حدیث کے مقابلے میں ’’اگر مگر‘‘؟

اہل الحدیث نے 'حدیث - شریعت کا دوسرا اہم ستون' میں ‏فروری 7, 2021 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. اہل الحدیث

    اہل الحدیث -: رکن مکتبہ اسلامیہ :-

    شمولیت:
    ‏مارچ 24, 2009
    پیغامات:
    5,052
    حدیث کے مقابلے میں ’’اگر مگر‘‘؟
    تحریر: حافظ معاذ علی زئی
    تقریر: محدث العصر حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللّٰہ
    جمع و ترتیب: حافظ معاذ علی زئی
    صحیح بخاری میں حدیث ہے کہ کسی نے پوچھا کہ آدمی جب طواف کر رہا ہوتا ہے تو حجرِ اسود کو چومنا چاہئے یا اشارہ کرنا چاہئے؟ إستلام کرنا چاہئے۔
    سیدنا عبداللّٰہ بن عمر رضی اللّٰہ عنہما نے فرمایا:
    ’’رَاَیتُ رَسُوْلَ اللّٰہ ﷺ یسْتَلِمُہُ وَیقَبِّلُہُ‘‘
    میں نے دیکھا کہ نبی ﷺ حجرِ اسود کو چومتے بھی تھے اور حجرِ اسود کی طرف اشارہ بھی کرتے تھے۔
    إستلام بھی کرتے تھے۔
    إستلام کے دو معنی ہو سکتے ہیں: ہاتھ لگانا بھی اور اشارہ کرنا بھی۔ یہ دونوں إستلام ہیں۔
    وہ آدمی کہنے لگا:
    ’’أَرَأَيْتَ إِنْ زُحِمْتَ؟‘‘
    اے عبداللّٰہ بن عمر رضی اللّٰہ عنہما۔ آپ کا کیا خیال ہے کہ اگر رش (بھیڑ، ہجوم) ہو جائے تو کیا کریں؟
    اگر۔ اگر مگر۔
    بعض لوگ حدیث کو رد کرنے کے لئے ’’اگر مگر‘‘ کرتے ہیں۔
    تو سیدنا عبداللّٰہ بن عمر رضی اللّٰہ عنہما فرماتے ہیں:
    ’’إِجْعَلْ أَرَأَيْتَ بِالْيَمَنِ‘‘
    یہ ’’اگر مگر‘‘ کو دفع کرو۔ اس کو یمن میں پھینک دو۔ یہاں اگر مگر نہیں چلے گا۔ حدیث کے مقابلے میں اگر مگر نہیں ہے۔
    ’’إِجْعَلْ أَرَأَيْتَ بِالْيَمَنِ‘‘
    یہ ’’أَرَأَيْتَ‘‘ کو چھوڑو، یمن میں پھینک دو۔
    یہ صحیح بخاری میں موجود ہے۔
    ’’رَاَیتُ رَسُوْلَ اللّٰہ ﷺ یسْتَلِمُہُ وَیقَبِّلُہُ‘‘
    میں نے دیکھا ہے کہ نبی کریم ﷺ حجرِ اسود کو چومتے بھی تھے اور اشارہ بھی کرتے تھے۔
    یہ ہے صحابہ کرام رضی اللّٰہ عنہم کے ایمان کا درجہ، ایمان کا جذبہ، اور یہی وجہ ہے کہ اللّٰہ نے انھیں سرٹیفیکیٹ دیا ہے۔ ’’لَقَدْ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْھُم وَرَضُوْا عَنْہُ‘‘۔ اللّٰہ اُن سے راضی وہ اللّٰہ سے راضی۔
    ……… حوالے ………
    صحیح بخاری میں حدیث نمبر 1611 ہے۔
     
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں