فضائل مدینہ منورہ" ُ خطبہ جمعہ مسجد نبوی 13 صفر 1436

بابر تنویر نے 'خطبات الحرمین' میں ‏دسمبر 5, 2014 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. بابر تنویر

    بابر تنویر -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏دسمبر 20, 2010
    پیغامات:
    7,320
    بسم الله الرحمن الرحيم

    فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر جسٹس عبد المحسن بن محمد القاسم حفظہ اللہ نے13-صفر-1436 کا خطبہ جمعہ " فضائل مدینہ منورہ" کے عنوان پر ارشاد فرمایا، جس میں انہوں نے مدینہ منورہ کے فضائل مختلف پہلوؤں کو مد نظر رکھتے ہوئے احادیث کی روشنی میں بیان کیے، اور آخر میں زائرین و اہلیان مدینہ کو نصیحتیں فرمائیں۔پہلا خطبہ:

    یقینا تمام تعریفیں اللہ کیلئے ہیں، ہم اسکی تعریف بیان کرتے ہیں، اسی سے مدد کے طلبگار ہیں اور اپنے گناہوں کی بخشش بھی مانگتے ہیں، اور نفسانی و بُرے اعمال کے شرسے اُسی کی پناہ چاہتے ہیں، جسے اللہ ہدایت عنائت کردے اسے کوئی بھی گمراہ نہیں کر سکتا، اور جسے وہ گمراہ کر دے اسکا کوئی بھی رہنما نہیں بن سکتا، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی بھی معبودِ برحق نہیں ، وہ یکتا ہے اسکا کوئی بھی شریک نہیں، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ کےبندے اور اسکے رسول ہیں، اللہ تعالی آپ پر ، آپکی آل ، اور صحابہ کرام پر ڈھیروں رحمتیں، اور سلامتی فرمائے۔حمد و صلاۃ کے بعد: اللہ کے بندو!تقوی الہی اختیار کرو، جیسے تقوی اختیار کرنے کا حق ہے،خلوت و جلوت میں اسی کو اپنا نگہبان سمجھو۔مسلمانو!اللہ تعالی کی ربوبیت، وحدانیت، کمال علم و حکمت، اور قدرت کی دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالی نے رسولوں، فرشتوں، اور مؤمنوں کو برگزیدہ بنایا، اللہ کا کوئی شریک نہیں، وہ اپنے انداز سے پیدا کرتا ہے، اور جسے چاہتا ہے پسند فرماتا ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے:


    {وَرَبُّكَ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ وَيَخْتَارُ مَا كَانَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ سُبْحَانَ اللَّهِ وَتَعَالَى عَمَّا يُشْرِكُونَ}

    آپ کا رب پیدا کرتا ہے جو چاہتا ہے اور منتخب کرتا ہے جسے چاہتا ہے ، اس [انتخاب ]کا لوگوں کو کوئی اختیار نہیں ہے ، اور اللہ انکے شریکوں سے پاک اور بہت بلند و بالا تر ہے [القصص : 68]

    اللہ سبحانہ و تعالی نے کچھ دنوں اور مہینوں کو دیگر اوقات پر فضیلت دی ہے، کچھ جگہوں کو چنیدہ بنا کر شرف بخشا اور بابرکت قرار دیا، چنانچہ مکہ کو چن کر وہاں بیت اللہ بنایا، اور ارض مقدس میں مسجد اقصی بنائی۔اور اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے شہر کو شرف بخشتے ہوئے بابرکت ٹھہرایا، اسی وجہ سے اس شہر کو امتیازات سے نوازا، اس شہر کے بہت سے نام ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شہر کو "مدینہ" ، "طیبہ" اور "طابہ" سے موسوم فرمایا، اللہ تعالی نے اسے : "دار" اور "ایمان" سے تعبیر فرمایا۔اسی شہر کی طرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت فرمائی، اسی شہر سے مکہ سمیت تمام علاقے فتح ہوئے،اور پوری دنیا میں سنت نبوی کا بول بالا ہوگیا۔ابتدائے اسلام میں یہی شہر اسلام کی نشو و نما کا گہوارہ تھا، جس طرح ایمان یہاں سے پھیلا تو واپس بھی یہی آئے گا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (ایمان مدینہ کی طرف ایسے ہی واپس آئے گا، جیسے سانپ اپنے بل کی طرف آتا ہے) متفق علیہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شہر کا وصف بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ شہر دیگر علاقوں پر غالب آئے گا، آپ کا فرمان ہے: (مجھے ایسی بستی [کی طرف ہجرت]کا حکم دیا گیا ہے جو دوسری بستیوں پر غالب آتی ہے، اسے یثرب کہتے ہیں، اور وہی مدینہ ہے) متفق علیہ یہ شہر گناہوں کو مٹا دیتا ہے، آپ علیہ الصلاۃ و السلام کا فرمان ہے: (یہ شہر "طیبہ" ہے، یہ گناہوں کو ایسے ہی دھو ڈالتا ہے جیسے آگ چاندی میں سے کھوٹ بھسم کر دیتی ہے) بخاری یہ شہر اپنے اندر سے خبیث لوگوں کو نکال دیتا ہے، آپ علیہ الصلاۃ و السلام کا فرمان ہے: (یہ خبیث لوگوں کو ایسے نکال باہر کرتا ہے جیسے بھٹی لوہے کے زنگ کو اتار دیتی ہے) متفق علیہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نےاس شہر کی خباثت صاف کرنے کی طاقت کو بھٹی سے تشبیہ دیتے ہوئے فرمایا: (مدینہ خباثت صاف کرنے والی بھٹی کی طرح ہے)متفق علیہ یہ پر امن شہر ہے، جہاں اسلامی شعائر کی پابندی کی جاتی ہے، اسی جگہ سے دین پھیلا، نبی علیہ الصلاۃ و السلام کا فرمان ہے: (یہ شہر قابل احترام اور پر امن ہے) مسلم جس کسی نے بھی مدینۃ الرسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں برے منصوبے بنائے، اللہ تعالی اسے تباہ و برباد کر دیگا، آپ علیہ الصلاۃ و السلام کا فرمان ہے: (جو شخص اس شہر کے بارے میں برائی کا ارادہ رکھے تو اللہ تعالی اسے ایسے پگھلا دے گا جیسے پانی میں نمک پگھلتا ہے) احمداور جو شخص مدینہ والوں کے خلاف منصوبہ بندی کرے، اللہ تعالی اسے مہلت نہیں دے گا بلکہ ہلاک کردیگا، آپ علیہ الصلاۃ و السلام کا فرمان ہے: (اہل مدینہ کے ساتھ جو کوئی بھی چالبازی کریگا، وہ ایسے مضمحل ہو جائے گا جیسے پانی میں نمک پگھلتا ہے) بخاری اور اہل مدینہ کو نقصان پہنچانے کا ارادہ رکھنے والے کو اللہ تعالی نے جہنم کے سخت عذاب کی وعید دی ہے، آپ علیہ الصلاۃ و السلام کا فرمان ہے: (جو کوئی بھی اہل مدینہ کو نقصان پہنچانے کا اردہ رکھے گا اللہ تعالی اسے ایسے پگھلا دے گا جیسے آگ میں سیسہ یا پانی میں نمک پگھلتا ہے) مسلماور جو کوئی شخص مدینہ میں رہنے والوں کو ہراساں کرے، اللہ تعالی اسے ہراساں کریگا، اور اس پر اللہ کی لعنت ہوگی، آپ علیہ الصلاۃ و السلام کا فرمان ہے: (جو شخص اہل مدینہ پر ظلم کرتے ہوئے انہیں ہراساں کرے، اللہ تعالی اسے ہراساں کریگا، اور اس پر اللہ کی لعنت سمیت فرشتوں، اور تمام لوگوں کی لعنت بھی ہوگی، اور اسکی کوئی نفل یا فرض عبادت بھی قبول نہیں ہوگی) نسائیاسی شہر کی عظمت کے باعث اللہ تعالی نے مسجد نبوی کے اردگرد کے علاقے کو مکہ کی طرح حرم یعنی احترام والا علاقہ قرار دیا، آپ علیہ الصلاۃ و السلام کا فرمان ہے: (بلاشبہ ابراہیم علیہ السلام نے مکہ کو حرم [قابل احترام] قرار دیا، اور میں نے مدینہ منورہ کو حرم [قابل احترام ]قرار دیا) مسلم

    چنانچہ اس شہر میں قصاص اور حد قائم کرنے کے علاوہ لڑائی کیلئے اسلحہ نہیں اٹھایا جاسکتا، اور خون نہیں بہایا جا سکتا، مدینہ میں شکار تک نہیں کیا جاسکتا، درختوں کو نہیں کاٹا جاسکتا، اور جس نے کوئی بدعت ایجاد کی یا کسی مجرم کو پناہ دی تو اس پر اللہ کی لعنت ہوگی، آپ علیہ الصلاۃ و السلام کا فرمان ہے: (جس نے مدینہ میں بدعت ایجاد کی، یا کسی بدعتی کو پناہ دی، تو اس پر اللہ تعالی کی ، فرشتوں، اور سب لوگوں کی لعنت ہوگی، پھر قیامت کےدن اسکی کوئی نفل یا فرض عبادت بھی قبول نہیں ہوگی) متفق علیہ اس شہر کی سکیورٹی کمال کی سکیورٹی ہے، چنانچہ اس شہر کے تمام راستے فرشتوں کے ذریعے محفوظ بنائے گئے ہیں، آپ علیہ الصلاۃ و السلام کا فرمان ہے: (اس شہر کے ہر راستے پر پہرے کیلئے فرشتے مقرر ہیں) متفق علیہ، اسکی گلیاں بھی فرشتوں کے ذریعے محفوظ ہیں، آپ علیہ الصلاۃ و السلام کا فرمان ہے : (اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، مدینہ کی تمام گھاٹیوں اور راستوں پر دو، دو فرشتے حفاظت کیلئے مامور ہیں) مسلم؛ بلکہ اس شہر کی حفاظت ہر جانب سے فرشتے کر رہے ہیں، آپ علیہ الصلاۃ و السلام کا فرمان ہے: (مدینہ کی طرف جب دجال آئے گا تو فرشتے اس شہر کی حفاظت کرتے ہونگے)بخاری، اور نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں: "اس حدیث میں پہرے داروں کی کثیر تعداد، اور ہر گھاٹی پر انکی موجودگی کا ذکر ہے"یہ شہر دجال سے بھی محفوظ ہے، آپ علیہ الصلاۃ و السلام کا فرمان ہے: (دجال مدینہ کی طرف آئے گا، لیکن مدینہ شہر کے کسی راستے میں داخل ہونا اس کیلئے ناممکن ہے)بخاری

    لوگ جب دجال کے بارے میں سنیں گے تو خوف و ہراس کے عالم میں پہاڑوں کی جانب بھاگیں گے، لیکن مدینہ پر دجال کا خوف طاری نہیں ہوگا، آپ علیہ الصلاۃ و السلام کا فرمان ہے: (دجال کا خوف مدینہ میں داخل نہیں ہوگا) بخاریاللہ تعالی نے اس شہر کو مہلک بیماری سے محفوظ فرمایا ، آپ علیہ الصلاۃ و السلام کا فرمان ہے: (مدینہ کے راستوں پر فرشتے ہیں، چنانچہ طاعون اور دجال اس میں داخل نہیں ہو سکتا) متفق علیہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی کہ یہاں کوئی وبائی مرض نہ پھیلے، اور فرمایا: (یا اللہ! اس شہر کو صحت افزا بنا)احمدابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں: "چنانچہ یہ شہر اللہ کی زمین پر صحت افزا ترین شہر بن گیا، لیکن پہلے اس کے برعکس تھا"اس شہر میں رہائش اختیار کرنا دیگر علاقوں میں رہائش اختیار کرنے سے افضل ہے، چاہے دیگر علاقوں میں زندگی کتنی بھی پرسکون ہو، آپ علیہ الصلاۃ و السلام کا فرمان ہے: (لوگوں پر ایک دن آئے گا کہ ایک شخص اپنے چچا زاد اور رشتہ دار کو [مدینہ سے باہر جانے کیلئے]بلائے گا: "خوشحال زندگی کی طرف آجاؤ، خوشحال زندگی کی طرف آجاؤ" اگر انہیں اندازہ ہو تو مدینہ ان کیلئے بہتر ہو گا) مسلماس شہر میں ایمان و عملِ صالح کے ساتھ رہنے والے کو شہرت ملتی ہے، آپ علیہ الصلاۃ و السلام کا فرمان ہے: (۔۔۔اس شہر کے اچھے لوگوں کو شہرت ملتی ہے)بخاری، اور اسی طرح یہاں کیے ہوئے اعمال صالحہ کا چرچا پوری دنیا میں ہوتا ہے۔کوئی مسلمان اس شہر کی سختیوں پر صبر کرے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت یا گواہی پائے گا۔اور جو شخص اس شہر میں ایمان کی حالت پر فوت ہوا، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم قیامت کے دن اسکی شفاعت فرمائیں گے، آپ علیہ الصلاۃ و السلام کا فرمان ہے: (جو شخص مدینہ میں ساری زندگی گزار سکتا ہے تو وہ زندگی یہیں گزارے، [اور یہاں فوت ہونے کی صورت میں] میں اسکی شفاعت کرونگا، یا اس کے حق میں گواہی دونگا) نسائی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کے باعث یہ شہر بابرکت بن گیا، بلکہ یہاں پر مکہ کے مقابلے میں دُگنی برکت ہے؛ مزید برآں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا فرمائی کہ یہاں ہر چیز میں دُگنی برکت ہو۔اس شہر کا کھانا پینا بھی بابرکت ہے، آپ علیہ الصلاۃ و السلام کا فرمان ہے: (یا اللہ!ہما رے [پیمانوں] صاع اور مُد میں برکت عطا فرما)مسلم نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:"ظاہر یہی ہے کہ انہی پیمانوں میں برکت ہے، یعنی کسی اور جگہ ایک مد کسی کو کافی نہ ہو، لیکن یہاں پر اُسے ایک مد بھی کافی ہوگا، اور یہ بات مدینہ میں رہائش پذیر لوگ بھی محسوس کرتے ہیں"اس شہر کے پھل بھی برکت والے ہیں، آپ علیہ الصلاۃ و السلام کی دعا ہے: (یا اللہ! ہمارے پھلوں میں بھی برکت عطا فرما) مسلم مدینہ کے "عالیہ" علاقے کی عجوہ کھجور باعث شفا ہے، جبکہ"عالیہ" کے علاوہ دیگر مدنی علاقوں کی عجوہ زہر و سحر سے بچاتی ہیں، اور اس کے علاوہ مدینے کی دیگر کھجوریں اللہ کے حکم سے زہر سے بچاتی ہیں۔اسی شہر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد ہے، جسکی بنیاد تقوی پر ہے، اور یہ مسجد ان تین مساجد میں سے ایک ہے جنہیں انبیائے کرام نے تعمیر کیا، اور انکی طرف رخت سفر باندھا جاتا ہے، یہ آخری مسجد ہے جس کی تعمیر کسی نبی کے ہاتھ سے ہوئی، اس میں ایک نماز ہزار نماز سے بھی بہتر ہے، نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں: "نمازوں کی فضیلت میں فرض اور نفل سب نمازیں شامل ہیں" تاہم گھر میں نفل اد اکرنا افضل ہے۔اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا منبر آپ کے حوض کے اوپر ہے، جو شخص آپکے منبر کے قریب جھوٹی قسم اٹھائے گا تووہ جہنم کے ٹھکانے ، اور ساتھ میں اللہ تعالی ، فرشتوں ، اور تمام لوگوں کی لعنت کا مستحق بھی ہوگا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر سے لیکر آپ کے منبر کی درمیانی زمین جنت کا حصہ ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (میرے گھر اور منبر کے درمیان کا حصہ جنت کی کیاریوں میں سے ایک کیاری ہے)متفق علیہ، ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں: "اسکا مطلب یہ ہے کہ : یہ جنت کا حصہ یوں ہے کہ یہاں پر ذکر کی مجالس کی وجہ سے رحمت اور سعادت مندی حاصل ہوتی ہے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دورمیں یہ چیز خصوصی طور پر پائی جاتی تھی"تاہم پہلی صفوں میں نماز ادا کرنا ریاض الجنہ میں نماز ادا کرنے سے افضل ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (مردوں کی پہلی صفیں افضل ہوتی ہیں) بخاری مسجد قبا کی زیارت کیلئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہر ہفتے کے دن پیدل یا سواری پر جا یا کرتے تھے، اور جو شخص اپنے گھر سے وضو کر کے جائے، اورپھر مسجد قبا میں نماز ادا کرے، تو اسے عمرے کے برابر اجر ملتا ہے، ابن ماجہ اسی شہر میں احد پہاڑ ہے، جو مسلمانوں سے محبت کرتا ہے، اور مسلمان اس سے محبت کرتے ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بارے میں فرمایا: (یہ پہاڑ ہم سے محبت کرتا ہے، اور ہم اس سے محبت کرتے ہیں)متفق علیہنووی رحمہ اللہ کہتے ہیں: "اس کا مطلب ہے کہ: یہ پہاڑ بنفس نفیس ہم سے محبت کرتا ہے، اللہ تعالی نے اسے یہ امتیاز بخشا ہے، چنانچہ اس پہاڑ سے دلی محبت کی جائے گی، لیکن اس کے بارے میں برکت کا نظریہ نہیں اپنایا جائے گا۔"اس شہر کی وادی عقیق بابرکت وادی ہے، آپ علیہ الصلاۃ و السلام کا فرمان ہے: (میرے پاس آج رات کو جبریل آئے اور مجھے کہا: اس مبارک وادی میں نماز پڑھو، اور کہو: عمرے اور حج اکٹھے دونوں کا [میں احرام باندھتا ہوں])بخاری، اس وادی کے بابرکت ہونے کے باوجود اس سے حاجت روائی یا مشکل کشائی کا مطالبہ نہیں کیا جاسکتا۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مدینہ بہت ہی پیارا تھا، آپ نے اللہ تعالی سے دعا بھی فرمائی کہ : مدینہ سے محبت ایسے ہی ہو جیسے مکہ کے ساتھ تھی، یا اس سے بھی زیادہ ہو، اس لئے آپ فرمایا کرتے تھے: (یا اللہ! ہمارے لئے مدینہ ؛ مکہ کی طرح محبوب بنا دے، یا اس سے بھی زیادہ محبوب بنا دے) بخارینبی صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی سفر سے واپس آتے ہوئے مدینہ کی آبادی دیکھتے تو مدینہ کی محبت میں تیز چلنے لگتے ۔ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں: "ہر مؤمن کے اندر مدینہ کی طرف کھینچ کر لانے والا جذبہ موجود ہے، جو اسکی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کیساتھ محبت کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے"


    أعوذ بالله من الشيطان الرجيم: { كُلُوا مِنْ رِزْقِ رَبِّكُمْ وَاشْكُرُوا لَهُ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ}

    اپنے رب کا رزق کھاؤ، اور اسی کا شکر ادا کرو، [تمہارا] شہر پاکیزہ، اور [تمہارا] رب بخشنے والا ہے۔[سبأ : 15]اللہ تعالی میرے اور آپ سب کیلئے قرآن مجید کو خیر و برکت والا بنائے، مجھے اور آپ سب کو اِس ذکرِ حکیم سے مستفید ہونیکی توفیق دے، میں اپنی بات کو اسی پر ختم کرتے ہوئے اللہ سے اپنے اور تمام مسلمانوں کے گناہوں کی بخشش چاہتا ہوں۔

    دوسرا خطبہ
    تمام تعریفیں اللہ کیلئے ہیں کہ اُس نے ہم پر احسان کیا ، اسی کے شکر گزار بھی ہیں جس نے ہمیں نیکی کی توفیق دی، میں اسکی عظمت اور شان کا اقرار کرتے ہوئے گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبودِ برحق نہیں وہ یکتا اور اکیلا ہے ، اور یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ کے بندے اور اسکے رسول ہیں ، اللہ تعالی اُن پر ، آل و صحابہ کرام پر ڈھیروں رحمتیں و سلامتی نازل فرمائے۔مسلمانو!مدینہ منورہ کی زیارت اللہ کا عظیم احسان ہے، کتنے ہی ایسے مسلمان ہیں جن کیلئے اسکی زیارت مشکل ہے، یا اسے دیکھنے کی اپنی خواہش پوری ہونے سے پہلے ہی فوت ہوگئے، لہذا اگر کسی شخص کو اللہ تعالی نے مدینہ کی زیارت نصیب فرمائی ہے تو وہ یاد رکھے کہ : یہ شہر اللہ کی محبوب ترین مخلوق ہے، یہاں نمازوں، نوافل، تلاوت قرآن اور ذکر وغیرہ پر مشتمل نیک اعمال کا ثواب زیادہ ہے،حالات کیسے بھی ہوں مدینہ سے محبت خیر البریہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کیلئے ترغیب کا باعث بنے، مدینہ میں رہتے ہوئے یا ادھر سے جانے کے بعد بدعت و معصیت میں پڑنے سے بچے، اور یہاں کے لوگوں کے ساتھ حسن خلق، اور انتہائی ادب سے پیش آئے۔جسے اللہ تعالی نے مدینہ میں رہنے کی سعادت بخشی ؛ اسے چاہیے کہ وہ مدینہ کے زائرین کیلئے اچھا نمونہ پیش کرے، اور سنت نبوی کی روشنی میں زائرین کے ساتھ تعاون کیلئے ہاتھ بڑھا کر اپنی خوبیاں عیاں کرے، ان کے ساتھ قول و فعل میں سخاوت و حسنِ خلق کیساتھ پیش آئے۔یہ بات جان لو کہ ، اللہ تعالی نے تمہیں اپنے نبی پر درود و سلام پڑھنے کا حکم دیا اور فرمایا:]


    إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا[

    اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم بھی ان پر درود و سلام بھیجا کرو۔ [الأحزاب: 56]اللهم صل وسلم وبارك على نبينا محمد،

    یا اللہ! حق اور انصاف کے ساتھ فیصلے کرنے والے خلفائے راشدین یعنی ابو بکر ، عمر، عثمان، علی اور بقیہ تمام صحابہ سے راضی ہو جا؛ یا اللہ !اپنے رحم و کرم کے صدقے ہم سے بھی راضی ہو جا، یا اکرم الاکرمین!یا اللہ !اسلام اور مسلمانوں کو عزت عطا فرما،شرک اور مشرکوں کو ذلیل فرما، یا اللہ !دین کے دشمنوں کو نیست و نابود فرما، یااللہ !اس ملک کو اور مسلمانوں کے تمام ممالک کو امن کا گہوارہ بنا دے۔یا اللہ! ہمیں دنیا اور آخرت میں بھلائی عطا فرما، اور ہمیں آخرت کے عذاب سے محفوظ فرما۔یا اللہ! پوری دنیا میں مسلمانوں کے حالات درست فرما دے،

    یا اللہ! انکی ہر قسم کی پریشانی ختم فرما، ہر تنگی سے نکلنے کا راستہ بنا دے، اور انکی زندگی کو ایمان و تقوی سے بھرپور و خوشحال بنا دے۔
    یا اللہ! تو ہی ہمارا معبود ہے! تو ہی غنی ہے ، ہم لاچار ہیں، ہم پر بارش نازل فرما، ہمیں مایوس نہ فرما، یا اللہ! ہمیں بارش عطا فرما، یا اللہ! ہمیں بارش عطا فرما، یا اللہ! ہمیں بارش عطا فرما۔یا رب! ہم نے اپنی جانوں پر بہت ظلم ڈھائے، تو ہمیں بخشش و رحمت سے نہ نوازے تو ہمارا بیڑہ غرق ہوجائے گا۔
    یا اللہ! مسلمانوں کو اچھے حکمران نصیب فرما، یا اللہ!ہمارے حکمران کو اپنی چاہت کے مطابق توفیق دے، اس کے تمام کام اپنی رضا کیلئے بنا لے،
    یا اللہ !تمام مسلم حکمرانوں کو تیری کتاب پر عمل اور شریعتِ اسلامیہ کو نافذ کرنے کی توفیق عطا فرما۔
    اللہ کے بندو!
    إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ

    اللہ تعالیٰ تمہیں عدل، احسان اور قرابت داروں کو (امداد) دینے کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی، برے کام اور سرکشی سے منع کرتا ہے۔ وہ تمہیں اس لئے نصیحت کرتا ہے کہ تم اسے (قبول کرو) اور یاد رکھو۔ [النحل: 90]تم اللہ کو یاد رکھو جو صاحبِ عظمت و جلالت ہے وہ تمہیں یاد رکھے گا۔ اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرو تو وہ اور زیادہ دے گا ،یقینا اللہ کا ذکر بہت بڑی عبادت ہے ، تم جو بھی کرتے ہو اللہ تعالی جانتا ہے ۔
    مترجم شیخ ابن مبارک
    رکن مجلس علماء اردو مجلس
    زیر تعلیم جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
  2. اعجاز علی شاہ

    اعجاز علی شاہ -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏اگست 10, 2007
    پیغامات:
    10,322
    جزاک اللہ خیرا وبارک اللہ فیک
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں