دین اسلام کا جامع و مانع خلاصہ

بابر تنویر نے 'دین کے تین بنیادی اصول اور ان کی شرح' میں ‏نومبر 23, 2013 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. بابر تنویر

    بابر تنویر -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏دسمبر 20, 2010
    پیغامات:
    7,320
    وهذا دينه، لا خير إلا دل الأمة عليه، ولا شر إلا حذرها منه، والخير الذي دل عليه: التوحيد، وجميع ما يحبه الله ويرضاه، والشر الذي حذر منه: الشرك وجميع ما يكرهه الله ويأباه. بعثه الله إلى الناس كافة(16)، وافترض الله طاعته على جميع الثقلين: الجن والأنس، والدليل قوله تعالى: (قُلْ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعاً(17) (الأعراف: 158))
    “آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے دین کا مختصر(مگر جامع و مانع خلاصہ) یہ ہے: کہ بھلائی اور نیکی کا کوئی کام ایسا نہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے اپنی امت کو اس کی اطلاع نہ دی ہو اور برائی کا بھی کوئی کام ایسا نہیں کہ جس سے اپنی امت کو خبردار نہ کیا ہو، جس بھلائی کی طرف آپ (صلی اللہ علیہ وسلم)نے (اپنی امت کو) رہنمائی فرمائی ہے وہ توحید باری تعالی اور ہر وہ کام، جسے اللہ تعالی پسند کرتا ہے اور جو اس کا رضا کر حصول کا ذریعہ ہے اور جس برائی سے آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے (اپنی امت کو) روکا اور خبردار کیا ہے، وہ شرک اور ہر وہ کام ہے، جسے اللہ تعالی ناپسند کرتا اور براسمجھتا ہے، اللہ تعالی نے آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کو پوری انسانیت (تمام لوگوں) کی طرف مبعوث فرمایا اور ہر دوعالم جن و انس پر آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی اطاعت و فرمانبرداری فرض قرار دی ہے، اور اس بات کی دلیل اللہ تعالی کا یہ ارشاد گرامی ہے: “(اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم!) آپ کہہ دیجئے کہ اے لوگو! میں تم سب (انسانوں)کی طرف اللہ کا رسول ہوں۔”



    (16) (بعثه الله إلى الناس كافة) مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی نے آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کو، تمام دنیا کے لوگوں کی طرف اور قیامت قائم ہونے تک کے لئے اپنا آخری رسول بنا کر بھیجا ہے۔

    (17) اس آیت کریمہ میں اس بات کی واضح دلیل موجود ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم تمام لوگوں کی طرف رسول بنا کر مبعوث فرمائے گئے اور جس ہستی نے آپ کو منصب رسالت دے کردنیا والوں کی طرف بھیجا ہے، وہ آسمانوں، زمینوں اور جو کچھ ان کے مابین ہے، سب کا خالق و مالک ہے، زندہ کرنا اور مارنا اسی کے قبضۂ قدرت میں ہے اور وہ پاک ذات ، جس طرح اپنی صفت ربوبیت میں یکتا ہے، اسی طرح وہ اپنی صفت الوہیت میں بھی واحد اور یکتا ہے، (جس میں اس کا کوئی شریک یا سا جھی نہیں ہوسکتا)

    پھر اسی آیت کریمہ کے آخر میں اللہ سبحانہ وتعالی نے ہمیں یہ حکم دیا ہے کہ ہم اس “امی” (جو پڑھ لکھ نہ سکتا ہو) نبی اور رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) پر ایمان لائیں، اور اسی کی پیروی کریں اور یہی ایمان اور پیروی، علمی و عملی، ارشادی و توفیقی ہر طرح کی ہدایت کے حصول کا سبب ہیں اور آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی ذات گرامی دو جہانوں کی ساری مخلوقات کی طرف اللہ کا پیغمبر بن کر آئی ہے اور یہ دونوں جہانوں کی مخلوق جن وانس ہیں، جنہیں ان کی کثرت تعداد کی بناء پر اس نام سے موسوم کیا گیا ہے (ورنہ آپ کی رسالت و نبوت توہمہ گیر اور عالمگیر ہے) (صلی اللہ علیہ وسلم)

    وأكمل الله به الدين ، والدليل قوله تعالى: (الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الإسلام دِيناً(18) (المائدة: 5))
    “اور اللہ تعالی نے آپ (صلی اللہ علیہ وسلم)کے ذریعے دین اسلام کو مکمل کیا، (یعنی دین و دنیا کے تمام مسائل کا حل پیش فرمایا، اور اس میں کسی قسم کی کوئی تشنگی اور کمی باقی نہیں چھوڑی، لہذا اب اس کامل دین میں نہ کوئی نئی چیز گھسیڑی اور ٹھونسی جاسکتی ہے اور نہ اس کی اصل سے کوئی چیز نکالی جاسکتی ہے) اور اس بات کی دلیل یہ فرمان الہی ہے: “آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لئے مکمل کردیا ہے، او رتم پر اپنی اس نعمت کا اتمام کردیا ہے اور تمہارے لئے “اسلام”کو تمہارے دین کی حیثیت سے پسند کرلیا ہے۔”


    (18) مطلب یہ ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کا لایا ہوا “دین اسلام” تا قیام قیامت باقی اور جاری و ساری رہے گا، اور آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے انپی وفات حسرت آیات سے پہلے انپی امت (مرحومہ) کو ان تمام امور اور معاملات سے اچھی طرح مطلع فرمادیا تھا، جن کی امت کو احتیاج تھی، یہاں تک کہ صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم
    حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:
    “ما ترك النبي صلى الله عليه وسلم طائراً يقلب جناحية في السماء إلا ذكر لنا منه علماً”
    “کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نےآسمان کی وسعتوں میں اپنے پروں کو پھیلائے ہوئے کوئی پرندہ بھی نہیں چھوڑا کہ جس کی بابت آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے ہمیں تعلیم نہ دی ہو۔”


    اور مشرکین میں سے ایک آدمی نے حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے کہا:
    “لقد علمكم نبيكم حتى الخراة”
    “کہ تمہارے نبی(صلی اللہ علیہ وسلم) نے تو تمہیں (سب کچھ سکھا دیا ہے) یہاں تک کہ “خراۃ” یعنی قضائے حاجت کے آداب بھی بتادئیے ہیں، یہ سن کر حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کہنے لگے:
    ہاں آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے ہمیں (قضائے حاجت کے دوران ان کاموں سے روکا ہے:
    (الف) ہم قبلہ رخ ہوکر پاخانہ یا پیشاب کریں۔
    (ب) یا ہم استنجاء کرتے وقت تین پتھروں (مٹی کے ڈھیلوں) سے کم کا استعمال کریں۔
    (ج) یا ہم دائیں ہاتھ سے استنجاء کریں۔
    (د) یا ہم جانوروں کی لید (گوبر وغیرہ) اور ہڈی سے استنجاء کریں۔


    تو اس طرح نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے، اپنے قول، فعل اور تقریر کے ذریعے، خواہ ابتداء آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی سے ہوئی یا کسی سوال کے جواب میں پورا دین (امت کے لئے کھول کھول کر) بیان فرما دیا اور دین کے سلسلے میں سب سے زیادہ وضاحت آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے “عقیدۂ توحید”کے بارے میں فرمائی (صلی اللہ علیہ وسلم)
    ٭....پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس بات کا بھی حکم دیا وہ امت (مرحومہ) کی معاد (آخرت) اور معاشی (دنیا) ہر اعتبار سے بھلائی اور بہتری کا حکم تھا، اور اسی طرح جس چیز سے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا، وہ امت کی معاد (آخرت) اور معاش (دنیا) ہر اعتبار سے شر اور برائی کا سبب تھا۔

    اور دین کے اوامر و نواہی کے بجا لانے کے سلسلے میں بعض جاہل لوگ تنگی اور سختی کا شکوہ کرتے ہیں، تو یہ سراسر ان کی عقل و بصیرت میں خلل، صبرو استقامت کی کمی اور دینی کمزوری کے باعث ہوتا ہے، وگرنہ “دین حنیف” کے بارے میں یہ عام اور معروف قاعدہ ہے: کہ اللہ رحیم و کریم نے دین کے امور میں ہم پر کوئی تنگی یا سختی نہیں کی اور دین سارا کا سارا آسان ہے،

    اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے: (يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ(البقرة: 185))
    “کہ اللہ تمہارے ساتھ آسانی کا ارادہ کرتا ہے اور وہ تمہارے ساتھ (کسی) تنگی کا ارادہ نہیں کرتا۔”....

    سورۃ الحج میں ارشاد باری تعالی ہے: (وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّينِ مِنْ حَرَجٍ (الحج: 78))
    “اور اس (اللہ تعالی) نے تم پر دین (کے امور) میں کوئی سختی نہیں کی۔”....

    سورۃ المائدۃ میں اللہ جل مجدہ کا فرمان ہے: (مَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيَجْعَلَ عَلَيْكُمْ مِنْ حَرَجٍ (المائدة: 6))
    “اللہ یہ نہیں چاہتا کہ تم پر کوئی تنگی (یا سختی) کا حکم نافذ کرے۔


    لہذا تمام تر تعریفات اس معبود برحق کو سزاوار ہیں کہ اس نے ہم پر اپنی نعمت دین کو پورا اور مکمل فرمایا۔”

    دین کے تین بنیادی اصول اور ان کی شرح(شرح اصول الثلاثة) - URDU MAJLIS FORUM
     
  2. ام ثوبان

    ام ثوبان رحمہا اللہ

    شمولیت:
    ‏فروری 14, 2012
    پیغامات:
    6,690
    جزاک الله خیرا
     
  3. ساجد تاج

    ساجد تاج -: رکن مکتبہ اسلامیہ :-

    شمولیت:
    ‏نومبر 24, 2008
    پیغامات:
    38,751
    جزاک الله خیرا
     
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں