ریچل کوری فلسطینی حقوق کی خاظر جان دینے والی امریکی رضا کار

الطائر نے 'مضامين ، كالم ، تجزئیے' میں ‏مئی 8, 2012 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. الطائر

    الطائر رکن اردو مجلس

    شمولیت:
    ‏جنوری 27, 2012
    پیغامات:
    273

    :rosee:​

    R.I.P​





    ریچل کوری فلسطینی حقوق کی خاطر جان دینے والی امریکی رضا کار​

    محمود عالم صدیقی​

    ٹرکش فلوٹیلا کئی بحری جہازوں کا ایک بحری بیڑہ تھا، جو غزہ کے مظلوم محصورین کے لئے امداد لے کر جا رہا تھا۔ ان جہازوں میں سے ایک کا نام ''ریچل کوری'' تھا، جو اس عظیم 23 سالہ امریکی مجاہدہ کے نام پر رکھا گیا گیا تھا جو 16 مارچ 2003ء کو اس اسرائیلی بلڈوزر کو روکنے کی کوشش میں ماری گئی جو کہ ایک فلسظینی کا گھر مسمار کرنے کے لئے آگے بڑھ رہا تھا۔ جرات اور دلیری کے ساتھ وہ نہتی لڑکی لڑکی بین الاقوامی تحریک یکجہتی (International Solidarity Movement ) کی پُرامن مزاحمت کی جدو جہد میں اسرائیلی درندگی کو روکنے کی کوشش میں صیہونی درندگی کا شکار ہو گئی۔

    سوانح حیات:
    ریچل کوری 10 اپریل 1979ء کو ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی ریاست واشنگٹن کے قصبے اولمپیا(Olympia ) میں پیدا ہوئی۔ اس کے والد کریگ ایک بیمہ کمپنی میں بحیثیت افسر مالزم تھے۔ اس کی والدہ کا نام سنڈی تھا۔ سنڈی کے مظابق اس کے گھرانے کے لوگ اوسظ درجے کے امریکی باشندے تھے جو سیاسی طور پر روشن خیال، معاشی طور پر قناعت پسند تھے اور متوسط درجے کے شہری تھے۔

    ہائی سکول کا امتحان پاس کر کے ریچل کوری نے ایور گرین اسٹیٹ کالج میں داخلہ لیا جو اولمپیا ہی میں تھا۔ وہاں اس نے فنِ مصوری کی کئی کلاسوں میں داخلہ لیا۔ وہ کالج سے ایک سال کی رخصت لے کر واشنگٹن کے ریاستی تحفظ کے دستے میں بحیثیت رضاکار شامل ہو گئی۔ دیگر رضاکارانہ خدمات میں ذہنی امراض میں مبتلا مریضوں کی ہفتہ وارتیمارداری اور دیکھ بھال بھی شامل تھی۔ اپنے آخری تعلیمی سال میں اس نے ایک آزادنہ جائزہ پروگرام شروع کرنے کی تجویز پیش کی جس کے تحت اس نے غزہ پہنچ کر بین الاقوامی یک جہتی تحریک کے احتجاجی مظاہرہرین میں شامل ہونے اور اولمپیا اور رٖحہ کو جڑواں شہر قرار دینے کا منصوبہ شروع کرنے کا آغاز کر دیا۔ غزہ روانگی سے قبل اس نے اولمپیا اور رفحہ کے بچوں کے مابین دوستی کا سلسلہ بھی شروع کرا دیا۔

    اس کے ساتھی اس کی شخصیت کو سادہ اور دلکش قرار دیتے ہیں جو دکھاوے اور بناوٹ سے پاک تھی۔ وہ بڑے مجمع میں الگ تھلگ اور محتاط رہتی تھی، لیکن قریبی ساتھیوں میں بہت جلد گھل مل جاتی تھی۔ اس کے کمرے میں رہائش پذیر اس کی ساتھی (Colun Rease) نے بتایا کہ ریچل کوری مصنفہ اور مصورہ بننا چاہتی تھی۔ وہ کوئی انتہائی سلیقہ شعار یا وقت کی پابند لڑکی نہیں تھی، مگر جب بھی قیام امن کے لئے کام کرنے کا وقت ہوتا تو وہ سب سے زیادہ مستعد ی اور سب سے زیادہ محنت سے اوردوسروں سے زیادہ طویل عرصے تک کام میں مصروف رہتی۔

    وہ 22 جنوری 2003ء کو بذریعہ ہوائی جہاز فلسطین پہنچ کر دریائے اردن کے مغربی کنارے پر واقع تحریک کے صدردفتر میں دو روزہ تربیت حاصل کرنے کے بعد مظاہروں میں شریک ہونے رفحہ روانہ ہو گئی۔ تربیت کے دوران کوری نے براہ راست کروائی کے حربے سیکھے۔ اسے ایذا رسانی سے گریز کے بنیادی اصول سکھائے گئے جن میں چمکدار جیکٹ پہننا، دوڑنے سے گریز کرنا، آرمی کو خوفزدہ نہ کرنا اور میگافون کے ذریعے رابطہ قائم کرنے کی کوشش کرنا شامل تھے۔ 27 جنوری 2003ء کو کوری اور اس کی اولمپیا کی ساتھی ولیلم ہیوٹ سفر کر کے ایرض (Erez) کی چوکی کے ذریعے غزہ میں داخل ہوئیں۔

    رفحہ پہنچ کر کوری نے اسرائیلی بکتر بند بلڈوزروں کے ذریعے فلسطینی گھروں کو مسمار کرنے کے اسرائیلی اقدامات کے خلاف مکانات کو بچانے کے لئے انسانی دیوار قائم کرنے کی کوشش کی۔

    وہاں اپنے قیام کی پہلی رات کوری نے اپنے دو ساتھی رضاکاروں کے ہمراہ بلاک جے میں اپنا کیمپ قائم کر دیا، جہاں اکثر اسرائیلی فوجی فائر کرتے رہتے تھے۔ان کے خیمے پر اور اس سے چند فٹ کے فاصلے پر زمین پر بھی اسرائیلیوں نے فائر کئے۔ یہ سوچ کر کہ ان کی موجودگی سے اسرائیلی فوجی اشتعال میں آ رہے ہیں ، کوری اور اس کے ساتھیوں نے عجلت میں اپنے خیمے اکھاڑ دئے اور یہ جگہ چھوڑ دی۔ قشطا(Qishta) نامی ایک فلسطینی نے جو ترجمانی کے فرائض انجام دے رہا تھا ، یہ بات بتائی کہ جنوری کے اواخر اور فروری کے مہینے انتہائی تکلیف دہ اور بے بسی کے ہوتے ہیں۔ پوری سرحدی پٹی پر مکانوں کو مسمار کیا جا رہا ہوتا ہے اور سرگرم اور فعال رضا کار کچھ بھی نہیں کر پاتے۔ بین الاقوامی تحریک یکجہتی کے سر گرم رضاکاروں کے بارے میں قشطا نے بتایا کہ وہ نہ صرف بہت بہادر اور پرجوش اور جنونی بھی ہوتے ہیں۔ اسرائیلیوں سے ان کی محاذ رائی کے دوران ان کو ضرر اور تکلیف ضرور پہنچتی ہے۔ ایک برطانوی رضا کار بم کے ٹکڑے کی زد میں آ کرزخمی بھی ہو گیا تھا۔

    فلسطینی جنگجوؤں نے اس بات پر تشویش ظاہر کی تھی کہ یہ بین الاقوامی تحریک یکجہتی کے کارکن جو اسرائیل کے قائم کردہ نگرانی کے ٹاوروں اور قریبی رہائیشی بستیوں کے درمیان خیمے قائم کرکے رہ رہے ہیں، فائرن کی زد میں آ سکتے ہیں، جبکہ راہئیشی باشندوں کو یہ خطرہ لا حق تھا کہ یہ نوجوان رضاکار جاسوس بھی ہو سکتے ہیں۔ کوری نے اپنے بارے میں لوگوں کے یہ شبہات دور کرنے کے لئے انتھک کوشش کی۔ عربی کے الفاظ بھی سیکھے اور بس انتظامیہ کے جرائم کے بارے میں ایک فرضی عدالت قائم کر کے ان کی مذمت بھی کی۔ رفتہ رفتہ فلسطینی ان کے قریب آ گئے، ان کو اپنے گھروں میں لے گئے اور کھانا اور بستر بھی فراہم کرنے لگے۔

    لیکن تھوڑے ہی دنوں میں رفحہ میں ایک خط گشت کرنے لگا۔ (غالباً یہ حرکت اسرائیلیوں کی تھی) جس میں اس تحریک کے رضاکاروں پر دوبارہ شک کا اظہار کیا گیا تھا کہ یہ کون لوگ ہیں اور یہاں کیوں آئے ہیں؟ یہ واقعہ کوری کی ہلاکت سے چند دن پہلے کا ہے۔ اس خط کے متن سے رضاکاروں کو بہت دُکھ پہنچا اور وہ مایوس نظر آنے لگے۔ جس روز کوری کی موت واقع ہوئی، اس روز صبح کے وقت انھوں اس خط کے اثرات کو زائل کرنے کے لئے منصوبہ بندی کی۔ ان میں سے ایک نے کہا: ''ہم سب یہ محسوس کر رہے تھے کہ ان کا کردار موثر کُن اور فعال نہیں ہے، چنانچہ ہم نے اسرائیلی فوج کے خلاف مزاحمت تیز کرنے کے بارے میں غور کرنا شروع کر دیا ہے''۔

    14 مارچ 2003ء کو مشرق وسطیٰ کے نشریاتی نیٹ ورک کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے کوری نے کہا:
    میں یہ محسوس کر رہی ہوں کہ میں لوگوں کے زندہ رہنے کی صلاحیت کو منظم طور پر تباہ و برباد ہوتے ہوئے خاموش تماشائی کی حیثیت سے دیکھ رہی ہوں۔ بعض اوقات لوگوں کے ساتھ کھانا کھاتے وقت اس بات کا ادراک ہوتا ہے کہ ہمارے ارد گرد بہت بڑی تعداد میں فوجی مشینیں ان لوگوں کو ختم کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں جن کے ساتھ میں کھانا کھا رہی ہوں''۔

    پانی کا کنواں اور انسانی تحفظ کی کوششیں:
    جنوری میں شائع ہونے والے گولڈن مرے(Golden Murrey) کے ایک مضمون میں یہ بتایا گیا کہ ریچل کوری نے اپنی زندگی کے آخری مہینے میں زیادہ تر وقت رفحہ کے کے ان بلدیاتی کارکنوں کی حفاظت کرتے ہوئے گزارا جو 1999ء میں کینیڈا کی طرف سے تعمیر کردہ کنویں کی مرمت کا کام سر انجام دے رہے تھے جسے اسرائیلی بلڈوزروں نے نقصان پہنچایا تھا۔ کینیڈا کی بین الاقوامی ترقیاتی ایجنسی کی امداد سے تعمیر ہونے والے والا یہ کنواں اور ال اسکان ((El Iskan کا کنواں رفحہ کی پچاس فی صد سے زیادہ پانی کی ظروریات پوری کرتا تھا، اس کی تباہی کے بعد ، پانی کی قلت کے سبب پانی کی راشن بندی کر دی گئیاور ہر دوسرے روز صرف چند گھنٹوں کے لئے لوگوں کو پانی فراہم کیا جانے لگا۔

    مرے لکھتی ہے کہ مرمت کرنے والے کارکنوں پر اسرائیلی فوجیوں کے چھپ کر گولیاں چلانے اور ٹینکوں کی گولہ باری کے باوجود بین الاقوامی یکجہتی تحریک کے کارکنان ان کی حفاظت کے لئے ہر وقت وہاں موجود رہتے تھے۔ کوری نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا تھا کہ اسرائیل کے ظلع کمان کے دفتڑ سے اجازت حاصل کرنے اور بڑے بڑے بینروں اور میگافون سے رابطوں کے باوجود تحریک کے کارکنوں اور مرمت کرنے والوں پر ایک گھنٹے میں کئی کئی بار گولیاں چلائی جاتی تھیں۔ ان میں سے ایک گولی تو تین بین الاقوامی کارکنوں سے صرف دو میٹر کے فاصلے پر گری اور ایک بلدیاتی کارکن کے چہرے پر ملبے کی مٹی کے چھینٹے پڑے کیوں کہ گولی اس کے پیروں کے پاس گری تھی۔ مرے کے مطابق کینیڈا کی حکومت نے سرکاری طور پر اسرائیلی کاروائیوں پر احتجاج کرنے یا اس کی مذمت کرنے سے انکار کر دیا تھا لیکن وہ خاموشی سے اس کی مرمت کے اخراجات کی مد میں جو پینتالیس لاکھ ڈالر کے قریب تھے ، مدد کرنے پر تیار ہو گئی تھی۔

    عراق پر حملے کے خلاف بطور احتجاج امریکی پرچم نذرِ آتش:
    15 فروری 2003ء کو غزہ میں ریچل کوری نے عراق کے خلاف جنگ مخلاف مظاہروں میں حصہ لیا، جہاں ایک علامتی امریکی پرچم کو نذرِ آتش کرتے ہوئے اس کی تصویر لی گئی۔ رابرٹ سپنسر نے اس بات پر کوری پر تنقید کی ہے کہ اس نے بچوں کے سامنے امریکی پرچم کو جلا کر امریکہ کے خلاف نفرت پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس کی موت کے بعد بین الاقوامی تحریک یکجہتی اور کوری کے والدین نے اس واقعے ک تصویر کے بارے میں وضاحت کرتے ہوئے بیان دیا جس میں اسے امریکی پرچم نذرِ آتش کرتے ہوئے دکھایا گیا تھا اور جس کی تشہیر بڑے پیمانے پر کی گئی تھی۔

    اس تصویر کی تشہیر کا مقصد صرف یہ تھا کہ بلڈوزر کے ذریعے ریچل کوری کو کچلنے کی کاراوائی کو حق بجانب قارا دیا جائے ، کیوں کہ اس قسم کی احتجاجی کاروائیوں کا شمار جن میں قومی پرچم کا جلایا جانا بھی شامل ہے، سنگین جرائم میں ہوتا ہے۔ ریچل کوری کے والدین کے الفاظ میں یہ فعل جس سے ہم اتفاق نہیں کرتے، سیاق و سباق میں دیکھا جائے۔ ''ریچل ، عراق کے خلاف جنگ کی مخالفت میں غزہ میں ایک مظاہرے میں شریک تھی۔ وہ ان بچوں کے ساتھ تھی جنھوں نے دو تصویریں ہاتھ سے بنائی تھیں، ان میں ایک امریکی اور دوسرا اسرائیلی پرچم تھا۔ وہ اسرائیلی پرچم کو اس لئے نہیں جلا سکی کہ اس پر حضرت داؤد کا علامتی ستارہ بنا ہوا تھا۔ لیکن ان حالات میں جنگ کی مخلافت میں اپنے ملک کی خارجہ پالیسی کے خلاف بطور احتجاج، جس کی وجہ سے یہ تباہی و بربادی ہوئی اور جس کا مشاہدہ اس نے خود غزہ میں کیا تھا، ہم نے ریچل کوری کی موت کے بعد، غزہ میں اس کی یاد میں ہونے والے یادگاری مناظر کی وہ تصاویر دیکھیں جن میں فلسطینی بچے اور بڑے ہماری بیٹی کی تعظیم میں ایک نقلی تابوت کو امریکی پرچم میں لپیٹے ہوئے گشت کرتے دکھائے گئے ہیں۔ ہمارے علم میں یہ بات بھی لائی گئی کہ غزہ میں گزشتہ کئی برسوں میں اس پہلے ہمارے پرچم کو اتنا اعزاز کبھی نصیب نہیں ہوا۔ ہمیں یقین ہے کہ ریچل نے فلسطینی عوام کے سامنے امریکا کا ایک دوسرا رُخ پیش کیا ہے جو انسانی ہمدردی اور دوسروں کے دُکھوں میں شریک ہونے والوں کارُخ ہے۔ ہمیں امید ہے کہ امریکی پرچم کے ساتھ ریچل کی یہ شبیہ ہمیشہ یاد رکھی جائے گی''۔

    غزہ سے کوری کی اپنی والدہ کے نام ای میل:
    کوری جب غزہ میں تھی تو اس نے اپنی والدہ کو کئی ای میل روانہ کی تھیں۔ جن میں سے چار کو گارجین نے صفحہ نمبر 2 پر تبصرے اور مضامین کے حصے میں 18 مارچ 2003ء کو شائع کیا۔ جنوری 2008ء میں ڈبلیو ڈبلیو مارٹن اینڈ کمپنی نے ایک یادگاری کتاب بعنوان '' مجھے تنہا ہی کھڑا رہنے دو'' (Let me Stand Alone) میں اس کی دیگر تحریریں شائع کیں۔ پروڈیوسر برو موچ (DaviD Bromwich) نے بیان کیا کہ'' ریچل کوری نے اہم موضوع پر خطوط لکھ چھوڑے ہیں اور اس نے مہاتما گاندی اور مارٹن لوتھر کنگ کی تعلیمات پر عمل کیا ہے''۔ کوری نے اپنی والدہ کو لکھا تھا:
    ''اس وقت فلسطینیوں کی ایک بڑی اکثریت میرے علم کے مطابق گاندھی کے عدم تشدد کے مزاحمتی فلسفےپر عمل پیرا ہے''۔

    اس کے خطوط پر مبنی ایک تھیٹر ڈراما '' میارا نام ریچل کوری ہے'' تیار کیا گیا تھا اور اس کے خطوط کے کچھ حصے ،ایک غنائیہ پیش کش (آسمان رو رہے ہیں'' (The Skies are Weeping) میں بھی استعمال کئے گئے ۔

    کوری کی موت کے بارے میں متنازع واقعات و بیانات:
    16 مارچ 2003ءکو رفحہ کے پناہ گزین کیمپ اور مصر کی سرحد کے درمیان اسرائیلی بلڈوزر مکانات مسمار کرنے میں مصروف تھے۔ اسرائیلی مشین آپریٹر کا کہنا تھا کہ یہ کاروائی اس لئے ضروری ہے تاکہ چھاپہ ماروں کے ٹھکانے اور اسمگلنگ کی سرنگیں تباہ کی جا سکیں۔ اس دن کو ری بین الاقوامی تحریک یکجہتی کے سات فعال رضاکاروں (جن میں سے تیس برطانوی اور چار امریکی تھے) کے ایک گروہ میں شامل تھی جو اسرائیلی بلڈوزروں کی راہ میں فلسطینیوں کے مکانات مسمار کرنے کی کاروائیوں کو روکنے کی کوشش کر رہا تھا۔ کوری ایک کیٹر پلر بکتر بند بلڈوزر کے رستے میں حائل ہو کر اسے روکنے کی کوشش کر رہی تھی کہ اسرائیلی آپریٹر نے اس پر بلڈوزر چڑھا دیا جس سے کوری شدید زخمی ہو گئی ۔ اسے فوری طور پر ایک فلسطینی ہسپتال پہچاکیا گیا۔ اس بارے میں مختلف آراء ہیں کہ وہ موقع پر ہی دم توڑ گئی تھی یا ایمبولینس میں اس کی موت ہوئی یا ہسپتال پہنچ کر اس کا انتقال ہوا۔

    یکجہتی تحریک کے ایک عینی شاہد کا بیان ہے کہ بلڈوزر چلانے والے اسرائیلی فوجی نے جان بوجھ کر کوری پر اپنا بلڈوزر چڑھا دیا تھا ، جبکہ وہ ایک مقامی دوا فروش سمیر نصر اللہ کے مکام کو مسمار ہونے سے بچانے کے لئے انسانی دیوار کی حیثیت سے اسے روکنے کی کوشش میں مصروف تھی۔ اس عینی شاہد نے بتایا کہ کوری بلڈوزر اور نصراللہ کے مکان کے قریب ایک دیوار کے درمیان حائل تھی۔ نصراللہ کے گھر میں یہ رضاکار کئی راتیں بسر کر چکے تھے۔ اسرائیلی حکومت اور فوج نے واقعات کے بارے میں عینی شاہدوں کے بیانات کی تردید کرتے ہوئے کوری کی موت کو ایک حادثہ قرار دیا ہے۔ اسرائیل کے سرکاری بیان میں کہا گیا ہے کہ کوری اس ملبے تلے دب کر ہلاک ہوئی تھی جسے بلڈوزر نے دھکیلا تھا اور ڈرائیور اس کو نہ دیکھ پایا کیوں کہ وہ اپنا برش صاف کر رہا تھا، اور جس وقت کوری اس کے راستے میں حائل تھی وہ مکانات کو مسمار کرنے کے کام میں مصروف نہیں تھا۔ یہ نتیجہ جون 2003ء میں اسرائیلی دفاعی فوج کے جج ایڈووکیٹ کے دفتر سے جاری ہونے والی اس واقعے کی تفتیشی رپورٹ میں اخذ کیا گیا تھا۔ ایک فوجی ترجمان نے یروشلم ہوسٹ کو بتایا کہ بلڈوزر کے ڈرائیور نے نہ تو اسے دیکھا اور نہ ہی اس کی کوئی آواز سنی۔ وہ ملبے کے ہیچھے کھڑی تھی اور ڈرائیور کی نظر سے اوجھل تھی، کیوں کہ ڈرائیور ایک حفاظتی پنجرے میں بند ہو کر کام کرتا ہے اور باہر دیکھنے کے لئے اس کے پاس بہت ھوٹی سی کھڑکی ہوتی ہے۔ دوسری رپورٹوں میں یہ کہا گیا ہے کہ اسرائیل نے الزام عاید کیا ہے کہ جس مکان کو مسمار کیا جارہا تھا اس میں ایک سرنگ بنائی گئی تھی جو مصر سے اسلحہ اسمگل کرنے کے لئے استعمال ہو رہی تھی۔
     
  2. محمد آصف مغل

    محمد آصف مغل -: منتظر :-

    شمولیت:
    ‏نومبر 18, 2011
    پیغامات:
    3,847
    اللہ تعالیٰ اس بات پر قادر ہے کہ جس سے چاہے اپنے دین کا کام لے لے۔ میرے جیسے ’’نام نہاد‘‘ بیٹھے رہیں تو اس میں ’’رب العزت‘‘ کو معاذ اللہ استغفر اللہ ہرگز ہرگز دوش نہیں دیا جا سکتا۔
     
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں