چند بڑے(اور چوٹی کے)طاغوت

بابر تنویر نے 'دین کے تین بنیادی اصول اور ان کی شرح' میں ‏نومبر 27, 2013 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. بابر تنویر

    بابر تنویر -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏دسمبر 20, 2010
    پیغامات:
    7,320
    والطواغيت(32) كثيرة ورؤسهم(33) خمسة إبليس(34) لعنه الله، ومن عبد وهو راض(35) ومن دعا الناس إلى عبادة نفسه(36)، ومن ادعى شيئاً من علم الغيب(37)
    “اور طاغوت کی تعداد بہت زیادہ ہے، مگر ان کے سربرآوردہ پانچ ہیں: (الف)ابلیس لعین۔ (ب) ایسا شخص، جس کی اللہ کے سوا عبادت کی جائے اور وہ اس فعل پر خود بھی راضی ہو۔ (ج) جو شخص لوگوں کو اپنی عبادت کی طرف بلاتا ہو۔ (د) جو شخص علم غیب کا دعوی کرتا ہو۔ (ھ)اور جو شخص اللہ تعالی کی نازل کردہ شریعت طاہرہ کے خلاف فیصلہ کرتا ہو۔


    (32) اور کلمہ (الطواغيت) “طاغوت”کی جمع ہے اور اس کی وضاحت قبل ازیں گزر چکی ہے۔

    (33) (خمسة) یعنی طاغوت کے قائدین اور اسکے بڑے چیلے چانٹے پانچ ہیں۔

    (34) (إبليس) وہ شیطان، جو راندۂ درگاہ اور مردود وملعون، یعنی اللہ تعالی کی رحمت سے محروم و مایوس ہے۔

    اللہ تعالی نے اس کے بارےمیں ارشاد فرمایا: (وَإِنَّ عَلَيْكَ لَعْنَتِي إِلَى يَوْمِ الدِّينِ(صّ: 78))
    “اور تجھ پر روز جزاء و سزا (یعنی قیامت) تک میری لعنت ہے۔”

    اور یہ ابلیس (شیطان) فرشتوں کے ساتھ، ان کی صحبت میں رہ کر، انہی کے سے عمل کیا کرتا تھا اور جب (اللہ جل شانہ، کی جانب سے) حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا، تو اس کا خبث باطن اور اللہ کے حکم سے انکار اور تکبر وغرور ظاہر ہوگیا، اس نے سجدہ سے انکار کیا، تکبر کیا اور اس طرح سے وہ کافروں میں سے ہوگیا، لہذا اپنے اس انکار اور تکبر کی وجہ سے وہ اللہ عزوجل کی رحمت سے دھتکاردیا گیا اور ملعون ٹھہرا،

    اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے: (وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلائِكَةِ اسْجُدُوا لآدَمَ فَسَجَدُوا إِلا إِبْلِيسَ أَبَى وَاسْتَكْبَرَ وَكَانَ مِنَ الْكَافِرِينَ(البقرة: 34))
    “اور (اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم وہ وقت یاد کرو!) جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم (علیہ السلام) کو سجدہ کرو، تو سوائے ابلیس (ملعون) کے (سب نے) سجدہ کیا، اس (ابلیس ملعون) نے (سجدہ کرنے سے) انکار کیا، اور تکبر کیا اور وہ (سجدہ سے) انکار کرنے والوں میں سے تھا۔”

    (35) مطلب یہ ہے کہ اس کی اللہ کے سوا عبادت کی جائے اور وہ اس بات پر راضی بھی ہو کہ اس کی اللہ کے سوا عبادت کی جائے، تو ایسا شخص “طواغيت”کے ساتھیوں بلکہ قائدین میں سے ہے۔(والعياذ بالله من ذلك)....اور خواہ یہ شخص ، اس کے بعد اپنی زندگی ہی میں پوجا جائے، یا مر نے کے بعد اس کی پوجا کی جائے، اور مرتے وقت وہ خود اس فعل پر راضی ہو۔”

    (36) یعنی جو شخص لوگوں کو انپی بندگی کی طرف بلاتا ہو، اور خواہ لوگ اس کی دعوت کے باوجود، اس کی عبادت نہ کریں، تب بھی وہ “طواغيت”کے ساتھیوں اور قائدین میں سے ہے خواہ اس کی یہ دعوت قبول کی جائے یا نہ۔

    (37) (الغيب) جو چیز انسان سے مخفی اور پوشیدہ ہو اور اس کی دوقسمیں ہیں: (الف) واقعاتی غیب (ب) مستقبل کا غیب

    (الف) واقعاتی غیب کو “نسبی غیب” بھی کہا جاتا ہے، جو کسی ایک شخص کو معلوم ہوتا ہے، تو دوسرے سے “مجہول” یعنی ممکن ہے کہ ایک بات یا واقعے کا کسی کو علم ہو اور دوسرا شخص اسی بات یا واقعے سے ناواقف، نابلد اور جاہل ہو۔

    (ب) اور غیب “مستقبل”کو “حقیقی غیب”بھی کہتے ہیں، جو کہ اللہ واحد و قہار کے علاوہ کسی کو معلوم نہیں۔ یا جس قدر اللہ تعالی چاہے اپنے پیغمبروں میں سے کسی ایک کو اس پر مطلع کردیتا ہے، تو جو شخص”علم غیب”کی اس قسم کا دعوی کرے، تو وہ بلاشک کافر ہے، اس لئے کہ وہ اللہ عزوجل اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو (اپنے اس دعوی سے) جھٹلاتا ہے۔”

    اللہ تعالی ارشاد فرماتاہے:(قُلْ لا يَعْلَمُ مَنْ فِي السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ الْغَيْبَ إِلا اللَّهُ وَمَا يَشْعُرُونَ أَيَّانَ يُبْعَثُونَ(النمل: 65))
    “(اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم!) آپ ان سے کہیے: کہ اللہ کے سوا آسمانوں اور زمین کی پوشیدہ چیزوں کو کوئی بھی نہیں جانتا اور وہ تو یہ بھی نہیں جانتے کہ کب انہیں اٹھایا جائےگا۔”

    اور جب اللہ عزوجل اپنے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ حکم دے رہا ہے کہ وہ اپنی قوم کے سرداران کو اعلانیہ طور پر خبردے دیں کہ آسمانوں اور زمین کے غیب (پوشیدہ چیز) کو سوائے “اللہ”کے اور کوئی نہیں جانتا، تو اس کے بعد جو شخص اس علم غیب کا دعوی کرے گا، تو اس نے حقیقت میں اس “خبر”کے بارے میں اللہ عزوجل اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ سلم کو جھٹلایا ہے۔”

    اور یہاں ہم ان مدعین علم غیب کو کہیں گے، یہ کیسے ممکن ہے کہ تم تو علم غیب رکھتے ہو، اور اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم غیب نہیں جانتے؟! کیا تم زیادہ شرف و فضیلت رکھتے ہو یا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم؟ تو اگر وہ جواب میں یہ کہیں: “کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ شرف و فضیلت والے ہیں، تو وہ اپنے اس دعوی ہی سے کافر ہوجائیں گے، اور اگر وہ یہ جواب دیں کہ وہ (اللہ کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم) اشرف و افضل ہیں، تو پھر ہم یہ کہیں گے: “اگر یہ بات ہے تو پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو علم غیب سے کیوں پس پردہ رکھا گیا ہے، جبکہ تم غیب جانتے ہو؟!”

    اور اللہ عزوجل نے اپنی ذات کے متعلق یہ فرمایا ہے:

    (عَالِمُ الْغَيْبِ فَلا يُظْهِرُ عَلَى غَيْبِهِ أَحَداً * إِلا مَنِ ارْتَضَى مِنْ رَسُولٍ فَإِنَّهُ يَسْلُكُ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ رَصَداً(الجـن: 26-27))
    “وہ اللہ غیب کا جاننے والا ہے اور اپنے غیب پر کسی کو آگاہ نہیں کرتا، سوائےایسے رسول کے جسے وہ (کوئی غیب کی بات بتانا) پسند کرے، پھر وہ اس (وحی) کے آگے اور پیچھے محافظ (فرشتے) لگا دیتا ہے۔”

    اور یہ دوسری آیت کریمہ بھی علم غیب کے مدعی(دعوی کرنے والے) کے کفر پر دلالت کرتی ہے اور اللہ تعالی نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ حکم دیا ہے کہ وہ اپنی قوم کے سرکردہ اور سربرآوردہ لوگوں کو اعلانیہ طور پر یہ بات کہہ دیں، اللہ تعالی کا ارشاد ہے:

    (قُلْ لا أَقُولُ لَكُمْ عِنْدِي خَزَائِنُ اللَّهِ وَلا أَعْلَمُ الْغَيْبَ وَلا أَقُولُ لَكُمْ إِنِّي مَلَكٌ إِنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَى إِلَيَّ قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الأَعْمَى وَالْبَصِيرُ أَفَلا تَتَفَكَّرُونَ(الأنعام: 50))
    “(اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم!)آپ ان سے کہئے کہ میں یہ نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں، نہ ہی میں غیب کی باتیں جانتا ہوں، اور نہ میں یہ کہتا ہوں کہ مین فرشتہ ہوں، میں تو صرف اسی کی پیروی کرتا ہوں، جو میری طرف وحی کی جاتی ہے۔”

    دین کے تین بنیادی اصول اور ان کی شرح(شرح اصول الثلاثة) - URDU MAJLIS FORUM
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
  2. ام ثوبان

    ام ثوبان رحمہا اللہ

    شمولیت:
    ‏فروری 14, 2012
    پیغامات:
    6,690
    جزاک اللہ خیرا
     
  3. ام محمد

    ام محمد -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏فروری 1, 2012
    پیغامات:
    3,120
    جزاک اللہ خیرا
     
  4. اعجاز علی شاہ

    اعجاز علی شاہ -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏اگست 10, 2007
    پیغامات:
    10,322
    جزاک اللہ خیرا
    اللہ تعالی ہمیں طاغوت سے بچائے۔
     
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں