یوم بعث(قبروں سے زندہ اٹھنے)کی تکذیب کا حکم

بابر تنویر نے 'دین کے تین بنیادی اصول اور ان کی شرح' میں ‏نومبر 25, 2013 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. بابر تنویر

    بابر تنویر -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏دسمبر 20, 2010
    پیغامات:
    7,320
    ومن كذب بالبعث كفر، والدليل قوله تعالى: (زَعَمَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنْ لَنْ يُبْعَثُوا قُلْ بَلَى وَرَبِّي لَتُبْعَثُنَّ ثُمَّ لَتُنَبَّؤُنَّ بِمَا عَمِلْتُمْ وَذَلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرٌ)(26)(التغابن: 7)
    “اور جس نے(بعث بعد الموت) یعنی مرنے کے بعد دوبارہ اٹھائے جانے کا انکار کیا تو وہ کافر ہوگیا، جس کی دلیل اللہ تعالی کا یہ فرمان ہے: “کافروں نے یہ بڑے دعوے سے کہا ہے کہ وہ مرنے کے بعد دوبارہ ہر گز نہیں اٹھائے جائیں گے، ان سے کہہ دیجئے، نہیں میرے رب کی قسم! تم ضرور ضرور اٹھائے جاؤ گے، پھر یہ ضرور تمہیں بتایا جائے گا، کہ تم نے (دنیا میں) کیا کچھ کیا ہےاور ایسا کرنا اللہ (جل مجدہ) کے لئے بہت آسان ہے۔”

    (26) آیت کریمہ کا مطلب یہ ہے کہ جس شخص نے بھی مرنے کے بعد دوبارہ اٹھائے جانے کا انکار کیا، تو وہ اللہ تعالی کے فرمان کے مطابق کافر ہے، اور اس کی تائید اللہ جل جلالہ، کے ان فرامین سے بھی ہوتی ہے:
    (وَقَالُوا إِنْ هِيَ إِلا حَيَاتُنَا الدُّنْيَا وَمَا نَحْنُ بِمَبْعُوثِينَ * وَلَوْ تَرَى إِذْ وُقِفُوا عَلَى رَبِّهِمْ قَالَ أَلَيْسَ هَذَا بِالْحَقِّ قَالُوا بَلَى وَرَبِّنَا قَالَ فَذُوقُوا الْعَذَابَ بِمَا كُنْتُمْ تَكْفُرُونَ(الأنعام: 29-30))
    “اور یہ لوگ تو کہتے ہیں، کہ زندگی بس یہی دنیا کی زندگی ہے اور (مرجانے کے بعد) ہمیں اٹھایا نہیں جائے گا، کاش! آپ وہ وقت بھی دیکھیں، جب انہیں اپنے پروردگار کے سامنے کھڑا کیا جائے گا، اللہ (تعالی) ان سے پوچھے گا: “بتاؤ کیا یہ دن حقیقت نہیں؟ وہ کہیں گے: کیوں نہیں ہمارے پروردگار کی قسم” اللہ تعالی فرمائے گا: اچھا پھر جو تم اس کا انکار کرتے تھے تو اب عذاب کا مزہ چکھو۔”

    (وَيْلٌ يَوْمَئِذٍ لِلْمُكَذِّبِينَ * الَّذِينَ يُكَذِّبُونَ بِيَوْمِ الدِّينِ * وَمَا يُكَذِّبُ بِهِ إِلا كُلُّ مُعْتَدٍ أَثِيمٍ * إِذَا تُتْلَى عَلَيْهِ آيَاتُنَا قَالَ أَسَاطِيرُ الأَوَّلِينَ * كَلا بَلْ رَانَ عَلَى قُلُوبِهِمْ مَا كَانُوا يَكْسِبُونَ * كَلا إِنَّهُمْ عَنْ رَبِّهِمْ يَوْمَئِذٍ لَمَحْجُوبُونَ * ثُمَّ إِنَّهُمْ لَصَالُوا الْجَحِيمِ * ثُمَّ يُقَالُ هَذَا الَّذِي كُنْتُمْ بِهِ تُكَذِّبُونَ(المطففين: 10–17))
    “اس دن جھٹلانے والوں کے لئے ہلاکت ہے، جو روز جزاء کو جھٹلاتے ہیں، اور اسے ہر وہ شخص جھٹلاتا ہے، جو حد سے بڑھنے والا گناہ گار ہے اور جب اس پر ہماری آیات پڑھی جاتی ہیں تو کہتا ہے: کہ یہ تو پہلے لوگوں کی داستانیں ہیں، ہر گز یہ بات نہیں، بلکہ ان لوگوں کے دلوں پر ان کے برے اعمال کا زنگ لگ گیا ہے، ہر گزنہیں، یقینا ایسے لوگ! اس دن اپنے پروردگار(کے دیدار) سے محروم رکھے جائیں گے۔ پھر یقینا وہ جہنم میں گرنے والے ہیں۔ پھر (انہیں) کہا جائے گا: یہی وہ چیز ہے، جسے تم جھٹلایا کرتے تھے۔”

    (بَلْ كَذَّبُوا بِالسَّاعَةِ وَأَعْتَدْنَا لِمَنْ كَذَّبَ بِالسَّاعَةِ سَعِيراً(الفرقان: 11))
    “دراصل یہ لوگ قیامت کو جھٹلارہے ہیں اور جو قیامت کو جھٹلائے، ہم نے اس کے لئے جہنم تیار کر رکھی ہے۔”

    (وَالَّذِينَ كَفَرُوا بِآياتِ اللَّهِ وَلِقَائِهِ أُولَئِكَ يَئِسُوا مِنْ رَحْمَتِي وَأُولَئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ(العنكبوت: 23))
    “اور جن لوگوں نے اللہ تعالی کی آیات اور اس کی ملاقات کا انکار کیا، وہ میری رحمت سے مایوس ہوچکے ہیں اور انہی کے لئے دردناک عذاب ہوگا۔”

    اور اس موضوع کی وضاحت میں شیخ الاسلام محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ نے، اللہ تعالی کے اس قول سے استدلال کیا ہے:

    (زَعَمَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنْ لَنْ يُبْعَثُوا قُلْ بَلَى وَرَبِّي لَتُبْعَثُنَّ ثُمَّ لَتُنَبَّؤُنَّ بِمَا عَمِلْتُمْ وَذَلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرٌ (التغابن: 7))
    “(آخرت کا) انکار کرنے والوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ وہ قطعا اٹھائے نہیں جائیں گے،آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) ان سے کہئے: کیوں نہیں، میرے رب کی قسم! تم ضرور اٹھائے جاؤ گے، پھر جو کچھ تم کرتے رہے، اس سے تمہیں آگاہ کیا جائے گا اور یہ بات اللہ کے لئے آسان ہے۔”

    اور بعث و نشور(یعنی مرکر دوبارہ اٹھائے جانے اور حساب و کتاب کےلئے اکٹھے کئے جانے) کے منکرین کا درج ذیل دلائل وشواہد سے تو ڑ اور ان کی تسلی کی جاسکتی ہے:

    پہلی دلیل:کہ مرنے کے بعد زندہ ہوکر دوبارہ اٹھنے کا معاملہ اس قدر حقیقت پر مبنی ہے کہ اس کے ثبوت میں انبیاء و رسل علیہم السلام پر اتاری جانے والی جملہ آسمانی شریعتوں اور الہامی کتابوں میں تو اتر کے ساتھ آیات و نصوص ذکر ہوئی ہیں اور پھر اس عقیدے کو ہر پیغمبر علیہ السلام کی امت میں سے لوگوں نے قبول کیا ہے اور تم اے منکرین یوم بعث! کیونکر اس حقیقت کا انکار کرتے ہو، جبکہ تم کسی فلسفی اور مفکر کی طرف سے کہی گئی ہر بات کو فورا سچ مانتے ہوئے قبول کرلیتے ہو، خواہ یہ خبراپنے وسائل اور ذرائع کے اعتبار سے کسی بھی طرح بعث و نشور کے بارے خبریں دینے والے ذرائع و وسائل سے مطابقت نہ رکھتے ہوں، نہ خبر کو منتقل کرنے کے لحاظ سے اور نہ واقعاتی شہادت (گواہی) کی رد سے؟!!

    دوسری دلیل: یقینا بعث (مرنے کے بعد دوبارہ اٹھنا) ایک ایسا معاملہ ہے، جس پر عقل بھی شاہد ہے، لہذا عقلی اعتبار سے اس کی درج ذیل وجو ہ ہیں:

    (الف) کسی ایک کو بھی اس حقیقت سے انکار نہیں کہ مخلوق (پیدا کی گئی کوئی بھی چیز)عدم کے بعد وجود میں آتی ہے اور یہ کہ ہر مخلوق حادث یعنی اپنے وجود میں آنے سے قبل وہ کچھ نہ تھی، تو وہ ذات برحق، جس نے مخلوق کو پیدا کیا ہے، اس کو عدم سے وجود میں لایا ہے، جبکہ اس سے پہلے وہ کوئی چیز نہ تھی، اس بات پر زیادہ قادر ہے کہ ایک چیز کو وجود میں لانے کے بعد (جب وہ ختم ہوجائے) تو اسی کو دوبارہ وجود میں لے آئے۔ جیسا کہ اس بارےمیں اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
    (وَهُوَ الَّذِي يَبْدأُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ وَهُوَ أَهْوَنُ عَلَيْهِ(الروم: 27))
    “اور وہی(اللہ) تو ہے، جو خلقت (کی پیدائش) کی ابتداء کرتا ہے، پھر وہی اس کا اعادہ کرے گا، اور یہ (دوسری بار کی پیدائش) اس پر زیادہ آسان ہے۔”

    اور سورۃ الانبیاء میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
    (كَمَا بَدَأْنَا أَوَّلَ خَلْقٍ نُعِيدُهُ وَعْداً عَلَيْنَا إِنَّا كُنَّا فَاعِلِينَ(الأنبياء: 104))
    “جس طرح ہم نے تمہاری تخلیق (پیدائش) کی ابتداء کی تھی، اسی طرح، اس کا اعادہ کریں گے، یہ ہمارے ذمہ ایک وعدہ ہے اور ہم اسے کرکے رہیں گے۔”

    (ب) کوئی شخص بھی آسمانوں اور زمینوں کی ضخامت کی بناء پر ان کی پیدائش کی عظمت سے انکار نہیں کرسکتا اور نہ ہی ان کے انوکھے اور حیران کن عجائبات سے کسی کو انکار ہے، تو وہ بلند وبالا ذات، جس نے ان کو پیدا کیا ہے، وہ لوگوں کو پیدا کرنے اور پھر انہیں مار کر دوبارہ زندہ کرنے پر زیادہ قدرت رکھتا ہے، اس کی دلیل میں اللہ تعالی کے درج ذیل فرامین کافی ہوں گے:

    (لَخَلْقُ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ أَكْبَرُ مِنْ خَلْقِ النَّاسِ(غافر: 57))
    “آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنا، انسانوں کے پیدا کرنے سے زیادہ بڑا کام ہے۔”

    (أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّ اللَّهَ الَّذِي خَلَقَ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضَ وَلَمْ يَعْيَ بِخَلْقِهِنَّ بِقَادِرٍ عَلَى أَنْ يُحْيِيَ الْمَوْتَى بَلَى إِنَّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ(الأحقاف: 33))
    “کیا انہوں نے دیکھا نہیں کہ اللہ ہی ہے، جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور انہیں پیدا کرکے تھک نہیں گیا، وہ اس بات پر قادر ہے کہ مردوں کو زندہ کردے، کیوں نہیں وہ ذات تو ہر چیز پر قادر (مطلق) ہے۔”

    (أَوَلَيْسَ الَّذِي خَلَقَ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضَ بِقَادِرٍ عَلَى أَنْ يَخْلُقَ مِثْلَهُمْ بَلَى وَهُوَ الْخَلاقُ الْعَلِيمُ * إِنَّمَا أَمْرُهُ إِذَا أَرَادَ شَيْئاً أَنْ يَقُولَ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ(يّـس: 81- 82))
    “کیا وہ ذات، جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا، کیا اس پر قادر نہیں کہ وہ ان جیسوں کو پیدا کرسکے، کیوں نہیں، وہی تو سب کچھ پیدا کرنے والا اور سب کچھ جاننے والا ہے، اس کا کام تو صرف یہ ہے کہ جب وہ کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو اسے حکم دیتا ہے کہ ہو جا، تو وہ ہوجاتی ہے۔”

    (ج) ہر عقلمند اور صاحب بصیرت شخص بنجر، مردہ اور جلی سڑی زمین کا مشاہدہ کرتا ہے، اور یہ بخوبی جانتا ہے کہ جب اس پر بارش برستی ہے تو وہ مردہ زمین سرسبز و شاداب ہوجاتی ہے اور موت کے بعد نباتات اور سبزہ اس کے بطن پر لہلہانے لگتا ہے، تو اس مردہ زمین کو زندگی بخشنے پر قادر مطلق ذات، مردہ لوگوں کو زندگی بخشنے کے بعد انہیں دوبارہ اٹھانے پر بھی قدرت رکھتی ہے، اس کی تائید میں حق تعالی کا یہ ارشاد ہے:
    (وَمِنْ آيَاتِهِ أَنَّكَ تَرَى الأَرْضَ خَاشِعَةً فَإِذَا أَنْزَلْنَا عَلَيْهَا الْمَاءَ اهْتَزَّتْ وَرَبَتْ إِنَّ الَّذِي أَحْيَاهَا لَمُحْيِي الْمَوْتَى إِنَّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ(فصلت: 39))
    “اور اللہ کی نشانیوں میں سے ایک یہ ہے کہ تم دیکھتے ہو کہ زمین سونی (بےآباد) پڑی ہوئی ہے، پھر ہم اس پر پانی برساتے ہیں، تو وہ حرکت میں آتی ہے اور پھول جاتی ہے، جس (اللہ) نے اس زمین کو زندہ کیا وہ یقینا مردوں کو بھی زندہ کرسکتا ہے، کیونکہ وہ ہر چیز پر قادر ہے۔”

    تیسری دلیل: کہ بعث (مرنے کے بعد دوبارہ اٹھایا جانا) ایک ایسا معاملہ ہے، کہ جس کی حقیقت اور امکان پر حسی (یعنی شعوری) اور واقعاتی شواہد (کے دلائل) بھی موجود ہیں، جیسا کہ اس بارے میں خود اللہ تعالی نے قرآن حکیم میں ہمیں مردوں کو زندہ کرنے کے بعض واقعات کی بابت خبردی ہے اور اس ضمن میں صرف سورۃ البقرۃ ہی میں پانچ مختلف واقعات ذکر ہوئے ہیں، جن میں سے ایک واقعہ کے بیان میں یہ آیات مبارکہ ہیں:

    (أَوْ كَالَّذِي مَرَّ عَلَى قَرْيَةٍ وَهِيَ خَاوِيَةٌ عَلَى عُرُوشِهَا قَالَ أَنَّى يُحْيِي هَذِهِ اللَّهُ بَعْدَ مَوْتِهَا فَأَمَاتَهُ اللَّهُ مِائَةَ عَامٍ ثُمَّ بَعَثَهُ قَالَ كَمْ لَبِثْتَ قَالَ لَبِثْتُ يَوْماً أَوْ بَعْضَ يَوْمٍ قَالَ بَلْ لَبِثْتَ مِائَةَ عَامٍ فَانْظُرْ إِلَى طَعَامِكَ وَشَرَابِكَ لَمْ يَتَسَنَّهْ وَانْظُرْ إِلَى حِمَارِكَ وَلِنَجْعَلَكَ آيَةً لِلنَّاسِ وَانْظُرْ إِلَى الْعِظَامِ كَيْفَ نُنْشِزُهَا ثُمَّ نَكْسُوهَا لَحْماً فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَهُ قَالَ أَعْلَمُ أَنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ(البقرة: 259))
    “یا (تم نے اس شخص کے حال پر غور نہیں کیا) جو ایک بستی کے قریب سے گزرا اور وہ بستی اپنی چھتوں پر گری پڑی تھی، وہ کہنے لگا، اس بستی کی موت کے بعد دوبارہ اللہ اسے کیسے زندگی دے گا (اور آباد کرے گا؟) اس پر اللہ (تعالی) نے اسے سوسال تک موت کی نیند سلادیا، پھر اسےزندہ کرکے اس سے پوچھا: بھلا کتنی مدت تم یہاں پڑے رہے؟ وہ بولا بس یہی ایک دن یا اس کا کچھ حصہ ٹھہرا ہوں گا، اللہ (تعالی) نے فرمایا: “بات یوں نہیں، بلکہ تم یہاں سو سال پڑے رہے ہو، اچھا اب اپنے کھانے اور پینے کی چیزوں کی طرف تو دیکھو، یہ ابھی تک باسی نہیں ہوئیں اور اپنے گدھے کی طرف دیکھو، (اس کا پنجر تک بوسیدہ ہوچکا ہے) اور یہ ہم نے اس لئے کیا ہے کہ تجھے لوگوں کے لئے (اپنی قدرت کی) ایک نشانی بنادیں (کہ جو شخص سو برس پیشتر مرچکا تھا وہ دوبارہ زندہ ہو کر آگیا) اور اب گدھے کی ہڈیوں کی طرف بھی دیکھو، کہ ہم کیسے انہیں جوڑتے، اٹھاتے اور اس پر گوشت چڑھادیتے ہیں، جب یہ سب باتیں واضح ہوگئیں تو وہ کہنے لگا: اب مجھے خوب معلوم ہوگیا، کہ اللہ (تعالی) ہر چیز پر قادر(مطلق) ہے۔”

    چوتھی دلیل: حکمت اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ بعث (یعنی مرنے کے بعد دوبارہ زندگی) ہونے چاہئے تاکہ ہر نفس کو اس کےکئے کا صحیح اور پورا بدلہ مل سکے اور اگر ایسا نہ ہوتا، تو اس دنیا میں لوگوں کی پیدائش ایک بے فائدہ اور بے کار کام ہوکر رہ جاتا ، جس کی سرے سے کوئی قیمت ہی نہ ہوتی اور نہ ہی اتنی مخلوق کی پیدائش میں کوئی حکمت و مصلحت کار فرما ہوتی اور پھر ایسی زندگی کے ہوتے ہوئے انسان اور چوپائے وغیرہ میں فرق ہی مٹ جاتا” اللہ تعالی اس بارے میں ارشاد فرماتا ہے:
    (أَفَحَسِبْتُمْ أَنَّمَا خَلَقْنَاكُمْ عَبَثاً وَأَنَّكُمْ إِلَيْنَا لا تُرْجَعُونَ* فَتَعَالَى اللَّهُ الْمَلِكُ الْحَقُّ لا إِلَهَ إِلَّا هُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْكَرِيمِ(المؤمنون: 115-116))
    “کیا تم نے یہ سمجھ رکھا تھا کہ ہم نے تمہیں بے کار ہی پیدا کر دیا اور تم ہمارے ہاں لوٹ کرنہ آؤ گے؟ پس اللہ تعالی بہت ہی بلند شان والا ہے، وہی حقیقی بادشاہ ہے، اس کے علاوہ کوئی الہ (معبود برحق) نہیں، وہی عرش کریم کا مالک ہے۔”

    اور سورہ طہ میں ارشاد باری تعالی یوں ہوا ہے:
    (إِنَّ السَّاعَةَ آتِيَةٌ أَكَادُ أُخْفِيهَا لِتُجْزَى كُلُّ نَفْسٍ بِمَا تَسْعَى(طـه: 15))
    “قیامت، یقینا آنے والی ہے، میں اسے ظاہر کرنے ہی والا ہوں، تاکہ ہر شخص اپنی کوشش کا بدلہ پالے۔”

    اور سورہ النحل میں حق تعالی کا ارشاد ہے:
    (وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمَانِهِمْ لا يَبْعَثُ اللَّهُ مَنْ يَمُوتُ* بَلَى وَعْداً عَلَيْهِ حَقّاً وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لا يَعْلَمُونَ * لِيُبَيِّنَ لَهُمُ الَّذِي يَخْتَلِفُونَ فِيهِ وَلِيَعْلَمَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنَّهُمْ كَانُوا كَاذِبِينَ* إِنَّمَا قَوْلُنَا لِشَيْءٍ إِذَا أَرَدْنَاهُ أَنْ نَقُولَ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ(النحل: 38-40))
    “اور یہ لوگ اللہ کے نام کی کڑی کڑی قسمیں کھا کر کہتے ہیں: کہ اللہ کسی مرنے والے کو پھر سے زندہ کرکے نہ اٹھائے گا، اٹھائے گا کیوں نہیں، یہ تو ایک وعدہ ہے، جسے پورا کرنا اس نے اپنے اوپر واجب کرلیا ہے، مگر اکثر لوگ نہیں جانتے، اور ایسا ہونا اس لئے ضروری ہے کہ اللہ ان کے سامنے اس حقیقت کھول دے جس کے بارے میں یہ لوگ اختلاف کر رہے ہیں، اور منکرین حق کو معلوم ہوجائے کہ وہ جھوٹے تھے (رہا اس کا امکان، تو) ہمیں کسی چیز کو وجود میں لانے کے لئے اس سے زیادہ کچھ کرنا نہیں ہوگا کہ اسے حکم دیں “ہوجا” تو بس وہ ہوجاتی ہے۔”

    اور سورہ التغابن میں اس مسئلہ کی وضاحت ان الفاظ میں ہوئی ہے:
    (زَعَمَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنْ لَنْ يُبْعَثُوا قُلْ بَلَى وَرَبِّي لَتُبْعَثُنَّ ثُمَّ لَتُنَبَّؤُنَّ بِمَا عَمِلْتُمْ وَذَلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرٌ(التغابن: 7))
    “(آخرت کا )انکار کرنے والوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ وہ قطعا اٹھائے نہیں جائیں گے، آپ(صلی اللہ علیہ وسلم)ان سے کہئے، کیوں نہیں، میرے پروردگار کی قسم! تم ضرور اٹھائے جاؤگے، پھر جو کچھ تم کرتے رہے، اس سے تمہیں آگاہ کیا جائے گا، اور یہ بات اللہ تعالی کے لئے بہت آسان ہے۔”

    تو جب یہ اور اس طرح کی دیگر واضح دلیلیں، بعث (مرنے کے بعد دوبارہ زندہ اٹھائے جانے) کی حقیقت کا انکار کرنے والوں کے سامنے بیان کی جائیں اور وہ اس کے باوجود اپنے انکار پر مصر اور بضدر ہیں، تو اس کا واضح مطلب یہ ہوگا، کہ یہ لوگ حق اور اہل حق کے بارے میں متکبرین اور معاندین کا ٹولہ ہیں، اور ایسے ظالم لوگ عنقریب جان لیں گے کہ ان کا نجام کار کیا ہولناک تباہی لے کر آتا ہے۔”

    دین کے تین بنیادی اصول اور ان کی شرح(شرح اصول الثلاثة) - URDU MAJLIS FORUM
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
  2. اعجاز علی شاہ

    اعجاز علی شاہ -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏اگست 10, 2007
    پیغامات:
    10,322
    بارک اللہ فی عمرک
    کمپوزنگ کا ایک فائدہ یہ بھی ہوتا ہے کہ بندہ بہت کچھ سیکھ لیتا ہے اور اجر و ثواب کے ساتھ ساتھ علم میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔
     
  3. ام ثوبان

    ام ثوبان رحمہا اللہ

    شمولیت:
    ‏فروری 14, 2012
    پیغامات:
    6,690
    جزاک اللہ خیرا
     
  4. ساجد تاج

    ساجد تاج -: رکن مکتبہ اسلامیہ :-

    شمولیت:
    ‏نومبر 24, 2008
    پیغامات:
    38,751
    جزاک اللہ خیرا
     
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں