پاکستان، سعودی حکومت کو تنہا نہ چھوڑے!

اعجاز علی شاہ نے 'مضامين ، كالم ، تجزئیے' میں ‏اپریل 15, 2015 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. اعجاز علی شاہ

    اعجاز علی شاہ -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏اگست 10, 2007
    پیغامات:
    10,322
    پاکستان، سعودی حکومت کو تنہا نہ چھوڑے!
    عطاء الحق قاسمی

    مجھے ممتاز تجزیہ نگار اور دانشور نجم سیٹھی کی اس رائے سے اتفاق کے بنا کوئی چارہ نہیں کہ پاکستان کو آئندہ 72 گھنٹوں میں سعودی عرب کو مطلوبہ امداد دے دینا چاہئے۔ مجھے اس رائے سے اتفاق انہی دلائل کے حوالے سے ہے جو نجم سیٹھی نے اپنے تجزیئے میں دئیے ہیں۔ ایک تو سر فہرست سعودی حکومت سے پاکستان کے نہایت مضبوط مراسم ہیں، کہا جاتا ہے کہ ملکوں کے درمیان جو دوستی ہوتی ہے اس کی بنیاد باہمی مفادات پر ہوتی ہے تو اس اصول کی رو سے پاکستان سعودی عرب کو ہر مشکل وقت میں آزماتا رہا ہے اور سعودی عرب ہر بار اس آزمائش میں پورا اترا ہے۔ اب سعودی عرب ہمیں’’آزما‘‘ رہا ہے اور ہم موشگافیوں میں پڑ گئے ہیں۔
    صورتحال یہ ہے کہ سعودی عرب کو شاید اس کے بعد ہمیں اس طرح کی زحمت کم کم ہی دینا پڑے، مگر ہماری معاشی بدحالی کا کشکول ان کے سامنے سے گزرتے رہنے کا احتمال موجود ہے۔ اس وقت سعودی عرب میں بیس لاکھ کے قریب پاکستانی کام کر رہے ہیں اور گلف کی ریاستوں میں بھی ان کی تعداد لاکھوں میں ہے ،چنانچہ اگر دیکھا جائے تو کروڑوں پاکستانی ان ملکوں کی بدولت اپنے گھر کی دال روٹی چلا رہے ہیں، سو سعودی اور گلف کی ریاستوں کے سامنے آئین، قانون، مصلحتوں، مسائل اور پارلیمنٹ کی قرار دادیں انہیں مطمئن نہیں کر سکیں گی آج ہم سب کہہ رہے ہیں کہ پاکستان کو اس جنگ میں فریق نہیں بننا چاہئے۔
    میں ان سطور کے باوجود یہی سمجھتا ہوں، چنانچہ میری رائے میں پاکستانی ٹروپس سعودی سرحدوں پر لاکر اس طرح کھڑے کر دئیے جائیں جس طرح پاک-بھارت جنگ کے دوران چین نے بھارت کو یرکانے کیلئے اپنی فوجیں بھارتی سرحدوں پر لاکھڑی کی تھیں مگر ایک فائر بھی نہیں کیا تھا، بہرحال میں عرض کررہا تھا کہ آج غیرت و حمیت کا ڈھنڈورا پیٹنے والے خواص ہی نہیں، عوام بھی ان فیصلہ سازوں کی جان کو روئیں گے، جب اسکے ردعمل میں پاکستانی واپس پاکستان بھیجے جانا شروع کئے گئے یا ہنگامی حالات میں ہماری معاشی مدد کو کوئی نہ پہنچا۔ یہ اتنا بڑا بحران ہوگا جو ٹروپس بھیجنے کی صورت میں ممکنہ بحران سے کئی گنا بڑا ہو گا۔
    اس معاملے کا ایک اہم پہلو سعودی اور گلف ریاستوں میں بادشاہت کے قیام کے باوجود ان کا ہمارے جمہوری سیاستدانوں کو اسوقت اپنے ہاں پناہ دینا ہے جب فوجی ڈکٹیٹر ان کی جان لینے کے درپے تھے۔ یہ بھی ایک بہت اہم فیکٹر ہے اور اس سے پہلو تہی کرنے کے نتیجے میں جمہوریت کے پاسبان مشکل وقت میں بالکل بے دست و پا ہو کر رہ جائیں گے اور آمروں کیلئے انہیں حسب ضرورت شکنجے میں کسنے میں کوئی رکاوٹ درپیش نہیں ہو گی تاہم جہاں تک اس فیصلے کے مضمرات کا تعلق ہے وہ اپنی جگہ قابل توجہ ہیں۔ یہ پاکستان کیلئے ایک مشکل ترین فیصلہ ہے مگر اس طرح کے فیصلے بہرحال کرنا پڑتے ہیں۔ میٹھا میٹھا ہپ اور کڑوا کڑوا تھو تو محاورتاً بھی عجیب سا ہی لگتا ہے۔ اس محاورے پر عمل کرنے کے نتیجے میں انسان میٹھے میٹھے سے محروم رہ جاتا ہے اور’’کہانی‘‘ کے آخر میں اس کے حصے میں صرف’’تھو‘‘ ہی آتی ہے، یہاں متحدہ عرب امارات کے ایک وزیر کے بیان کا تذکرہ ضروری ہے جو ایک کھلی دھمکی کے ذیل میں آتا ہے۔ وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خاں نے اس کے جواب میں جو کہا وہ قومی غیرت کے عین مطابق تھا مگر قومی مفاد میں بہرحال نہیں تھا۔ یہ سب باتیں اس وقت اچھی لگتی ہیں جب اپنے’’گوڈے گٹوں‘‘ میں جان ہو، ورنہ ایسی باتوں کا شمار محض گیڈر بھبھکیوں ہی کے ذیل میں آتا ہے۔
    متحدہ عرب امارات کے وزیر کے مقابلے میں سعودی حکومت کے وزیر مذہبی امور ڈاکٹر عبدالعزیز بن عبداللہ الغمار نے اپنا نقطہ نظر نہایت غیر جذباتی انداز میں واضح کیا۔ وہ سلیم صافی کو انٹرویو دیتے ہوئے ایک بہت منجھے ہوئے اور بہت تجربہ کار ڈپلومیٹ لگ رہے تھے۔ انہوں نے ایران کے حوالے سے بھی جو بات کی وہ بھی محتاط انداز میں تھی بہرحال ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی قوم سعودی حکومت کا ساتھ دینے کے حق میں ہے اور یوں انہیں یقین ہے کہ پاکستان ہر حال میں سعودی عرب کے ساتھ کھڑا ہوگا۔ ان کی یہ وضاحت بہت اہم تھی کہ یمن کی صورتحال مذہبی نہیں سیاسی نوعیت کی ہے۔ یمن میں باغیوں نے قانونی حکومت کے خلاف مسلح بغاوت شروع کر رکھی ہے۔
    اس کا سبب ایک بیرونی ملک کی مداخلت کے سوا اور کچھ نہیں، اگر یہ مذہبی تنازع ہوتا تو یہ ایک ہزار سال پہلے شروع ہوجانا چاہئے تھا کیونکہ یمن میں زیدی اور شافعی ایک دوسرے کیساتھ احترام اور محبت کے رشتوں میں جڑے ہوئے ہیں۔ وہاں زیدی سنیوں کی مساجد میں نماز ادا کرتے ہیں۔ ان میں باہم شادیاں ہوتی ہیں، یہ فساد حوثی گروہ کا پھیلایا ہوا ہے جو یمن میں ایک فیصد سے زیادہ نہیں ،چنانچہ ایک فیصد آبادی کو ننانوے فیصد پر بزور طاقت مسلط ہونے کی اجازت نہیں دی جا سکتی ۔ انکا کہنا تھا کہ مسئلے کا حل یہ ہے کہ باغی ہتھیار پھینکیں، حکومت بحال ہو، انتخابات منعقد کئے جائیں اور پھر حوثی انتخابات میں حصہ لیں اگر وہ جیت جائیں تو سعودی عرب سمیت پوری دنیا ان کی حکومت کو بخوبی تسلیم کر لے گی۔
    ڈاکٹر عبدالعزیز نے ایک حیران کن بات یہ کہی کہ زیدی شیعہ، سنیوں کی کتابوں سے استفادہ کرتے ہیں اور ہم بھی انکی کتابوں سے روشنی حاصل کرتے ہیں، جیسا کہ تفسیر فتح قدیر بقول ان کے خود انہوں نے بھی پڑھی ہے چنانچہ ہم ان میں اور خود میں کوئی فرق محسوس نہیں کرتے۔ وہ مسلمان ہیں اور ہمارے بھائی ہیں، خود سعودی عرب میں ہزاروں کی تعداد میں اہل تشیع آباد ہیں اور ہم ان میں اور اسلام کے دوسرے فرقوں کے ماننے والوں میں کوئی فرق روا نہیں رکھتے۔
    اب آخر میں اگر آپ میری رائے پوچھیں تو یمن کی جنگ میں پاکستان کا فریق بننا پاکستان کیلئے مسائل کھڑا کرے گا اور فریق نہ بننے سے ہمیں کہیں زیادہ مسائل کا سامنا کرنا ہو گا۔ سو میرے خیال میں ہمیں کم تر برائی کا انتخاب کرتے ہوئے سعودی عرب کو اپنے ٹروپس علامتی طور پر ضرور اور فوری بھجوا دینا چاہئیں تاہم اس کیلئے وزیر اعظم اور آرمی چیف کا ایک پیج پر ہونا بہت ضروری ہے۔
    ------
    کالم نگار نے متذکرہ مضمون میں جن خیالات کا اظہار کیا ہے، ان سے العربیہ ڈاٹ نیٹ اردو/العربیہ نیوز کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ بشکریہ روزنامہ 'جنگ'
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 3
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں