تفسیر سعدی (سورة القيامة )

عبد الرحمن یحیی نے 'تفسیر قرآن کریم' میں ‏مارچ 15, 2016 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. عبد الرحمن یحیی

    عبد الرحمن یحیی -: رکن مکتبہ اسلامیہ :-

    شمولیت:
    ‏نومبر 25, 2011
    پیغامات:
    2,312
    تفسیر سورة القيامة
    بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
    لَا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيَامَةِ ﴿١﴾ وَلَا أُقْسِمُ بِالنَّفْسِ اللَّوَّامَةِ ﴿٢﴾ أَيَحْسَبُ الْإِنسَانُ أَلَّن نَّجْمَعَ عِظَامَهُ ﴿٣﴾ بَلَىٰ قَادِرِينَ عَلَىٰ أَن نُّسَوِّيَ بَنَانَهُ ﴿٤﴾ بَلْ يُرِيدُ الْإِنسَانُ لِيَفْجُرَ أَمَامَهُ ﴿٥﴾ يَسْأَلُ أَيَّانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ ﴿٦﴾
    میں قسم کھاتا ہوں قیامت کے دن کی (1) اور قسم کھاتا ہوں اس نفس کی جو ملامت کرنے واﻻ ہو (2) کیا انسان یہ خیال کرتا ہے کہ ہم اس کی ہڈیاں جمع کریں گے ہی نہیں (3) ہاں ضرور کریں گے ہم تو قادر ہیں کہ اس کی پور پور تک درست کردیں (4) بلکہ انسان تو چاہتا ہے کہ آگے آگے نافرمانیاں کرتا جائے (5) پوچھتا ہے کہ قیامت کا دن کب آئے گا (6)
    لَا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيَامَةِ '' میں قسم کھاتا ہوں قیامت کے دن کی۔'' (
    لَا ) یہاں نافیہ ہے نہ زائدہ ،اسے صرف استفتاح اور مابعد کے اہتمام کے لیے لایا گیا ہے ،قسم کے ساتھ کثرت سے اس کو لانے کی بنا پر استفتاح کے لیے اس کا استعمال نادر نہیں، اگرچہ اس کو استفتاحِ کلام کے لیے وضع نہیں کیا گیا ۔
    اس مقام پر جس چیز کی قسم کھائی گئی ہے ، وہی ہے جس پر قسم کھائی گئی ہے اور وہ ہے مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کیا جانا ۔ لوگوں کو ان کی قبروں سے زندہ کر کے اٹھایا جائے گا ، پھر (اللہ تعالٰی کے حضور) ان کو کھڑا کیا جائے گا اور وہ اپنے بارے میں اللہ تعالٰی کے فیصلے کا انتظار کریں گے ۔
    وَلَا أُقْسِمُ بِالنَّفْسِ اللَّوَّامَةِ '' اور نفس لوامہ کی قسم !'' اس سے مراد تمام نیک اور بد نفوس ہیں ۔ نفس کو اس کے کثرت تردد ،اسے ملامت کرنے اور اپنے احوال میں سے کسی حال پر بھی اس کے عدم ثبات کی بنا پر (لَّوَّامَةِ ) سے موسوم کیا گیا ہے ، نیز اس بنا پر اس کو (لَّوَّامَةِ ) کہا گیا ہے کہ یہ موت کے وقت انسان کو اس کے افعال پر ملامت کرے گا مگر مومن کا نفس اسے دنیا ہی میں اس کوتاہی ، تقصیر اور غفلت پر ملامت کرتا ہے جو حقوق میں سے کسی حق کے بارے میں اس سے ہوتی ہے ۔
    پس اللہ تعالٰی نے جزا کی قسم،جزا پر قسم اور مستحق جزا کو جمع کر دیا ، پھر اس کے ساتھ ساتھ آگاہ فرمایا کہ بعض معاندین قیامت کے دن کو جھٹلاتے ہیں ۔ چنانچہ فرمایا : أَيَحْسَبُ الْإِنسَانُ أَلَّن نَّجْمَعَ عِظَامَهُ '' کیا انسان یہ خیال کرتا ہے کہ ہم اس کی ہڈیاں اکٹھی نہیں کریں گے؟'' یعنی مرنے کے بعد جیسا کہ دوسرے مقام پر فرمایا : قَالَ مَن يُحْيِي الْعِظَامَ وَهِيَ رَمِيمٌ (يس : 78) '' کہنے لگا : جب ہڈیاں بوسیدہ ہوجائیں گی تو ان کو کون زندگی عطا کرے گا؟'' پس اپنی جہالت اور عدوان کی بنا پر اس نے اللہ تعالٰی کے ہڈیوں کی تخلیق پر ، جو کہ بدن کا سہارا ہیں ، قادر ہونے کو بہت بعید سمجھا ۔ پس اللہ تعالٰی نے اپنے اس ارشاد کے ذریعے سے اس کا رد کیا : بَلَىٰ قَادِرِينَ عَلَىٰ أَن نُّسَوِّيَ بَنَانَهُ '' کیوں نہیں ! ہم اس بات پر قادر ہیں کہ اس کی پور پور درست کریں ۔'' مراد ہے کہ اس کی انگلیوں کی اطراف اور اس کی ہڈیاں اور یہ بدن کے تمام اجزا کی تخلیق کو مستلزم ہے ، کیونکہ جب انگلیوں کے اطراف اور پور وجود میں آگئے تو مکمل جسد کی تخلیق ہوگئی ۔ اس کا اللہ تعالٰی کی قدرت کا انکار کرنا کسی دلیل پر منحصر نہیں جو اس بات پر دلالت کرتی ہو ، یہ بات تو اس سے صرف اس بنا پر صادر ہوئی ہے کہ اس کا ارادہ اور قصد قیامت کے دن کو جھٹلانا ہے جو اس کے سامنے ہے ۔ یہاں ( فجور) کا معنی جان بوجھ کر جھوٹ بولنا ہے ۔ پھر اللہ تبارک و تعالٰی نے قیامت کے احوال کا ذکر کیا ، چنانچہ فرمایا :
    فَإِذَا بَرِقَ الْبَصَرُ ﴿٧﴾ وَخَسَفَ الْقَمَرُ ﴿٨﴾ وَجُمِعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ ﴿٩﴾ يَقُولُ الْإِنسَانُ يَوْمَئِذٍ أَيْنَ الْمَفَرُّ ﴿١٠﴾ كَلَّا لَا وَزَرَ ﴿١١﴾ إِلَىٰ رَبِّكَ يَوْمَئِذٍ الْمُسْتَقَرُّ ﴿١٢﴾ يُنَبَّأُ الْإِنسَانُ يَوْمَئِذٍ بِمَا قَدَّمَ وَأَخَّرَ ﴿١٣﴾ بَلِ الْإِنسَانُ عَلَىٰ نَفْسِهِ بَصِيرَةٌ ﴿١٤﴾ وَلَوْ أَلْقَىٰ مَعَاذِيرَهُ ﴿١٥﴾
    پس جس وقت کہ نگاه پتھرا جائے گی (7) اور چاند بے نور ہو جائے گا (8) اور سورج اور چاند جمع کردیئے جائیں گے (9) اس دن انسان کہے گا کہ آج بھاگنے کی جگہ کہاں ہے؟ (10) نہیں نہیں کوئی پناہ گاه نہیں (11) آج تو تیرے پروردگار کی طرف ہی قرار گاه ہے (12) آج انسان کو اس کے آگے بھیجے ہوئے اور پیچھے چھوڑے ہوئے سے آگاه کیا جائے گا (13) بلکہ انسان خود اپنے اوپر آپ حجت ہے (14) اگر چہ کتنے ہی بہانے پیش کرے (15)
    یعنی جب قیامت برپا ہوگی تو عظیم دہشت کی بنا پر نگاہیں اوپر اٹھی ہوئی ہوں گی اور جھپکیں گی نہیں جیسا کہ اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے : إِنَّمَا يُؤَخِّرُهُمْ لِيَوْمٍ تَشْخَصُ فِيهِ الْأَبْصَارُ ﴿ ﴾مُهْطِعِينَ مُقْنِعِي رُءُوسِهِمْ لَا يَرْتَدُّ إِلَيْهِمْ طَرْفُهُمْ ۖ وَأَفْئِدَتُهُمْ هَوَاءٌ (ابراهيم : 42۔43) ان کو تو صرف اس دن تک مہلت دیتا ہے جس دن (دہشت کے مارے ) آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جائیں گی اور لوگ منہ اٹھائے دوڑ رہے ہوں گے ،ان کی نگاہیں ان کی طرف نہ لوٹ سکیں گی اور (خوف کی وجہ سے) ان کے دل ہو ہو رہے ہوں گے ۔''
    وَخَسَفَ الْقَمَرُ چاند کی روشنی اور اس کی طاقت زائل ہوجائے گی وَجُمِعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ ''اور سورج اور چاند جمع کر دیے جائیں گے ۔'' جب سے اللہ تعالٰی نے ان کو پیدا کیا ہے وہ کبھی اکٹھے نہیں ہوئے اللہ تعالٰی قیامت کے دن ان کو جمع کرے گا ، چاند گہنا جائے گا اور سورج کو بے نور کر دیا جائے گا اور ان دونوں کو آگ میں پھینک دیا جائے گا تاکہ بندے دیکھ لیں کی چاند اور سورج بھی اللہ تعالٰی کے مسخر ہیں تاکہ جو لوگ ان کی عبادت کرتے تھے وہ دیکھ لیں کہ وہ جھوٹے تھے ۔
    يَقُولُ الْإِنسَانُ يَوْمَئِذٍ '' اس دن انسان کہے گا :'' یعنی جب وہ بے قرار کر دینے والے زلزلے دیکھے گا تو پکار اٹھے گا : أَيْنَ الْمَفَرُّ '' آج بھاگنے کی جگہ کہاں ہے؟'' جو مصیبت ہم پر نازل ہوئی ہے ، اس سے گلو خلاصی اور نجات کہاں ہے ؟ كَلَّا لَا وَزَرَ '' ہر گز نہیں (وہاں ) کوئی پناہ گاہ نہیں ۔'' یعنی اللہ تعالٰی کے ٹھکانے کے سوا کسی کے لیے کوئی ٹھکانا نہ ہوگا ۔ إِلَىٰ رَبِّكَ يَوْمَئِذٍ الْمُسْتَقَرُّ اس روز تمام بندوں کا تیرے رب کے پاس ٹھکانا ہو گا ، کسی کے لیے ممکن نہ ہوگا کہ وہ چھپ سکے یا اس جگہ سے بھاگ سکے ، اسے وہاں ضرور ٹھہرایا جائے گا تاکہ اسے اس کے عمل کی جزاوسزا دی جائے ، اس لیے فرمایا : يُنَبَّأُ الْإِنسَانُ يَوْمَئِذٍ بِمَا قَدَّمَ وَأَخَّرَ '' اس دن انسان کو بتا دیا جائے گا جو اس نے آگے بھیجا اور پیچھے چھوڑا'' انسان کو اس کے اول وقت اور آخر وقت کے تمام اچھے برے اعمال کے بارے میں آگاہ کیا جائے گا اور اس کو ایسی خبر سے آگاہ کیا جائے گا جس کا وہ انکار نہیں کر سکے گا ۔
    بَلِ الْإِنسَانُ عَلَىٰ نَفْسِهِ بَصِيرَةٌ '' بلکہ انسان آپ اپنا گواہ ہے '' یعنی گواہ اور محاسب ہے وَلَوْ أَلْقَىٰ مَعَاذِيرَهُ '' خواہ وہ معذرت پیش کرے '' کیونکہ یہ ایسی معذرتیں ہوں گی جو قبول نہ ہوں گی بلکہ وہ اپنے عمل کا اقرار کرے گا اور اس سے اقرار کرایا جائے گا جیسا کہ اللہ تعالٰی نے فرمایا : اقْرَأْ كِتَابَكَ كَفَىٰ بِنَفْسِكَ الْيَوْمَ عَلَيْكَ حَسِيبًا (الإسراء : 14) '' اپنا اعمال نامہ پڑھ ، آج تو خود اپنا محاسب کافی ہے ۔'' بندہ خواہ اپنے عمل کا انکار یا اپنے عمل پر معذرت پیش کرے ، اس کا انکار اور اعتذار اسے کوئی فائدہ نہ دیں گے ،کیونکہ اس کے کان ،اس کی آنکھیں اور اس کے تمام جوارح جن کے ذریعے سے وہ عمل کرتا ہے اس کے خلاف گواہی دیں گے ، نیز رضامندی طلب کرنے کا وقت چلا گیا اور اس کا فائدہ ختم ہوگیا ۔ فَيَوْمَئِذٍ لَّا يَنفَعُ الَّذِينَ ظَلَمُوا مَعْذِرَتُهُمْ وَلَا هُمْ يُسْتَعْتَبُونَ (الروم : 57 ) '' اس روز ظالموں کو ،ان کی معذرت کوئی فائدہ دے گی نہ ان سے توبہ ہی طلب کی جائے گی ۔''
    لَا تُحَرِّكْ بِهِ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهِ ﴿١٦﴾ إِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ ﴿١٧﴾ فَإِذَا قَرَأْنَاهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ ﴿١٨﴾ ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَهُ ﴿١٩﴾
    (اے نبی) آپ قرآن کو جلدی (یاد کرنے) کے لیے اپنی زبان کو حرکت نہ دیں (16) اس کا جمع کرنا اور (آپ کی زبان سے) پڑھنا ہمارے ذمہ ہے (17) ہم جب اسے پڑھ لیں تو آپ اس کے پڑھنے کی پیروی کریں (18) پھر اس کا واضح کر دینا ہمارے ذمہ ہے (19)
    جب حضرت جبریل علیہ السلام وحی لے کر آتے اور تلاوت شروع کرتے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (حصول قرآن کی شدید ) حرص کی بنا پر ، حضرت جبریل علیہ السلام کے فارغ ہونے سے پہلے ہی ، جلدی سے حضرت جبریل علیہ السلام کی تلاوت کے ساتھ ساتھ تلاوت کرنا شروع کر دیتے ، پس اللہ تعالٰی نے آپ کو اس سے روک دیا اور فرمایا : وَلَا تَعْجَلْ بِالْقُرْآنِ مِن قَبْلِ أَن يُقْضَىٰ إِلَيْكَ وَحْيُهُ (طه : 114) '' اور قرآن جو آپ کی طرف وحی کیا جاتا ہے اس کے پورا ہونے سے ،قرآن پڑھنے میں جلدی نہ کیا کریں ۔'' یہاں فرمایا : لَا تُحَرِّكْ بِهِ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهِ '' وحی کے پڑھنے کے لیے اپنی زبان جلدی نہ چلایا کریں کہ اسے جلد یاد کر لو ۔'' پھر اللہ تبارک و تعالٰی نے آپ کو ضمانت دی کہ آپ ضرور اس کو حفظ کر لیں گے اور اس کو پڑھ سکیں گے ، اللہ تعالٰی اس کو آپ کے سینے میں جمع کر دے گا ، چنانچہ فرمایا : إِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ '' اس کا جمع کرنا اور ( آپ کی زبان سے ) پڑھوا دینا ہمارے ذمے ہے ۔'' یعنی آپ کے دل میں حصول قرآن کی جو خواہش ہے ، اس کا داعی ، قرآن کے رہ جانے اور اس کے نسیان کا خوف ہے تو اللہ تعالٰی نے اس کے حفظ کی ضمانت عطا کر دی ، اس لیے اب ساتھ ساتھ پڑھنے کا کوئی موجب نہیں ۔ فَإِذَا قَرَأْنَاهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ یعنی جبریل علیہ السلام قرآن کی قرآءت مکمل کر لیں،جو آپ کی طرف وحی کیا جاتا ہے، تب اس وقت جبریل علیہ السلام نے جو کچھ پڑھا ہوتا ہے اس کی اتباع کیجیے اور قرآن کو پڑھیے ۔ ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَهُ یعنی اس کے معانی کا بیان بھی ہمارے ذمے ہے ۔ پس اللہ تعالٰی نے قرآن کے الفاظ اور معانی ، دونوں کی حفاظت کا وعدہ فرمایا اور یہ حفاظت کا بلند ترین درجہ ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کے ادب کے لیے اس پر عمل کیا ، لہٰذا اس کے بعد جب جبریل علیہ السلام آپ کے سامنے قرآن کی تلاوت کرتے تو آپ خاموش رہتے اور جب جبریل علیہ السلام قرآءت سے فارغ ہوجاتے تو پھر آپ پڑھتے ۔
    اس آیت کریمہ میں علم حاصل کرنے کے لیے ادب سکھایا گیا ہے کہ معلم نے جس مسئلہ کو شروع کیا ہو ، اس سے معلم کے فارغ ہونے سے پہلے طالب علم کو جلدی نہیں کرنی چاہیے ۔ جب وہ اس مسئلہ سے فارغ ہوجائے تو پھر طالب علم کو جو اشکال ہو اس کے بارے میں معلم سے سوال کرے ۔ اسی طرح جب کلام کی ابتدا میں کوئی ایسی چیز ہو جس کو رد کرنا واجب ہو یا کوئی ایسی چیز جو مستحسن ہو تو اس کلام سے فارغ ہونے سے قبل اس کو رد یا قبول کرنے میں جلدی نہ کرے تاکہ اس میں جو حق یا باطل ہے وہ اچھی طرح واضح ہوجائے اور اسے اچھی طرح سمجھ لے تاکہ اس میں صواب کے پہلو سے کلام کر سکے ۔ ان آیات کریمہ سے یہ بھی مستفاد ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کے سامنے جس طرح قرآن کے الفاظ کو بیان فرمایا ہے ،اسی طرح آپ نے اس کے معانی کو بھی ان کے سامنے بیان فرمایا ہے ۔
    كَلَّا بَلْ تُحِبُّونَ الْعَاجِلَةَ ﴿٢٠﴾ وَتَذَرُونَ الْآخِرَةَ ﴿٢١﴾ وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ نَّاضِرَةٌ ﴿٢٢﴾ إِلَىٰ رَبِّهَا نَاظِرَةٌ ﴿٢٣﴾ وَوُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ بَاسِرَةٌ ﴿٢٤﴾ تَظُنُّ أَن يُفْعَلَ بِهَا فَاقِرَةٌ ﴿٢٥﴾
    نہیں نہیں تم جلدی ملنے والی (دنیا) کی محبت رکھتے ہو (20) اور آخرت کو چھوڑ بیٹھے ہو (21) اس روز بہت سے چہرے تروتازه اور بارونق ہوں گے (22) اپنے رب کی طرف دیکھتے ہوں گے (23) اور کتنے چہرے اس دن (بد رونق اور) اداس ہوں گے (24) سمجھتے ہوں گے کہ ان کے ساتھ کمر توڑ دینے واﻻ معاملہ کیا جائے گا (25)
    وہ چیز جو تمھاری غفلت اور اللہ تعالٰی کے وعظ و تذکیر سے روگردانی کی موجب ہے ، یہ ہے کہ تم تُحِبُّونَ الْعَاجِلَةَ '' دنیا کو پسند کرتے ہو '' اور تم اس کو حاصل کرنے اور اس کی لذات و شہوات میں کوشاں رہتے ہو ، تم آخرت پر اس کو ترجیح دیتے اور آخرت کے لیے عمل کرنا چھوڑ دیتے ہو کیونکہ دنیا کی نعمتیں اور لذتیں جلد مل جاتی ہیں اور انسان جلد ملنے والی چیز کا گرویدہ ہوتا ہے ۔ آخرت کے اندر ہمیشہ رہنے والی جو نعمتیں ہیں ،ان میں تاخیر ہے ،اس لیے تم ان سے غافل ہو اور ان کو چھوڑ بیٹھے ہو ،گویا تم ان نعمتوں کے لیے پیدا ہی نہیں کیے گئے ، یہ دنیا کا گھر تمھارا دائمی ٹھکانا ہے ،جس میں قیمتی عمریں گزاری جا رہی ہیں ،اس دنیا کے لیے رات دن بھاگ دوڑہو رہی ہے اور اس سے تمھارے سامنے حقیقت بدل گئی اور تمھیں بہت زیادہ خسارہ ہوا ۔
    اگر تم نے دنیا پر آخرت کو ترجیح دی ہوتی اور تم ایک صاحب بصیرت اور عقل مند شخص کی طرح انجام پر غور کیا ہوتا تو تم کامیاب ہوتے ، ایسا نفع حاصل کرتے جس کے ساتھ خسارہ نہ ہوتا اور تمھیں ایسی فو ز و فلاح حاصل ہوتی جس کی مصاحبت میں بد بختی نہ ہوتی ۔
    پھر اللہ تعالٰی نے اہل آخرت کے احوال اور ان میں تفاوت بیان کرتے ہوئے ان امور کا ذکر کیا ہے جو آخرت کی ترجیح کی طرف دعوت دیتے ہیں ،چنانچہ دنیا پر آخرت کو ترجیح دینے والوں کے بارے میں فرمایا :وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ نَّاضِرَةٌ اس دن کئی چہرے حسین اور خوبصورت ہوں گے ، ان کے دلوں کی نعمت ،نفوس کی مسرت اور ارواح کی لذت کے باعث ان کے چہروں پر رونق اور نور ہوگا ۔ إِلَىٰ رَبِّهَا نَاظِرَةٌ '' اپنے رب کی طرف دیکھ رہے ہوں گے ۔'' یعنی وہ اپنے اپنے مراتب کے مطابق اپنے رب کا دیدار کریں گے ۔کچھ لوگ ایسے ہوں گے جو ہر روز صبح و شام اپنے رب کا دیدار کریں گے اور کچھ لوگ ہر جمعہ ایک مرتبہ دیدار کر پائیں گے، وہ اللہ تعالٰی کے کریم چہرے اور اس کے بے پناہ جمال سے ، جس کی کوئی مثال نہیں متمتع ہوں گے ۔ جب وہ اپنے رب کا دیدار کریں گے تو وہ ان تمام نعمتوں کو بھول جائیں گے جو انھیں حاصل ہوں گی ، انھیں اس دیدار سے ایسی لذت اور مسرت حاصل ہوگی جس کی تعبیر ممکن نہیں ، ان کے چہرے بارونق ہوں گے اور ان کی خوبصورتی اور جمال میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا ۔ ہم اللہ کریم سے سوال کرتے ہیں کہ وہ ہمیں ان لوگوں کی معیت سے سرفراز کرے ۔
    پھر اللہ تعالٰی نے آخرت پر دنیا کو ترجیح دینے والوں کے بارے میں فرمایا : وَوُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ بَاسِرَةٌ '' اس دن کئی چہرے اداس ہوں گے ۔'' یعنی ترش رو ، گرد سے اٹے ہوئے ،سہمے ہوئے اور ذلیل ہوں گے ۔ تَظُنُّ أَن يُفْعَلَ بِهَا فَاقِرَةٌ '' خیال کریں گے کہ ان پر مصیبت واقع ہونے کو ہے ۔'' یعنی سخت عقوبت اور دردناک عذاب ، اسی وجہ سے ان کے چہرے متغیر اور چیں بہ جبیں ہوں گے ۔
    كَلَّا إِذَا بَلَغَتِ التَّرَاقِيَ ﴿٢٦﴾ وَقِيلَ مَنْ ۜ رَاقٍ ﴿٢٧﴾ وَظَنَّ أَنَّهُ الْفِرَاقُ ﴿٢٨﴾ وَالْتَفَّتِ السَّاقُ بِالسَّاقِ ﴿٢٩﴾ إِلَىٰ رَبِّكَ يَوْمَئِذٍ الْمَسَاقُ ﴿٣٠﴾ فَلَا صَدَّقَ وَلَا صَلَّىٰ ﴿٣١﴾ وَلَـٰكِن كَذَّبَ وَتَوَلَّىٰ ﴿٣٢﴾ ثُمَّ ذَهَبَ إِلَىٰ أَهْلِهِ يَتَمَطَّىٰ ﴿٣٣﴾ أَوْلَىٰ لَكَ فَأَوْلَىٰ ﴿٣٤﴾ ثُمَّ أَوْلَىٰ لَكَ فَأَوْلَىٰ ﴿٣٥﴾ أَيَحْسَبُ الْإِنسَانُ أَن يُتْرَكَ سُدًى ﴿٣٦﴾ أَلَمْ يَكُ نُطْفَةً مِّن مَّنِيٍّ يُمْنَىٰ ﴿٣٧﴾ ثُمَّ كَانَ عَلَقَةً فَخَلَقَ فَسَوَّىٰ ﴿٣٨﴾ فَجَعَلَ مِنْهُ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَرَ وَالْأُنثَىٰ ﴿٣٩﴾ أَلَيْسَ ذَٰلِكَ بِقَادِرٍ عَلَىٰ أَن يُحْيِيَ الْمَوْتَىٰ ﴿٤٠﴾
    نہیں نہیں جب روح ہنسلی تک پہنچے گی (26) اور کہا جائے گا کہ کوئی جھاڑ پھونک کرنے واﻻ ہے؟ (27) اور جان لیا اس نے کہ یہ وقت جدائی ہے (28) اور پنڈلی سے پنڈلی لپٹ جائے گی (29) آج تیرے پروردگار کی طرف چلنا ہے (30) اس نے نہ تو تصدیق کی نہ نماز ادا کی (31) بلکہ جھٹلایا اور روگردانی کی (32) پھر اپنے گھر والوں کے پاس اتراتا ہوا گیا (33) افسوس ہے تجھ پر حسرت ہے تجھ پر (34) وائے ہے اور خرابی ہے تیرے لیے (35) کیا انسان یہ سمجھتا ہے کہ اسے بیکار چھوڑ دیا جائے گا (36) کیا وه ایک گاڑھے پانی کا قطره نہ تھا جو ٹپکایا گیا تھا؟ (37) پھر وه لہو کا لوتھڑا ہوگیا پھر اللہ نے اسے پیدا کیا اور درست بنا دیا (38) پھر اس سے جوڑے یعنی نر وماده بنائے (39) کیا (اللہ تعالیٰ) اس (امر) پر قادر نہیں کہ مردے کو زنده کردے (40)
    اللہ تبارک و تعالٰی قریب المرگ شخص کا حال بیان کر کے اپنے بندوں کو نصیحت کرتا ہے ، جب اس کی روح ہنسلی کی ہڈی ( حلق ) تک پہنچ جائے گی ۔ (التَّرَاقِيَ) سے مراد وہ ہڈیاں ہیں جنہوں نے سینے کے گڑھے کا احاطہ کر رکھا ہے ، پس اس وقت نہایت شدید درد ہوگا اور انسان ہر وہ سبب اور وسیلہ تلاش کرے گا جس کے بارے میں وہ سمجھتا ہوگا کہ اس سے شفا اور راحت ہوگی ۔اس لیے فرمایا : وَقِيلَ مَنْ ۜ رَاقٍ یعنی کیا جائے گا کہ کون ہے جو اس پر جھاڑ پھونک کرے ؟ کیونکہ اسباب عادیہ پر ان کی امیدیں منقطع ہو کر اسباب الٰہیہ پر لگ گئی ہیں مگر جب قضا وقدر کا فیصلہ آ جاتا ہے تو اس کو کوئی روک نہیں سکتا۔ وَظَنَّ أَنَّهُ الْفِرَاقُ اور اسے یقین ہوجاتا ہے کہ اب دنیا سے جدائی ہے وَالْتَفَّتِ السَّاقُ بِالسَّاقِ ''اور پنڈلی پنڈلی سے لپٹ جائے گی ۔'' یعنی تمام سختیاں جمع ہو کر لپٹ جائیں گی ،معاملہ بہت بڑا اور کرب بہت سخت ہوجائے گا ، خواہش ہوگی کہ بدن سے روح نکل جائے جواس سے لپٹی ہوئی ہے اور اس کے ساتھ ہے ۔ پس روح کو اللہ کے پاس لے جایا جائے گا تاکہ وہ اس کو اس کے اعمال کی جزا دے اور اس کے کرتوتوں کا اقرار کرائے ۔ یہ زجر و توبیخ جس کا اللہ تعالٰی نے ذکر فرمایا ہے ، دلوں کو اس منزل کی طرف لے کر چلتی ہے جس میں ان کی نجات ہے اور ان امور سے روکتی ہے جن میں ان کی ہلاکت ہے مگر معاندحق جسے آیات کوئی فائدہ نہیں دیتیں ، وہ اپنی گمراہی ،کفر اور عناد پر جما رہتا ہے ۔
    فَلَا صَدَّقَ '' پس نہ اس نے تصدیق کی ۔'' یعنی اللہ تعالٰی ، اس کے فرشتوں ، اس کی کتابوں ،اس کے رسلوں ،یوم آخرت اور اچھی بری تقدیر پر ایمان نہ لایا وَلَا صَلَّىٰ﴿ ﴾ وَلَـٰكِن كَذَّبَ اور نہ اس نے نماز ہی پڑھی بلکہ اس نے حق کی تصدیق کرنے کی بجائے تکذیب کی وَتَوَلَّىٰ اور امرونہی سے روگردانی کی ، یہی وہ شخص ہے جس کا دل مطمئن اور اپنے رب سے بے خوف ہے بلکہ وہ چلا جاتا ہے إِلَىٰ أَهْلِهِ يَتَمَطَّىٰ '' اپنے گھر والوں کی طرف اکڑتا ہوا'' یعنی اس کو کوئی پروا نہیں ہوتی ۔ پھر اللہ تعالٰی نے اس کو وعید سنائی ، فرمایا : أَوْلَىٰ لَكَ فَأَوْلَىٰ ﴿ ﴾ ثُمَّ أَوْلَىٰ لَكَ فَأَوْلَىٰ '' افسوس ہے تجھ پر ، پھر افسوس ہے ، پھر افسوس ہے تجھ پر ، پھر افسوس ہے ۔'' یہ وعید کے کلمات ہیں اور تکرار وعید کے لیے ان کو مکرر کہا ہے ۔
    پھر اللہ تعالٰی نے انسان کو اس کی ابتدائی تخلیق کی یاد دلائی ، چنانچہ فرمایا : أَيَحْسَبُ الْإِنسَانُ أَن يُتْرَكَ سُدًى یعنی کیا انسان یہ سمجھتا ہے کہ اسے مہمل چھوڑ دیا جائے گا ، اسے نیکی کا حکم دیا جائے گا نہ برائی سے روکا جائے گا،اسے ثواب عطا کیا جائے گا نہ عقاب میں مبتلا کیا جائے گا ؟ یہ باطل گمان اور اللہ تعالٰی کے بارے میں سوئے ظن ہے جو اس کی حکمت کے لائق نہیں ۔ أَلَمْ يَكُ نُطْفَةً مِّن مَّنِيٍّ يُمْنَىٰ ﴿ ﴾ ثُمَّ كَانَ '' کیا وہ منی کا قطرہ نہ تھا جو رحم میں ڈالا جاتا ہے ، پھر ہوگیا ؟'' یعنی منی کے بعد عَلَقَةً خون کا لوتھڑا فَخَلَقَ پھر اللہ تعالٰی نے اس سے جان دار پیدا کیا اور اسے درست کیا یعنی اس کو مہارت سے محکم کر کے بنایا فَجَعَلَ مِنْهُ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَرَ وَالْأُنثَىٰ ﴿ ﴾ أَلَيْسَ ذَٰلِكَ '' پھر اس سے نر اور مادہ جوڑے بنائے کیا نہیں ہے وہ ۔ '' یعنی وہ جس نے انسان کو پیدا کیا اور اس کو ان مختلف مراحل سے گزارا بِقَادِرٍ عَلَىٰ أَن يُحْيِيَ الْمَوْتَىٰ '' اس پر قادر کہ وہ مردوں کو زندہ کر دے ؟'' کیوں نہیں ! وہ ہر چیز پر قادر ہے ۔
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 3
  2. رفی

    رفی -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏اگست 8, 2007
    پیغامات:
    12,395
    جزاک اللہ خیرا
     
  3. بابر تنویر

    بابر تنویر -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏دسمبر 20, 2010
    پیغامات:
    7,320
    جزاک اللہ خیرا شیخ
     
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں