دین کے معاملے میں کوئ زبردستی نہیں ہے

بابر تنویر نے 'دین کے تین بنیادی اصول اور ان کی شرح' میں ‏نومبر 29, 2013 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. بابر تنویر

    بابر تنویر -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏دسمبر 20, 2010
    پیغامات:
    7,320
    والدليل(39) قوله تعالى: (لا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ)(40) قد تبين الرشد من الغي فَمَنْ يَكْفُرْ بِالطَّاغُوتِ وَيُؤْمِنْ بِاللَّهِ)(41) فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقَى لا)(42) (البقرة: 256) وهذا معنى لا إله إلا الله . وفي الحديث:"رأس الأمر الإسلام(43) وعموده الصلاة(44) وذروة سنامه الجهاد في سبيل الله"(45)
    “اور اس بات کی دلیل اللہ جل شانہ، کا یہ فرمان ہے: “دین کے معاملہ میں کوئی زور زبردستی نہیں ہے، کیونکہ ہدایت یقینا گمراہی سے ممتاز ہوچکی ہے، تو (اب) جوشخص “طاغوت”کا انکار کرکے اللہ پر ایمان لے آیا، اس نے ایک ایسا مضبوط سہارا تھام لیا، جو کبھی ٹوٹنے والا نہیں اور اللہ (تعالی)سب کچھ سننے والا اور جاننے والا ہے۔” اور یہی (لااله الا الله)(کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں)کا صحیح معنی و مفہوم ہے۔ اور حدیث شریف میں رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: “اس دین کی اصل(بنیاد)اسلام ہے اور اس کا ستون نماز ہے، اور اس کا اعلی ترین مرتبہ و مقام اللہ تعالی کی راہ میں “جہاد”ہے۔”​


    (39) مطلب یہ ہے کہ اللہ جل شانہ، کی نازل کردہ شریعت کے مطابق فیصلہ کرنے اور “طاغوت”سے انکار کے وجود پر بڑی واضح دلیل اللہ جل مجد ہ کا یہ ارشاد ہے:(لا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ.....)

    (40) یعنی دین کے روز روشن کی طرح واضح ہونے اور اس کے ظاہر و باہر (روشن) دلائل کی موجودگی کی بناء پر اب اس کو منوانے اور قبول کروانے میں کسی پر کوئی جبر اور زبردستی نہیں، اسی لئے اللہ جل جلالہ نے بعد میں یہ الفاظ ارشاد فرمائے: (قد تبين الرشد من الغي) “کہ ہدایت یقینا گمراہی سے ممتاز ہوچکی ہے۔”

    تو جب ہدایت اور حق بات، سرکشی اور گمراہی سے واضح ہوچکی ، تو اب ہر تندرست اور توانا(یعنی زیرک اور عقلمند) شخص پر لازم ہے کہ وہ سرکشی و گمراہی کے بجائے ہدایت اور حق بات ، سکشی اور گمراہی سے واضح ہوچکی، تو اب ہرتندرست اور توانا (یعنی زیرک اور عقلمند) شخص پر لازم ہے کہ وہ سرکشی و گمراہی کے بجائے ہدایت اور سچائی کا دامن پکڑے۔”

    (41) آیت کریمہ میں، اللہ جل شانہ نے “اللہ تعالی پر ایمان سے قبل، طاغوت سے کفر، کے ساتھ آغاز فرمایا ہے۔ اس لئے قاعدہ ہے کہ کسی چیز کے وجود کے اثبات سے پہلے اس کے موانع کا سد باب، اس ثابت کی جانے والی چیز کے کمال کی دلیل ہے۔ اور اسی بناء پر یہ بھی کہا جاتا ہے: (التخلية قبل التحلية) کہ برتن میں کوئی چیز ڈالنے سے پہلے برتن کو خالی کرنا ضروری ہے۔”

    (42) آیت مبارکہ کا مطلب یہ ہے کہ اس شخص نے پورے طور پر ایک مضبوط چیز کو تھام لیا، اور آیت میں (بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقَى) سے مراد “دین اسلام” ہے۔ آپ ذرا آیت کریمہ کے ان الفاظ پر غور کیجئے کہ اللہ تبارک وتعالی نے یہ فرمایا ہے:(فَقَدِ استَمْسَكَ) اور یہ نہیں فرمایا: (فَقَدِ تَمْسَكَ) کیونکہ لفظ (الاستَمْسَكَ) معنی کی ادائیگی کے اعتبار سے (التَمْسَكَ) کی نسبت زیادہ قوت رکھتا ہے، اور یہی وجہ ہے کہ انسان بسا اوقات کسی چیز کے ساتھ (تَمْسَكَ) تو رکھتا ہے، (استَمْسَاكَ) نہیں،(اور جو(استَمْسَاكَ) رکھتا ہے، وہ(تَمْسَكَ) ضرور رکھے گا۔(والله اعلم)

    (43) شیخ الاسلام امام محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ نے اس مذکورہ حدیث شریف سے اس بات پر دلیل لینی چاہی ہے کہ ہو چیز کی ایک چوٹی (سراور اصل) ہوتی ہے، اور دین کی اصل چیز، جسے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم لائے ہیں وہ “اسلام”ہے۔

    (44) عموده الصلاة:اور اس “دین”کا ستون “نماز” ہے، اس لئے کہ دین، اسے قائم کئے بغیر خود قائم نہیں رہ سکتا اور اسی بناء پر راجح قول کے مطابق نماز کا تارک “کافر”ہے اور بے نمازی کا “اسلام” باقی نہیں رہتا۔

    (45) وذروة سنامه....الخ: یعنی “دین اسلام”کا اعلی ترین اور کامل ترین مرتبہ اللہ تعالی کی راہ میں “جہاد”ہے، اور یہ اس لئے کہ جب انسان اپنے آپ کی اصلاح کرلیتا ہے تو وہ دوسرے کی اصلاح کا بیڑہ (ذمہ) اللہ تعالی کی راہ میں جہاد (غایت درجے کی محنت و کوشش) کے ذریعے اٹھاتا ہے، تاکہ وہ “اقامت دین” کا فریضہ ادا کرسکے اور اس طرح اللہ تعالی کی دھرتی پر اللہ تعالی کا نام سربلند ہوجائے۔ تو جو شخص کفار سے محض اس غرض سے لڑتا ہے کہ اللہ تعالی کا کلمہ (اور اس کا دین) سربلند ہو تو وہ حقیقت میں اللہ کی راہ میں جہاد کرتا ہے، نیز اس نے اپنے اس مبارک عمل کی وجہ سے، اسلام کا اعلی، بلند ترین مجاہد اور سپوت ہونے کا اعزاز بھی پالیا، اس لئے کہ کفر پر اسلام کی عظمت وسطوت اور برتری اسی عظیم مجاہد کے سبب ہوئی۔


    دین کے تین بنیادی اصول اور ان کی شرح(شرح اصول الثلاثة) - URDU MAJLIS FORUM
     
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں