دفاتر میں تذلیل کا ماحول

طالب علم نے 'گپ شپ' میں ‏جولائی 19, 2014 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. طالب علم

    طالب علم -: رکن مکتبہ اسلامیہ :-

    شمولیت:
    ‏نومبر 24, 2007
    پیغامات:
    960
    السلام علیکم!
    آج کے ایکسپریس میں ایک خبر پڑھ کر میرا یہ تھریڈ شروع کرنے کو دل کیا کہ وفاقی سیکرٹری پانی و بجلی کی کانفرنس کے دوران ملتان الیکٹرک پاور کمپنی کا آفیسر دل کا دورہ پڑنے سے جاں بحق ہو گیا۔ ملاحظہ ہو
    http://www.express.com.pk/epaper/PoPupwindow.aspx?newsID=1102326596&Issue=NP_ISB&Date=20140719

    میرا ذاتی تجربہ ہے کہ دفاتر میں تذلیل، بے عزتی کا ماحول ان لوگوں کے لیے جو حساس طبیعت رکھتے ہوں سخت ذہنی اذیت کا باعث ہے حتیٰ کہ انہیں دل کے امراض، ہائپرٹینشن وغیرہ لاحق ہو جاتے ہیں ان افسران بالا کے باعث جو انسان کو انسان نہیں سمجھتے اور اس سے اس کی قابلیت و صلاحیت سے بڑھ کر توقع کرتے ہیں۔

    میرا ایک بہت خوش مزاج مرحوم دوست اور دفتر کا ساتھی بھی بھری جوانی میں آج سے کچھ سال پہلے زیادہ کام اور بے عزتی برداشت نہ کر سکا اور cardiac arrest کی وجہ سے خالق حقیقی کو جا ملا جس کا درد میں آج تک اپنے دل میں محسوس کرتا ہوں۔ اس کی ایک سینئیر نے اپنے کمرے میں بلا کر بے عزتی کی تھی۔ اللہ اسے معاف فرمائے، آمین!

    جانے ہمارے ملک میں لوگ اونچا عہدہ ملنے پر خود کو فرعون کیوں سمجھنا شروع کردیتے ہیں۔ تذلیل، تحقیر اور حقارت کچھ ایسے حالات ہیں جن میں سے ہمارے بعض دفاتر خصوصا سرکاری دفاتر کے ملازمیں کو سامنا کرنا پڑتا ہے۔

    آپ لوگ بھی اپنی رائے دیں۔۔۔ شکریہ!
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 10
    • متفق متفق x 1
  2. اہل الحدیث

    اہل الحدیث -: رکن مکتبہ اسلامیہ :-

    شمولیت:
    ‏مارچ 24, 2009
    پیغامات:
    5,052
    بہترین موضوع شروع کیا۔
    جزاک اللہ خیرا۔
    وجوہات میں لوگوں کا مناسب معیار کا کام نہ کرنا، سینئرز کی بات صحیح سمجھ میں نہ آنا،سینئرز کو جو آپ کر رہے ہیں، اس سے باخبر نہ رکھنا، کام چوری کا رجحان،دئیے گئے کام میں ترجیحات کا تعین مناسب نہ ہونا، سینئرز کے مسائل کو نہ سمجھنا، اور بعض لوگوں میں فرعونیت کے جراثیم موججود ہونا شامل ہیں۔ اس کے علاوہ کئی اور ووجوہ بھی ہو سکتی ہیں۔ پھر کبھی سہی ان شاء اللہ
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 6
    • متفق متفق x 1
  3. dani

    dani نوآموز.

    شمولیت:
    ‏اکتوبر، 16, 2009
    پیغامات:
    4,329
    اس کیس کا اللہ جانے پر تذلیل قوم کی عادت بن گئی ہے دفتروں میں کیا بل جمع کرانے کی لائنوں میں ، ہسپتالوں کی ایمرجنسی میں بھی دوسرے کو ذلیل کرنے میں منٹ نہیں لگاتے
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 3
  4. جاسوس

    جاسوس -: مشاق :-

    شمولیت:
    ‏دسمبر 4, 2007
    پیغامات:
    356
    اس تذلیل کے ہونے اور اسے برداشت کرنے کے پیچھے بہت سے وجوہات ہو سکتی ہیں۔
    ۱۔ اللہ تعالی کو خیرالرازقین ماننے کے یقین میں کمی
    ۲۔ کام چوری
    ۳۔ اپنی صلاحیتیوں کا صحیح ادراک نہ ہونا
    ۴- احساس کمتری
    ۵- خود اعتمادی میں کمی
    ۶۔ افسران اعلی کی فرعونیت
    وغیرہ وغیرہ
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 5
  5. اعجاز علی شاہ

    اعجاز علی شاہ -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏اگست 10, 2007
    پیغامات:
    10,322
    بالکل صحیح
    دفاتر میں ایک لمبے عرصے سے کام کررہا ہوں۔
    عام طور پر دفاتر میں ماحول خراب ہونے کی بہت وجوہات ہیں۔ ان میں ایک یہ بھی ہے کہ ہر کوئی دوسروں کی ٹانگ کھینچ کر ترقی کرنا چاہتا ہے اور اس کیلئے وہ فرعون و ہامان والا کردار ادا کرتے ہیں۔
    مجھے یہ تجربہ ہوا ہے کہ اپنے کام سے کام رکھو ، مذہبی اور سیاسی بحث سے دور رہو ، وقت پر آو اور وقت پر جاو،
    باقی رزق اللہ کے ہاتھ میں ہے، اخلاص کے ساتھ کام کرو اور کام چوری سے بچو، اسطرح انسان ہر وقت کی تذلیل سے بچ سکتا ہے۔
    باقی یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ ہم سب فقیر ہیں اللہ کے، ذلت و عزت اللہ کے ہاتھ میں ہے،
    اگر آپ منیجر ہیں تو پھر بہت زیادہ نرمی بھی کام خراب کرسکتی ہے اور ہمیشہ سختی بھی، اس کے علاوہ اگر آپ نے اپنا رشتہ دار رکھا ہوا ہے تو وہ ہمیشہ اصول کی خلاف ورزی کرکے آفس کا ماحول خراب کرے گا۔
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 7
    • متفق متفق x 1
  6. Ishauq

    Ishauq -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏فروری 2, 2012
    پیغامات:
    9,612
    وعلیکم السلام و رحمتہ
    مجھے بھی اس ماحول میں کام کرتے ھوئے طویل عرصہ ھو چکا ھے۔ اس کی کئی وجوھات ھیں۔
    انفرادی سبب:
    ملنے والا کام تسلی سے نا کرنا، پروفیشنل حسد، ھر وقت اپنے ساتھیوں کی برائی کرنا ، وقت پہ اپنے کام پر نا پہنچنا، اپنی خامیوں کا ملبہ دوسروں پر ڈالنا کہ یہ سب دوسروں کی وجہ سے ھے، وغیرہ وغیرہ۔ ان سب وجوھات کی وجہ یقینا کام پر اثر پڑتا ھے۔ اور ھر کام کا جو نگران (منیجر) ھے ، کو جواب دہ ھونا پڑتا ھے۔ تو وہ ضرور بازپرس کرے گا۔ ایک اور بات ، ھر جاب کے کنٹریکٹ میں یہ بات لکھی ھوتی ھے کہ ورکر اپنے باس کے سامنے جواب دہ ھو گا اور اسی کو رپورٹ کرے گا۔ اور اسی کے دیے ھوئے کام کو بروقت مکمل کرے گا۔
    مینجر:
    ذاتی پسند اور نا پسندی ، کسی پرانی ناچاقی کا بدلہ ، مینجر کا اپنے ورکر کو ڈیفینڈ نا کرنا یعنی کمزور باس، وغیرہ وغیرہ

    اس کا حل :
    اعجاز بھائی نے بہت اچھی بات کہی ھے "مجھے یہ تجربہ ہوا ہے کہ اپنے کام سے کام رکھو ، مذہبی اور سیاسی بحث سے دور رہو ، وقت پر آو اور وقت پر جاو،
    باقی رزق اللہ کے ہاتھ میں ہے، اخلاص کے ساتھ کام کرو اور کام چوری سے بچو، اسطرح انسان ہر وقت کی تذلیل سے بچ سکتا ہے۔"

    اپنا کام محنت سے کیا جائے۔ اسی کی آپ کو تنخواہ ملتی ھے۔ اگر آپ کو کام پسند نہی تو دوسری ملازمت تلاش کر لیں۔ اگر کہیں آپ کے ساتھ ایسا برتاؤ ھو رہا ھے تو سب سے پہلے اپنا محاسبہ کریں انشااللہ سب ٹھیک ھو جائے گا۔
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 4
  7. طالب علم

    طالب علم -: رکن مکتبہ اسلامیہ :-

    شمولیت:
    ‏نومبر 24, 2007
    پیغامات:
    960
    سب دوستوں کا ریپلائی کرنے کا بہت شکریہ!
    اس میں کوئی شک نہیں کہ تالی دونوں ہاتھوں سے ہی بجتی ہے، دفاتر میں ایسا کام چور سٹاف بھی ہوتا ہے جو چاہتا ہے کام کئے بغیر ہی ماہانہ تنخواہ اس کی جیب کی زینت بن جائے۔
    ایسا نہیں ہے کہ تمام باسز بھی خوف خدا سے عاری ہوں۔ بہرحال میرا اشارہ ان باسز کی طرف تھا جو سٹاف کی مجبوریوں کو کیش کرتے ہیں اور اپنے آپ کو ان کی روزی کا مالک سمجھتے ہیں، اس میں مبالغہ آرائی نہیں، اللہ کے ایسے بندے پائے جاتےہیں۔
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 2
  8. dani

    dani نوآموز.

    شمولیت:
    ‏اکتوبر، 16, 2009
    پیغامات:
    4,329
    چلو جی یہ سوچو ہم اپنے سے نیچے والوں کو ذلیل کرتے ہیں یا نہیں؟
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
  9. طالب علم

    طالب علم -: رکن مکتبہ اسلامیہ :-

    شمولیت:
    ‏نومبر 24, 2007
    پیغامات:
    960
    اللہ ہمیں اس سے بچائے رکھے، آمین!
     
  10. عائشہ

    عائشہ ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏مارچ 30, 2009
    پیغامات:
    24,484
    سوشل میڈیا پر بھی تذلیل کا کام عام ہے۔
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 3
  11. انا

    انا -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏اگست 4, 2014
    پیغامات:
    1,400
    صحیح بات ہے۔ مجھے ایک مرتبہ کسٹمر سروس کی جاب کا بھی تجربہ ہو چکا ہے ۔ ایک ہی دن میں لوگوں سے اتنی باتیں سننے کو مل گئیں کہ اگلے دن ہی استعفی پکڑا دیا ۔ کمپنی کی پراڈکٹ اگرخراب ہو گئی ہے تو بہرحال اس میں بے چارے فرنٹ ڈسک والوں کا تو کوئی قصور نہین ۔ ان کی جاب تو اتنی ہی ہوتی ہے کہ مطلوبہ شکایت ریکارڈ کر کے اگے پہنچا دی اور بس۔ خیر پھر میرے مینجر نے کافی سمجھانے کی کوشش کی کہ آپ کا اپنا نقصان ہے چار باتیں سن لیں اور مہینے کے آخر کی تنخواہ کا سوچیں ۔ لیکن میں نے پھر ان سے کہا کہ ایک ہی شرط پر کام کروں گی اگر کمپنی کسٹمر کی بد تمیزی پر ایکشن لے گی جو کہ ان کو منظور نہیں تھا۔
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 3
  12. عائشہ

    عائشہ ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏مارچ 30, 2009
    پیغامات:
    24,484
    بہت اچھا کیا انا، اگر ورک کنڈیشنز اچھی نہ ہوں تو کام کرنا درد سر بن جاتا ہے۔ یہ کامیاب لوگوں کی عادتوں میں سے ایک ہے کہ کام کی شرائط اور ماحول اچھا نہ ہو تو کوئی دوسرا کام تلاش کر لیا جائے۔
    بے روزگار افراد پر معاشرے اور خاندان کا بہت دباؤ ہوتا ہے کہ وہ کام ڈھونڈیں، اس دباؤ کی وجہ سے ہم بعض اوقات نامناسب شرائط والا کام بھی لے لیتے ہیں، کوشش کرنی چاہیے کہ جلد از جلد بہتر کام ڈھونڈا جائے ورنہ برا ماحول ہماری صحت اور مزاج کو متاثر کر سکتا ہے۔اتنے لوگ ہیں جو پیسہ کمانے کے باوجود تلخ یا بیمار رہتے ہیں۔۔ اس کی وجہ یہی ہے۔
     
    • متفق متفق x 2
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
  13. شبر

    شبر نوآموز

    شمولیت:
    ‏جون 19, 2016
    پیغامات:
    8
    بھائی اسی حوالے سے ایک تحریر پیش خدمت ہے

    کام چور
    بڑے صاحب کا موﮈ خوشگوار لگ رہاتھا۔ فون شاید کسی دیرینہ ساتھی کا تھا جبھی بڑے صاحب اتنی بے تکلفی برت رہے تھے۔۔
    اوہ ﮈئیر لانگ ٹائم نو سی۔۔ وہئیر ور یو؟
    یا یا۔۔۔ واۓ ناٹ۔ ہممم ہمممم ایز یو وش۔۔
    ماتحت نے مؤدب لہجے میں اندر آنے کی اجازت مانگی۔
    سر کی خفیف جنبش سے مرحمت فرمائی۔۔
    اور کرسی پر جھولتے ہوے زور دار قہقہہ لگایا۔ ہاااا ہااااا ہااا۔ بہت کام ہے بھائی بہت۔ یہاں تو سب کام چور جمع ہیں۔۔
    ایسی ہی ضروری باتوں میں پندرہ منٹ گزر گئے۔۔ تو بڑے صاحب کو یاد آیا کہ ایک ماتحت کمرے میں موجود ہے اور ان کی بے تکلف گفتگو سن رہا ہے۔
    عینک کے اوپر سے گھورا اور چونگے پر ہاتھ رکھ کر کرخت لہجے میں بولے " کیا ہے؟"
    ماتحت "جناب ایک نظر دیکھ لیجے"
    اور سینے سے لگائی ہوئی فائل بڑے صاحب کی جانب بڑھا دی۔
    صاحب نے ایک نگاہ غلط انداز فائل پر ﮈالی اور سرد لہجے میں فرمایا " محترم ! اگر سب کام میں نے ہی دیکھنے ہیں تو آپ کس مرض کی دوا ہیں؟"
    ماتحت نے میکانکی انداز میں بنا سوچے سمجھے جواب دیا " دستخط تو جناب کو ہی کرنے ہوں گے"
    صاحب کی دم پر تو جیسے پاؤں آ گیا۔
    " لٹ می ہینﮈل اے سٹوپﮈ، آئی ول کال یو لیٹر"
    اور چونگا کرےﮈل پہ رکھ دیا، چشمہ ناک پہ جمایا اور فائل کا بغور مطالعہ فرمانے لگے۔۔۔ 5 منٹ گزر گئے کچھ ارشاد نہ ہوا، آخر ساتویں صفحے پر گویا گوہر مقصود ان کے ہاتھ آ گیا۔ چہرے پر مسکراہٹ پھیلی زہر خند مسکراہٹ۔۔ او ر غائب ہو گئی۔۔ میز پر لگا ہوا قلم تھاما اور حبیب بینک کے دو الفاظ کو نشان زد کیا۔
    فاتحانہ نظروں سے ماتحت کو دیکھا۔۔۔ اور اچانک زور سے فائل میز پر پٹخ دی۔۔ اور چنگھاڑے۔ کس نے ئپ کیا ہے یہ؟
    ماتحت منمنایا" ججی ممیں نے"
    بڑےصاحب نے گوہر افشانی شروع کی۔۔
    ” ﺫرا بھی احساس ہے تمہیں اپنی ﺫمہ داری کا؟ معلوم بھی ہے کہ یہ فائل کہاں جانی ہے؟ " آواز ﺫرا اور اونچی ہو گئی۔۔" منسٹری میں"
    ماتحت بڑے غور سے نشان زد الفاظ کو گھور رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ سپیلنگ تو ٹھیک ہی لگتے ہیں اور سپیلنگ زیر لب پڑھنے لگا۔۔
    ایچ اے بی آئی بی بی اے این کے۔
    میں پھر بھی اپنی چیک بک سے موازنہ کر کے تصحیح کر لوں گا۔
    بڑے صاحب نہ جانے کیا کچھ کہہ چکے تھے۔۔ ماتحت کو گم صم کسی سوچ میں غرق دیکھا تو زور سے میز پر ہاتھ مارا " میں تم سے مخاطب ہوں مسٹر! ناک کٹواؤ گے کیا؟ منسٹری والے سمجھیں گے سب کے الو جمع ہیں۔۔۔ میں کہتا ہوں منسٹری والے عقل کے اندھے جو تم جیسے احمق بھرتی ہو رہے ہیں۔ "
    ماتحت چونک پڑا اور جی جی کہنے لگا۔
    بڑےصاحب نے فرمایا " اب کھڑے کھڑے میرا منہ کیا دیکھ رہے ہو جاؤ اسے ٹھیک سے ٹائپ کر کے لاؤ"
    ماتحت پھر بھی اپنی جگہ سے نہ ہلا اور لجاجت بھرے لہجے میں بولا" میں سمجھا نہیں کہ کیا غلطی ہوئی ہے؟"
    بڑے صاحب نے داہناں ہاتھ ایسے آگے بڑھایا جیسے اس کی سات پشتوں پر احسان کر رہے ہوں۔۔ نشان زدہ الفاظ کے آگے بڑا بڑا لکھا
    ایل ٹی ﮈی
    اور ایک نوٹ بھی
    بی کئیر فل نیکسٹ ٹائم۔
    اور فائل میز پر پھینک دی۔ ماتحت نے فائل اٹھائی ایل ٹی ﮈی کے الفاظ تین مرتبہ زیر لب پڑھے استفہامیہ انداز میں گردن ہلائی اور واپسی کیلئے مڑا۔
    بڑے صاحب نے پوچھا ۔۔ میرا بل جمع ہو گیا تھا کہ نہیں؟
    ماتحت تمام مٹھاس لہجے میں جمع کر کے بولا جی جی جناب صبح ہی کروا دیا تھا"
    ٹھیک ہے جاؤ اور صاحب نے چونگا اٹھا کر نمبر ملانا شروع کر دیا۔

    از راقم الحروف۔
     
    Last edited: ‏جون 21, 2016
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں