اپنے بھائی کو صدقہ الفطر دینا ؟

مون لائیٹ آفریدی نے 'آپ کے سوال / ہمارے جواب' میں ‏ستمبر 25, 2008 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. مون لائیٹ آفریدی

    مون لائیٹ آفریدی -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏ستمبر 22, 2007
    پیغامات:
    4,799
    صدقہ کس کو ، کس وقت اور کیا چیز دی جائے ?

    السلام علیکم ورحمتہ اللہ ۔۔۔۔۔۔۔
    سوال 1:
    کیا اپنے بھائی (مستحق ہو اور اس کی کفالت کا ذمہ اس پر نہ ہو ) کو صدقہ الفطر دینا جائز ہے ؟
    سوال 2:
    صدقہ الفطر عید سے ایک دن پہلے یا کہ رمضان کے کسی بھی دن دینا چاہئیے ؟
    سوال 3:
    کیا صرف مذکورہ چیزیں ہی دی جائیں گی یا کہ ان کے مقدار کے برابر پیسے بھی دئیے جاسکتے ہیں‌؟


    یہ سوالات میں نے چند روز پہلے بھی ارسال کیے تھے ، لیکن جب دیکھا تو کہیں بھی نہیں تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس لیے دوبارہ ارسال کررہا ہوں‌۔
     
  2. اعجاز علی شاہ

    اعجاز علی شاہ -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏اگست 10, 2007
    پیغامات:
    10,322
    وعلیکم السلام
    بھائی دوسے سوال کا جواب حاضر ہے:

    عيد سے ہفتہ قبل فطرانہ كى ادائيگى كرنا

    ميں نے عيد سے ہفتہ قبل ہى فطرانہ ادا كر ديا، كيا يہ فطرانہ كفائت كر جائيگا، اور اگر كفائت نہيں كريگا تو مجھے كيا كرنا ہوگا ؟

    الحمد للہ:

    اول:

    فطرانہ كى ادائيگى كے وقت ميں اہل علم كے كئى ايك اقوال ہيں:

    پہلا قول:

    عيد سے دو روز قبل ادا كيا جائے، مالكيہ، حنابلہ كا مسلك يہى ہے انہوں نے ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما كى درج ذيل حديث سے استدلال كيا ہے:

    ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ:

    " اور وہ عيد الفطر سے ايك يا دو دن قبل فطرانہ ادا كيا كرتے تھے "

    صحيح بخارى حديث نمبر ( 1511 ).

    اور بعض علماء كا كہنا ہے كہ: عيد سے تين روز قبل فطرانہ ادا كيا جائے.

    امام مالك رحمہ اللہ كہتے ہيں:

    " مجھے نافع نے بتايا كہ ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما فطرانہ دے كر فطرانہ جمع كرنے والے كے پاس عيد سے دو يا تين روز قبل بھيجا كرتے تھے "

    ديكھيں: المدونۃ ( 1 / 385 ).

    شيخ ابن باز رحمہ اللہ نے يہى قول اختيار كيا ہے.

    ديكھيں: مجموع الفتاوى ابن باز ( 14 / 216 ).

    دوسرا قول:

    رمضان المبارك كے شروع ميں ہى فطرانہ ادا كرنا جائز ہے، احناف كے ہاں اسى كا فتوى ہے، اور شافعيہ كے ہاں بھى يہى صحيح ہے.

    ديكھيں: كتاب الام ( 2 / 75 ) المجموع ( 6 / 87 ) بدائع الصنائع ( 2 / 74 ).

    ان كا كہنا ہے: اس ليے كہ فطرانہ كا سبب روزہ ركھنا اور روزے ختم ہونا ہے، اور جب دونوں سببوں ميں سے كوئى ايك پايا جائے تو اس ميں جلدى كرنى جائز ہے، جس طرح مال كى زكاۃ كى ادائيگى بھى پہلے كى جا سكتى ہے، كہ جب مال نصاب كو پہنچ جائے تو سال پورا ہونے سے قبل زكاۃ دينى جائز ہے.

    تيسرا قول:

    سال كے شروع ميں ہى فطرانہ ادا كرنا جائز ہے، يہ بعض احناف اور بعض شافعيہ كا قول ہے، ان كا كہنا ہے: اس ليے كہ يہ بھى زكاۃ ہے، تو يہ مال كى زكاۃ كى مشابہ ہونے كى بنا پر مطلقا پہلے ادا كرنا جائز ہے.

    ابن قدامہ رحمہ اللہ " المغنى " ميں لكھتے ہيں:

    " فطرانہ كے فرض ہونے كا سبب روزے ختم ہونا ہے، اس كى دليل يہ ہے كہ اس كى اضافت ہى اس ( يعنى روزے ) كى طرف كى گئى ہے، اور اس سے مقصود ايك مخصوص وقت ميں اس سے مستغنى ہونا ہے، اس ليے اس كى وقت سے پہلے ادائيگى جائز نہيں " انتہى.

    ديكھيں: المغنى ابن قدامہ المقدسى ( 2 / 676 ).

    شيخ محمد بن صالح العثيمين رحمہ اللہ سے دريافت كيا گيا:

    " ميں نے مكہ آنے سے قبل مصر ميں ہى رمضان كے شروع ميں فطرانہ ادا كر ديا تھا، اور اب ميں مكہ مكرمہ ميں مقيم ہوں، تو كيا ميرے ذمہ فطرانہ كى ادائيگى ہے ؟

    شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:

    جى ہاں آپ كے ذمہ فطرانہ كى ادائيگى ہے، كيونكہ آپ نے فطرانہ وقت سے قبل ادا كيا ہے، فطرانہ كى اضافت اس كے سبب كى جانب ہے، اور آپ چاہيں تو يہ بھى كہہ سكتے ہيں: اس كى اضافت اس كے وقت كى جانب ہے، اور ان دونوں صورتوں كى عربى لغت ميں وجوہات ہيں، اللہ تعالى كا فرمان ہے:

    " مكر الليل و النھار "

    يہاں كسى چيز كى اس كے وقت كى طرف اضافت ہے، اور اہل علم كا كہتے ہيں: باب السجود السہو، يہ كسى چيز كى اس كے سبب كى جانب اضافت ہے.

    تو يہاں فطرانہ كو فطر كى طرف مضاف كيا گيا ہے، كيونكہ يہ فطرانہ كا سبب ہے؛ اور اس ليے بھى كہ يہ فطرانہ كى ادائيگى كا وقت ہے، اور يہ تو معلوم ہى ہے كہ رمضان المبارك كے روزوں سے مكمل افطار، تو رمضان المبارك كے آخرى دن ہوتى ہے، اس ليے رمضان المبارك كے آخرى يوم كا سورج غروب ہونے سے قبل فطرانہ ادا كرنا جائز نہيں.

    ليكن عيد الفطر سے صرف ايك يا دو دن قبل فطرانہ ادا كرنے كى اجازت دى گئى ہے، وگرنہ فطرانہ كى ادائيگى كا حقيقى وقت تو رمضان المبارك كے آخرى روزے كا سورج غروب ہونے كے بعد ہى ہے؛ اس ليے كہ يہى وہ وقت ہے جس سے رمضان كا اختتام ہوتا اور عيد الفطر آتى ہے، اس ليے ہم كہينگے كہ:

    افضل يہى ہے كہ اگر ممكن ہو سكے تو آپ عيد الفطر كى صبح فطرانہ ادا كريں.

    ديكھيں: مجموع الفتاوى ابن عثيمين زكاۃ الفطر سوال نمبر ( 180 ).

    دوم:

    آپ كے ليے رمضان المبارك كے شروع ميں ہى كسى خيراتى تنظيم يا بااعتماد شخص كو اپنى جانب سے فطرانہ كى ادائيگى كا وكيل بنانا جائز ہے ليكن شرط يہ ہے كہ وكيل عيد سے ايك يا دو دن قبل آپ كا فطرانہ تقسيم كرے، كيونكہ مشتحقين فقراء اور مساكين كو زكاۃ اور فطرانہ دينا ہى شرعى زكاۃ اور شريعت نے اس كى وقت كو مقيد كرتے ہوئے عيد سے ايك يا دو روز قبل مقرر كيا ہے.

    اور فطرانہ كى ادائيگى ميں كسى كو وكيل بنانا يہ نيكى و تقوى ميں تعاون كے باب ميں شامل ہوتا ہے، اور اس كے ليے كوئى وقت مقرر نہيں.

    اس كى تفصيل سوال نمبر ( 10526 ) كے جواب ميں بيان ہو چكى ہے آپ ا س كا مطالعہ كريں.

    حاصل يہ ہوا كہ: آپ كا عيد سے ايك ہفتہ قبل فطرانہ ادا كرنا كفائت نہيں كريگا، اس ليے آپ فطرانہ دوبارہ ادا كريں، ليكن اگر آپ نے كسى خيراتى تنظيم وغيرہ كو ديا كہ وہ آپ كى جانب سے وقت پر عيد سے ايك يا دو دن قبل فطرانہ تقسيم كر ديں، تو آپ اپنى جانب سے حق ادا كر ديا، اور يہ فطرانہ ان شاء اللہ صحيح اور مقبول شمار ہو گا.

    واللہ اعلم .



    الاسلام سوال و جواب

    باقی کا تحقیق کے بعد ان شاء اللہ
     
  3. اعجاز علی شاہ

    اعجاز علی شاہ -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏اگست 10, 2007
    پیغامات:
    10,322
    بھائی میرے پاس اقبال گیلانی حفظہ اللہ کی کتاب "روزوں کے مسائل" ہے۔ اس میں لکھا ہے کہ صدقہ فطر کے مستحق وہی لوگ ہیں جو زکوۃ کے مستحق ہیں۔ آپ کو یہ مسئلہ زکوۃ میں دیکھنا پڑے گا۔
     
  4. اعجاز علی شاہ

    اعجاز علی شاہ -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏اگست 10, 2007
    پیغامات:
    10,322
    پیسے دینا ٹھیک نہیں:

    "عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں نقدی روپئے پیسے دراہم ودینار پائے جاتے تھے پھر بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو صدقہ فطر میں ایک صاع غلہ نکالنے کا حکم دیا اور انہیں غلہ اور قیمت کے درمیان کوئی اختیار نہیں دیا اس لئے معلوم ہوا کہ صدقہ فطر میں روپیے پیسے ادا کرنا صحابہ کرام کے عمل کے خلاف ہے کیوں‌کہ وہ لوگ ایک صاع (25۔2 سیر) غلہ نکالتے تھے اور فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے : میری سنت اور میرے بعد خلفائے راشدین کے طریقے کو تھامے رکھنا اور اس پر مضبوطی سے جمے رہنا نیز دین میں پیدا کی گئ نئی نئی باتوں سے بچنا کیوں‌کہ ہر نئی بات بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے (مسند احمد/ سنن ابی داواد/ سنن ترمذی/ سنن ابن ماجہ ودیگر کتب احادیث)"
    (استقبال رمضان : جمع وترتیب مکتب توعیہ الجالیات بالمجمعہ / ترجمہ: ابوعدنان محمد طیب بھواروی)
     
  5. دانیال ابیر

    دانیال ابیر محسن

    شمولیت:
    ‏ستمبر 10, 2008
    پیغامات:
    8,415
    میرا سوال یہ کہ فی زمانہ ہم جو فطرہ نکالتے ہیں وہ اتنا قلیل ہوتا ہے کہ صرف رسم رہ جاتا ہے اس مہنگائی کے دور میں ہمارے نکالے ہوئے فطرہ سے کسی کی تشفی یا مدد نہیں ہو سکتی ہے

    میرا پوچھنا یہ کہ اگر ہماری حیثیت اللہ کے فضل و کرم سے بہتر ہے تو کیا ہم زکوہ کی طرح فطرہ بھی زیادہ نہیں نکال سکتے ہیں ؟
     
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں