ ہے اگر کسی موضع سے چند لوگ حاصل کرلیں تو اس موضع کے باقی لوگوں سے وہ ساقط ہو جاتا ہے ـ البتہ فرض کفایہ کس قدر ہے اس بارے میں اختلاف ہے مگر یہ بات طے ہے کہ ہرشخص پر جس قدر علم کا حصول فرض عین ہے ، جس سے ناواقفیت کی گنجائش نہیں ، اس کا تعلق ان فرائض سے ہے جن کی ادائیگی ہم پر فرض ہو چکی ہے ، جیسے دل سے کلمہ شہادت کی تصدیق ، اور زبان سے اقرار کہ اللہ ایک ہے ، اس کا کوئی شریک اور ساجھی نہیں ، کوئی اس جیسا نہیں نہ تو اس نے کسی کو جنا ہے اور نہ ہی وہ کسی سے جنا گیا ہے ، کسی بھی چیز میں اس کا کوئی ہمسر نہیں ، وہ ہرچیز کا خالق ہے ، اسی طرف ہر چیز پلٹ کر جائیگی ، وہی مارنے اور جلانے والا ہے ـ وہ زندہ ہے اس پر موت نہیں آئیگی ، وہ حاضر او ر پوشیدہ تمام امور سے باخبر ہے، دونوں کی معرفت اس کے لیے یکساں ہے ، اس سے زمین و آسمان کا معمولی ذرہ بھی پوشیدہ نہیں ، وہ تمام چیزوں کے وجود سے پہلے ہے ، اور ساری چیزوں کے فنا ہو جانے کے بعد رہے گا ، وہ ساری مخلوقات پرغالب اور ان کے اوپر ہے ، وہ چھپے ہوئے باطن امور پر مطلع ہے ، رب ذی الجلال کے اسماء و صفات کے حوالہ سے اہل السنہ والجماعہ کا عقیدہ ہے کہ وہ ہمیشہ اپنے بہترین ناموں اور باکمال صفات کے ساتھ متصف رہا ہے ، وہ اول اور آخر ہے ، اس کے اولیت کی نہ کوئی ابتداء ہے ، نہ اس کے آخر کی انتہاء ،اعلی و اکمال صفات والا ہمارا رب عرش عظیم پر مستوی ہے ـ نیز اس بات کی گواہی دینا کہ محمدﷺ اللہ کے بندے اور اس کے برحق رسول ﷺ ہیں ـ نیز آپ سلسلہ انبیاء کی آخری کڑی ہیں اور یہ کہ موت کے بعد ہر شخص کو اپنے اعمال کے حساب و کتاب کے لیے دوبارہ زندہ کیا جانا برحق ہے اور یہ آخرت میں ایمان و فرمانبرداری کی دولت سے بہرورسعادت مند لوگوں کے لیے ہمیشہ ہمیش کی جنت نصیب ہوگی اور کفر و ہٹ دھرمی کی روش اپنانے والے بدبختوں کے لیے ہمیشہ ہمیش کے لیے جہنم ہوگی ـ
    اور یہ قرآن مجید اللہ کا کلام ہے ، جو کچھ بھی اس میں ہے حق اور درست ہے ، یہ پورا قرآن اللہ تعالٰی کی طرف سے نازل شدہ ہے ـ اس پر ایمان و یقین ہے ، نیز اس کے غیرمنسوخ محکم آیات پر عمل جزءایمان سمجھتے ہیں ـ اسی طرح پانچ وقت نماز کو فریضہ اسلام ماننا اور یہ کہ اس کی ادائیگی کے لیے اس قدرعلم کا حصول جس کی معرفت پراس فریضہ کی صحت کا دارومدار ہے ، نیز ان امور کی معرفت کہ جن کے بغیر نماز کا وجود ہی نہیں ،جیسے : طہارت وغیرہ کے احکام و مسائل ـاور اگر وہ مال ودولت والا صاحب نصاب استطاعت ہے ، جو حج کی ادائیگی پر قادر ہے ، ایسے شخص پرفرض ہے کہ وہ اس قدر علم سیکھے جس کی معرفت کے بعدزکاتہ کی ادائیگی صحیح طورسے کرسکے ـ جیسے : ان اصناف کی معرفت جن میں زکاتہ نکالنا ضروری ہے اور یہ کہ زکاتہ کب اور کتنا نکالے ؟اور یہ کہ کس قدر مال میں سے نکالے (یعی نصاب کیا ہو) اسی طرح اس پر یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ حج کی ادائیگی عمر میں صرف ایک بارفرض ہے ،اگر وہ صاحب استطات ہو ـ اسی طرح ان امور کی اجمالی معرفت بھی ہر شخص پر فرض ہے اس سے کوتاہی کسی بھی حال میں درست نہیں ، جیسے :زناکاری ، شراب نوشی کی حرمت نیز خنزیر(سور)کا گوشت ، مردار اور تمام نجس اور ناپاک چیزوں کی حرمت ، اسی طرح چوری ، ناحق کسی کے مال پرقبضہ (غضب)رشوت ، چھوٹی گواہی ، ناحق طریقوں سے لوگوں کے مال و دولت کو کھانا ، زبردستی کسی کے مال کو ان کی چاہت کے بغیر استعمال کرنا ـ یہ سارے امور محرمات میں سے ہیں ـ ہاں مگرمعمولی چیزوں کے سوا جن کی کوئی خاص اہمیت نہیں ، اس میں بظاہر کوئی حرج نہیں ، اسی طرح کی ظلم و زیادتی ـ جو کہ عبارت ہے ان تمام امور سے جن کو شریعت مطہرہ میں اللہ اور اس کے رسولﷺ نے منع فرمایا ہو ـ اسی طرح ماں ، بیٹی ، بہن اور ان کے ساتھ وہ عورتیں جو ہم پرحرام کردی گئی ہیں ان سے نکاح کی حرمت ، اسی طرح ناحق کسی مومن کا قتل ، یہ اور اس جیسے دیگر وہ محرمات جن کا بیان کتاب و سنت اور اجماع امت میں موجود ہے ان سب کی حرمت کی جانکاری ہم سب پرفرض ہے ، اور ان سے ناواقفیت کسی بھی حال میں درست نہیں ـ اس کے بعد پھر باقی علوم کا سیکھنا اور اس میں تفقہ حاصل کرنا ، اور اسے لوگوں کے درمیان عام کرنا اور ان کے دینی و دنیاوی مسائل کا اس میں حل تلاش کرتے ہوئے اس کی طرف رہنمائی کرنا اور اس کا فتوی دینا ، یہ سب درحقیقت فرض کفایہ ہے ، جس کا حصول پوری امت پرفرض ہے ، لیکن اگر کچھ لوگ اس کو حاصل کرنے کے لیے کمربستہ ہو جائیں تواس کی فرضیت باقی لوگوں سے جاتی رہتی ہے ، اس امرپر اہل علم کا اتفاق ہے کہ ان کے درمیان اس باب میں کوئی اختلاف نہیں ، مندرجہ ذیل آیتِ کریمہ کا تقاضہ بھی یہی ہے ، فرمان باری تعالٰی ہے:
    فَلَوْلَا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طَائِفَةٌ لِيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ وَلِيُنْذِرُوا قَوْمَهُمْ إِذَا رَجَعُوا إِلَيْهِمْ لَعَلَّهُمْ يَحْذَرُونَ (122) ''

    کیوں نہیں ہر جماعت سے چند لوگ اٹھ کھڑے ہوں تاکہ دین میں سمجھ حاصل کریں اور اپنی قوم کو لوٹنے کے بعد ڈرائیں ـ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالٰی نے بعض لوگوں کے نکلنے کولازم قرار دیا ، نہ کہ سارے لوگوں کو ، پھر وہ لوٹنے کے بعد باقی جو لوگ نہیں نکل سکے ان کو سکھائیں ، اور آیتِ کریمہ میں وارد لفظ(طائفہ) کا اطلاق ایک یا ایک سے زیادہ شخص پر ہوتا ہے ـ(جامع بیان العلم (1/57-59)
    ان گزارشات پر غور کرتے ہوئے ہمیں غفلت و سستی کوترک کرنےاورواجبات کی ادائیگی سے قبل اس کی صحیح سمجھ علم نافع کی شکل میں حاصل کرنے کی سخت ضرورت ہے تاکہ ہمارے اعمال نیک اور شریعت مطہرہ کی روشنی میں درست قرار پائیں لیکن اگر استطاعت کے باوجود ہم اس باب میں تقصیر رہے تو اس پر ہمارا مواخذہ ہوگا ، اور یہ ہمارا کوئی عذر قابل قبول نہ ہوگا ـ
    شیخ السلام ابن تیمیہ (م: 728ھ) فرماتے ہیں :
    ''جس شخص کی غلطی کا سبب قرآن اور ایمان کے ان امور میں بے اعتنائی اور تقصیر شامل حال ہو ، جن پر عمل پیرا ہونا واجب تھا ، یا وہ محرمات جن سے بچنے اور اس پر چلنے سے منع کردیا تھا ، مگر اس نے حد سے تجاوز کرتے ہوئے ان کا ارتکاب کیا ، بغیر حجت و برہان خواہشات نفس کی پیروی کیا ـ درحقیقت ایسا شخص اپنے نفس پر ظلم کا مرتکب ہے ، ایسے لوگ رب کی وعید کے مستحق ہیں ، نہ کہ وہ لوگ جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت ظاہری اور پوشیدہ دونوں حالات میں کرنے والے حکمِ الہی کے بموجب اپنے اجتہادات سےحق ہی کے جویااور اسی کے متلاشی ہیں ، ایسے لوگ رب کی رحمت و مغفرت کے سزاروار ہیں جو ان سے واقع غلطیوں اور خطاؤں کو معاف فرما دیتا ہے ـ ( مجموع فتاوی(3/317)

    اللہ ہم سب کو علم نافع حاصل کرنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطافرمائے ـ قرآن و حدیث کا سچا پروکار بنائے ، پیارے نبی ﷺ کی سنتوں کو دل کی وسعتوں میں جگہ دینے اور مضبوطی سے تھامنے کی توفیق سے نوازے ـ آمین ۔

    بشکریہ / عبیدالرحمن بن محمد
    ترجمان دہلی
     
    • اعلی اعلی x 2
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
  2. ساجد تاج

    ساجد تاج -: رکن مکتبہ اسلامیہ :-

    شمولیت:
    ‏نومبر 24, 2008
    پیغامات:
    38,751
    آمین
     
  3. بابر تنویر

    بابر تنویر -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏دسمبر 20, 2010
    پیغامات:
    7,320
    جزاک اللہ خیرا
     
    • حوصلہ افزا حوصلہ افزا x 1
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں