دین کی تکمیل اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات حسرت آیات

بابر تنویر نے 'دین کے تین بنیادی اصول اور ان کی شرح' میں ‏نومبر 22, 2013 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. بابر تنویر

    بابر تنویر -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏دسمبر 20, 2010
    پیغامات:
    7,320
    فلما استقر بالمدينة أمر ببقية شرائع الإسلام مثل: الزكاة، والصوم، والحج، والجهاد والآذان، والأمر بالمعروف والنهي عن المنكر وغير ذلك من شرائع الإسلام(14)
    “جب آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے مدینہ منورہ میں ، مکمل طور پر اقامت اختیار کرلی، تو آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کو دین کے بقیہ احکام و شرائع مثلا زکوۃ، روزہ، حج، جہاد، اذان، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر وغیرہ کا حکم دیا گیا)....”


    (14) کتاب کے مولف (شیخ الاسلام محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ!) کہتے ہیں : “جب اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پوری طرح ، مدینہ منورہ میں قیام پذیر ہوئے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دین اسلام کے بقیہ احکام و شرائع کا حکم دیا گیا، اور امر واقع یہ ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے مکہ مکرمہ میں مسلسل دس برس تک لوگوں کو اللہ کی توحید کی دعوت دی، بعدازاں آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) پر مکہ مکرمہ ہی میں پانچ نمازیں فرض ہوئیں، پھر جب آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے مدینہ کی جانب ہجرت فرمائی، تو اس وقت تک آپ (صلی اللہ علیہ وسلم ) پر زکوۃ، روزے، حج اور ان کے علاوہ دیگر اسلام کے احکام و شعائر وغیرہ فرض نہیں ہوئے تھے، اور مولف رحمہ اللہ کے کلام سے تویہی بات ظاہر ہوتی ہے کہ زکوۃ اصلی اور تفصیلی اعتبار سے مدینہ میں ہی فرض کی گئی۔

    اور بعض اہل علم (رحمہم اللہ!) کا کہنا ہے: کہ شروع میں زکوۃ مکہ میں فرض کی گئی، لیکن وہاں (مکہ میں) اس کے انصاب (حصص اور مصارف وغیرہ) اور ان میں سے ادائیگی کی واجب مقدار مقرر نہیں کی گئی جبکہ مدینہ میں زکوۃ تفصیلی اعتبار سے اپنے تمام انصاب کی حدود کے تقرر اور ادائیگی کی واجب شرح سمیت فرض ہوئی....یہ علماء اپنے اس قول کی موافقت میں یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ زکوۃ کو واجب قرار دینے والی آیات کا ذکر مکی سورت میں ہوا ہے، جیسے سورۃ الانعام میں اللہ جل شانہ کا یہ فرمان ہے:
    (وَآتُوا حَقَّهُ يَوْمَ حَصَادِهِ(الأنعام: 141))
    “اور فصل اٹھاتے وقت اس میں سے اللہ تعالی کا حق بھی ادا کرو۔”

    اور سورۃ المعارج میں حق تعالی کا ارشاد ہے:
    (وَالَّذِينَ فِي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ مَعْلُومٌ * لِلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ(المعارج: 24-25))
    “اور وہ لوگ کہ جن کے اموال میں سوال کرنے والوں، اور (سوال سے بچنے کی بناء پر) محروم لوگوں کا ایک مقرر حق ہے۔”

    علمائے کرام رحمہ اللہ کی آراء و اقوال تو سرآنکھوں پر، بہرحال زکوۃ کی فرضیت اس کے انصاب، اس کی ادائیگی کی واجب حد اور اس کے مستحقین، یہ سب تفاصیلی احکامات مدینہ منورہ میں نافذ کئے گئے، اور اسی طرح اذان اور جمعہ بھی مدینہ منورہ میں فرض ہوئےاور ظاہر سے تو یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ نماز باجماعت بھی(مکہ مکرمہ کی بجائے)مدینہ میں فرض ہوئی، اس لئے کہ وہ اذان، جس میں “نماز باجماعت”کی دعوت دی گئی ہے، ہجرت کے دوسرے سال مدینہ میں ہی فرض ہوئی تھی اور جہاں تک زکوۃ اور روزوں کا تعلق ہے تو وہ بھی ہجرت کے دوسرے سال فرض کئے گئے اور “حج”اہل علم (رحمہم اللہ) کے اقوال میں سے راجح قول کے مطابق ہجرت کے نویں سال فرض ہوا اور یہ فرضیت اس وقت ہوئی، جب مکہ مکرمہ ہجرت کے آٹھویں سال فتح ہوجانے کے بعد ایک اسلامی شہر تھا۔

    اور اسی طرح “امر بالمعروف اور نہی عن المنکر” اور ان کے علاوہ دیگر اسلام کے ظاہری شعائر سب کے سب مدینہ منورہ مین، اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پوری طرح قیام پذیر ہوجانے اور وہاں ایک مستقل اور مضبوط بنیادوں پر اسلامی ریاست کے قائم کرلینے کے بعد فرض کئے گئے۔”

    أخذ على هذا عشر سنين وبعدها توفي صلوات الله وسلامه عليه ودينه باق(15)
    “اور انہی امور کی تبلیغ پر آپ (صلی اللہ علیہ وسلم)نے دس برس گزار دئے، تب آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے وفات پائی، مگر آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کا دین تاقیام قیامت باقی رہے گا۔”​


    (15) مطلب یہ کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ ہجرت کرجانے کے بعد، دس برس وہاں گزارے، پھر جب اللہ عزوجل نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی کے ذریعے اس دین حنیف کو پایۂ تکمیل تک پہنچایا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے اپنی اس نعمت عظمی کو اہل ایمان پر پورا فرمالیا، تو اللہ تعالی نے آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کو اپنی جوار رحمت میں جگہ دینے کے لئے انبیاء علیہم السلام اور صدیقین، شہداء اور امت کے صالحین (نیکوکار) پاکیزہ اور بلندو بالا شان و مقام والی ہستیوں کے ساتھ ملانے کے لئے پسند فرمایا، آپ (صلوات الله وسلامه عليه) کے مرض و فات کی ابتداء، ماہ صفر کے آخر اور ربیع الاول کے شروع میں ہوئی، تو آپ (صلی اللہ علیہ وسلم)حالت مرض میں اپنے سرمبارک کو لپیٹے ہوئے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے پاس تشریف لائے، منبر پر جلوۂ افروز ہوئے اور تشہد (یعنی اللہ کی تعریف کے ساتھ شہادتین) کے کلمات ادا فرمائے اور اس کےبعد سب سے پہلی گفتگو، جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمائی وہ ان شہداء کے لئے استغفار (اللہ تعالی سے معافی طلب کرنا) تھا جو غزوہ احد میں جام شہادت نوش کرچکے تھے۔

    پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
    ((إن عبداً من عباد الله خيره الله بين الدنيا وبين ما عنده فاختار ما عند الله))
    “بلاشبہ، اللہ کے بندوں میں سے ایک بندہ ہے، تو اللہ نے اسے دنیا اور جو کچھ اس اللہ کے پاس ہے، کے درمیان (کسی ایک چیز کو پسند کرنے کا) اختیار دے دیا، تو اس بندے نے وہ چیز پسند کرلی، جو اللہ کے پاس ہے۔”


    آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس کلام کا مفہوم (رمز شناس نبوت) حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے سمجھ لیا اور آپ رضی اللہ عنہ روپڑے اور کہا:
    “میرے ماں باپ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر فدا ہوں! ہم سب آپ پر، اپنے آباؤ اجداد، اپنی ماؤں، بیٹوں اور اپنی جانوں اور مالوں تک کو قربان کردیں گے، تب اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ذراٹھہرجائیے حوصلہ رکھئے اے ابوبکر! پھر ارشاد فرمایا: کہ لوگوں میں سب سے بڑھ کر اپنے مال اور اپنی رفاقت کے اعتبار سے مجھ پر احسان کرنے والا ابوبکر ہے، اگر میں اپنے رب کے علاوہ (اس دنیا میں) کسی کو دوست بنانے والا ہوتا، تو ابوبکر رضی اللہ عنہ کو اپنا دوست بناتا، لیکن میری اور اس کی دوستی و محبت کی بنیاد، دین اسلام کا رشتہ ہے۔”


    اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو حکم فرمایا کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں، پھر ہجرت کے گیارہویں سال، ربیع الاول کی بارہویں یا تیرہویں تاریخ کو سوموار کا دن تھا کہ اللہ عزوجل نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے جوار رحمت میں جگہ دی۔

    پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس پر نزع کی گھڑی شروع ہوگئ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا دست مبارک اپنے پاس رکھے ہوئے پانی کے برتن میں داخل کرتے اور اپنے چہرۂ انور پر پھیر لیتے اور ساتھ ہی یہ الفاظ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان فیضان ترجمان پر جاری تھے۔
    ((لا إله إلا الله إن للموت سكرات))
    “کہ اللہ واحد کے سوا اور کوئی معبود برحق نہیں، یقینا موت کی بڑی سختیاں ہیں۔”
    پھر اپنی نگاہوں سے آسمان کی وسعتوں کی جانب ٹکٹکی باندھ کر دیکھا اور فرمایا:
    ((اللهم في الرفيق الأعلى))
    کہ “اے اللہ! اے اعلی شان والے رفیق، اپنی رفاقت عطاء فرما!”


    اور اسی دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رحلت فرمائی اور تو لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جدائی اور صدمے سے بے قرار و نڈھال ہوگئے، اور ان کا ایسا ہونا حق بجانب تھا، یہاں تک کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ وہاں آئے، منبر رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر چڑھے، اللہ تعالی کی حمد(تعریف)و ثناء بیان کی، پھر فرمایا:

    حمد و ثنائے رب ذوالجلال کے بعد اے لوگو! “تم میں جو شخص محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کرتا تھا، (تو وہ سن لے) کہ یقینا محمد صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوگئے ہیں اور جو شخص اللہ واحد کی عبادت کرتا تھا، (تو وہ بھی سن لے) کہ بے شک اللہ جل شانہ، (حی) ہمیشہ سے زندہ ہے اور ہمیشہ زندہ رہے گا، اسے کبھی موت لاحق نہیں ہوسکتی، پھر آپ رضی اللہ عنہ نے یہ آیت کریمہ تلاوت کی:

    (وَمَا مُحَمَّدٌ إِلا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ أَفَإِنْ مَاتَ أَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلَى أَعْقَابِكُمْ(آل عمران: 144))
    “اور محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) ایک رسول ہی ہیں، ان سے پہلے بہت سے رسول گزرچکے ہیں اگر وہ وفات پاجائیں یا شہید ہوجائیں، تو کیا تم الٹے پاؤں پھر جاؤگے؟ (یعنی اسلام چھوڑ دوگے)

    اور یہ بھی آیت پڑھی:
    (إِنَّكَ مَيِّتٌ وَإِنَّهُمْ مَيِّتُونَ(الزمر: 30))
    “(اے نبی!) بلاشبہ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کو مرنا ہے اور یہ بھی(سب) مرنے والے ہیں۔”

    یہ سن کر لوگ زاروقطار رونے لگے، ان کی گریہ زاری بڑھ گئی، جب انہیں یہ یقین ہوگیا کہ اللہ کے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) واقعی فوت ہوگئے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو عزت و تکریم کی خاطر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کپڑوں ہی میں غسل دیا گیا اور کچے دھاگے سے بنے ہوئے(بن سلے) سفید رنگ کے تین لفافہ نما کپڑوں کا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کفن پہنایا گیا، جس میں نہ قمیص تھی اور نہ پگڑی وغیرہ، بعد ازاں لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر بغیر امام کے، جنازہ (یعنی کثرت سے درود وسلام) پڑھا، پھر اس کے بعد جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلیفہ (حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ) کے ہاتھ پر بیعت کا مرحلہ اختتام کو پہنچا، تو بدھ کی رات کو(حجرہ عائشہ رضی اللہ عنہما) میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دفن کردیا گیا(صلی اللہ علیہ وسلم) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رب کی جانب سے ان گنت درودوسلام ہوں!”

    دین کے تین بنیادی اصول اور ان کی شرح(شرح اصول الثلاثة) - URDU MAJLIS FORUM
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 3
  2. اعجاز علی شاہ

    اعجاز علی شاہ -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏اگست 10, 2007
    پیغامات:
    10,322
    جزاک اللہ خیرا وبارک اللہ فی عمرک و مالک و اولادک
    اللہ تاقیامت اس کو آپ اور ہم سب کیلئے صدقہ جاریہ بنائے آمین۔
     
  3. نصر اللہ

    نصر اللہ ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏دسمبر 19, 2011
    پیغامات:
    1,845
    بارک اللہ فیک بابربھائی بہت عمدہ معلوماتی پوسٹس چل رہی ہیں،اللہ آپ کےلئے آسانی کریں۔
     
  4. ام ثوبان

    ام ثوبان رحمہا اللہ

    شمولیت:
    ‏فروری 14, 2012
    پیغامات:
    6,690
    جزاک اللہ خیرا
     
  5. ساجد تاج

    ساجد تاج -: رکن مکتبہ اسلامیہ :-

    شمولیت:
    ‏نومبر 24, 2008
    پیغامات:
    38,751
    جزاک اللہ خیرا بھائی
     
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں