مسئلہ رفع الیدین پر امام عبداللہ بن المبارک رحمہ اللہ کی امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے گفتگو !

Abu Abdullah نے 'حدیث - شریعت کا دوسرا اہم ستون' میں ‏جولائی 31, 2008 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. Abu Abdullah

    Abu Abdullah -: ماہر :-

    شمولیت:
    ‏نومبر 7, 2007
    پیغامات:
    934
    ایک بار مسجد کوفہ میں امام ابن المبارک رحمہ اللہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے ساتھ نماز پڑھ رہے تھے ۔ ابن المبارک رحمہ اللہ رفع الیدین کرتے تھے ۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے نماز سے فارغ ہو کر ابن المبارک رحمہ اللہ سے کہا :

    ترفع یدیک فی کل تکبیرۃ کانک ترید ان تطیر
    ” آپ نماز کی ہر تکبیر ( اس میں تسمیع بھی شامل ہے یعنی رکوع سے اٹھتے وقت ) میں رفع الیدین کرتے ہیں گویا اڑنا اور پرواز کرنا چاہتے ہیں ۔ “
    امام ابن المبارک رحمہ اللہ نے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے جواب میں کہا :
    ان کنت انت تطیر فی الاولیٰ فانی اطیر فیما سواھا
    اگر آپ تحریمہ کے وقت رفع الیدین کرتے ہوئے ارادہ پرواز و اڑان رکھتے ہوں تو میں آپ ہی کی طرح باقی مواقع میں نماز میں پرواز کرنا چاہتا ہوں ۔

    امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ امام ابن المبارک رحمہ اللہ کے اس جواب سے اس طرح کی بات رفع الیدین کی بابت کہنے سے ہمیشہ کے لیے خاموش رہے ۔

    امام وکیع نے امام ابن المبارک رحمہ اللہ کے اس جواب کی بڑی تحسین و تعریف کی ۔ ( کتاب السنۃ لعبداللہ بن احمد بن حنبل ، ص : 59 ، تاویل مختلف الحدیث لابن قتیبی ، ص : 66 ، سنن بیہقی ، ج : 2 ، ص :82 ، ثقات ابن حبان ، ج : 4 ، ص : 17، تاریخ خطیب ، ج : 13 ، ص :406 ، تمھید لابن عبدالبرج :5 ، ص :66 ، جزءرفع الیدین للبخاری مع جلاءص : 125,123 )

    جس طرح ابن المبارک رحمہ اللہ کی طرف سے مسکت جواب پا کر امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اس معاملہ میں خاموش و ساکت رہ گئے اسی طرح ان کی تقلید میں ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا دم بھرنے والوں کو بھی خاموش رہنا چاہئیے ۔ مگر مدعیان تقلید ابی حنیفہ رحمہ اللہ اپنے دعوی تقلید ابی حنیفہ رحمہ اللہ میں سچے نہیں ہیں ۔ اسی بنا پر وہ آئے دن اس سنت نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف کتابیں لکھتے رہتے ہیں اور اس سنت نبویہ کے خلاف شدید جارحیت اختیار کرتے ہیں ۔




    اصل مضمون : مسئلہ رفع الیدین

    بشکریہ : ادارہ ہفت روزہ اہلحدیث
     
  2. voiceoftheday

    voiceoftheday -: معاون :-

    شمولیت:
    ‏جولائی 21, 2008
    پیغامات:
    14
    اسلام علیکم جزاک اللہ خیراَ
     
  3. Muslim

    Muslim -: معاون :-

    شمولیت:
    ‏جولائی 6, 2007
    پیغامات:
    7
    ماشاءاللہ عمدہ جواب ہے۔ یہی جواب ان احباب کو بھی دیا جا سکتا ہے جو کہتے ہیں کہ رفع یدین نماز میں سکون کے خلاف ہے۔ اور ان کو بھی جو نعوذ باللہ رفع یدین کو گھوڑو‌ں کی طرح دم ہلانے سے تشبیہ دیتے ہیں۔
     
  4. شفقت الرحمن

    شفقت الرحمن ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏جون 27, 2008
    پیغامات:
    753
    کیا بات ھے ابو عبد اللہ:00006:
    بہت اچھا انتخاب
    جزاک اللہ خیرا
     
  5. منہج سلف

    منہج سلف --- V . I . P ---

    شمولیت:
    ‏اگست 9, 2007
    پیغامات:
    5,047
    مسئلہ رفع الیدین اور امام ابو حنیفہ رح

    مسئلہ رفع الیدین اور امام ابو حنیفہ رح

    مسئلہ رفع الیدین پر امام عبداللہ بن المبارک رحمہ اللہ کی امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے گفتگو !
    ایک بار مسجد کوفہ میں امام ابن المبارک رحمہ اللہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے ساتھ نماز پڑھ رہے تھے ۔ ابن المبارک رحمہ اللہ رفع الیدین کرتے تھے ۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے نماز سے فارغ ہو کر ابن المبارک رحمہ اللہ سے کہا :
    ترفع یدیک فی کل تکبیرۃ کانک ترید ان تطیر
    آپ نماز کی ہر تکبیر ( اس میں تسمیع بھی شامل ہے یعنی رکوع سے اٹھتے وقت ) میں رفع الیدین کرتے ہیں گویا اڑنا اور پرواز کرنا چاہتے ہیں ۔ “
    امام ابن المبارک رحمہ اللہ نے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے جواب میں کہا :
    ان کنت انت تطیر فی الاولیٰ فانی اطیر فیما سواھا
    اگر آپ تحریمہ کے وقت رفع الیدین کرتے ہوئے ارادہ پرواز و اڑان رکھتے ہوں تو میں آپ ہی کی طرح باقی مواقع میں نماز میں پرواز کرنا چاہتا ہوں ۔

    امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ امام ابن المبارک رحمہ اللہ کے اس جواب سے اس طرح کی بات رفع الیدین کی بابت کہنے سے ہمیشہ کے لیے خاموش رہے ۔ امام وکیع نے امام ابن المبارک رحمہ اللہ کے اس جواب کی بڑی تحسین و تعریف کی ۔ ( کتاب السنۃ لعبداللہ بن احمد بن حنبل ، ص : 59 ، تاویل مختلف الحدیث لابن قتیبی ، ص : 66 ، سنن بیہقی ، ج : 2 ، ص :82 ، ثقات ابن حبان ، ج : 4 ، ص : 17، تاریخ خطیب ، ج : 13 ، ص :406 ، تمھید لابن عبدالبرج :5 ، ص :66 ، جزءرفع الیدین للبخاری مع جلاءص : 125,123 )
    جس طرح ابن المبارک رحمہ اللہ کی طرف سے مسکت جواب پا کر امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اس معاملہ میں خاموش و ساکت رہ گئے اسی طرح ان کی تقلید میں ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا دم بھرنے والوں کو بھی خاموش رہنا چاہئیے ۔ مگر مدعیان تقلید ابی حنیفہ رحمہ اللہ اپنے دعوی تقلید ابی حنیفہ رحمہ اللہ میں سچے نہیں ہیں ۔ اسی بنا پر وہ آئے دن اس سنت نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف کتابیں لکھتے رہتے ہیں اور اس سنت نبویہ کے خلاف شدید جارحیت اختیار کرتے ہیں ۔

    اہل حدیث میگزین
     
  6. ابو وقاص

    ابو وقاص -: رکن مکتبہ اسلامیہ :-

    شمولیت:
    ‏جون 13, 2008
    پیغامات:
    382
    ویسے عتیق بھائی (معذرت کے ساتھ) اھل حدیثوں نے بھی کچھ کم نہیں لکھا حنفیوں کے بارے میں
    میرے خیال میں اس لۓ حنفیوں کو بھی جواب دینے کا حق ملنا چاہیے
     
  7. sjk

    sjk -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏ستمبر 8, 2007
    پیغامات:
    1,754
  8. محمدی

    محمدی -: محسن :-

    شمولیت:
    ‏اکتوبر، 5, 2008
    پیغامات:
    81
    نہیں ‌بھائی اہلحدیث دلیلوں کے ساتھ لکھتے ہیں جبکہ حنفی اہحدیث علماء کے فتوں کو لکھ کر دلیل کہتے ہیں۔
    اہلحدیث وہ بات لکھتے ہیں‌جو کتاب اللہ اور حدیث سے ٹکراتی نہ ہو جبکہ حنفی صرف اہلحدیث علماءٰ کے فتوں‌کی باتوں کو لکھ کر کہتے ہیں‌یہ غلط ہے'بھلا ہمارا ایمان فتووں پر ہے۔

    الحمدللہ اہلحدیث حضرت عیسی کے آنے تک سر بلند رہے گی'
     
  9. اہل الحدیث

    اہل الحدیث -: رکن مکتبہ اسلامیہ :-

    شمولیت:
    ‏مارچ 24, 2009
    پیغامات:
    5,052
    ایک بار مسجد کوفہ میں امام ابن المبارک رحمہ اللہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے ساتھ نماز پڑھ رہے تھے ۔ ابن المبارک رحمہ اللہ رفع الیدین کرتے تھے ۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے نماز سے فارغ ہو کر ابن المبارک رحمہ اللہ سے کہا :
    ترفع یدیک فی کل تکبیرۃ کانک ترید ان تطیر
    ” آپ نماز کی ہر تکبیر ( اس میں تسمیع بھی شامل ہے یعنی رکوع سے اٹھتے وقت ) میں رفع الیدین کرتے ہیں گویا اڑنا اور پرواز کرنا چاہتے ہیں ۔ “
    امام ابن المبارک رحمہ اللہ نے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے جواب میں کہا :
    ان کنت انت تطیر فی الاولیٰ فانی اطیر فیما سواھا
    اگر آپ تحریمہ کے وقت رفع الیدین کرتے ہوئے ارادہ پرواز و اڑان رکھتے ہوں تو میں آپ ہی کی طرح باقی مواقع میں نماز میں پرواز کرنا چاہتا ہوں ۔

    امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ امام ابن المبارک رحمہ اللہ کے اس جواب سے اس طرح کی بات رفع الیدین کی بابت کہنے سے ہمیشہ کے لیے خاموش رہے ۔ امام وکیع نے امام ابن المبارک رحمہ اللہ کے اس جواب کی بڑی تحسین و تعریف کی ۔ ( کتاب السنۃ لعبداللہ بن احمد بن حنبل ، ص : 59 ، تاویل مختلف الحدیث لابن قتیبی ، ص : 66 ، سنن بیہقی ، ج : 2 ، ص :82 ، ثقات ابن حبان ، ج : 4 ، ص : 17، تاریخ خطیب ، ج : 13 ، ص :406 ، تمھید لابن عبدالبرج :5 ، ص :66 ، جزءرفع الیدین للبخاری مع جلاءص : 125,123 )
    جس طرح ابن المبارک رحمہ اللہ کی طرف سے مسکت جواب پا کر امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اس معاملہ میں خاموش و ساکت رہ گئے اسی طرح ان کی تقلید میں ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا دم بھرنے والوں کو بھی خاموش رہنا چاہئیے ۔ مگر مدعیان تقلید ابی حنیفہ رحمہ اللہ اپنے دعوی تقلید ابی حنیفہ رحمہ اللہ میں سچے نہیں ہیں ۔ اسی بنا پر وہ آئے دن اس سنت نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف کتابیں لکھتے رہتے ہیں اور اس سنت نبویہ کے خلاف شدید جارحیت اختیار کرتے ہیں ۔
     
  10. الطحاوی

    الطحاوی -: منفرد :-

    شمولیت:
    ‏دسمبر 5, 2008
    پیغامات:
    1,825
    پوری سنت نبویہ رفع یدین میں سمٹ گئی ہے ویسے دوسری سمت بھی نگاہ ڈالنی چاہئے کہ امام عبداللہ بن مبارک امام ابوحنفیہ کی کتنی قدروعزت کرتے تھے۔
     
    Last edited by a moderator: ‏جون 10, 2009
  11. ابن شہاب

    ابن شہاب ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏اپریل 13, 2011
    پیغامات:
    224
    امام عبد اللہ بن مبارک اور امام ابو حنیفہ

    پوری سنت رفع الیدین میں‌ نہیں سمٹی لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری زندگی ہمارے لیے اسوہ حسنہ ہے ۔ آپ اس سنت سے خار کیوں کھاتے ہیں‌؟؟؟
    رہا عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ تو انہوں نے امام ابوحنیفہ کو حدیث کے میدان میں مسکین اور یتیم قرار دیا ہے ۔
    (تاریخ بغداد :‌13/443، 444، الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم :‌ 8/450
    اگر یہی قدر ومنزلت ہے تو بہت بہت مبارک !!!
     
    Last edited by a moderator: ‏مئی 23, 2011
  12. sahj

    sahj -: معاون :-

    شمولیت:
    ‏اپریل 27, 2010
    پیغامات:
    62

    السلام علیکم جناب ابو عبداللہ صاحب اور باقی تمام برادران اسلام کو بھی السلام علیکم

    آپ حضرات نے اقتباس میں موجود سرخ عبارت کو تو دیکھ ہی لیا ھوگا ؟
    اور نیلی عبارت کو بھی ؟
    نشاندہی میں یہ کرنا چاھتا ھوں ، بلکہ سوال ھے آپ سب بھائیوں سے کہ تماز میں کتنی تکبیرات ھوتی ہیں؟
    تکبیر تحریمہ
    رکوع جانے کی تکبیر
    رکوع سے اٹھنے کی
    سجدہ میں جانے کی
    سجدہ سے اٹھنے کی
    دوبارہ سجدہ میں جانے کی
    سجدہ سے اٹھکر قیام کی جانب جاتے ھوئے

    ایک رکعت میں سات جگہ

    اور دورکعت میں تیرہ جگہ ؟

    ٹھیک ؟

    لیڈنگ مراسلے میں جو مضمون لکھا ھوا نظر آرہا ھے اسمیں حضرت ابن المبارک رحمہ اللہ تعالٰی علیہ سے سوال کیا حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ تعالٰی علیہ نے کہ "آپ نماز کی ہر تکبیر میں رفع الیدین کرتے ہیں" ؟
    جسکے جواب میں ابن المبارک رحمہ اللہ علیہ فرماتے ہیں
    اگر آپ تحریمہ کے وقت رفع الیدین کرتے ہوئے ارادہ پرواز و اڑان رکھتے ہوں تو میں آپ ہی کی طرح باقی مواقع میں نماز میں پرواز کرنا چاہتا ہوں

    اس جواب میں صاف صاف زکر ھے رفع الیدین کا ؟ ٹھیک

    یعنی یہ کہ حضرت ابن المبارک رحمہ اللہ نماز کی ہر ہر تکبیر پر رفع الیدین فرماتے تھے ۔۔۔۔۔ٹھیک ؟

    ارے بھی سیدھی سی بات ھے دو رکعت میں تیرہ بار ابن المبارک رحمہ اللہ رفع الیدین فرماتے تھے اور آپ اہل حدیث حضرات دو رکعت میں چھے جگہ رفع الیدین کرتے ہیں ۔:00003:

    کیا کہتے ہیں جناب اہل حدیث صاحبان ؟؟

    بسم اللہ کرئیے اور اپنی غلطی درست کیجئے ۔ ابن مبارک رحمہ اللہ تو نماز کی ہر ہر تکبیر پر رفع الیدین کریں اور آپ لوگ انہیں کا نام لیکر بھی ان جیسا عمل نہیں کرتے ؟

    امید ھے میں اپنی بات و سوال سمجھا سکا ھوں گا ۔

    اب دیکھنا یہ ھے کہ آپ دوست احباب کیسے اور کیا جواب دیتے ہیں ۔

    والسلام

    حسین
     
  13. کفایت اللہ

    کفایت اللہ ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏اگست 23, 2008
    پیغامات:
    2,017

    وعلیکم السلام۔

    اولا:
    مذکورہ پوسٹ کے ذریعہ یہ بتلایا گیا ہے کہ تکبیر تحریمہ کے علاوہ والے رفع الیدین پر جوبھی اعتراض کیا جاتاہے وہی اعتراض تکبیر تحریمہ والے رفع الیدین پر بھی وارد ہوتا ہے۔
    آپ کے اشکال کا اس استدلال سے کوئی تعلق نہیں ہے، کیونکہ مذکورہ روایت کو ہم نے رفع الیدین پر وارد اعتراضات کے جواب کے لئے پیش کیاہے۔

    ثانیا:
    مذکورہ روایت اس باب میں صریح ہرگز نہیں ہے کہ عبداللہ ابن المبارک رحمہ اللہ ہر ہر تکبیر پر رفع الیدین کرتے تھے ، اورمیرے ناقص علم کے مطابق آپ سے قبل کسی ایک بھی امام نے اس روایت کی بنا پر عبداللہ ابن المبارک رحمہ اللہ کی طرف یہ بات منسوب نہیں کی ہے کہ وہ ہر تکبیر پر رفع الیدین کے قائل تھے۔
    ’’ كُلِّ تَكْبِيرَةٍ‘‘ سے مراد ہرتکبیر پر رفع الیدین کرتے تھے لیکن کون سی ہر تکبیر پر؟ اس کی صراحت روایت مذکورہ میں نہیں ہے۔
    اورکبھی کبھی ’’ كُلِّ تَكْبِيرَةٍ‘‘ بول کر مخصوص تکبیرات مراد لی جاتی ہیں جیسا کہ درج ذیل روایت میں ہے۔
    حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُصَفَّى الْحِمْصِيُّ، حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ، حَدَّثَنَا الزُّبَيْدِيُّ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، قَالَ: " كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا قَامَ إِلَى الصَّلَاةِ رَفَعَ يَدَيْهِ حَتَّى تَكُونَ حَذْوَ مَنْكِبَيْهِ، ثُمَّ كَبَّرَ وَهُمَا كَذَلِكَ فَيَرْكَعُ، ثُمَّ إِذَا أَرَادَ أَنْ يَرْفَعَ صُلْبَهُ رَفَعَهُمَا حَتَّى تَكُونَ حَذْوَ مَنْكِبَيْهِ، ثُمَّ قَالَ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ وَلَا يَرْفَعُ يَدَيْهِ فِي السُّجُودِ وَيَرْفَعُهُمَا فِي كُلِّ تَكْبِيرَةٍ يُكَبِّرُهَا قَبْلَ الرُّكُوعِ حَتَّى تَنْقَضِيَ صَلَاتُهُ " [سنن أبي داود 1/ 192رقم 722 ]

    ثالثا:
    اس ضمن کی دیگر روایات سے وضاحت ہوجاتی ہے مذکورہ روایت میں ’’ كُلِّ تَكْبِيرَةٍ‘‘ اپنے عموم پر نہیں ہے ، مثلا:
    أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللهِ الْحَافِظُ، أنبأ الْحَسَنُ بْنُ حَلِيمٍ الصَّائِغُ، بِمَرْوَ ثنا أَبُو الْمُوَجَّهِ، أَخْبَرَنِي أَبُو نَصْرٍ مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي الْخَطَّابِ السُّلَمِيُّ، وَكَانَ رَجُلًا صَالِحًا قَالَ: أَخْبَرَنِي عَلِيُّ بْنُ يُونُسَ، ثنا وَكِيعٌ قَالَ: " صَلَّيْتُ فِي مَسْجِدِ الْكُوفَةِ فَإِذَا أَبُو حَنِيفَةَ قَائِمٌ يُصَلِّي، وَابْنُ الْمُبَارَكِ إِلَى جَنْبِهِ يُصَلِّي، فَإِذَا عَبْدُ اللهِ يَرْفَعُ يَدَيْهِ كُلَّمَا رَكَعَ وَكُلَّمَا رَفَعَ، وَأَبُو حَنِيفَةَ لَا يَرْفَعُ، فَلَمَّا فَرَغُوا مِنَ الصَّلَاةِ قَالَ أَبُو حَنِيفَةَ لِعَبْدِ اللهِ: يَا أَبَا عَبْدَ الرَّحْمَنِ، رَأَيْتُكَ تُكْثِرُ رَفْعَ الْيَدَيْنِ، أَرَدْتَ أَنْ تَطِيرَ؟ قَالَ لَهُ عَبْدُ اللهِ: يَا أَبَا حَنِيفَةَ قَدْ رَأَيْتُكَ تَرْفَعُ يَدَيْكَ حِينَ افْتَتَحْتَ الصَّلَاةَ فَأَرَدْتَ أَنْ تَطِيرَ؟ فَسَكَتَ أَبُو حَنِيفَةَ " قَالَ وَكِيعٌ فَمَا رَأَيْتُ جَوَابًا أَحْضَرَ مِنْ جَوَابِ عَبْدِ اللهِ، لِأَبِي حَنِيفَةَ
    [السنن الكبرى للبيهقي 2/ 117 رقم 2538]
    امام وکیع فرماتے ہیں کہ میں نے کوفہ کی مسجد میں‌ نماز پڑھی تو وہاں ابوحنیفہ رحمہ اللہ بھی نماز پڑھ رہے تھے اوران کے بغل میں امام عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ نماز پڑھ رہے تھے تو عبداللہ بن المبارک رحمہ اللہ نماز میں جب بھی رکوع میں جاتے اوررکوع سے اٹھتے تو رفع الیدین کرتے تھے، اورابوحنیفہ رفع الیدین نہیں کرتے تھے جب یہ لوگ نماز سے فارغ ہوئے تو ابوحنیفہ نے امام ابن المبارک رحمہ اللہ سے کہا: اے ابوعبدالرحمان (ابن المبارک) ! میں‌ نے تمیں نماز میں بکثرت رفع الیدین کرتے ہوئے دیکھا کیا تم نماز میں اڑنا چاہ رہے ہو؟ اس پر امام ابن المبارک رحمہ اللہ نے ابوحنیفہ رحمہ اللہ کو جواب دیا کہ : اے ابوحنیفہ ! میں نے دیکھا تم نے نماز کے شروع میں رفع الیدین کیا تو کیا آپ اڑنا چاہ رہے تھے؟ اس جواب پر ابوحنیفہ خاموش ہوگئے ۔
    امام وکیع فرماتے ہیں‌ کہ میں نے امام ابن المارک رحمہ اللہ سے زیادہ حاضر جواب کسی کو نہیں دیکھا ۔






    اس روایت میں ’’كُلَّمَا رَكَعَ وَكُلَّمَا رَفَعَ‘‘ سے کل تکبیرۃ کی تشریح ہوجاتی ہے یعنی ’’ كُلِّ تَكْبِيرَةٍ‘‘ سے ہررکعت میں قبل الرکوع اوربعدالرکوع والا رفع الیدین مراد ہے۔
    نیز اس روایت میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی زبانی ابن المبارک رحمہ اللہ کا جو عمل بیان ہو اہے وہ ’’ كُلِّ تَكْبِيرَةٍ‘‘ کے الفاظ سے نہیں بلکہ ’’ رَأَيْتُكَ تُكْثِرُ رَفْعَ الْيَدَيْنِ‘‘ کے الفاظ سے ، اس سے ’’ كُلِّ تَكْبِيرَةٍ‘‘ کی تشریح بخوبی ہوجاتی ہے۔

    اوراگردیگرروایات کو نظر انداز کرکے صرف ایک ہی روایت کو پکڑ کر بیٹھ جایا جائے تو کوئی ’’ كُلِّ تَكْبِيرَةٍ ‘‘ کو پیش نظر رکھ کراس بات پر بھی ضد کرسکتا ہے کہ ابن المبارک رحمہ اللہ تسمیع کے وقت رفع الیدین نہیں کرتے تھے ، کیونکہ ’’ كُلِّ تَكْبِيرَةٍ‘‘ کے ساتھ تسمیع کا ذکر نہیں ہے لیکن اس کا کوئی قائل نہیں۔

    رابعا:
    اگر بالفرض تسلیم بھی کرلیں کہ عبداللہ ابن المبارک رحمہ اللہ ہر ہر تکبیر پر رفع الیدین کرتے تھے تو اس سے ہم پر کیا اعتراض وارد ہوسکتاہے ، ہم نے عبد اللہ ابن لمبارک رحمہ اللہ کے عمل کو نہیں ان کے اس جواب کو پیش کیا ہے جسے امام ابن المبارک رحمہ اللہ نے ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے اعتراض پر پیش کیا تھا اگر اس جواب میں کوئی کمی ہے تواس کی وضاحت کریں خواہ مخواۃ غیر متعلق بات چھیڑنے سے کوئی فائدہ نہیں۔

     
    Last edited by a moderator: ‏جون 2, 2011
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
  14. محمدعاصم

    محمدعاصم ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏فروری 23, 2011
    پیغامات:
    58
    کفایت بھائی ثالثا میں الحسن بن الحلیم الصائغ کو علامہ البانی نے "فی حکم المجھولین " فرمایا ہے کما قال فی السلسلۃ الضعیفۃ تحت حدیث رقم 6241 : فلأن المروزي هذا ، وهو : الحسن بن محمد بن حليم ، هكذا سماه
    الذهبي في ترجمته لشيخه أبي المُوجِّه في "سير أعلام النبلاء" (13/347) ، ذكره
    في جملة الرواة عنه ، ولم يترجم له فيه ، ولا وجدته عند غيره ، فهو في حكم
    المجهولين .
    تو یہ تو آپ کے من گھڑت ہو گئی جیسا کہ آپ کے اپنے اصول ہیں :)

    اولا جو قول آپ نے پیش کیا ہے اس میں رکوع اور دیگر تکبیرات کو تکبیر تحریمہ پر قیاس کرنا درست نہیں کیونکہ تکبیر تحریمہ میں کبھی بھی رفع یدین کو نہیں چھوڑا گیا ہے اور دیگر میں کبھی ثھوڑا گیا ھے اور کبھی نہیں
    دوسری بات : یار یہ بات میرٰے ‌سمجھ میں نہیں آرہی کہ جب امام ابوحنیفۃ حدیث میں یتیم تھے تو ابن المبارک نے پھر اس کی شاگردی کیوں اختیار کی ،اور امام کے اکابر تلامذہ میں کیوں شمار کیا گیا :)
     
  15. کفایت اللہ

    کفایت اللہ ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏اگست 23, 2008
    پیغامات:
    2,017

    ماشاء اللہ !
    بارک اللہ فیکم بھائی !
    اسے کہتے ہیں علمی اعتراض ۔
    اس طرح کے اعتراضات میری نظر میں انتہاہی قابل قدر ہیں‌ کیوکہ اپنی تائید میں‌ مستنداہل علم کے اقوال بھی پیش کئے جارہے ہیں ۔


    خیر آپ کا کہنا یہ ہے کہ ’’ الحسن بن حليم الصائغ‘‘ مجہول ہے کسی نے اس کی توثیق نہیں کی ہے ، میرے بھائی یہ آپ کے مطالعہ کا قصورہے اہل فن سے ان کی توثیق ثابت ہے ۔

    ذرا بہت ہی غور سے یہ اگلے الفاظ پڑھیں:

    امام بیھقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
    ورواه عبد الله بن المبارك عنه مرسلا دون ذكر جابر وهو المحفوظ أخبرناه أبو عبد الله الحافظ أنبأ أبو محمد الحسن بن حليم الصائغ الثقة بمرو من أصل كتابه كتاب الصلاة لعبد الله بن المبارك أنبأ أبو الموجه أنبأ عبدان بن عثمان أنبأ عبد الله بن المبارك أنبأ سفيان وشعبة وأبو حنيفة عن موسى بن أبي عائشة عن عبد الله بن شداد قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : من كان له إمام فإن قراءة الإمام له قراءة وكذلك رواه علي بن الحسن بن شقيق عن بن المبارك وكذلك رواه غيره عن سفيان بن سعيد الثوري وشعبة بن الحجاج وكذلك رواه منصور بن المعتمر وسفيان بن عيينة وإسرائيل بن يونس وأبو عوانة وأبو الأحوص وجرير بن عبد الحميد وغيرهم من الثقات الأثبات ورواه الحسن بن عمارة عن موسى موصولا والحسن بن عمارة متروك [السنن الكبرى :2/ 160]۔


    ملون لفظ پر دھیان دیں یہاں صریح طور پر امام حاکم رحمہ اللہ نے ’’الحسن بن حليم الصائغ‘‘ کو ثقہ کہا گیا ہے اوراسے امام بیھقی رحمہ اللہ نے براہ راست نقل کیا ہے ۔

    نیز ملاحظہ ہو:[الدر النقي من كلام الإمام البيهقي :رقم 210 ]۔

    محترم کبھی کبھی کتب تراجم کے علاوہ بھی کہیں توثیق مل جاتی ہے اس کی ایک اورمثال علامہ البانی رحمہ اللہ ہی کے الفاظ میں‌ ملاحظہ ہو:

    امام ابن عاصم رحمہ اللہ نے کہا:
    ثنا محمد بن مهدي الأيلي أبو عبدالله ثقة صدوق حدثنا أبو داود ثنا مبارك بن فضالة عن عبيدالله ابن أبي بكر بن أنس عن أنس بن مالك قال قال رسول الله صلى الله عليه و سلم يقول الله تبارك وتعالى أخرجوا من النار من ذكرني يوما أو خافني في مقام [ظلال الجنة 2/ 93]

    اس روایت میں ابن عاصم نے بالکل اسی طرح اپنے استاذ کو ثقہ کہا ہے جیسے مذکورہ روایت میں امام حاکم رحمہ اللہ نےاپنے استاذ کو ثقہ کہا ہے ۔
    یہ دیکھ کر علامہ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
    ومحمد بن مهدي الأيلي قد وثقه المصنف رحمه الله تعالى كما ترى وهذه فائدة عزيزة قد خلت منها كتب التراجم [ظلال الجنة 2/ 93]

    لہٰذا امید ہے کہ اب آپ یہ نہیں کہیں گے کہ ان کی توثیق ثابت نہیں ہے ۔
    مزید یہ بھی عرض ہے کہ متعدد محدثین نے ان کے ذریعہ مروی سند کو صحیح کہا ہے

    ملاحظہ ہو ان کی روایت کو صحیح کہنے والوں کے نام:

    امام حاکم رحمہ اللہ۔
    آپ اس کی ایک روایت کے بارے میں فرماتے ہیں:

    هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحُ الْإِسْنَادِ وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ [المستدرك على الصحيحين للحاكم 2/ 106]

    امام ذہبی رحمہ اللہ :
    مذکورہ روایت کو امام ذہبی رحمہ اللہ نے بھی صحیح کہا ہے[ تلخيص المستدرك على الصحيحين للحاكم 2/ 106]۔

    امام بغوی رحمہ اللہ :
    ملاحظہ ہو:2 [شرح السنة ـ للإمام البغوى :1/ 448]۔


    اورراوی کی روایت کو صحیح کہنا راوی کی توثیق ہوتی ہے:

    امام ابن القطان رحمہ اللہ فرماتےہیں:
    وَفِي تَصْحِيح التِّرْمِذِيّ إِيَّاه توثيقها وتوثيق سعد بن إِسْحَاق، وَلَا يضر الثِّقَة أَن لَا يروي عَنهُ إِلَّا وَاحِد، وَالله أعلم. [بيان الوهم والإيهام في كتاب الأحكام 5/ 395]

    حافظ ابن حجررحمہ اللہ فرماتے ہیں:
    قلت صحح ابن خزيمة حديثه ومقتضاه أن يكون عنده من الثقات [تعجيل المنفعة ص: 248]

    علامہ زیلعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
    فَكَذَلِكَ لَا يُوجِبُ جَهَالَةَ الْحَالِ بِانْفِرَادِ رَاوٍ وَاحِدٍ عَنْهُ بَعْدَ وُجُودِ مَا يَقْتَضِي تَعْدِيلَهُ، وَهُوَ تَصْحِيحُ التِّرْمِذِيِّ، [نصب الراية 1/ 149]

    علامہ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
    أن ضبة هذا قد وثقه ابن حبان، وقال الحافظ ابن خلفون الأندلسي: "ثقة مشهور"، وكذلك وثقه كل من صحّح حديثه؛ إما بإخراجه إياه في "الصحيح" كمسلم وأبي عوانة؛ أو بالنص على صحته كالترمذي. [سلسلة الأحاديث الصحيحة وشيء من فقهها وفوائدها 7/ 16]

    معلوم ہوا کہ کسی روای کی روایت کو صحیح کہنا اس کی توثیق ہے۔

    یہ آپ کی بہت بڑی غلط فہمی ہے میں‌ نے یہ کہیں‌ نہیں کہا کہ مجہول راوی کی روایت من گھڑت ہوتی ہے البتہ یہ ضرور کہا ہے کبھی کبھی بعض قرائن کی بنا پر مجہول ہی نہیں بلکہ ثقہ راویوں کی مرویات بھی من گھڑت ہوتی ہے جس تھریڈ کی طرف آپ نے اشارہ کیا ہے وہاں میں اس کی پیش مثال پیش کئے دیتاہوں، ملاحظہ فرمالیجئے گا۔



     
  16. کفایت اللہ

    کفایت اللہ ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏اگست 23, 2008
    پیغامات:
    2,017
    جس طرح تکبیر تحریمہ میں رفع الیدین کو کبھی نہیں چھوڑا گیا ہے باکل اسی طرح رکوع سے قبل اور بعد والے رفع الیدین کوبھی کبھی نہیں چھوڑا گیا ۔
    اس کے برخلاف آپ کی بات محض ایک دعوی ہے جس کی کوئی دلیل نہیں ۔
    اوراگردلیل ہے تو ’’تکبیرتحریمہ کےعلاوہ دیگر مقامات پرترک رفع الیدین کے دلائل‘‘ یا اس جیسے کسی عنوان کے تحت الگ تھریڈ میں آپ اپنی بات رکھیں۔



    عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے پاس پڑھنے گئے تھے مگر جب انہیں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی حدیث میں بے مائیگی کا پتہ چلا تو وہ فورا واپس آگئے ۔
    اور امام صاحب کی شاگردی کو ترک کردیا، بلکہ ان سے جو احادیث سنی تھیں انہیں بھی اپنی کتابوں‌ سے مٹا دیا ۔


    امام عبداللہ بن احمد رحمہ اللہ فرماتےہیں:
    حدثني أبو الفضل الخراساني ثنا إبراهيم بن شماس السمرقندي، ثنا عبد الله ابن المبارك بالثغر عن أبي حنيفة قال: فقام إليه رجل يكنى أبا خداش فقال: يا أبا عبد الرحمن لا ترو لنا عن أبي حنيفة فإنه كان مرجئاً فلم ينكر ذلك عليه ابن المبارك وكان بعد إذا جاء الحديث عن أبي حنيفة ورأيه ضرب عليه ابن المبارك من كتبه وترك الرواية عنه وذلك آخر ما قرأ على الناس بالثغر، ثم انصرف ومات، قال: وكنت في السفينة معه لما انصرف من الثغر وكان يحدثنا فمر على شيء من حديث أبي حنيفة فقال لنا: اضربوا على حديث أبي حنيفة فإني قد خرجت على حديثه ورأيه، قال: ومات ابن المبارك في منصرفه من ذلك الثغر. [ السنة :ج1 ص213 واسنادہ صحیح]۔

     
  17. ابوعکاشہ

    ابوعکاشہ منتظم

    رکن انتظامیہ

    شمولیت:
    ‏اگست 2, 2007
    پیغامات:
    15,954
    ما شاء اللہ ۔ ویسے محمد عاصم بھائی ، برا نہ مانیے گا ۔ کچھ سالوں کا تجربہ ہےکہ کچھ اہل علم ایسے بھی دیکھے ہیں‌کہ عموما حدیث پر بات کرتے ہوئے غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہیں ، یعنی حدیث کو بہت لائٹ لیتے ہیں‌۔ میرا خیال ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث بیان کرتے ہوئے مزاح اور سمائلز سے اجتناب کرنا چاہے ، ان شاء اللہ امید ہے کہ آپ بھی خیال رکھیں گئے ۔
     
  18. عامر اعوان

    عامر اعوان رکن اردو مجلس

    شمولیت:
    ‏جنوری 24, 2022
    پیغامات:
    7
    قالَ عبدُ اللَّهِ بنُ مسعودٍ : ألا أصلِّي بِكم صلاةَ رسولِ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ فصلَّى ، فلَم يرفع يديهِ إلَّا في أوَّلِ مرَّةٍ
    الراوي : عبدالله بن مسعود | المحدث : الألباني | المصدر : صحيح الترمذ
    الصفحة أو الرقم : 257 | خلاصة حكم المحدث : صحيح
    من الموسوعة الحديثية - الدرر السنية - https://dorar.net/h/4hAJO9J2
     
  19. عامر اعوان

    عامر اعوان رکن اردو مجلس

    شمولیت:
    ‏جنوری 24, 2022
    پیغامات:
    7
    ألَا أُصلِّي بكم صلاةَ رسولِ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم؟ فصلَّى, فلم يرفَعْ يدَيْهِ إلَّا في أوَّلِ مرَّةٍ.
    الراوي : عبدالله بن مسعود | المحدث : أحمد شاكر | المصدر : تخريج سنن الترمذ
    الصفحة أو الرقم : 2/40 | خلاصة حكم المحدث : صحيح
    من الموسوعة الحديثية - الدرر السنية - https://dorar.net/h/551naYmZ
     
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں