جنت کے پتے از نمرہ احمد ۔۔۔ پسندیدہ اقتباسات

dani نے 'نثری ادب' میں ‏ستمبر 6, 2012 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. dani

    dani نوآموز.

    شمولیت:
    ‏اکتوبر، 16, 2009
    پیغامات:
    4,329
    جنت کے پتے نمرہ احمد کا نیا ناول ہے ۔ اس سے میرے پسندیدہ اقتباسات

    (1)​

    'مگر میں اس غم کا کیا کروں جو میرے اندر سلگ رہا ہے؟'

    'تمہارے پرانے مسئلے حل ہو گئے مگر نئے مسئلوں نے تمہیں اتنا الجھا دیا کہ تمہارے پاس ان بھولے بسرے مسئلوں سے نکلنے پر اللہ کا شکر ادا کرنے کا وقت ہی نہیں رہا۔'

    واقعی اس کے وہ سارے مسئلے حل ہو گئے تھے۔ اس نے کبھی سوچا ہی نہیں۔

    ’ہر شخص کی زندگی میں ایسا لمحہ آتا ہے جب وہ تباہی کے دہانے پر کھڑا ہوتا اور اس کے راز کھلنے والے ہوتے ہیں اور اس وقت جب وہ خوف کے کوہ طور پر کھڑا کپکپا رہا ہوتا ہے تو اللہ اسے بچا لیتا ہے ۔ یہ اللہ کا احسان ہے۔ ہم بھول جاتے ہیں وہ نہیں بھولتا۔ تم اپنے مسئلے کے حل کلئےا اس کا شکر ادا کیا کرو جو ساری زندگی تمہارے مسئلے حل کرتا آیا ہے وہ آگے بھی کر دے گا۔ تم وہی کرو جو وہ کہتا ہے پھر وہ وہی کرے گا جو تم کہتی ہو ۔ پھر جن کے لئے تم روتی ہو وہ تمیارے لئے روئیں گے مگر تب تمہیں فرق نہیں پڑے گا۔‘

    ’ میرا لائف سٹائل بہت مختلف ہے میں ان چیزوں سے خود کو ریلیٹ نہیں کر پاتی ۔ لمبی لمبی نمازیں،تسبیحات یہ سب کچھ نہیں ہوتا مجھ سے۔ میں عائشے گل نہیں بن سکتی۔ میں ان چیزوں سے بہت دور آ گئی ہوں ‘
    ’ دور ہمیشہ ھم آتے ہیں اللہ وہیں ہے جہاں پلے تھا ۔ فاصلہ پیدا ہم کرتے ہیں اور اس کو مٹانا بھی ہمیں ہوتا ہے ۔‘

    حلیمہ آنٹی کیا کؤمیرے سارے مسئلے حل ہو جائیں گے؟

    ’پہلے جس نے حل کئے تھے وہ اب بھی حل کرے گا۔ حیا ! لوگ کہتے ہیں زندگی میں یہ ضروری ہے وہ ضروری ہے میں تمہیں بتاؤں زندگی میں کچھ بھی ضروری نہیں ہوتا نہ مال، نہ اولاد، نہ رتبہ نہ لوگوں کی محبت ۔ بس آپ ہونے چاہئیں اور آپ کا اللہ سے ہر لمحہ بڑھتا ہوا تعلق ہونا چاہیئے ۔ باقی یہ مسئلے تو بادل کی طرح ہوتے ہیں ۔جہاز کی کھڑکی سے نیچے کوئی بادل تیرتا دیکھا ہے؟ اوپر سے دیکھو تو وہ کتنا بے ضرر لگتا ہے مگر جو اس بادل تلے کھڑا ہوتا ہے نا اس کا پورا آسمان بادل ڈھانُ لیتا ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ روشنی ختم ہو گئی اور دنیا تاریک ہو گئی۔ غم بھی ایسے ہوتے ہیں ۔ جب زندگی پہ چھاتے ہیں تو سب تاریک لگتا ہے لیکن اگر تم زمین سے اٹھ کر دیکھو تو تم جانو گی کہ یہ تو ایک ننھا سا ٹکڑا ہے جو ابھی ہٹ جائے گا ۔ اگر یہ سیاہ بادل زندگی پہ نہ چھائیں نا حیا تو ہماری زندگی میں رحمت کی کوئی بارش نہ ہو۔‘
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
  2. irum

    irum -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏جون 3, 2007
    پیغامات:
    31,578
    بہترین اقتباس


    جزاک اللہ خیرا
     
  3. فرینڈ

    فرینڈ -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏مئی 30, 2008
    پیغامات:
    10,709
  4. dani

    dani نوآموز.

    شمولیت:
    ‏اکتوبر، 16, 2009
    پیغامات:
    4,329
    وایاک
     
  5. dani

    dani نوآموز.

    شمولیت:
    ‏اکتوبر، 16, 2009
    پیغامات:
    4,329
    (۲)
    ’’ تم نے پوچھا تھا میں سکارف کیوں لیتی ہوں؟ میں یہ اس لئے کرتی ہوں کیونکہ میں اللہ کو ایسے اچھی لگتی ہوں ۔ ‘‘

    وہ اب چھرے کی نوک سے لکڑی کے کنارے میں خم ڈال رہی تھی۔

    ’’لڑکیاں سمندر کی ریت کی مانند ہوتی ہیں حیا ! عیاں پڑی ریت ، اگر ساحل پہ ہو تو قدموں تلے روندی جاتی ہے اور اگر سمندر کی تہہ میں ہو تو کیچڑ بن جاتی ہے۔ لیکن اسی ریت کا وہ ذرہ جو خود کو ایک مضبوط سیپ میں ڈھک لے ،وہ موتی بن جاتا ہے۔ جوہری اس ایک موتی کے لئے کتنے ہی سیپ چنتا ہے اور پھر اس موتی کو مخملیں ڈبوں میں بند کر کے محفوظ تجوریوں میں رکھ دیتا ہے ۔ دنیا کا کوئی جوہری اپنی دکان کے شو کیس میں اصلی جیولری نہیں رکھتا۔ مگر ریت کے ذرے کے لئے موتی بننا آسان نہیں ہوتا، وہ ڈوبے بغیر سیپ کو کبھی نہیں پا سکتا ۔ ‘‘

    (۳)

    ابھی اس نے پرفیوم کی شیشی اٹھائی ہی تھی ، بہارے عقب میں زور سے چیخی ۔

    ’ یہ کیا کر رہی ہو؟‘‘


    کیا ؟ وہ اس کے اچانک چلانے پر ڈر کر پلٹی۔

    تم باہر جانے سے پہلے پرفیوم لگا رہی ہو ؟ بہارے نے بے یقینی سے پوری آنکھیں کھول کر اسے دیکھا۔

    آ۔۔۔ ہاں ۔۔ کیا ہوا؟

    عائشے گل کہتی ہے اچھی لڑکیاں باہر جانے سے پہلے اتنا تیز پرفیوم نہیں لگاتیں۔ تم یہ باڈی اسپرے لگا لو مگر پرفیوم نہیں۔ اللہ تعالی ناراض ہوتا ہے ۔

    وہ بہت خفگی سے ڈانٹتی حیا کے ساتھ آ کھڑی ہوئی اور پھر ایڑیاں اونچی اٹھا کر خود کو آئینے میں دیکھتی سر پہ اسکرف لپیٹنے لگی۔

    حیا نے ایک ہاتھ میں پکڑے پرفیوم کو دیکھا اور پھر ذرا سا خفت سے اسے واپس رکھ کر باڈی مسٹ اٹھا لیا ۔


     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
  6. ابو ابراهيم

    ابو ابراهيم -: رکن مکتبہ اسلامیہ :-

    شمولیت:
    ‏مئی 11, 2009
    پیغامات:
    3,871
    بہترین اقتباس
     
  7. irum

    irum -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏جون 3, 2007
    پیغامات:
    31,578
    جزاک اللہ خیرا
     
  8. عائشہ

    عائشہ ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏مارچ 30, 2009
    پیغامات:
    24,484
    اچھی حیلہ سازی ہے۔ اصحاب السبت کی طرح دریا سے مچھلیاں پکڑنی منع ہیں تم نہریں نکال لو ، اور مچھلیاں پکڑ لو۔
    اسلامی حکم یہ ہے کہ عورت کے لئے خوشبو لگا کر باہر نکلنا منع ہے ۔ ہلکی یا تیز نہیں سرے سے خوش بو لگا کر نکلنا منع ہے ۔ پرفیوم ہو یا ڈیوڈرنٹ یا باڈی سپرے سب منع ہیں ۔
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
  9. dani

    dani نوآموز.

    شمولیت:
    ‏اکتوبر، 16, 2009
    پیغامات:
    4,329
    جزاک اللہ خیرا میرا دھیان نہیں گیا ۔ ویسے یہ اپر کلاس اتنا بھی کر لے بڑی بات ہے
     
  10. عائشہ

    عائشہ ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏مارچ 30, 2009
    پیغامات:
    24,484

    وایاک ۔
    بعض دینی احکام میں مالی استطاعت کا خیال رکھا گیا ہے مثلا زکوۃ اور حج کی فرضیت ، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہر دینی حکم میں مال دار کو کوئی خصوصی سہولیات حاصل ہیں ۔ عورت کے لیے خوش بو لگا کر نکلنے کی ممانعت کی تما احادیث کو دیکھیں تو واضح ذکر ہے کہ وہ گھر سے نکلتے وقت خوشبو کو چھوئے بھی نہیں، اس میں ہلکی خوشبو کی ممانعت خود بخود آ جاتی ہے ۔ اس حکم میں امیر یا غریب کا کوئی فرق نہیں ، یہ بھی حکم ہے کہ اگر وہ خوشبو لگا چکی ہو اور باہر نکلنا ہو تو غسل کرے ۔۔۔ یہ احکامات واضح ہیں اور ان کی اتباع میں عورتوں ہی کی بھلائی ہے ۔
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 2
  11. بنت امجد

    بنت امجد -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏فروری 6, 2013
    پیغامات:
    1,568
    جزاک اللہ خیرا
     
  12. dani

    dani نوآموز.

    شمولیت:
    ‏اکتوبر، 16, 2009
    پیغامات:
    4,329
    وایاک
     
  13. عفراء

    عفراء webmaster

    شمولیت:
    ‏ستمبر 30, 2012
    پیغامات:
    3,918
    یہ دنیا دھوکے میں کیسے ڈالتی ہے عائشے؟ ۔۔۔۔ "جب یہ اپنی چمکنے والی چیزوں میں اتنا گم کر لیتی ہے کہ اللہ بھول جاتا ہے۔"
    "کیا مجھے بھی دنیا نے دھوکے میں ڈال رکھا ہے؟"
    "پہلی دفعہ دھوکا انسان بھولپن میں کھاتا ہے مگر بار بار کھائے تو وہ اس کا گناہ بن جاتا ہے۔ اور اگر احساس ہونے کے بعد نہ کھائے تو اسے ایک بری یاد سمجھ کر بھول جانا چاہیے اور زندگی نئے سرے سے شروع کرنا چاہیے۔"
    "نئے سرے سے؟ ایسے یوٹرن لینا آسان ہوتا ہے کیا؟ انسان کا دل چاہتا ہے کہ وہ خوبصورت لگے ، خوبصورت لباس پہنے، کیا یہ بری بات ہے؟" اس کی آواز میں بے بسی در آئی تھی، جیسے وہ کچھ سمجھ نہیں پارہی تھی۔ کیا غلط تھا کیا صحیح ، سب گڈ مڈ ہورہا تھا۔
    "نہیں! اللہ خوبصورت ہے اور خوب صورتی کو پسند کرتا ہے۔ یہ چیزیں زندگی کا حصہ ہونی چاہئیں۔ مگر ان کو آپ کی پوری زندگی نہیں بننا چاہیے۔ انسان کو ان چیزوں سے اوپر ہونا چاہیے۔ کچھ لوگ میری طرح ہوتے ہیں جن کی زندگی لکڑی کے کھلونے بنانے ، مچھلی پکڑنے اور سچے موتی چننے تک محدود ہوتی ہے اور کچھ لوگ بڑے مقاصد لے کر جیتے ہیں۔ پھر وہ چھوٹی چھوٹی باتوں کو لے کر پریشان نہیں ہوتے۔" ۔۔۔۔۔۔۔۔
    اور جن کی زندگی میں بڑا مقصد نہ ہو وہ کیا کریں؟
    وہی جو میں کرتی ہوں۔ عبادت! ہم عبادت کے لیے پیدا کیے گئے ہیں، سو ہمیں اپنے ہر کام کو عبادت بنالینا چاہیے۔ عبادت صرف روزہ، نوافل اور تسبیح کا نام نہیں ہوتا بلکہ ہر انسان کا ٹیلنٹ بھی اس کی عبادت بن سکتا ہے میں بہارے کے لیے پھولوں کے ہار اور آنے کے لیے کھانا بناتی ہوں۔ میری یہ صلہ رحمی میری عبادت ہے۔ میں پزل باکسز اور موتیوں کے ہار بیچتی ہوں۔ میرا یہ رزق تلاشنا میری عبادت ہے۔ یہ چھوٹے چھوٹے کام کرتے کرتے انسان بڑے بڑے مقاصد پالیتا ہے۔"
    ]"اور انسان ان چیزوں کے لیے مضبوطی کہاں سے لائے؟

    حیا مجھے لگتا ہے ہم لڑکیوں نے اپنے اوپر Fragile (نازک) اسٹکرز لگا رکھے ہیں۔ فریجائل اسٹکر سمجھتی ہو نا؟ وہ جو نازک اشیاء کی پیکنگ کے اوپر چسپاں ہوتے ہیں کہ "ہینڈل ود کئیر!" وہی اسٹکرز ہم لڑکیاں اپنی پیشانی پہ لگائے رکھتی ہیں۔ پھر کسی کا ذرا طنز ہو یا بے جا پڑی ڈانٹ ، ذرا سا کانٹا چبھ جائے یا دل ٹوٹ جائے ، ہم گھنٹوں روتی ہیں۔ اللہ نے ہمیں اتنا نازک نہیں بنایا تھا ۔ ہم نے خود کو بہت نازک بنا لیا ہے اور جب ہم لڑکیاں ان چیزوں سے اوپر اٹھ جائیں گی تو ہمیں زندگی میں بڑے مقصد نظر آجائیں گے۔"
     
    Last edited: ‏جولائی 24, 2014
    • پسندیدہ پسندیدہ x 2
  14. اہل الحدیث

    اہل الحدیث -: رکن مکتبہ اسلامیہ :-

    شمولیت:
    ‏مارچ 24, 2009
    پیغامات:
    5,052
    یہ ناول واقعی قابل مطالعہ ہے۔ اکا دکا قابل اعتراض باتوں کو چھوڑ کر، کافی بہتر ہے۔ کم از کم عصر حاضر میں چھپنے والے ناولوں سے۔
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
  15. عفراء

    عفراء webmaster

    شمولیت:
    ‏ستمبر 30, 2012
    پیغامات:
    3,918
    جی ہاں کافی بہتر ہے۔ بے جا تفصیلات سے کسی حد تک گریز کیا گیا ہے جیسا کہ عموما اردو ناولوں میں ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ مصنفہ کی تخلیقی صلاحیتوں کی داد دینی پڑتی ہے، ایک ہی بندہ اتنے سارے کردار بیک وقت ادا کرتا نظر آتا ہے! پاک فوج زندہ باد!
    اس میں قرآن کے مطالعے کی جھلک نظر آتی ہے اور یہی اس رائٹر کی خوبی ہے۔
    اس ناول سے تو لگتا ہے یہ اسلامی یونیورسٹی اور الہدی یا دونوں میں کسی ایک سے منسلک رہ چکی ہیں!
    لیکن۔۔۔ ہے تو بہرحال ناول! جس کی علمی حیثیت کوئی نہیں۔ بندہ فارغ ہو یا انتہائی بوریت کا شکار تب پڑھے۔
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 2
  16. عفراء

    عفراء webmaster

    شمولیت:
    ‏ستمبر 30, 2012
    پیغامات:
    3,918
    "تمہیں پتہ ہے جہان!" اپنے بوڑھے ہاتھوں میں اس کا چھوٹا سا ہاتھ تھام کر وہ اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہنے لگے۔ "سلطان ٹیپو کو جس نے دھوکا دیا تھا ، وہ میر صادق تھا۔ اس نے سلطان سے دغا کیا اور انگریز سے وفا کی۔ انگریز نے انعام کے طور پر اس کی کئی پشتوں کو نوازا۔ انہیں ماہانہ وظیفہ ملا کرتا تھا۔ مگر پتہ ہے جہان! جب میر صادق کی اگلی نسلوں میں سے کوئی نہ کوئی ہر ماہ وظیفہ وصول کرنے عدالت آتا تو چپڑاسی صدا لگایا کرتا۔
    "میر صادق غدار کے ورثا حاضر ہوں"
    ایک آنسو ان کی آنکھ سے پھسلا اور تکیے میں جذب ہو گیا۔
    "میرے بیٹے! میری بات یاد رکھنا ، جیسے شہید قبر میں جا کر بھی سیکڑوں سال زندہ رہتا ہے، ایسے ہی غدار کی غداری بھی صدیوں یاد رکھی جاتی ہے۔ دن کے اختتام پر فرق صرف اس چیز سے پڑتا ہے کہ انسان تاریخ میں صحیح طرف تھا یا غلط طرف پہ۔"
    پھر انہوں نے اس کا ہاتھ اپنے دونوں ہاتھوں میں پکڑ لیا۔ اسے آج بھی یاد تھا ، دادا کے ہاتھ اس روز کپکپا رہے تھے۔
    "میرے بیٹے مجھ سے ایک وعدہ کرو گے؟" اس نے اثبات میں سر ہلایا۔
    "یہ تمہارا ملک نہیں ہے ، مگر تم اس کا کھا رہے ہو، کبھی اس کو نقصان مت پہنچانا۔ لیکن وہ جو تمہارا ملک ہے نا، جس نے تمہیں سب کچھ دیا ہے اور تم سے کچھ نہیں لیا، اس کا کبھی کوئی قرض آپڑے تو اسے اٹھا لینا۔ میں وہ بوجھ نہیں اٹھا سکتا جو تم پہ ان پڑا ہے۔ تم اسے اٹھا لینا" پھر انہوں نے لحاف میں جیسے جگہ بنائی۔
    "آؤ میرے پاس لیٹ جاؤ۔"
    وہ وہیں دادا کے بازو سے لگا ، ان کے لحاف میں لیٹ گیا۔ دادا بہت گرم ہو رہے تھے، ان کا بستر بھی گرم تھا۔ اس کی انکھیں بند ہونے لگیں۔ وہ سو گیا۔
    صبح وہ اٹھا تو دادا فوت ہو چکے تھے۔
    اس روز وہ بہت رویا تھا۔ ممی بھی بہت روئی تھیں۔ اس نے پہلی بار جانا تھا کہ موت کیا ہوتی ہے۔ موت کی شکل اور ہیئت کیا تھی، وہ کچھ نہیں جانتا تھا، سوائے اس کے کہ موت بہت سرد ہوتی ہے۔ دادا کے جسم کی طرح۔ اس نے بہت بار ان کا ماتھ، ان کی آنکھیں اور ہاتھوں کو چھوا۔ وہ برف ہو رہے تھے۔ سرد اور ساکن۔
    اسی شام ایک سمندری بگلا ان کی بالکونی مین آگرا تھا۔ وہ زخمی تھا، جب تک اس نے دیکھا، وہ مر چکا تھا۔ جہان نے اسے دونوں ہاتھوں میں پکڑ کر دیکھا، وہ بھی سرد تھا۔ سرد اور سخت۔
    یہی موت تھی۔
     
    Last edited: ‏جولائی 24, 2014
    • پسندیدہ پسندیدہ x 3
  17. dani

    dani نوآموز.

    شمولیت:
    ‏اکتوبر، 16, 2009
    پیغامات:
    4,329
    بہت زبردست
    غیرت مند وں کی سوچ ایسی ہوتی ہے
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 2
  18. عفراء

    عفراء webmaster

    شمولیت:
    ‏ستمبر 30, 2012
    پیغامات:
    3,918
    آجکل ہمارے گھر میں اس ناول کا دور چل رہا ہے۔۔۔!
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
  19. عائشہ

    عائشہ ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏مارچ 30, 2009
    پیغامات:
    24,484
    جی ،شریعہ ڈپارٹمنٹ ،سینئرز سے سنا ہے ۔
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
  20. مریم جمیلہ

    مریم جمیلہ رکن اردو مجلس

    شمولیت:
    ‏مارچ 26, 2015
    پیغامات:
    111
    اس نے دھیرے سے سر اٹھایا۔
    "اللہ نور ہے، آسمانوں اور زمین کا۔۔۔۔۔"
    لوگ کہتے ہیں، مسجدوں میں سکون ہوتا ہے، کوئی اس سے پوچھتا تو وہ کہتی، مسجدوں میں نور ہوتا ہے۔ نور، اوپر نور کے۔
    اس نے آہستگی سے گردن موڑی۔ اس کے بائیں طرف ایک تیرہ چودہ سال کا ترک لڑکا آ بیٹھا تھا جس کے ایک بازو پہ پلستر چڑھا تھا۔ وہ گم سم سی نگاہوں سے اوپر مسجد کی منقش چھت کو دیکھ رہا تھا۔
    "نور کیا ہوتا ہے؟ تم جانتے ہو؟" وہ اتنے ہولے سے بولی تھی کہ اپنی آواز بھی سنائی نہ دی۔
    "نور وہ ہوتا ہے جو اندھیری سرنگ کے دوسرے سرے پہ نظر آتا ہے، گویا کسی پہاڑ سے گرتا پگھلے سونے کا چشمہ ہو۔" وہ اسی چھت کو دیکھتے ہوئے کہہ رہا تھا۔
    "اور کیسے ملتا ہے نور؟"
    "جو اللہ تعالیٰ کی جتنی مانتا ہے، اسے اتنا ہی نور ملتا ہے۔ کسی کا نور پہاڑ جتنا ہوتا ہے، کسی کا درخت جتنا، کسی کا شعلے جتنا اور کسی کا پاؤں کے انگوٹھے جتنا۔۔۔۔"
    لڑکے نے سر جھکا کر اپنے پاؤں کو دیکھا۔
    "انگوٹھے جتنا نور، جو جلتا بجھتا، بجھتا جلتا ہے۔ یہ ان لوگوں کو دیا جاتا ہے جو کچھ دن بہت دل لگا کر نیک عمل کرتے ہیں اور پھر کچھ دن بعد سب چھوڑچھاڑ کر ڈپریشن میں گھر کر بیٹھ جاتے ہیں۔"
    "اور انسان کیا کرے کہ اسے آسمانوں اور زمین جتنا نور مل جائے؟"
    "وہ اللہ کو ناں کہنا چھوڑ دے۔ اسے اتنا نور ملے گا کہ اس کی ساری دنیا روشن ہو جائے گی۔" وہ پھر سے گردن اٹھائے مسجد کی اونچی چھت کو دیکھنے لگا تھا۔
    اسے محسوس ہوا، اس کا چہرہ آنسوؤں سے بھیگ رہا ہے۔ وہ دھیرے سے اٹھی اور باہر کی طرف چل دی۔
    "سنو!" وہ پیچھے سے بولا تھا۔ حیا لمحے بھر کو رکی۔
    "دل کو مارے بغیر نور نہیں ملا کرتا۔"
    وہ پلٹے بغیر آگے بڑھ گئی۔ [GLOW]دل تو مارنا پڑتا ہے، مگر ضروری تو نہیں ہے کہ ٹھوکر بھی کھائی جائے۔ انسان ٹھوکر کھائے بغیر، زخم لیے بغیر، خود کو جلائے بغیر بات کیوں نہیں مانتا؟ پہلی دفعہ میں ہاں کیوں نہیں کہتا؟ نیلی مسجد کے کبوتروں کی طرح اوپر اڑنا کیوں چاہتا ہے؟ پہلے حکم پہ سر کیوں نہیں جھکاتا؟ ہم سب کو آخر منہ کے بل گرنے کا انتظار کیوں ہوتا ہے؟ اور گرنے کے بعد ہی بات کیوں سمجھ میں آتی ہے؟[/GLOW]
    اس نے ہتھیلی کی پشت سے دھیرے سے آنکھیں رگڑیں اور باہر نکل آئی۔
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 3
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں