آرمی پبلک سکول پشاور اور آئندہ لائحہ عمل

انا نے 'اركان مجلس كے مضامين' میں ‏دسمبر 18, 2014 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. انا

    انا -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏اگست 4, 2014
    پیغامات:
    1,400
    ہم پر جنگ مسلط کر دی گئی ہے۔ پاکستان کا ہر بڑا شہر دہشتگری کا شکار ہو چکا ہے۔ اور اس سانحہ نے تو جیسے سوچنے سمجھنے کی سب صلاحیتیں مفلوج کر دی ہیں۔ غم، غصہ ، افسوس ، بدلہ لگتا ہے ان کے علاوہ اور کسی جذبہ کی تو جیسے گنجائش نہیں رہی۔ اگر اب بھی خاموش رہے تو یہ مجرمانہ خاموشی کہلائے گی۔اور اگر اب بھی ہوش میں نہ آئے تو یہ مجرمانہ غفلت ہو گی۔ ہم اپنے کرنے کے کاموں سے نظریں چرا کر ساری ذمہ داری ملک کے حکمرانوں اور فوج پر نھیں ڈال سکتے۔ہر شخص کے لیے بات کر دینا بہت آسان ہوتا ہے۔خاص طور پر اپنے علاوہ دوسروں کو اس بات کا احساس دلاتے رہنا کہ ایسا نہیں ایسا کرنا چاہئے تھا۔آج کل کا پسندیدہ مشغلہ بن چکا ہے۔لیکن اب اس احساس کی ضرورت آن پڑی ہے کہ ملک کے ہر شعبے کو اس جنگ میں اپنا کردار نبھانا ہے اور اس کے لیے حکمت عملی تیار کرنی ہے۔ قوم کے ہر فرد کو اپنا حصہ ڈالنا ہے۔اپنی ،اہل خانہ کی،اس ملک کی ، ملک میں بسنے والے لوگوں کی حفاظت کرنی ہے۔آپ سرحدوں میں جا کر دشمن پر وار نہیں کر سکتے ،کیونکہ آپ اس ملک کے پر امن شہری ہیں۔ لیکن اپنے دفتر میں بیٹھ کر اس بات کا انتظار کرنا کہ کب کوئی دہشتگر آ کر آپ کی نظروں کے سامنے سب کچھ تہ تیغ کر دے کیا اب بھی آپ اس بات سے چشم پوشی کر سکتے ہیں؟ اگر نہیں تو اپنے اپنے اداروں کو مضبوط کرنے کے لئے جت جائیں ۔ ایک منصوبہ کے تحت کام کرنا شروع کریں اور مقررہ وقت کے اندر ان پر عمل درآمد کروائیں۔بخاری کی ایک حدیث جس کا مفہوم ہے ابن آدم کے لیے سونے کے پہاڑ بھی ناکافی ہیں۔ تو ہمیں بھی اس بات کا رونا نہیں رونا چاہیے کہ وسائل کم ہیں۔بلکہ جتنے موجود ہیں ان کو بروے کار لا کر اور اپنے اخراجات میں کمی کر کے اداروں کی اور ملکی ترقی کے لیے کام کرنا ہے۔

    آپ کا کردار :

    1) قوموں کی ترقی میں انفرادی کردار اتنا ہی ہوتا ہے کہ صرف اپنا قبلہ درست کر لیں۔ اپنی ذمہ داری ایمان داری سے پوری کریں۔ اپنے اندر اور ارد گرد کے ماحول میں جھانکیں جو سو رہے ہیں ان کو جگائیں۔ ہر مدد کی پکار پر لبیک کہیں۔ اب چاہے یہ پکار خون کا عطیہ دینے کی ہو، رضا کارانہ کام کی ،گھر یا محلہ کی صفائی کی ،یا ساس سسر کی خدمت کی بے لوث اور بے غرض ہو کر اپنے اندر کی نفرتوں اور برائیوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں یہ سوچ کر کہ دشمن آپ کی تاک میں ہے۔موت کے بعد نہ آپ رہیں گے نہ آپ کے اندر کی برائی تو زندگی میں ہی یہ کام کر کے ملک و قوم کا بھلا کریں۔

    سکول اور کالجز کی انتظامیہ کے لیے :

    1) سکول اور کالجز میں فوجی تربیت کو لازمی قرار دے دینا چاہیے۔ لڑکیوں کے لیے اپنے دفاع |self defence کی تربیت لازمی ہونی چاہیے۔ یہ کوئی بہت انوکھی بات نہیں ۔ آج بھی دنیا کے مختلف ممالک میں پڑھائی کے ساتھ یہ تربیت لینا لازمی ہے۔ مدرسوں اور مسجدوں کو رجسٹر کروایا جائے۔ اور ان میں بھی اس تربیت کو شامل کیا جائے۔

    2) تاریخ بلکہ اسلامی تاریخ کا ایک مضمون نصاب میں شامل کیا جائے۔ کہ بچوں کو شروع سے اس بات کا شعور حاصل ہو کہ اصل کامیابی دولت اور آسائش زندگی میں نہیں بلکہ محنت اور ظلم کے خلاف جدوجہد میں ہے۔ اور یہ سیکھ سکیں کہ جو قومیں عیش و عشرت میں پڑ جاتی ہیں ، عدل ہو انصاف سے کام نہیں لیتیں کامیابی ان سے چھین لی جاتی ہے۔ اور ذلت ان کا مقدر ہوتی ہے۔

    3) پورے ملک میں ایک ہی تعلیمی نظام نافذ کیا جائے ۔ تا کہ انٹر کا امتحان میں اچھی کامیابی لینے کے بعد بھی طلبہ اے لیول کے طالب علم کے سامنے اپنے آپ کو کمتر نا سمجھیں۔

    شہروں کی تعمیر و ترقی

    1) ہر شہر کی ہاؤسنگ اتھارٹی کو شہر کا نقشہ اور گھروں کے صحیح پتے دوبارہ سے ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔اس طریقے سے کہ GPS اور ٹیکنالجی کی مدد سے کسی بھی جگہ کو کھوجا جا سکے۔ کچی بستیاں جو جرائم پیشہ لوگوں کی بہترین پناہگاہیں ہیں۔ ان کو نئے سرے سے تعمیر کیا جائے۔

    2) بڑی بڑی عمارتوں اور شاپنگ مالز کی کی تعمیرات کو روک کر پیسہ تعلیم ، ہسپتالوں اور دفاعی سرگرمیوں کے لیے مخصوص کر دینا چاہیے۔ جب گھر میں آگ لگ جائے تو تزئین و آرائش کی فکر کی بجائے آگ بجھانے کی فکر کرنی چاہئے۔

    (جاری ہے)
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 6
  2. dani

    dani نوآموز.

    شمولیت:
    ‏اکتوبر، 16, 2009
    پیغامات:
    4,329
    بالکل سول ڈیفنس اور این سی سی کی ٹریننگ ضروری ہے۔
     
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں