جو اللہ تعالی کے نازل کردہ حکم سے ہٹ کر فیصلہ کرے

بابر تنویر نے 'دین کے تین بنیادی اصول اور ان کی شرح' میں ‏نومبر 28, 2013 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. بابر تنویر

    بابر تنویر -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏دسمبر 20, 2010
    پیغامات:
    7,320
    ومن حكم بغير ما أنزل الله(38)
    “اور جو شخص اللہ تعالی کی نازل کردہ شریعت طاہرہ کے خلاف فیصلہ کرتا ہو۔”

    (38) اور اللہ تعالی کی نازل کردہ شریعت طاہرہ اور اس کے حکم کے مطابق فیصلہ “توحید ربوبیت”کی قبیل سے ہے، اس لئے کہ یہ اللہ تعالی کے اس حکم کو نافذ اور جاری کرنا ہے، جس کا اس جل شانہ، کی ربوبیت، اس کی کمال بادشاہی اور کامل تصرف و اختیار، تقاضا کرتا ہے۔ اسی لئے اللہ تعالی نے ان پیشواؤں کا، جن کی، اللہ تعالی کی نازل کردہ شریعت اور حکم سے ہٹ کر پیروی کی جاتی ہے، ان کے پیروکاروں کے ہاں، ان کا نام ارباب (رب کی جمع) رکھا ہے، اللہ سبحانہ وتعالی اس بارے میں ارشاد فرماتا ہے:
    (اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَاباً مِنْ دُونِ اللَّهِ وَالْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ وَمَا أُمِرُوا إِلا لِيَعْبُدُوا إِلَهاً وَاحِداً لا إِلَهَ إِلا هُوَ سُبْحَانَهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ(التوبة: 31))
    “انہوں نے اپنے علماء اور درویشوں کو اللہ تعالی کے سوا اپنا رب بنالیا ہے اور اسی طرح عیسی علیہ السلام بن مریم علیہما السلام کو بھی ، حالانکہ ان کو ایک معبود کے سوا کسی بندگی کرنے کا حکم نہیں دیا گیا تھا وہ جس کے سوا کوئی مستحق عبادت نہیں، پاک ہے وہ ان مشرکانہ باتوں سے جو یہ لوگ کرتے ہیں۔”

    ٭....تو اس آیت کریمہ میں اللہ تعالی نے ان لوگوں کا نام، جو اللہ تعالی کے نازل کردہ حکم کے خلاف پیروی کئے جاتے ہیں، “ارباب”(جو کہ رب کی جمع ہے) لیا ہے، حالانکہ ان کے پیروکاروں نے، ان کو اللہ تعالی کی ذات کے ساتھ (مشرعين) (یعنی شریعت کے اصول و احکام کو متعین اور ان کی وضاحت کرنے والے، جو کہ صرف اورصرف اللہ جل شانہ، کاحق ہے) ٹھہرایا ہے۔ جبکہ اللہ نے ان کے (متبعين) (یعنی پیروکاروں) کو (عباد) (یعنی ان کی عبادت کرنے والے) کانام دیا ہے، اس اعتبار سے کہ جو انہوں نے ان کے سامنے انتہاء درجے کی عاجزی اور تواضع اختیار کرتے ہوئے، اللہ سبحانہ وتعالی کے حکم کی مخالفت، میں ان کی اطاعت و فرمانبرداری کی ہے۔”

    اور اسی بات کی وضاحت میں، حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: کہ ان (متبعين) (پیروکاروں) نے اپنے ان (متبوعين) (پیشواؤں) کی عبادت تو نہیں کی” تو اس پر اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
    ((بل إنهم حرموا عليهم الحلال ، فاتبعوهم فتلك عبادتهم إياهم))

    “بلکہ ان لوگوں نے ان (اپنے پیروکاروں ) پر (اللہ تعالی کی)حلال کردہ چیزوں کو حرام ٹھہرایا، اور حرام کردہ چیزوں کو حلال قرار دیا، تو ان پیروکاروں نے ان کی (اللہ تعالی کے مقابلے میں) اس شریعت سازی پر سرتسلیم خم کیا تو یہ ان کی اپنے (احبار و رہبان) یعنی مذہبی اور روحانی اماموں اور پیشواؤں کی بندگی کرنا ہے۔”

    ٭....جب آپ نے یہ عقیدہ کی بات اچھی طرح سے سمجھ لی ہے، تو یہ جان لیجئےجو شخص اللہ تعالی کے نازل کردہ حکم کے مطابق فیصلہ یا فتوی نہ دے اور اس فیصلے کو اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی اور (طاغوت) کی طرف لے جانا چاہے، تو ایک تو ایسے شخص کے ایمان کی نفی کے بارے میں آیات کریمہ وارد ہوئی ہیں اور دوسرے اس کے کفر، ظلم اور فسق کے اثبات پر قرآن حکیم میں آیات ذکر ہوئی ہیں:(والعياذ بالله)
    پہلی قسم: اللہ تعالی کے نازل کردہ حکم کے خلاف فیصلہ کرنے یا فتوی دینے والے کے ایمان کی نفی کے بارے میں سورۃ النساء کی یہ آیت کریمہ ہیں:

    (أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ يَزْعُمُونَ أَنَّهُمْ آمَنُوا بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ يُرِيدُونَ أَنْ يَتَحَاكَمُوا إِلَى الطَّاغُوتِ وَقَدْ أُمِرُوا أَنْ يَكْفُرُوا بِهِ وَيُرِيدُ الشَّيْطَانُ أَنْ يُضِلَّهُمْ ضَلالاً بَعِيداً * وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ تَعَالَوْا إِلَى مَا أَنْزَلَ اللَّهُ وَإِلَى الرَّسُولِ رَأَيْتَ الْمُنَافِقِينَ يَصُدُّونَ عَنْكَ صُدُوداً * فَكَيْفَ إِذَا أَصَابَتْهُمْ مُصِيبَةٌ بِمَا قَدَّمَتْ أَيْدِيهِمْ ثُمَّ جَاءُوكَ يَحْلِفُونَ بِاللَّهِ إِنْ أَرَدْنَا إِلا إِحْسَاناً وَتَوْفِيقاً * أُولَئِكَ الَّذِينَ يَعْلَمُ اللَّهُ مَا فِي قُلُوبِهِمْ فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ وَعِظْهُمْ وَقُلْ لَهُمْ فِي أَنْفُسِهِمْ قَوْلاً بَلِيغاً * وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ رَسُولٍ إِلا لِيُطَاعَ بِإِذْنِ اللَّهِ وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ جَاءُوكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللَّهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اللَّهَ تَوَّاباً رَحِيماً* فَلا وَرَبِّكَ لا يُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لا يَجِدُوا فِي أَنْفُسِهِمْ حَرَجاً مِمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيماً(النساء: 60-65))
    “(اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم!) آپ نے ان لوگوں کے حال پر غور کیا، جو دعوی تو یہ کرتے ہیں کہ جو کچھ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی طرف نازل کیا گیا ہے، اس پر بھی ایمان لائے ہیں اور اس پر بھی، جوآپ (صلی اللہ علیہ وسلم) سے پہلے اتارا گیا تھا، مگر چاہتے یہ ہیں کہ اپنا مقدمہ “طاغوت”کے پاس لے جائیں، حالانکہ انہیں یہ حکم دیا گیا تھا، کہ وہ “طاغوت”کے فیصلے تسلیم نہ کریں اور شیطان تو یہ چاہتا ہے کہ انہیں گمراہ کرکے بہت دور تک لے جائے، اور جب انہیں کہا جاتا ہے کہ اس چیز کی طرف آؤ، جو اللہ تعالی نے اتاری ہے اور رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی طرف آؤ، تو آپ (صلی اللہ علیہ سلم) منافقوں کو دیکھیں گے کہ وہ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے پاس آنے سے گریز کرتے ہیں، پھر اس وقت ان کا کیا حال ہوتا ہے، جب ان کے اپنے کرتوتوں کی بدولت ان پر کوئی مصیبت آپڑتی ہے؟ وہ آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) کے پاس اللہ (تعالی) کے نام کی قسمیں کھاتے ہوئے آتے ہیں کہ ہمارا ارادہ تو بھلائی اور باہمی موافقت کے سوا کچھ نہ تھا، ایسے لوگوں کے دلوں میں جو کچھ ہوتا ہے اللہ اسے خوب جانتا ہے، سو آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) ان سے اعراض کیجئے اور نصیحت کیجئے، اور ایسی بات کہئے، جو ان کے دلوں میں اتر جائے، اور(انہیں بتلائیےکہ) ہم نے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) بھی بھیجا ہے، تو اس لئے بھیجا ہے کہ اللہ تعالی کے حکم کی بنا پر اس کی اطاعت کی جائے، اور جب انہوں نے اپنے رب پر ظلم کرلیا تھا، تو اگر وہ اس وقت آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے پاس آجاتے، اور اللہ (تعالی) سے بخشش طلب کرتے اور رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) بھی ان کےلئے (اللہ ) سے بخشش طلب کرتا، تو یقینا (وہ) اللہ تعالی کو تو بہ قبول کرنے والا اور رحم کرنے والا پاتے، (اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم!) تمہارے پروردگار کی قسم! یہ لوگ اس وقت تک مؤمن نہیں ہوسکتے، جب تک کہ اپنے تنازعات (باہمی جھگڑوں) میں آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کو حکم (فیصلہ کرنے والا) تسلیم نہ کرلیں، پھر آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) جو فیصلہ کریں، اس کے متعلق اپنے دلوں میں گھٹن بھی محسوس نہ کریں اور اس فیصلہ پر پوری طرح سر تسلیم خم کردیں۔”

    تو اللہ تعالی نے ان آیات مبارکہ میں ایمان کے ان دعویداروں کا....جبکہ وہ حقیقت میں منافق ہیں۔ درج ذیل صفات کے ساتھ ذکر کیا ہے:

    پہلی صفت: وہ چاہتے ہیں کہ اپنے فیصلے اور مقدمات نپٹانے کے لئے انہیں “طاغوت”کی طرف لے جائیں اور ہر وہ شخص جو اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی مخالفت کرے وہ “طاغوت”ہی تو ہے، کیونکہ اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی مخالفت ہی اس ذات کے خلاف سرکشی، بغاوت اور اس کے حکم پر ظلم و زیادتی ہے، جس کےلئے ہی حکم ہے اور ہر حکم اور معاملہ اسی ذات کی طرف ہی لوٹنے والا ہے اور وہ اللہ معبود برحق ذات ہے۔ اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:

    (أَلا لَهُ الْخَلْقُ وَالأَمْرُ تَبَارَكَ اللَّهُ رَبُّ الْعَالَمِينَ(الأعراف: 54))
    “خبردار رہو! اسی کی خلق ہے اور اسی کا امر ہے، بڑا بابرکت ہے اللہ سارے جہانوں کا مالک و پروردگار۔”

    دوسری صفت: جب وہ اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نازل کردہ شریعت اور فیصلے کی طرف بلائے جاتے ہیں، تو وہ اس طرف آنے سے گریز کرتے ہیں اور صاف پہلو تہی برتتے ہیں۔

    تیسری صفت: جب انہیں کوئی ایسی مصیبت آپہنچے، جو ان کے اپنے ہاتھوں ہی کی شامت اعمال ہوتی ہے اور اس میں ان کے کرتوتوں کا بھانڈاپھوٹ جانا بھی شامل ہے، تو وہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر اللہ کے نام کی (جھوٹی قسمیں) کھانا شروع کرتے ہیں، “کہ وہ اس عمل کے ورے صرف اور صرف اچھائی اور صلاح و فلاح کا ارادہ رکھتے تھے۔” یہ بالکل ایسے ہی ہے، جیسے آج کے دور میں کوئی اسلامی احکام کا انکار کردے اور اسلام کے بالکل مخالف اور متضاد قوانین کے نفاذ کے بعد، انہی اسلام کے معارض و مخالف قوانین کے ساتھ یہ گمان اور دعوی کرتے ہوئے فیصلے کرے، کہ ان مروجہ قوانین کے مطابق فیصلے کرنا ہی عصر حاضر کے حالات کا تقاضا اور معاشرے کی صلاح و فلاح کا ضامن ہے۔

    ٭....پھر اللہ سبحانہ و تعالی نے ایمان کے (ان جھوٹے) مدعین اور ان مذکورہ صفات سے متصف (منافقین) کو اس بات سے خبردار کیا ہے کہ وہ۔ سبحانہ و تعالی۔ ان کے دلوں کی باتوں سے بخوبی آگاہ ہے اور منہ سے، جو بولتے ہیں اس کے برخلاف، جو کچھ وہ دلوں میں چھپائے ہوئے ہیں، اسے بھی وہ خوب جانتا ہے(کہ کہیں یہ لوگ دھوکے میں نہ رہیں)....اور اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ حکم فرمایا: کہ ان لوگوں کو نصیحت کیجئے اور ان کے دلوں میں اتر جانے والی موثر بات ان سے کہئے....پھر اللہ جل شانہ، نے پیغمبروں علیہم السلام کو اس دنیا میں بھیجنے کی یہ حکمت و مصلحت بیان فرمائی کہ وہی متبوعین (جن کی پیروی کی جائے) ہستیاں ہیں، ان کے علاوہ لوگوں میں سے کوئی بھی واجب الاطاعت نہیں کہ، جس کی اطاعت و اتباع کی جانی چاہئے، خواہ لوگوں میں کتنے ہی مضبوط افکار، بلند کردار اور فہم و فراست میں وسعت رکھنے والے امام اورپیشوا موجود ہوں۔”....پھر اللہ تعالی نے اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے، اپنی اس ربوبیت کی قسم کھائی ہے، جو ربوبیت خاص ترین انواع میں سے ہے، اور رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی سچائی اور صحت کو شامل ہے....اللہ جل شانہ، نے اپنی اس صفت ربوبیت کی انتہائی پختہ قسم کھائی (جس سے یہ بات عیاں ہوئی ہے) کہ تین امور پائے جانے کے سوا، کسی کا ایمان صحیح اور مکمل نہ ہوگا:

    پہلا: کہ ہر جھگڑے اور مقدمے کا فیصلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عدالت میں لے جایا جائے۔

    دوسرا: کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دئیے ہوئے فیصلے پر شرح صدر ہو، اور اس بارے میں دلوں کے اندر معمولی تنگی یا خلش نہ رہے۔

    تیسرا: کہ جو حکم آپ (صلی اللہ علیہ وسلم)کی عدالت سے صادر ہو، اس کو دل و جان سے قبول کیا جائے اور بغیر کسی ہچکچاہٹ اور انحراف کے اسے من و عن نافذ کردیا جائے۔

    دوسری قسم: اور اللہ تعالی کے نازل کردہ حکم کے مطابق فیصلے نہ کرنے والے دوسری قسم کے لوگوں کی مثالیں اللہ جل شانہ، کے درج ذیل ارشادات میں ذکر ہوئی ہیں:

    (وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولَئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ(المائدة: 44))
    “اور جو لوگ اللہ کے نازل کردہ حکم کے مطابق فیصلہ نہ کریں، وہی کافر ہیں۔”

    (وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ(المائدة: 45))
    “اور جو لوگ اللہ کے نازل کردہ حکم کے مطابق فیصلہ نہ کریں، وہی ظالم ہیں۔”

    (وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولَئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ(المائدة: 47))
    “اور جو لوگ الہ کے نازل کردہ حکم کے مطابق فیصلہ نہ کریں، وہی فاسق ہیں۔”

    اور یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ان آیات میں مذکور تینوں اوصاف ایک ہی موصوف (شخص)پر چسپاں ہوتے ہیں؟ مطلب یہ کہ جو شخص اللہ تعالی کے نازل کردہ حکم کے مطابق فیصلہ نہ کرے تو وہ کافر بھی ہے، ظالم بھی ہے اور فاسق بھی، اس لئے کہ اللہ تعالی نے کفار کو ظلم و فسق کے اوصاف سے بھی موصوف ٹھہرایا ہے، اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:

    (وَالْكَافِرُونَ هُمُ الظَّالِمُونَ(البقرة: 254))
    “اور کافر لوگ وہی ظالم ہیں۔”

    نیز اللہ تعالی کا یہ بھی ارشاد ہے:

    (إِنَّهُمْ كَفَرُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَمَاتُوا وَهُمْ فَاسِقُونَ(التوبة: 84))
    “بے شک انہوں نے اللہ اور اس کے رسول(صلی اللہ علیہ وسلم)کے ساتھ کفر کیا ہے، اور وہ اس حال میں مرے ہیں کہ وہ فاسق تھے۔”

    تو اللہ تعالی کے ان فرامین کی رو سے ہر کافر، ظالم اور فاسق بھی ہوتا ہے....یا پھر یہ تینوں اوصاف الگ الگ ان موصوفین (اشخاص) پر، ان کے اللہ جل شانہ کے نازل کردہ حکم سے پہلو تہی برتنے اور اس سے اعراض و انحراف کے حساب سے ان پر چسپاں ہوں گے اور یہی مفہوم میرے نزدیک صحت کے زیادہ قریب ہے۔(والله أعلم بالصواب).....لہذا ہم ان آیات کریمہ کے مفہوم کی وضاحت میں کہیں گے کہ جو شخص تو اللہ تعالی کی نازل کی ہوئی شریعت کو معمولی سمجھتے ہوئے یا اسے حقیر جانتے ہوئے یا یہ اعتقاد رکھتے ہوئے کہ اس کے علاوہ دیگر مروجہ قوانین و دساتیر زیادہ مناسب اور درست ہیں اور اللہ کی مخلوق کےلئے زیادہ فائدہ مند بھی ہیں، اس کے خلاف فیصلہ دے، تو وہ شخص کافر ہے، جس کا کفر اس کو ملت اسلامیہ سے نکال باہر کرے گا اور ایسے ہی لوگوں میں سے وہ (جو اپنے تئیں عہد جدید کے مفکرین، دانشور اور ترقی پسند) بھی ہیں، جو لوگوں کی خاطر شریعت اسلامیہ کی تشریعات و تعلیمات کے صریح منافی قرانین وضع کرتے اور خود ساختہ تشریعات کو فروغ دیتے ہیں، تاکہ یہ ایک مستقل ملکی دستور و آئین کی شکل اختیار کرسکیں اور عامتہ الناس کے لئے ان کے مطابق زندگی گزارنا آسان اور ممکن ہوسکے اور ظاہر ہے کہ یہ لوگ شریعت طاہرہ کے صریع مخالف ان تشریعات (اور آئینی شقوں) کو یہ اعتقاد رکھتے ہوئے محض اس لئے وضع کرتے ہیں، کہ یہ مخلوق کے حق میں زیادہ باعث صلاح و فلاح اور منفعت بخش ہیں۔

    ٭....اور یہ بات عقلی ضرورت اور انسان کے جبلی اور فطری تقاضوں کے اعتبار سے بھی معلوم شدہ ہے کہ وہ ایک راستے کو چھوڑ کر اس کے مخالف کسی بھی دوسرے راستے کو اس وقت تک نہیں پکڑتا، جب تک وہ یہ اچھی طرح سے نہ سمجھ لے کہ جس راستے کو اس نے اختیار کیا ہے وہ اس پہلے راستے کی نسبت، جس کو اس نے ترک کیا ہے، زیادہ بہتر بھی ہے اور فائدہ مند بھی۔ (لہذا ایسا اعتقاد رکھتے ہوئے اللہ تعالی کی نازل کردہ شریعت کے خلاف فیصلے کرنا اور یہ گمان رکھنا کہ یہ جدید اور اختراعی نظام، شریعت اسلامی کے لائے ہوئے نظام سے زیادہ پائیدار، بہتر اور منفعت بخش ہے، تو ایسا اعتقاد اور گمان رکھنے والا شخص بلاشک وشبہ کافر ہے۔(والعياذبالله)

    اور جو شخص اللہ تعالی کی نازل کی ہوئی “شریعت طاہرہ” کے مطابق فیصلہ نہ کرے اور وہ اللہ تعالی کے ان احکام کو کم تر اور حقیر بھی نہ سمجھتا ہو اور نہ یہ اعتقاد رکھتا ہو کہ ان کے علاوہ دیگر نظام و احکام ان شرعی و سماوی احکام سے زیادہ بہتر اور پائیدار ہیں، تو ایسا شخص کافر تو نہیں، ظالم ہے، اور ظلم کے بھی کئی ایک مراتب ہیں، لہذا اس شخص کے ظلم کا درجہ اس “محکوم بہ” (جس چیز کے ذریعے حکم لگایا گیا ہو) اور “وسائل حکم” (کہ حکم لگانے کے لئے کون سے وسائل اور ذرائع اختیار کئے گئے ہیں) کے مطابق متعین کیا جائے گا (کہ اس نے فیصلہ کیسا دیا ہے اور فیصلہ دینے کے لئے کون ساطریقہ اختیار کیا ہے اور کس چیز سے رہنمائی لی ہے؟)

    اور وہ شخص، جس نے اللہ تعالی کے اتارے ہوئے “حکم”کے مطابق فیصلہ نہ کیا ہو، نہ اس کو معمولی گردانتے ہوئے، نہ ہی حقیر اور کم تر سمجھتے ہوئے اور نہ یہ اعتقادرکھتے ہوئے کہ اس کے مقابلے میں دیگر وضعی و اختراعی احکام زیادہ درست اور مخلوق کے لئے زیادہ نفع بخش ہیں، بلکہ اس نے یہ فیصلہ محض کسی ظالم و جابر حاکم وغیرہ کے دباؤ میں آکر یا پھر کسی دنیوی فائدے (رشوت وغیرہ) کے حصول کے لئے دیا ہو، تو ایسا شخص بھی کافر نہیں، فاسق(اللہ تعالی کی اطاعت سے نکل جانے والا)ہے اور “ظلم”کی طرح “فسق”کے بھی درجات ہیں اور یہ شخص “فسق”کے کون سے درجہ پر ہے؟ تو اس کا تعین اس معاملے کی جانچ پرکھ سے ہوگا کہ اس نے کیسا فیصلہ دیا اور یہ فیصلہ کرنے کے لئے اس نے کون سے ذرائع و وسائل اختیار کئے؟

    شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی نے ان لوگوں کے بارے میں جو اپنے احبار (مذہبی پیشواؤں) اور رہبان (روحانی رہنماؤں) کو اللہ تعالی کے سوا “ارباب”پکڑلیتے ہیں، دو قسم کے حکم لگائے ہیں:

    ان میں سے ایک تو وہ لوگ ہیں: جو یہ اچھی طرح جان لیں کہ ان کے مذہبی پیشواؤں اور روحانی رہنماؤں نے اللہ تعالی کے دین کو بدل کر رکھ دیا ہے اور اس تبدیلی کا علم رکھنے کے باوجود وہ اپنے ان مشائخ کی پیروی میں اندھے ہو کر اور یہ عقیدہ رکھتے ہوئے کہ انہوں نے اللہ تعالی کی حرام کردہ چیزوں کو حلال اور اللہ کی حلال کردہ چیزوں کو بھی حرام قرار دیا ہے، ان کی اتباع کرتے ہیں....تو یہ کفر ہے اور اسے اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے “شرک”قرار دیا ہے۔(والعياذ بالله من ذلك)

    اور دوسری قسم کے وہ لوگ ہیں: جو اپنے مذہبی پیشواؤں اور روحانی رہنماؤں کے حرام کو حلال کرنے اور حلال کو حرام قرار دینے پر ایمان و اعتقاد تو رکھتے ہیں۔ “یہ عبادت اسی طرح سے ہی شیخ الاسلام رحمہ اللہ سے منقول ہے۔” مگر ان کی یہ اطاعت اللہ تعالی کی معصیت میں ایسے ہی ہے، جیسے عام حالات میں ایک مسلمان اللہ تعالی کی نافرمانی کا یہ اعتقاد رکھتے ہوئے مرتکب ہوتا ہے کہ اس نے اللہ کی نافرمانی کی ہے، تو ایسے لوگوں کا حکم اپنے جیسے گناہ گاروں کا ساحکم ہے۔

    ٭....اور یہاں عام تشریعی مسائل اور اس معین (خاص) مسئلہ میں فرق ہے، جس میں قاضی (جج وغیرہ) اللہ تعالی کے نازل کردہ حکم کے خلاف فیصلہ کرتا ہے، کیونکہ وہ مسائل جو “عام تشریعی”مسائل کہلاتے ہیں وہ گزشتہ تقسیم کی ذیل میں قطعا نہیں آتے، یہ صرف پہلی قسم کے حکم کے تحت آپے ہیں(جن کا حکم کفر کا ہے۔(والعياذبالله!) اس لئے کہ ان عام تشریعی مسائل میں اسلامی احکام کے مخالف فیصلہ دینے والا، (اپنی شریعت سازی میں) صرف اسلام کی مخالفت نہیں کرتا، بلکہ وہ ان فیصلوں کو شرعی حیثیت، یہ عقیدہ رکھتے ہوئے دیتا ہے کہ یہ اسلام (یعنی اللہ کی طرف سے نازل کردہ احکامات) کی نسبت زیادہ باعث صلاح و فلاح اور بندوں کے لئے زیادہ نفع بخش ہیں، جیسا کہ قبل ازیں اس بات کی طرف اشارہ گزر چکا ہے۔

    ٭....اور یہ مسئلہ (اس سے میری مراد اللہ تعالی کی نازل کردہ شریعت کے خلاف فیصلہ دینے اور ایسا فیصلہ دینے والے شخص کے بارے میں شرعی حکم کا مسئلہ ہے) ان بڑے مسائل میں سے ایک ہے، جن کے بارے میں موجودہ دور کے حکام اور ملکوں کے سربراہان کڑے امتحان سے گزررہے ہیں، تو ایسی صورت حال میں ایک حقیقت پسند اور زیرک شخص پر یہ لازم آتا ہے کہ وہ ان پر ایسا حکم لگانے میں کبھی جلدی نہ کرے، جس حکم کے وہ حقیقت میں مستحق نہ ہوں، یہاں تک کہ اس پر حق بات واضح ہوجائے، اس لئے کہ یہ معاملہ بڑا خطرناک ہے، ہم اللہ تعالی کے حضور دعاء کرتے ہیں کہ وہ اہل اسلام کے حق میں ان کے تمام حکام اور سربراہان کی اصلاح فرمادے!۔ آمین

    ٭....اسی طرح اس شخص پر، جسے اللہ تعالی نے علم کی نعمت سے نوازا ہے، یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ان حکام کے سامنے اصل مسئلہ کھول کر بیان کرے، تاکہ ان پر (ان کے رب کے حضور اور پھر دعایا کے ہاں) حجت قائم ہو اور اس طرح سے اصل اور صحیح راستہ ان کے لئے واہوجائے اور ان کے لئے دنیا و آخرت دونوں جہانوں میں کوئی راہ فرار بھی باقی نہ رہے، پھر اس حق کی وضاحت کے بعد، جو ہلاکت اور تباہی کے کھڈمیں گرنا چاہتا ہو، وہ کسی دلیل پر (على وجه البصيرة) ہلاک ہو اور جو سعادت مندی کی زندگی گزارنے کے لئے زندہ رہنا چاہے، تو وہ بھی کسی دلیل پر پورے اطمینان اور وثوق کے ساتھ زندگی گزارے، لہذا وہ صاحب علم (داعی)،حق کے بیان میں کسی “کسر نفسی” کا شکار نہ ہو،اور نہ اس بارے میں وہ کسی سے ڈرمحسوس کرے، اس لئے کہ عزت و وقار (سارے کا سارا)اللہ جل شانہ، کے لئے اور پھر اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے اور پھر تمام مسلمانوں کے لئے ہے۔”
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
  2. ابو ابراهيم

    ابو ابراهيم -: رکن مکتبہ اسلامیہ :-

    شمولیت:
    ‏مئی 11, 2009
    پیغامات:
    3,871
    جزاک اللہ خیرا شیخ صاحب
     
  3. اعجاز علی شاہ

    اعجاز علی شاہ -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏اگست 10, 2007
    پیغامات:
    10,322
    جزاک اللہ‌ خیرا وبارک اللہ فیک
    اللہ تعالی مزید توفیق عطا کرے۔
     
  4. ساجد تاج

    ساجد تاج -: رکن مکتبہ اسلامیہ :-

    شمولیت:
    ‏نومبر 24, 2008
    پیغامات:
    38,751
    جزاک اللہ خیرا
     
  5. ام ثوبان

    ام ثوبان رحمہا اللہ

    شمولیت:
    ‏فروری 14, 2012
    پیغامات:
    6,690
    جزاک اللہ خیرا
     
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں